متفرق مضامین

کیا حکومت پاکستان نے پوری ذمہ داری کے ساتھ 1974ء کی قومی اسمبلی کی تمام تر کارروائی من وعن شائع کی ہے ؟

(ابن قدسی)

7؍ستمبر 1974ء دنیا بھر کی تمام جمہوری حکومتوں کے لیے ایک سیاہ دن تھا جب جمہوریت کے ووٹ سے ملکی نظم ونسق سنبھالنے والی حکومت نے اپنے ملک میں بسنے والے ایک گروہ کے مذہب کا فیصلہ کر ڈالا اور یہ طے کیا کہ وہ اپنے آپ کو کس مذہب کی طرف منسوب کریں ۔شاید اس حکومت نے یہ سمجھا ہوگا کہ اس طرح وہ حکومتی نظام کو بہتر رنگ میں چلا سکتے ہیں حالانکہ وہ عوام کی فلاح وبہبود اور امن عامہ کو یقینی بنا کر بآسانی ایک مضبوط حکومت بنا سکتے تھے لیکن اس حکومت نے ایک آسان راستہ کا انتخاب کیا جس کے نتیجے میں انہیں فلاحی کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی بس ایک گروہ کو غیر مسلم قرار دے کر حکومت کے مزے لوٹنے تھے۔تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کے نشے میں چور حکومت کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی اور چند سالوں بعد ہی اس حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔

کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی کلمہ گو کو غیرمسلم کہا جائے ۔یا اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے شخص کو حکومتی سطح پر غیر مسلم کہا جائے ۔؟

کیا عالمی جمہوری قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ انسانی بنیادی حقوق میں دخل اندازی کرکے کسی شخص کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان نہ کہے بلکہ غیر مسلم کہے ؟

کیا ملکی نظم ونسق سنبھالنے والی حکومت مذہبی معاملات میں فیصلہ سازی کا اختیار رکھتی ہے ؟

کیا جمہوری طریقے سے حکومت بناتے ہوئے حکومتی نمائندوں کا انتخاب مذہبی فیصلہ سازی کے لیے کیا گیا تھا ؟

کیا پارلیمنٹ کے اراکین اس اہلیت کے تھے کہ وہ خالص ایک مذہبی معاملے پر بحث کرکے کسی نتیجےتک پہنچ سکتے ؟

اگر پارلیمنٹ نے مذہبی فیصلہ سازی کا بیڑا اٹھایا تھا تو کیا آئینی اور قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے ؟

کیا پارلیمنٹ نے عالمی اور قانونی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے گواہان کو مکمل قانونی اور آئینی حقوق دیے تھے ؟

اگر عوامی مفاد میں ایک غیر اسلامی اور غیر آئینی قدم اٹھایا ہی تھا تو کیا عوام تک اصل حقائق پہنچائے گئے تھے ؟

کیا پارلیمنٹ میں مقررہ موضوع پر ہونے والی ساری بحث کو محفوظ کیا گیا تھا ؟

کیا پارلیمنٹ کے اندر ہونے والی بحث اسی موضوع پر ہوئی تھی جس کو مدنظر رکھ کر تمام تر اقدامات کیے گئے تھے ؟

کیا حکومت نے پوری ذمہ داری کے ساتھ تمام تر کارروائی کومن وعن شائع کیا ہے ؟

اس طرح کے بے شمار سوالات اٹھتے ہیں ۔آج آخری سوال پر گفتگو کریں گے کہ جس حکومت نے اتنی بڑی ذمہ داری خود اپنے ذمہ لی تو کیا انہوں نے اپنی پارلیمنٹ کے اندر ہونے والی تمام تر کارروائی من وعن شائع کر دی ہے کہ نہیں ؟

اسمبلی کی کارروائیIn cameraتھی یعنی اسے خفیہ رکھا گیا اور اُس وقت حکومت نے اسے شائع نہیں کیا تھا۔لیکن اِس واقعہ کے 36سال بعد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے نتیجے میں منظر عام پر لائی گئی ۔اتنے سالوں بعد شائع ہونے والی کارروائی کو کسی صورت چیک نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ نہ ہی جماعت احمدیہ کے پاس کوئی آفیشل ریکارڈ موجودہے اور نہ ہی اُس وقت جماعت کے وفد میں شامل ممبران میں سے کوئی ہم میں موجود ہے ۔ اوربالفرض ایسا ہوتا بھی تو زبانی روایات کی بنیاد پر حکومتی آفیشل ریکارڈ کی درستی کیونکر ممکن تھی ۔

اب ہمارے سامنےحکومت کی طرف سے شائع شدہ کارروائی 21جلدوں پر مشتمل موجود ہے۔یہ حکومتی ریکارڈ ہے یقینا ًحکومت نے پوری ذمہ داری اورتسلی کے بعد ہی شائع کیا ہوگا ۔اس لیے اس میں لکھی ہوئی تمام باتیں حکومتی سطح پر قابل قبول ہونی چاہئیں۔

