خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ ستمبر2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عمر ؓکے دور ِخلافت میں دمشق کی فتح کے بعد پیش آمدہ واقعات ، فتح فحل، فتح بیسان و طبریہ، فتح حمص، مرج الروم کے واقعہ،لاذقیہ کی فتح، فتح قنسرین اور فتح قیسارکا تذکرہ

٭… چار مرحومین مکرمہ خدیجہ صاحبہ اہلیہ مکرم مولوی کے محمد علوی صاحب سابق مبلغ کیرالہ،مکرم ملک سلطان رشید خان صاحب آف کوٹ فتح خان سابق امیر ضلع اٹک،مکرم عبدالقیوم صاحب انڈونیشیااور مکرم داؤدہ رزاقی یونس صاحب بینن کا ذکرِ خیر اور نماز ِجنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ ستمبر2021ء بمطابق 10؍تبوک1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 10؍ستمبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت اور اُس میں ہونے والی جنگوں کا ذکر چل رہا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کے دَورِ خلافت میں دمشق کا محاصرہ کئی ماہ تک جاری رہا اور حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ چونکہ یہ حضرت ابوبکرؓ کا دَور ہے،اس لیے اس کی تفصیلات ان شاء اللہ آپؓ کے ذکر میں پیش کی جائیں گی۔ فی الوقت دمشق کی فتح کے بعد پیش آمدہ واقعات بیان کرتا ہوں۔

دمشق فتح ہوجانےکےبعد حضرت ابوعبیدہؓ نےحضرت خالدبن ولیدؓ کو بقاع کی مہم پر روانہ کیا، جہاں فتح کےبعد حضرت خالدؓ نے میسنون نامی چشمے کی طرف ایک سریہ آگے بھیجا۔ رومیوں کےایک دستے نے مسلمانوں کے عقب سے حملہ کیاجس کی وجہ سے بہت سےمسلمان شہید ہوگئے۔ ان شہداء کی نسبت سے اس چشمے کا نام عین الشہداء پڑگیا۔

حضرت ابوعبیدہؓ نے دمشق پر یزید بن ابوسفیان کو اپنا قائم مقام بنایا جنہوں نےجید بن خلیفہ کو تدمر اور ابوزہر قشیری کو ثنیہ و حوران روانہ کیا؛ جہاں کے لوگوں نے صلح کرلی۔ شرحبیل بن حسنہؓ نے مسلط کردہ جنگ کے باعث اردن کے دارالحکومت طبریہ کے علاوہ تمام ملک پر قبضہ کرلیا۔ حضرت خالدؓ بقاع کے علاقے سے کامیاب ہوکر لوٹے۔

فتح فحل14ہجری میں ہوئی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو لکھا تھا کہ ہرقل حمص میں مقیم ہوکر دمشق فوجیں روانہ کررہا ہے، جس پرحضرت عمرؓ نے فرمایا کہ دمشق شام کا قلعہ اور صدر مقام ہے، پہلے اسے فتح کرو اور ساتھ ہی فحل میں بھی سواردستے بھیج دو۔ رومی افواج نے مسلمانوں کی پیش قدمی دیکھی تو اپنے گردوپیش کی زمین میں پانی چھوڑ دیا جس سےتمام راستے بند ہوگئے اور ہرقل کی امدادی افواج بھی دمشق نہ پہنچ سکیں۔ دوسری جانب مسلمان ان حالات میں بھی ثابت قدم رہےجسے دیکھ کر عیسائی صلح پر آمادہ ہوگئے۔ تاہم رومیوں کی ہٹ دھرمی اور غرور کے سبب حضرت معاذ بن جبلؓ کی سفارت اور حضرت ابوعبیدہؓ سے براہِ راست مذاکرات دونوں ہی بےنتیجہ رہےاور جنگ ٹل نہ سکی۔ تاریخ میں رومی لشکر کی تعداد پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک بیان کی گئی ہے۔جب جنگ شروع ہوئی تو مسلمانوں کی ثابت قدمی دیکھ کر رومی سپہ سالار نےواپس جانا چاہا لیکن حضرت خالدؓ کی للکار پر مسلمانوں نے ایسا حملہ کیا کہ رومی پسپا ہوگئے۔ عیسائی مدد کی امید پر لڑائی کو ٹال رہے تھے لیکن حضرت خالدؓ کے مشورے پر حضرت ابوعبیدؓہ نے اگلے روز جنگ جاری رکھی۔ چنانچہ اگلے روز ایک گھنٹے کی شدید جنگ ہوئی اور پھر رومیوں کےپاؤں اکھڑ گئے اوروہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت عمرؓ کے حکم پر مقامی لوگوں کی جان،مال،زمین، مکانات اور عبادت گاہیں سب ان کے پاس رہیں اور مسلمانوں نے محض مساجد کےلیے جگہ لی۔

