یورپ (رپورٹس)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے اختتامی اجلاس میں بابرکت (آن لائن) شمولیت

امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 22؍اگست 2021ء کو طلباء مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کو سالانہ اجتماع کے موقع پر اختتامی سیشن میں آن لائن ملاقات سے نوازا ۔

اجتماع خدام الاحمدیہ جرمنی 2021

حضور انور اس ملاقات میں اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق افروز ہوئے جبکہ 1700 سے زائد خدام نے FSV سٹیڈیم Frankfurt سے آن لائن شرکت کی۔

اس موقع پر حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت موجودگی میں موسلا دھار بارش ہونے لگی جبکہ شاملین سائبان کے بغیر گراؤنڈ میں بیٹھے تھے۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت حاضرین سے دریافت فرمایا کہ کیا انہیں کوئی مشکل تو نہیں ہو رہی جس پر صدر مجلس خدا م الاحمدیہ جرمنی نے جواب دیا کہ حضور ابھی تو کسی قسم کی دشواری نہیں ہے اور انشاء اللہ ہم بیٹھے رہیں گے۔ بارش جیسی بھی ہو گی انشاء اللہ۔

اس کے بعد تلاوت قرآن کریم سے اس ملاقات کا آغاز ہوا جس کے بعد ممبران مجلس خدام الاحمدیہ کو اپنے عقائد اور عصر حاضر کے مسائل کی بابت چند سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک خادم نے حضورِانور سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کابل کے متعلق پیشگوئی کے حوالہ سے پوچھا کہ کیا سرزمین کابل کو کبھی امن نصیب ہو گا اور کیسے؟

حضورِ انور نے فرمایا کہ سرزمینِ کابل میں امن ہوگا۔ اس وقت ہوگا جب یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں گے اور خدا تعالیٰ کے فرستادے کی بات کو سنیں گے۔ اور جو انہوں نے ظلم کیے ہیں اس کا مداوا کریں گے اور اس کا مداوا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں جس امام کو بھیجا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس غلام کو بھیجا ہے کہ دین کی نئے سرے سے اشاعت کرے اور دنیا میں پھیلائے اس کو مانیں گے تو پھر دنیا میں امن قائم ہو گا اور یہی شرط کابل کے لیے ہے۔ نہیں تو اسی طرح لڑائیاں اور فساد اور جھگڑے ہوتے رہیں گے اور دیکھ لیں عمومی طور پر مسلم امہ کا بھی یہی حال ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ کی بات کو نہ مانیں، نہ صرف مانیں نہیں بلکہ اس کی سخت مخالفت بھی کریں، نفی بھی کریں اور اپنا دین، اپنی مرضی کا دین پھیلانے کی کوشش کریں؛ کہیں blasphemy law کو کہہ دیں کہ یہ ہوتا ہے کہیں apostacy لاء قائم کر دیتے ہیں، کہیں اپنی مرضی سے کچھ اَور کر دیتے ہیں۔ کہتے یہ ہیں کہ ہم ظلم نہیں کریں گے۔ قرآن شریف میں تو اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ ایک مومن کی جان، ایک کلمہ گو کی جان لینا تمہیں جہنم میں لے کے جائے گی۔ یہ کلمہ گوؤں کو مارتے چلے جارہے ہیں، اب یہاں جو انقلاب ہوا جس کو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے فتح مکہ جیسا انقلاب پیدا کر دیا۔ یہاں کون سے کافر تھے۔ جن پہ تم لوگوں نے قبضہ کیا وہ تو مسلمان ہیں ۔ فتح مکہ کہاں سے ہوگئی۔ تو اس طرح تو پھر امن قائم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو توماننا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو مانیں گے تو امن ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مخالفت کو بند کریں گے تو امن قائم ہو گا اور ہمارا کام یہی ہے کہ اس پیغام کو پہنچاتے رہنا اور کوشش اور دعا بھی کرتے رہنا کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان لوگوں کو عقل آجائے اور یہ ماننے والے ہوں۔ یا کم از کم اپنے رویوں کو ٹھیک کرنے والے ہوں، ظلموں کو ختم کرنے والے ہوں پھر بھی امن کی کوئی گنجائش ہے اور پھر اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا بھی ہے، معاف بھی کرتا ہے۔