یہ کارروائی یک طرفہ طور پر شائع کی گئی ہے۔اس میں جو بات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی طرف سے لکھی گئی ہے اس کی صحت کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ سے کوئی تصدیق نہیں کروائی گئی اور نہ جماعت احمدیہ کو ان باتوں کے متعلق قبل ازیں آگاہ کرکے ان باتوں کی تصدیق یا تردید کروائی گئی ہے۔اس لیے اس کارروائی میں جو بات امام جماعت احمدیہ کے موقف کے طور پر لکھی ہوئی ہے اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہے۔انہوں نے صحیح طرح اس بات کو سمجھا اور نوٹ کیا ہے یا نہیں اس بارے میں جماعت احمدیہ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ۔اب جو شائع ہوا ہے اسی پر انحصار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کیا یہ کارروائی مکمل صورت میں شائع ہوئی ہے یا نہیں ۔

21شائع شدہ جلدوں میں سے جلد نمبر 1کا ہی تجزیاتی مطالعہ پیش خدمت ہے ۔

جلد نمبر 1کے صفحہ نمبر55 ،56پر لکھا ہے کہ

’’Correction of record the cross-examination

صاحبزادہ صفی اللہ : جناب والا ! میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں…

جناب چیئرمین :جی

صاحبزادہ صفی اللہ :…کہ عام طریقہ تو پہلے سے یہ ہے کہ جب یہاں اسمبلی میں تقاریر ہوتی ہیں تو رپورٹر صاحبان وہ تقاریر جو ہمیں وہ بھیجتے ہیں تاکہ اس کی تصحیح کریں۔تو اب کیا طریقہ ہے ؟ یعنی یہ رپورٹ جو ہے اب بھی ان کو بھیجے جائیں گے تصحیح کیلئے ؟

جناب چیئر مین :کن کو ؟کن کو ؟

صاحبزادہ صفی اللہ :یہ جو ہیں ۔

جناب چیئر مین : نہیں نہیں ،ان کو نہیں دی جائیں گی ،آپ کو دی جائیں گی ۔

صاحبزادہ صفی اللہ :اچھا

جناب چیئر مین :آپ سب کو ،Cross- examinationکی ۔

صاحبزادہ صفی اللہ :نہیں ،میرا مطلب یہ ہے کہ تصحیح کیلئے یہ رپورٹر جو رپورٹ کرتے ہیں تقریروں کو ،تو ان کو بھی دی جائیں گی تاکہ وہ تصحیح کریں اپنے اپنے ؟

جناب چئیر مین :نہ نہ ۔No,no.This is the privilege of the members.s

صاحبزادہ صفی اللہ : ہاں یہ ٹھیک ہے ۔

جناب چیئر مین :ہاں members only

صاحبزادہ صفی اللہ :میں بھی …

جناب چیئر مین :ممبرز کا یہ پرولیج ہے ،صرف ممبرز کا

صاحبزادہ صفی اللہ :نہیں ،اس میں کوئی تبدیلی کریں گے

جناب چیئر مین : نہیں نہیں ۔اس میں یہ کریں گے کہ ہم خود اس کو correctکر لیں گے ریکارڈ کو ٹیپ کے ذریعے۔اس کے بعد ممبرز میں تقسیم کر دیں گے ۔‘‘

اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جو کچھ وہاں بولا اور لکھا جائے گا وہ چیک اور تصحیح کرنے کے لیےرپورٹرز تک کو نہیں دیا جائے گا البتہ وہ تصحیح کے بعد صرف ممبران کو دیا جائے گا۔جو کچھ اسمبلی میں ہوا بقول چیئر مین وہ سب کچھ نوٹ کیا جا رہا تھا ۔

صفحہ نمبر 204پر ہے:

’’Mr.Abdul Aziz Bhatti: As far as the record is concerned only the words of the witness are coming on the record.

Mr.Chairman: Everything is being noted, you can refer.Sardar Maula Bakhsh Soomro.‘‘

جناب عبد العزیز بھٹی صاحب کے کہنےپر کہ صرف گواہوں کے الفاظ ریکارڈ کا حصہ ہیں چیئر مین صاحب نے کہا کہ ہر چیز نوٹ ہو رہی ہے ۔

صفحہ نمبر 205پر ہے کہ’’مولانا غلام غوث ہزاروی :یہ جو فرمایا جاتا ہے کہ ’’کافر ،کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘ان دونوں لفظوں کو دہرانا چاہیے ،باقاعدگی کے ساتھ، اور اس بات کو نوٹ کرا دینا چاہیے باقاعدہ کہ ’’ملت سے خارج نہیں ہے اور اسلام سے خارج ہے ۔‘‘

جناب چیئر مین :یہ نوٹ ہو چکا ہے نوٹ ہوچکا ہے

مولانا غلام غوث ہزاروی :ہاں

جناب چیئر مین:کئی دفعہ ہوا ہے ،ٹیپ میں بھی ہوا ہے،وہاں بھی ریکارڈ میں آ گیا ہے …So‘‘

اس سے پتا چلتا ہے کہ سب الفاظ اور کارروائی نوٹ ہو رہی تھی بلکہ کارروائی کی ریکارڈنگ بھی کی گئی تھی لیکن وہ منظر عام پر نہیں آئی ۔اگر وہی منظر عام پر آجاتی تو شائع شدہ کارروائی کی کراس چیکنگ کی جاسکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔اس ریکارڈنگ کے حوالے سے کچھ بتا یا بھی نہیں گیا کہ وہ محفوظ بھی ہے یا نہیں۔بقول جناب چیئر مین اس کارروائی کو ٹیپ کے ذریعہ ٹھیک کیا جانا تھا ۔ اگر شائع شدہ کارروائی کو ٹیپ کے ذریعہ درست کرکے شائع کیا ہے تو اس کا کہیں ذکر نہیں ہے ۔