فتح بیسان و طبریہ: اردن کے علاقوں میں رومیوں کی شکست کی خبریں پھیل چکی تھیں۔ چنانچہ جب لوگوں کو شرحبیل اور ان کے ساتھیوں کی بیسان کی جانب پیش قدمی کا علم ہوا تو وہ قلعہ بند ہوگئے۔ چند روزہ محاصرے اور معمولی جھڑپ کے بعد اہلِ بیسان کے ساتھ مصالحت ہوگئی۔ اسی طرح اہلِ طبریہ نے بھی صلح کی پیش کش کی جسے منظور کرلیا گیا۔

فتح حمص 14؍ہجری: جب حضرت ابوعبیدہؓ اورحضرت خالدبن ولیدؓ نے حمص کا محاصرہ کیا تو یہ سخت سردی کے دن تھے اور مسلمان فوجیوں کے پاس سردی سے مقابلے کا کچھ سامان نہ تھاچنانچہ رومیوں کو یقین تھا کہ مسلمان زیادہ دیر کھلے میدان میں لڑنہیں سکیں گے۔ ہرقل نے حمص والوں کی مدد کےلیے ایک لشکر بھجوایا لیکن عراق میں برسرِ پیکار حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے اس لشکر کو وہیں روک لیا۔ہرقل اہلِ حمص سے مدد کا وعدہ کرکے رُھاءچلا گیا اور حمص والےمسلمانوں کی ثابت قدمی دیکھ کر صلح پر آمادہ ہوگئے چنانچہ خراج اور جزیےپر صلح ہوگئی۔

مرج الروم کا واقعہ اسی سال پیش آیا۔حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت خالدؓ کےذوالکلاع مقام پر پڑاؤ کی اطلاع ہرقل کو پہنچی تواس نے توذرا کو مقابلے کےلیے روانہ کیا۔جب یہ مرج الروم پہنچے تو شنس رومی بھی ادھر آگیا۔ ایک رات جب توذرا اپنی جگہ خالی کرکے وہاں سے روانہ ہوا تو حضرت خالدؓ نے اس کا پیچھا کیا۔ دوسری جانب یزید بن ابوسفیان کو توذرا کی حرکت کی خبر ملی تو انہوں نےسامنے سے اسے روک لیا۔ اس طرح دونوں اطراف سے مسلمانوں نے توذرا کے لشکر کو آلیا اور کشتوں کے پشتے لگاڈالے۔ادھر مرج الروم میں ابوعبیدہ ؓنے شنس کا مقابلہ کیااور فتح پائی۔

اس کے بعد حضرت ابوعبیدہ ؓنے حماۃ،شیزراورسلمیہ میں کامیابی حاصل کی اور پھر شام کے ساحلی شہر لاذقیہ کا رخ کیا۔

لاذقیہ کی فتح 14؍ہجری میں ہوئی۔ یہاں جنگی حکمتِ عملی کے تحت حضرت ابوعبیدہ ؓنے غار نما گڑھے کھدوائے اور صبح ہوتے ہی محاصرہ اٹھا لیا۔ شہر والوں نے محاصرہ ختم ہوتا دیکھ کر دروازے کھول دیے۔ ادھر حضرت ابوعبیدہؓ راتوں رات اپنی فوج سمیت واپس آئے اور ان گڑھوں میں چھپ گئے۔ صبح جب شہر کے دروازے کھلے تو مسلمانوں نے حملہ کردیا اور شہر فتح ہوگیا۔