پھر ایک خادم نے سوال کیا کہ جرمنی میں کچھ ماہ میں پولیٹیکل الیکشن ہیں جس کی وجہ سے ایک بڑا پولیٹیکل چینج آئے گا کیونکہ اس وقت کی چانسلر پھر سے منتخب نہیں ہو سکتی۔

حضور انور نے فرمایا کہ صرف وہ ریٹائرڈ ہو رہی ہے اس لیے وہ دوبارہ نہیں آئے گی۔ تو اس کی پارٹی اگر جیت جائے گی تو پالیسی تو وہی رہے گی۔ اگر اس کی پارٹی جیت جائے گی تو پارٹی کی پالیسی تو تقریباً وہی ہوتی ہے۔ تھوڑی بہت باتیںہوتی ہیں جو چانسلر اپنی مرضی سے کر رہا ہوتا ہے۔ اگر دوسری پارٹی آئے گی تو ان کی بھی پالیسیز سموئی ہوئی ہیں سوائے جو اینٹی اسلام پارٹیاں ہیں یا far right پارٹیاں ہیں جو رائٹسٹ ہیں اگر وہ آتے ہیں تو پھر مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں جرمنی میں بیشک مسلمانوں کے خلاف ایک چیز یا غیر ملکیوں کے خلاف ایسے جذبات پائے جاتے ہیں، احساس پائے جاتے ہیں، خیالات پائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جو فاررائٹ پارٹیاں ہیں وہ نہیں جیتیں گی۔ میرا خیال یہی ہے اور سموئی ہوئی پارٹیاں ہی جیتیں گی۔ اب یہ کہتے ہیں overwhelming majority کوئی ایک پارٹی لے جائے اور اپنی حکومت بنا لے، اور یا پھر دو ایسی پارٹیاں جن کے manifesto قریب قریب خیالات رکھتے ہیں وہ آپس میں ایک جوائنٹ حکومت بنا لیں اللہ بہتر جانتا ہے کیونکہ میں نے جرمنی کی پولیٹکس زیادہ پڑھی نہیں لیکن بہرحال میرا خیال یہی ہے، جہاں تک بظاہر نظر آ رہا ہے اس وقت، چاہے تھوڑی majority سے جیتے، جو بھی پارٹی آئے گی اپنی حکومت بنا ہی لے گی۔ لیکن جو شدت پسند لوگ ہیں جو غیر ملکیوں کے مخالف ہیں یا مسلمانوں کے مخالف ہیں ان کے حکومت بننے کا بظاہر امکان کوئی نہیں۔ ہاں ہو سکتا ہے کہ بعض صوبوں میں تھوڑی بہت ان کی اتنی say ہو جائے کہ جس کا اثر قائم ہو سکے لیکن بظاہریہی لگتا ہے کہ آپ لوگوں کی جان بخشی ہو جائے گی لیکن بشرطیکہ آپ لوگ بھی اپنا کردار اداکریں اور مسلمان ہونے کا جو حق ہے وہ ادا کریں، ایک احمدی مسلمان ہونے کا ،اور دنیا کو بتائیں ملک کو بتائیں کہ اصل اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ آہستہ آہستہ ان کے دماغوں میں جو بھی شبہات، reservations ہیں، تحفظات ہیں ان کو دور کریں۔

ایک خادم نے حضور انور سے سوال کیا کہ ایک احمدی ریسرچر کو کس mind-set کے ساتھ ریسرچ کرنی چاہیے؟

اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ایک احمدی مسلمان کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ بہت محنت کرے۔ غیر احمدی اور غیر مسلم بھی بہت محنت کرتے ہیں اور اپنی ریسرچ کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ وہ ایک پہلو سے کمزور ہیں او ر وہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مدد نہیں مانگتے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ ایک احمدی مسلمان ریسرچر کو دوسرے ریسرچرز کی طرح بہت گہری سوچ رکھنی چاہیے جیساکہ دوسرے رکھتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ اپنے کام کے لیے اور ا پنی ریسرچ کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے۔ اس کو دعا کرنی چاہیے کہ جو ریسرچ وہ کر رہاہے وہ اس قدر نفع رساں ہو کہ پوری انسانیت اس سے فائدہ اٹھائے اور پوری دنیا کے لیے مفید ہو اور توحید کو قائم کرنے والی ہو۔

اجتماع خدام الاحمدیہ جرمنی 2021

ایک اَور خادم نے سوال کیا کہ اگر انشاء اللہ آپ کو دوبارہ ربوہ واپس جانے کا موقع ملے تو وہ کون سی جگہ ہو گی جہاں پہ آپ سب سے پہلے جانا پسند فرمائیں گے؟

حضور انور نے فرمایا کہ تم مجھے موقع پیدا کروا دو، پھر میں تمہیں ساتھ لے جاؤں گا خود ہی دیکھ لینا وہاں جا کے۔ ظاہر ہے کہ پہلے انسان جب ربوہ جاتا ہے تو جہاں بزرگ ہیں جن کو ہم چھوڑ کے آئے اور جو وہاں رہے جنہوں نے ربوہ آباد کیا ان کی یادیں ہی ربوہ سے وابستہ ہیں تو عموماً پھر یہی ہوتا ہے کہ پہلے انسان جاتا ہے تو ان بزرگوں کے مزاروں پر، ان کی قبروں پر حاضری دے کے ان کے لیے دعا کرتا ہے اور پھر پورے شہر کے لیے دعا کرتا ہے اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ جس طرح ہم قادیان جاتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر پہلے جاتے ہیں۔ کوشش یہی ہوتی ہے اگر مکہ مدینہ جائیں تو ہم سب سے پہلے وہیں جاتے ہیں، روضہ مبارک پہ۔ تو یہاں بھی بزرگ جہاں دفن ہیں جنہوں نے ربوہ کو آباد کیا اور ربوہ کو سینچا، ربوہ کو بنایا ،ان کی یادیں وابستہ ہیں تو پرانے بزرگوں کی یادیں تازہ کرنے کے لیے اور ان کے لیے دعا کرنے کے لیے عموماً تو یہی ہوتا ہے کہ وہاں جایا جائے۔ باقی اس وقت حالات کیا ہوں گے ، جب ہوں گے تو دیکھ لیں گے اور اگر موقع ملے تو ساتھ آ جانا میرے۔

پھر ایک خادم نے سوال کیا کہ اگر خواب میں کوئی خلیفہ نظر آئیں تو کیا اس سے یہ تعبیر کی جا سکتی ہے کہ یہ سچی خواب ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ پتہ نہیں سچی خواب ہے کہ غلط ہے۔ لیکن ناموں کی تعبیر ہوتی ہے، خلفاء جو ہیں ان کے نام بھی اچھے ہیں اور نیک خواب ہے اور نیکی کی بات کر رہے ہیں تو وہ سچی خواب ہو گی ، یہ تو سیاق و سباق سے پتہ لگتا ہے۔ آگے پیچھے جو خواب کے ہے وہ کیا ہے کس طرح کی ہے۔ مختلف خوابوں کی مختلف تعبیریں ہوتی ہیں۔ صرف ایک چیز کو دیکھ لینا تو بات نہیں ہے۔ بعض خوابیں ہوتی ہیں ان کی تعبیر ناموں کے حساب سے بھی ہو جاتی ہے۔ بعض جو حالات اس وقت پیش آ رہے ہوتے ہیں، خواب میں نظر آ رہے ہوتے ہیں ان کے حساب سے ہوتی ہے۔ تو یہ تو dependکرتا ہے۔ اب کوئی کہہ دے مجھے فلاں خلیفہ نظر آیا اس نے کہا کہ فلاں جائز بات جو ہے، تم نمازیں پڑھنی چھوڑ دو تو وہ تو جائز نہیں ہے۔