روزنامہ امن کراچی 12؍ستمبر 1974ء میں ایک خبر شائع ہوئی کہ

’’قادیانی مسئلہ پر قومی اسمبلی کا ریکارڈ مولانا ظفر انصاری مرتب کریںگے ۔

قومی اسمبلی کے رکن مولانا ظفر احمد انصاری قادیانیوں کے مسئلہ پر خصوصی کمیٹی کی طرف سے 96گھنٹے مکمل غور کے دوران ٹیپ ریکارڈ کی جانے والی تمام کارروائی کو باقاعدہ ریکارڈ میں منتقل کرنے ،تصحیح کرنے اور اس کو اغلاط سے پاک کرکے مرتب کرنے کے کام کی نگرانی کریں گے ۔‘‘

اب یہ کیسا انصاف ہے کہ تمام تر کارروائی کو ٹیپ کے ذریعہ ریکارڈ کا حصہ بنانے ، ’’تصحیح ‘‘ اور ’’اغلاط سے پاک‘‘کرنے کی ذمہ داری ایک شدید مخالف مولانا کے سپرد کر دی گئی ۔معاند احمدیت کی ’’تصحیح ‘‘اور ’’اغلاط سے پاک‘‘ کارروائی 36سال بعد منظر عام پر آئی۔اب اس ’’انتہائی شفاف انصاف پسندی ‘‘کی مثال مہذب دنیا میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملے گی ۔

جماعت احمدیہ کا وفد پوری پارلیمنٹ پر مشتمل سپیشل کمیٹی کے سامنے بطور گواہ کے پیش ہوتا تھا ۔گواہ کی گواہی کوتحریری ریکارڈ کا حصہ بنانے سے قبل اس تحریر کو گواہ کو دکھانا آئینی اور قانونی تقاضا ہے ۔

’’برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کی select committeesمیں گواہی کو ضبط ِتحریر میں لانےکے قواعد میں لکھا ہے:

A transcript of what was said in oral evidence is available a few days after the hearing. This uncorrected transcript is:

Published on the committee website, And sent to witness

Witnesses are asked to correct the transcript and identify any supplementary information asked for by members of the committee. The transcript will be accompanied by a letter giving details of the very limited sorts of corrections which are acceptable and the deadline by such corrections needs to be sent to committee staff

ان قواعد سے ظاہر ہے کہ پا رلیمانی کمیٹی میں کوئی گواہ پیش ہو تو یہ اس گواہ کا حق ہے کہ وہ اپنی گواہی کا تحریری ریکارڈ ملاحظہ کرے او اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو اس کی نشاندہی کر کے اسے درست کرائے۔آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کے قواعدمیں لکھا ہے:

The Senate resolutions provide that Reasonable opportunity shall be afforded to the witnesses to make corrections of errors of transcription in the transcript of their evidence and to put before a committee additional material supplementary to their evidence .

(Government Guidelines for Official Witnesses before Parliamentary Committees and Related Matters-November 1989)

آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کے ان قواعد کی رو سے گواہ کو اس چیز کا خاطر خواہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنی گواہی کا تحریری ریکارڈ پڑھ کر اس میں موجود غلطیاں درست کرائے اور اگر یہ گواہ پسند کرے تو اضافی تحریری مواد بھی ریکارڈ میں شامل کر سکتا ہے ۔

(بحوالہ :دوسری آئینی ترمیم 1974ء ۔خصوصی کمیٹی میں کیا گزری ،صفحہ 3،2)

اس سپیشل کمیٹی میں جماعت کا وفد بحیثیت گواہ پیش ہوا تھا اس لیے ان کو ان کے بیان کی تحریر دکھانی چاہیے تھی لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہوا ۔امام جماعت احمدیہ کو ان کا اپنا بیان دکھایا ہی نہیں گیا بلکہ وہ ’’تصحیح ‘‘اور ’’اغلاط سے پاک‘‘کرنے کے لیے شدید مخالف کو دے دیا گیا۔امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی وفات کے بعد ان کے ان بیانات کی اشاعت کی گئی جنہیں انہوں نے دیکھا تک نہیں ،انہیں چیک نہیں کیا۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اب ان باتوں کو من و عن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی باتیں تسلیم کر لیا جائے ۔اس صورت میں حکومتی شائع شدہ کارروائی میں امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شامل جوابات حکومت کا ایک دعویٰ ہی کہلائیں گے۔ہاں اس کی ٹیپ کو مہیا کر دیاجائے جو اس وقت ریکارڈ کی گئی تھی تو اس سے شائع شدہ کارروائی کا تقابلی جائزہ کرکے بیانات کی حیثیت متعین کی جاسکتی تھی ۔

حکومتی شائع شدہ کارروائی کے نامکمل ہونے کے شواہد

(1)کارروائی کی جلد نمبر 1کے صفحہ نمبر 37پر ذکر ہے کہ

Mr.Yahya Bakhtiar:…You have raised a preliminary objection to the competence of the National Assembly or Parliament to declare as to who is a Muslim and who is not a Muslim .You raised this object in your Mahzar Namah.