فتح قنسرین 15؍ہجری: حضرت ابوعبیدہؓ نےحضرت خالدؓ کو قنسرین روانہ کیا۔ راستے میں حاضر مقام پر رومیوں نے میناس کی زیرِ قیادت مقابلہ کیا اور شکست کھائی۔ اہلِ علاقہ نے حضرت خالدؓ سے درخواست کی کہ انہیں زبردستی جنگ میں شامل کیا گیا تھا لہٰذا ان سے درگذر کیا جائے۔ خالد نے ان کا عذر قبول کیا لیکن کچھ رومی یہاں سے بھاگ کر قنسرین میں قلعہ بند ہوگئے۔جہاں کوئی راہِ نجات نہ پاکر چندروزبعد انہوں نےصلح کی پیش کش کی لیکن حضرت خالدؓنے انہیں حکم عدولی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اہلِ قنسرین مال ومتاع اور اہل و عیال چھوڑ کر انطاکیہ بھاگ گئے۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ وہاں پہنچے تو انہوں نےحضرت خالدؓ کے فیصلےکو انصاف پرمبنی قرار دیا تاہم شفقت سے کام لیتے ہوئے اہلِ شہر کو امان دےدی۔جس پر انطاکیہ فرار ہوجانے والے افراد بھی جزیے کی ادائیگی پر واپس آگئے۔

فتح قیساریہ 15؍ہجری میںہوئی۔الفاروق میں لکھا ہے کہ قیساریہ پر 13؍ہجری میں عمرو بن عاص نے چڑھائی کی۔ حضرت ابوعبیدہؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے یزیدبن ابوسفیان کو چڑھائی کا حکم دیا جنہوں نے 17ہزار کے لشکر کے ساتھ محاصرہ کیا لیکن وہ 18؍ہجری میں اپنی بیماری پر امیرمعاویہ کو قائم مقام بنا کر دمشق چلے گئے جہاں ان کی وفات ہوئی۔حضرت امیرمعاویہؓ نے محاصرہ جاری رکھا۔ اسی معرکے میں ایک روز بدری صحابی حضرت عبادہ بن صامتؓ نے مسلمانوں سے دردبھرا خطاب کیا اور کہا کہ اے مسلمانو! تم حملہ کرکے رومیوں کو اس لیے ہٹا نہیں سکے کیونکہ یا تو تم میں کوئی خائن ہے یا مخلص نہیں پھرآپؓ نے صدقِ دل سے شہادت کی تلقین فرمائی۔ بالآخر ایک روز رومی مقابلے کےلیے نکلے اورعبرت ناک شکست کھائی چنانچہ اس روز اسّی ہزار سے لےکر ایک لاکھ تک رومی سپاہی مارے گئے۔

حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت کا تذکرہ آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کےبعد حضورِانور نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اورنمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

1.مکرمہ خدیجہ صاحبہ اہلیہ مکرم مولوی کے محمد علوی صاحب سابق مبلغ کیرالہ جو اسّی برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

مرحومہ بڑی صابرہ،شاکرہ صوم وصلوٰة کی پابند،دین دار، غریب پرور،مہمان نواز اور قناعت شعار خاتون تھیں۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔

2.مکرم ملک سلطان رشید خان صاحب آف کوٹ فتح خان سابق امیر ضلع اٹک جو 22اور 23؍اگست کی درمیانی شب وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

مرحوم خلافت کے وفادار،تبلیغ کا شوق رکھنے والے، عبادت گزار، دعاگو، عاجزی اختیار کرنے والے،متوکل، غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنے والے اور نہایت حکیمانہ انداز میں بات کرنے والے انسان تھے۔

3.مکرم عبدالقیوم صاحب انڈونیشیا جو 25؍اگست کو 82برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔

مرحوم پہلے غیرہندوستانی و پاکستانی مبلغ مولانا عبدالواحد صاحب سماٹری کے بیٹے تھے۔ موصوف نے اپنے ملک کےلیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ مرحوم مربیان وواقفین کا بہت احترام کیا کرتے، ماتحتوں سے حسنِ سلوک کرتے۔آپ میں مہربانی اور سخاوت بھی بہت اعلیٰ درجےکی تھی۔مرحوم خلافت سے گہرا تعلق رکھنے والے، عاجزی میں بڑھے ہوئے، مالی قربانی میں پیش پیش نہایت مخلص بزرگ تھے۔

4.مکرم داؤدہ رزاقی یونس صاحب بینن جو 27؍اگست کو 74 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

مرحوم بینن کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے اور ان کا شمار پڑھے لکھے احمدیوں میں ہوتا تھا۔ بجلی اور پانی کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائرڈ تھے۔ نہایت بارعب، باوقار، نمازوں کے پابند، تہجد گزار، نیک اور مخلص انسان تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے کرام سے بےپناہ محبت تھی۔ ساراسارا دن انسانی خدمت میں مصروف رہتے۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button