عدت

سوگ اور عدت کے بارے میں اسلامی احکامات

سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے بھائی کی وفات کا ذکر کر کے بیوہ کے سوگ نیز باقی لوگوں کے سوگ خصوصاً بھائی کی وفات پر بہن کے سوگ کے بارے میں اسلامی احکامات دریافت کیے؟حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 04؍فروری 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: اسلام نےاپنے متبعین کی خوشی و غمی کے ہر معاملے میں راہ نمائی فرمائی ہے۔چنانچہ کسی پیارے کی وفات پر صبر کرنے کی تلقین کے ساتھ اس کی جدائی کے غم کے اظہار کی بھی اجازت دی اور تمام عزیزوں کوجن میں وفات پانے والے کے والدین، بہن بھائی اور اولاد وغیرہ سب شامل ہیں، زیادہ سے زیادہ تین دن تک سوگ کی اجازت دی ہے۔ جبکہ بیوی کو اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن تک سوگ کی ہدایت فرمائی ہے، جس کا قرآن کریم کی سورت البقرہ میں ذکر ہے۔نیز احادیث میں بھی حضورﷺ نے مختلف مواقع پر اس کا ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت زینب بنت ابی سلمہؓ (جو حضور ﷺ کی ربیبہ تھیں)سے روایت ہے کہ میں حضورﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام حبیبہ ؓ کےپاس گئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی ایسی عورت کےلیے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کی وفات کے کہ اس پر وہ چار مہینے دس دن سوگ کرے گی۔ (راویہ کہتی ہیں) پھر جب حضرت زینب بنت جحشؓ کے بھائی کی وفات ہوئی تو میں ان کے پاس گئی۔ (اور جب ان کے بھائی کی وفات پر تین دن گز ر گئے تو)انہوں نے خوشبو منگوائی اور اسے اپنے پر لگایا اور پھر کہا کہ مجھے خوشبو کی حاجت نہیں تھی مگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے خود یہ سنا ہے کہ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کےلیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی میت پر سوگ کرے۔ سوائے اپنے شوہر کی وفات پر، کہ اس پر وہ چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی۔

(بخاری کتاب الجنائز بَاب إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا)

پس بیوہ کے علاوہ باقی تمام عزیزوں کےلیے خواہ وہ والدین ہوں، اولاد ہو یا بہن بھائی ہوں، سب کو صرف تین دن تک سوگ کی اجازت ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

جہاں تک بیوہ کے(چار ماہ دس دن کے) سوگ کی حدود کا تعلق ہے تو اسلام نے اس میں نہ تو کسی قسم کا کوئی استثنا رکھا اور نہ ہی ا س حکم میں عمر کی کوئی رعایت رکھی ہے۔پس بیوہ کےلیے ضروری ہے کہ وہ عدت کا یہ عرصہ حتی الوسع اپنے گھر میں گزارے۔اس دوران اسے بناؤ سنگھار کرنے، سوشل پروگراموں میں حصہ لینے اور بغیر ضرورت گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔

عدت کے عرصے کے دوران بیوہ اپنے خاوند کی قبر پر دعا کےلیے جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ قبر اسی شہر میں ہو جس شہر میں بیوہ کی رہائش ہے۔ نیز اگر اسے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے تو یہ بھی مجبوری کے تحت آتا ہے۔اسی طرح اگر کسی بیوہ کے خاندان کا گزارہ اس کی نوکری پر ہےجہاں سے اسے رخصت ملنا ممکن نہیں،یا بچوں کو سکول لانے لے جانے اور خریداری کےلیے اس کا کوئی اور انتظام نہیں تو یہ سب امور مجبوری کے تحت آئیں گے۔ایسی صورت میں اس کےلیے ضروری ہے کہ وہ سیدھی کام پر جائے اور کام مکمل کر کے واپس گھر آ کر بیٹھے۔ مجبوری اور ضرورت کے تحت گھر سے نکلنے کی بس اتنی ہی حد ہے۔ کسی قسم کی سوشل مجالس یا پروگراموں میں شرکت کی اسے اجازت نہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button