مرزا ناصر احمد :ہاں محضرنامہ ‘‘

پھر صفحہ 132پر لکھا ہے کہ’’مرزا ناصر احمد :ہاں، یہاں میں وضاحت کر دوں کہ ایک یہ ہم نے بڑا سوچا ،یعنی آخر یہ ہمارا کام ہے ناں …ہمارے سے مراد ہم سب کا جو یہاں بیٹھے ہیں …کہ بڑے لمبے عرصے سے علماء کی طرف سے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے گئے ،تو کوئی سوچا ہم نے بڑا کہ اس میں کوئی sense ایسی چاہیے جس کی تھوڑی بہت کوئی justificationبھی ہوسکے ۔تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ان فتاویٰ کا یہ مطلب ہے کہ ان کے نزدیک جن پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے ان کے اعتقادات یا اعمال اللہ کو پسند نہیں اور قیامت والے دن ان سے مواخذہ کیا جائے گا۔ہمارے نزدیک ان فتاویٰ کا اس سے زیادہ اور مطلب نہیں ۔اور سیاسی طور پر کسی کا یہ حق نہیں ہے کہ ان تین احادیث کی روشنی میں جو محضر نامے میں ہیں ،سیاسی طور پر کسی حکومت کو حق نہیں ہے کہ کسی فرقے کو کافر قرار دے، کیونکہ کافر قرار دینے کی بنیاد رکھی جائے فرقوں کے فتاویٰ پر، تو چھوٹا سا نمونہ ہمارے محضرنامے میں پیش کر دیا گیا ہے ۔‘‘

پھر صفحہ نمبر 142پر لکھا ہے کہ’’مرزا ناصر احمد :میں نے ابھی بتایا تھا کہ ہم ’’کفر‘‘کے لفظ کو دو معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور صدیوں سے کرتے چلے آئے ہیں ۔ ایک کفر کے معنیٰ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ ۔اور وہ اس دنیا کی بات نہیں ،وہ دوسری دنیا کی بات ہے۔اور اس senseمیں ہر فرقہ دوسرے کو پکے کافر سے بھی زیادہ پکا کافر کہتا ہے۔کچھ محضر نامے میں ہیں اور آپ کو دلچسپی ہوتو ہم آپ کو دوسری کتابیں دکھا دیتے ہیں ۔‘‘

صفحہ نمبر 171پر ہے کہ

Mr.Yahya Bakhtiar:I am still not clear آپ کا جو جواب تھا …

مرزا ناصر احمد :یہ محضر نامے میں بھی،اس میں…‘‘

پھر صفحہ نمبر 186پر ہے کہ’’مرزا ناصر احمد :ہاں ،نماز نہ پڑھنے کی بہت ساری وجوہات ہیں …

جناب یحییٰ بختیار :ہاں

مرزا ناصر احمد :ایک تو یہ ہے کہ محضر نامہ جو ہے ہمارا،اس کے صفحہ 154پر بھی ہے …‘‘

صفحہ نمبر 187میں ہے کہ ’’جناب یحییٰ بختیار :’’ہمارا یہ فرض ہے کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں ‘‘

مرز ا ناصر احمد :ہاں ،اس کا یہ ہے …

جناب یحییٰ بختیار :وہ تو بعد میں آجاتا ہے ۔

مرزا ناصر احمد :ہمارے محضر نامے میں اس کا یہ جواب دیا ہوا ہے کہ جو …‘‘

اب بار بار جوابات کے دوران محضر نامے کا ذکر ہے اور اس کا حوالہ دیا جا رہا ہے ۔اس کا مطلب ہے وہ محضر نامہ اسمبلی ممبران کے سامنے پیش کیا جا چکا تھا اور اس میں تمام وہ تفاصیل موجود ہیں جس کو دوبارہ بیان کرنے کی بجائے محضر نامہ کا حوالہ دیا جا رہا تھا بلکہ اٹارنی جنرل نےاپنے سوال میں بھی محضر نامہ کا حوالہ دیا لیکن حکومتی شائع شدہ کارروائی جو ’’تصحیح‘‘اور ’’اغلاط سے پاک‘‘ہے اس میں وہ محضر نامہ سرے سے شامل ہی نہیں ۔

محضر نامہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک اصولی بیان تھا جسے 22اور 23؍جولائی 1974ء کو جماعت احمدیہ کے امام حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خود اسمبلی ممبران کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ان دو دنوں میں تمام تفصیلی باتیں بیان ہوگئی تھیں اسی لیے کارروائی کے دوران بار بار محضر نامہ کا ذکر ہوتا ہے۔اس اصولی موقف اور بیان کو شائع شدہ کارروائی میں شامل نہ کرنااس کارروائی کے مکمل ہونے پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔مولانا ظفر احمد انصاری صاحب نے جس طرح اس کارروائی کو ’’اغلاط سے پاک‘‘کیا ہے اس کے نتائج سامنے ہیں کہ کس قسم کی ’’اغلاط سے پاک‘‘کیا ہے۔جماعتی موقف کو ہی کارروائی سے نکال دیا ہے ۔محضر نامہ کو شائع شدہ کارروائی سے تو نکال دیا لیکن شاید ان کو خیال نہیں رہا کہ کارروائی کےد وران بار بار محضر نامہ کا ذکر موجود ہے تو یقینا ًسوال پیدا ہوگا کہ وہ محضر نامہ کدھرہے اور اس کی غیر موجودگی شائع شدہ کارروائی کو ناقابل قبول بنا دے گی ۔