ایک لطیفہ ہے، ہمارے ایک بزرگ ہوتے تھے ان کا ایک بیٹا تھا، اکلوتا بیٹا اور بڑھاپے میں پیدا ہوا۔ وہ نمازیں پڑھنے میں بڑا سست تھا۔ اس کے ابا بڑے امیر آدمی تھے، بڑے لینڈ لارڈ تھے اور احمدی ہوئے، بہت بڑی سیاسی پارٹی کے خاندان کے تھے۔ ان کی بیوی فوت ہو گئی تھیں ،بیٹا ان کے ساتھ رہتا تھا ۔ خیر اپنے بیٹے کو ربوہ میں تعلیم دلوانے کے لیے لے کے آئے۔ ایک دن بیٹا اٹھ کے کہتا ہے کہ ابا جی۔ خلیفہ ثانی مجھے خواب میں آئے اور انہوں نے کہا بچے تم نمازیں نہ پڑھا کرو۔ وہ بزرگ بڑے ہوشیار تھے۔ ان کا پلنگ دروازے کی طرف تھا اور اس سے آگے دیوار کی طرف ان کے بیٹے کا پلنگ ہوتا تھا۔ تو کہتے کہ بیٹا او جو میری منجی ٹپ کے تیرے کول آئے میرے کَن اچ کیوں نہ کہہ گئے، انہوں نے کہنے کے لیے کہ نمازیں نہ پڑھا کرو میرا پلنگ ٹاپا، تمہارے پاس گئے تو میں دروازے کے قریب تھا میرے کان میں کہہ جاتے کہ نمازیں نہ پڑھا کرو۔ تو یہ اس طرح کی باتیں جوہیں یہ depend کرتی ہیں کہ خواب بنائی ہوئی ہے یا واقعی حقیقی خواب ہے اور اگر بندہ بعض دفعہ بعض باتیں سوچتا ہے۔ ان خیالات میں بعض ایسی باتیں آ جاتی ہیں جن کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ جہاں تک کسی خلیفہ کے آنے کا تعلق ہے اگر وہ نیکی کی باتیں بتا رہا ہے تو خواب جائز ہے، ٹھیک ہے، اچھی ہے، سچی ہے۔ اگر اس کی طرف غلط بات منسوب کر رہے ہو تو خواب غلط ہے۔یہ تو انسانی سوچ پہ dependکرتا ہے۔

حضورا نور نے اس اجتماع کے آخر پر فرمایا کہ اچھا صدر صاحب وقت ختم ہو گیا ہے اور ماشاء اللہ بارش بھی سارے لوگوں نے، خدام نے اپنے اوپر لے لی۔ یہ میں نے دیکھ لیا کہ ماشاء اللہ آپ کے خدام میں صبر اور حوصلہ ہے۔ کم از کم اتنی طاقت ہے، اتنا اظہار ہے کہ بارش کو برداشت کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں مزید قوتِ برداشت اور طاقت بھی پیداکرے اور یہ حقیقت میں دین کے خادم بننے والے ہوں اور اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں جو خدام الاحمدیہ کا مقصد ہے اور جو عہد کرتے ہیں یہ ہمیشہ کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اس پر عمل کرنے والے ہوں اور خلافت کی حفاظت کرنے والے ہوں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس بارے میں کوشش بھی کریں اپنے دینی علم کو بھی بڑھائیں اور اسلام اور احمدیت کا پیغام بھی اپنے ملک میں پھیلانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button