(2)اس محضر نامے کے ساتھ کچھAnnexures(ضمیمہ جات )بھی اجازت لے کر جمع کرائے گئے تھے۔ان کی فہرست یہ ہے:

(1 ) An extract from the Anatomy of Liberty by William O. Douglas

(2) We are Muslims by Hazrat Khalifa tul Masih Third

(3) Press release by Mr. Joshua Fazaluddin

(4)فتاویٰ تکفیر

(5)مقربانِ الٰہی کی سرخروئی از مولوی دوست محمد شاہد صاحب

(6)القول المبین از مولانا ابوالعطاء صاحب

(7) خاتم الانبیاء ؐ

(8) مقا مِ ختمِ نبوت از حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ

(9) ہم مسلمان ہیں از حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ

(10) ہمارا مؤقف

(11)عظیم روحانی تجلّیات از حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ

(12) حضرت بانیِ سلسلہ پر تحریفِ قرآن کے بہتان کی تردید

(13) مودودی شہ پارے

(حضرت مولانا دوست محمدشاہد صاحب کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ضمیمہ جات ان کے بعد بھی جمع کرائے گئے تھے ان کی فہرست یہ ہے:

1۔آزاد کشمیر اسمبلی کی قرارداد پر تبصرہ۔خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ

2۔تحریک ِ پاکستان میں جماعت ِ احمدیہ کا کردار از مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب)

(دوسری آئینی ترمیم 1974ء ۔خصوصی کمیٹی میں کیا گزری ،صفحہ 121)

اب شائع شدہ کارروائی میں ان ضمیمہ جات کا بھی کوئی وجود نہیں ۔شاید مولانا انصار ی صاحب نے ان کو بھی ’’اغلاط‘‘ سمجھ کر نکال دیا ۔ یہ دونوں حصے محضر نامہ اور ضمیمہ جات انتہائی اہم تھے ۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ حکومت اتنی ذمہ داری کے ساتھ ایک کارروائی کو شائع کرے اور انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جماعتی موقف اور اس سے متعلقہ تمام کاغذات کو شائع ہی نہ کرے۔جماعتی موقف اور بیان کو سامنےنہ لانے کی جس روایت کا مظاہرہ ہوا ہے اس کے بعد کیسے یہ توقع رکھی جاسکتی ہےکہ شائع شدہ کارروائی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے تمام بیانات کو من وعن شائع کیا گیا ہو گا ۔محضر نامہ کو کارروائی کا حصہ بنائے بغیر کارروائی مکمل ہی نہیں ہوتی کیونکہ کارروائی کے دوران بار بار اس کا ذکر آرہا ہے ۔اگر محضر نامےکو کارروائی سے نکالنے کی جرأت دکھائی گئی ہے اور اس محضر نامہ کو جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اصل حقیقت بتائی گئی تھی تو باقی شائع شدہ کارروائی کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہوگا ۔

شاید اس لیے سارے محضر نامہ کو نکال دیا گیا کیونکہ وہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے تھے۔جماعت احمدیہ کے پاس وہ محضر نامہ مع ضمیمہ جات مکمل صورت میں موجود تھا اور شاید یہ وہ واحد مستند چیز ہے جو اسمبلی میں ہونے والی کارروائی کے حوالے سے جماعت احمدیہ کے پاس محفوظ ہے ۔اگر اس کو ہی شائع شدہ کارروائی کا حصہ نہیں بنایا گیا تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو کارروائی جماعت احمدیہ کے پاس موجود ہی نہیں اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہو گا ۔

اس لیے آئینی ،قانونی او ر اخلاقی اعتبار سے شائع شدہ کارروائی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔اس حوالے سے حکومت پاکستان کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ۔اس کا فرض تھا کہ جماعتی موقف کو شائع شدہ کارروائی کا حصہ بناتی یا کم ازکم ٹیپ کی شکل میں جو کارروائی محفوظ ہے اسے جماعت احمدیہ کو مہیا کیاجاتا تاکہ شائع شدہ کارروائی کے مندرجات کو چیک کیا جاسکے اور حکومت کا آفیشل ڈاکومنٹ مکمل صورت میں سامنے لایا جاسکے ۔

(3)ممکن ہے یہ سمجھا جائے کہ شائع شدہ کارروائی مکمل ہے ۔محضر نامہ شامل نہیں کیا گیا تو کوئی بات نہیں تو آئیں دیکھتے ہیں کہ شائع شدہ کارروائی کس حد تک مکمل ہے اور اسے بھی مولانا ظفر انصاری صاحب نے ’’اغلاط سے پاک‘‘ کر دیا ہے یا نہیں ۔

شائع شدہ کارروائی کی جلد نمبر 1میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 170مقامات ایسے ہیں جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے جوابات کو ڈاٹس(………..)لگا کر نامکمل صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ان نامکمل جوابات پر اٹارنی جنرل کے مزید سوالات بتا دیتے ہیں کہ حضور ؒکا جواب نامکمل صورت میں شائع کیا گیا ہے مثلاً مسئلہ کفر واسلام کے متعلق سوال جواب ہو رہے تھے ۔

’’Mr.Yahya Bakhtiar: Mirza sahib. will you please explain if a particular Maulvi, Alim…or so-called Alim you, can call him…calls Mirza Ghulam Ahamd that he was Kafir, or Ahmadis are Kafir, now do you condemn the whole Muslim community for that,or that particular individual?

Mirza Nasir Ahmad: If they disassociate themselves…

Mr.Yahya Bakhtiar:But how?

Mirz Nasir Ahmad:…from that Fatwa…

Mr.Yahya Bakhtiar: Is there…

Mirza Nasir Ahmad:….we don‘t call them Kafir,

Mr.Yahya Bakhtiar: No,Sir, but is there going to be a referendum? No,…

Mirza Nasir Ahmad: No,no,no,no…

Mr.Yahya Bakhtiar:I have no idea what Maulvi Sanaullah said,but if you say all the Muslamans,the whole lot of them,are Kafirs.‘‘

اس حوالے کے آخری جواب اور سوال ملاحظہ کریں۔ شائع شدہ کارروائی میں حضورؒ کے جواب کو صرف نو ،نو، نواور پھر ڈاٹس ڈال کر چھوڑ دیا گیا ہے لیکن اس جواب پر اٹارنی جنرل کے سوال میں مولوی ثناء اللہ کا ذکر ہے حالانکہ اس کارروائی کے پچھلے سوالات اور جوابات میں کہیں مولوی ثناءاللہ کا ذکر نہیں ۔اس کا مطلب ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا جو جواب صرف (نو ،نو ،نو …)درج کیا گیا وہ اصل میں تفصیل رکھتا تھا اور اس میں مولوی ثناء اللہ کا ذکر تھا ۔یقینا ً مولوی ثناء اللہ کےذکر سے جواب مکمل ہوتا اس لیے اس جواب کو ’’اغلاط سے پاک ‘‘کرنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے جواب سے مولوی ثناء اللہ کا ذکر نکال دیا گیا ۔شاید اگلے سوال پر نظر نہیں پڑی اس لیے مولوی ثناء اللہ کا نام لکھا رہ گیا ۔

اٹارنی جنرل صاحب اس بات کو ثابت کرنے کےلیے کہ کوئی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے ۔اس کے ثبوت کے طور پر بعض خیالی مثالوں کا سہارا لیتے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ ایک شخص الیکشن لڑنا چاہتا ہے لیکن وہ مسلمان کی حیثیت سے ہی الیکشن لڑسکتا ہے اور وہ اپنے کاغذات میں اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے تو اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ نہیں۔اس پر سوال جواب کی شکل میں بحث صفحہ نمبر 110،109پر موجود ہے ۔

“Mr.Yahya Bakhtiar: No, I am saying that, on the assumption, he cannot do it, but supposing objection is raised…

Mirza Nasir Ahmad: Who is going to decide?

Mr.Yahya Bakhtiar: He

Mirza Nasir Ahmad: That Eelection Commissioner…whether he is a Muslim or not?

Mr.Yahya Bakhtiar: NO, Sir, I am asking you if somebody objects that…

Mirza Nasir Ahmad: Well I am sorry, I cannot I find myself just incapable of…

Mr.Yahya Bakhtiar: No, but you kindly hear for a minute.

Mirza Nasir Ahmad:…making you understand what I want to know.My question is that I can form…

Mr.Yahya Bakhtiar: If you kindly listen to my question.

Mirza Nasir Ahmad:…I can form my opinion when I know the law,

Mr.Yahya Bakhtiar: No, I am not talking about the law.The law is…

Mirza Nasir Ahmad: My opinion would be formed on the knowledge of the law…

Mr.Yahya Bakhtiar: Will you please…

Mirza Nasir Ahmad:….and not otherwise

Mr.Yahya Bakhtiar:…let me explain the case again?

Mirza Nasir Ahmad:d جزاک اللہ yes yes ہاں

Mr.Yahya Bakhtiar: Now, you have said that if a person announces, declares, proclaims, that he is a Muslim, nobody has any right to question his declaration.

Mirza Nasir Ahmad: Quite

Mr.Yahya Bakhtiar: Now, if a person files a false form…

Mirza Nasir Ahamd: If such a person…

Mr.Yahya Bakhtiar: NO, no any person…

مرزا ناصر احمد :ہاں any person

Mr.Yahya Bakhtiar:That is the principle.

Mirza Nasir Ahmad:Yes yes”

اب ذہن میں یہ رکھ کر کہ یہ حکومتی آفیشل ڈاکومنٹ ہے،بار بار پڑھیں کسی لحاظ سے بھی یہ ایک سنجیدہ اور محفوظ ریکارڈ ہے؟یاد رہے یہ اسمبلی میں موجود تمام ممبران کے سامنے ہونے والی گفتگو ہے۔پہلے دن کی ساری کارروائی پڑھ جائیں جو 5؍اگست 1974ءکے دن ہوئی اور وہ شائع شدہ کارروائی کی جلد نمبر 1میں ہے ۔تقریباً اسی صورت میں شائع کی گئی ہے۔اگر یہ اسی طرح محفوظ رکھی گئی تھی تو اس وقت کی انتظامیہ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ انہوں نے اتنی اہم کارروائی کو کیا اس طرح محفوظ رکھا تھا جبکہ اس وقت چیئر مین کی طرف سے یہی اظہار ہو رہا تھا کہ Everything is being noted (کہ ہر چیز نوٹ ہو رہی ہے ۔صفحہ نمبر 204)کیا اس طرح کی نوٹ ہو رہی تھی ؟

پہلی جلد میں سارے دن کی کارروائی پڑھنے کے بعد آخر پر پہنچتے ہیں ۔صفحہ نمبر 205پر ہے کہ’’اتالیق جعفر علی شاہ :میں بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ جب ایک definite questionکیا جاتا ہے تو اس کو اپنی طرف سے مت دہرائیں جب تک وہاں definiteوہ سوال جو ہے یعنی اس کا جواب نہ مل جائے ۔اس لئے ہم خود اس بات کو یعنی یہ کہ lengthyکرنے کو ہم خود encourage کرتے ہیں …یعنی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے۔اور بحث کی وجہ سے وہ جو ہے وہ لمبا ہوجاتا ہے اور وہ ہیرا پھیری جو ہے وہ شروع ہوجاتی ہے ۔

جناب چیئر مین :نہیں ،بحث کا آج پہلا دن ہے۔بحث will be cut short ہاں، وہ cut short ہوگی بحث۔‘‘

اتالیق جعفرعلی شاہ کے بیان کے مطابق لمبے جوابات کا موقع نہیں دینا چاہیے۔بحث میں نہیں پڑنا چاہیے جس سے جواب لمبا ہوجاتا ہے۔اب شائع شدہ کارروائی کو دوبارہ دیکھیں کہیں آپ کو حضور کے لمبے جوابات نہیں ملیں گے بلکہ بعض انتہائی اہم مقامات پر بھی جواب کو ڈاٹس (…) لگا کر نامکمل چھوڑا گیا ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مولانا ظفر انصاری صاحب نے کارروائی کی ’’تصحیح ‘‘اور ’’اغلاط سے پاک‘‘کرنے کا کام کافی جوش وخروش سے کیا ہے ۔کارروائی کے حوالے سے مزید ممبران کی رائے دیکھیں۔

صفحہ نمبر 114میں ہے کہ’’مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: وہ اِدھر اُدھر ٹال جاتے ہیں اور الٹا اٹارنی جنرل صاحب سے سوال کر لیتے ہیں ۔

ایک رکن :جناب ! ایسا لگتا ہے وہ جرح کر رہے ہیں ۔‘‘

سردار مولا بخش سومرو کہتے ہیں۔صفحہ نمبر 204پر ہے

’’My humble submission to you, Sir is that I highly appreciate your patience but, Sir I would request that kindly you do not allow them too much attitude. He is giving evasive replies.‘‘

سردار مولا بخش سومرو اس بات کا گلہ کر رہے ہیں کہ انہیں اس رویہ کی بالکل اجازت نہ دیں وہ ناگوار جوابات دے رہے ہیں ۔

صفحہ نمبر 202پر ہے کہ’’جناب عبد العزیز بھٹی :…جب گواہ پر اٹارنی جنرل صاحب سوال کرتے ہیں تو وہ ان کا جواب بجائے ڈائریکٹ دینے کے …جس طرح کہ ایک گواہ کا فرض ہے کہ جواب دے …وہ اس کو avoidکرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تکرار کرتے ہیں اور پھر ساتھ ساتھ انہیں suggest کرتے ہیں کہ یہ سوال مجھ پر کریں ۔تو میرا خیال ہے کہ یہ چیئر کا فرض ہے کہ آپ اس مسئلے میں اس حد تک انہیں چیک کریں کہ بجائے بحث ومباحثہ میں پڑنے کے

he should stick to the question put by the Attorney-General.‘‘

یہ وہ تاثرات ،خیالات اور خدشات ہیں جو ممبران اسمبلی جماعتی وفد کے جانے کے بعدچیئر مین کے سامنے کرتے تھے۔یہ ممبران اسمبلی اس کارروائی کو دیکھ اور سن رہے تھے ۔ ان کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ جوابات لمبے دے رہے ہیں ،مباحثہ کرتے ہیں ،اٹارنی جنرل کو سوالات کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ کون سا سوال ان سے پوچھنا چاہیے ،جرح کرتے ہیں ،تکرار کرتے ہیں۔اب اسمبلی ممبران کے ان تاثرات اور خیالات کو ذہن میں رکھ کردوبارہ شائع شدہ جلد نمبر 1میں ہونے والی کارروائی کو پڑھیں تو یہ سب تاثرات اور خیالات اس سے مطابقت کھاتے نظر نہیں آتے۔جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ شائع شدہ کارروائی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے کم وبیش 170جوابات کو ڈاٹس (…)لگا کر نامکمل شائع کیا گیا ہے۔جو شائع کیے ہیں ان میں لمبے جوابات ،جرح،تکرار والی کوئی بات نظر نہیں آتی۔اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مولانا ظفر انصاری صاحب نے ’’تصحیح‘‘ اور ’’اغلاط سے پاک ‘‘کرنے کے حوالے سے کافی ’’محنت‘‘کی ہے۔

جلد نمبر 1میں شائع شدہ کارروائی سےمولوی حضرات کی نفرت اور بغض کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاہ احمد نورانی کارروائی کے آخر پر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ’’مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی :خلیفہ ناصر احمد سے کہیں وہ کھڑے ہوکر جواب دیا کریں‘‘

یعنی ان مولانا حضرات کو یہ بات بھی ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ بیٹھ کر کیوں جواب دے رہے ہیں ۔انہیں کھڑا ہو کر جواب دینا چاہیے ۔

اب مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کی ایک اور ’’تصحیح‘‘کی طرف اشارہ دینا مقصود ہے کہ جلد نمبر 1کی مکمل کارروائی پڑھ جائیں جہاں پر ان مولانا حضرات کا نام آئے گا تو وہاں پورے نام سے آئے گا جیسے مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی وغیرہ حالانکہ ان کا معروف نام شاہ احمد نورانی ہی ہے لیکن یہاں خاص طور پر صدیقی لگایا گیا ہے اور مولانا تو ہر مولوی صاحب کے نام کےساتھ لگایا گیا ہے شاید مسلکیاختلاف کی وجہ سے کسی کے نام کے ساتھ نہ لگایا ہو لیکن پوری کارروائی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا نام ’’مرزا ناصر احمد‘‘لکھا ہے حالانکہ آپؒ پوری دنیا میں پھیلی جماعت احمدیہ کے امام اور خلیفہ تھے اور آپ کی بیعت کرنے والےپوری دنیا میں موجود تھے۔جب ایک ہی جگہ دو افراد کا ذکر ہو اور ایک کے نام کے ساتھ پورے القابات ہوں اور دوسرے کے ساتھ نہ کیے جائیں تو یہ بات ایک خاص ذہنیت کو ظاہر کر رہی ہوتی ہے ۔جس ذہنیت اور سوچ نے نام لکھتے ہوئے یہ تفریق روا رکھی وہ کس طرح دونوں طرف کی باتوں کو پورے دلائل اور پوری تفصیل کے ساتھ محفوظ رکھ سکتی ہے جبکہ اسے ایسا کرنے کی پوری آزادی دے دی گئی اور اسے کسی طور سے چیک نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

جلد نمبر 1صفحہ نمبر 144پر اٹارنی جنرل نے اعتراض کے رنگ میں یہ بات کی کہ مولانا مودودی کے نام کے ساتھ مسٹر مودودی لکھا ہوا ہے حالانکہ ان کے ماننے والے انہیں مولانا کہتے ہیں چاہیے کہ ان کے لیے احترام دکھایاجائے ۔حضور نے اس کا بہت زبردست جواب دیا کہ جس جگہ مسٹر مودودی لکھا ہے اسی جگہ پانچ لفظ پہلے مسٹر بھٹو لکھا ہے ۔مسٹر بھٹو لکھنے سے تو تحقیر ظاہر نہیں ہوتی اور مسٹر مودودی سے تحقیر ظاہر ہوتی ہے۔اٹارنی جنرل صاحب اسی بات کو دہراتے رہے کہ اس طرح مودودی صاحب کے بارے میں تواضع کا رویہ نہیں دکھایا گیا۔

اٹارنی جنرل صاحب سے اب یہ پوچھنے والی بات ہے کہ مودودی صاحب کے نام کےساتھ انگریزی زبان کا مسٹر لکھنے سے تحقیر کا پہلو نکلتا ہے تو شائع شدہ کارروائی میں ایک ہی جگہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا نام ’’مرزا ناصر احمد ‘‘اورمخالف احمدیت مولوی کا نام ’’مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی ‘‘لکھنے کی وجہ کیا ہے ؟کیا وہ اس کی کوئی معقول وجہ بیان کر سکتے ہیں ؟اس حوالے سے مولانا ظفر انصاری صاحب سے بھی مشورہ کر سکتے ہیں ۔

باقی 5؍اگست 1974ء کے حوالے سے شائع شدہ کارروائی میں کیا کیا سوال وجواب شامل ہیں ۔اس کے تفصیلی جائزہ کے لیے کتاب ’’دوسری آئینی ترمیم 1974ء خصوصی کمیٹی میں کیا گزری ‘‘کے صفحہ نمبر 150تاصفحہ نمبر 205تک مطالعہ بہت مفید ثابت ہوگا۔اس میں تفصیلی ذکر موجود ہے کہ جس مقصد کے لیے خصوصی کمیٹی بنائی گئی تھی ۔جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کو بطور گواہ کے بلایا گیا تھا ۔اس کمیٹی نے مفوضہ موضوع پر سوالات کرنے کی بجائے ادھر ادھر کی باتوں میں5؍اگست کا دن گزار دیا۔اصل موضوع شروع ہی نہیں کیا ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ بار بار توجہ دلاتے رہے کہ ان سوالات سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوگا جس کے لیے یہ سب کارروائی ہو رہی ہے لیکن اٹارنی جنرل باوجود توجہ دلانے کے اصل موضوع یعنی ختم نبوت پر بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوئے ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button