’’میرا نام طالع احمد ہے……‘‘

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

(سیّد طالع شہید کے ساتھ ایک انٹرویو)

مجھے امید ہے کہ کئی نوجوان اس گفتگو کوسنیں گے۔ میں امید کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ …مجلس اطفال الاحمدیہ اور جماعت آپ سے جو توقعات وابستہ رکھتے ہیں آپ اُن توقعات پر پورا اتریں۔ اور ہم خلافتِ احمدیہ کے خدمت گار بنیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہوں۔ آمین ثم آمین۔

حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ ستمبر 2021ء میں سید طالع احمد شہید کا ذکرِ خیر فرمایا۔ حضورِ انور نے مجلس اطفال الاحمدیہ یوکے کی آن لائن ریلی منعقدہ 25؍ اور 26؍ جولائی 2020ء کے دوران نشر ہونے والے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ گزارے ہوئے مبارک لمحات اور یادداشت پر مبنی شہید مرحوم کے ایک انٹرویو کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ اب وہ وقت ہے کہ وہ یہ واقعات شیئر کرے۔‘‘

اس انٹرویو کے حرف حرف سے شہید مرحوم کی خلافت احمدیہ سے محبت اور وفا اور اخلاص جھلکتا ہے۔ اس انٹرویو کا اردو ترجمہ قارئین الفضل انٹر نیشنل کے لیے پیش ہے۔

سید طالع احمد شہید کہتے ہیں:

میرا نام طالع احمد ہے اور میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے چند سالوں سے ایم ٹی اے میں خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ ایم ٹی اے کی ٹیم کا حصہ ہونے کے باعث مجھے وقتا فوقتا ایسےپرگرامز کو ریکارڈ کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے جن میں حضرت خلیفۃ المسیح بنفسِ نفیس موجود ہوں۔ اس لیے خاکسار کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذاتِ بابرکات کو قریب سے مشاہدہ کرنے کی سعادت نصیب ہوتی رہتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ مجلس اطفال الاحمدیہ نے مجھے (مجلس اطفال الاحمدیہ کی آن لائن ریلی 2020ء) کے لیے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی بابرکت شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دیا ہے۔

سید طالع احمد گھانا میں

ایک پروگرام جس میں مجھے کام کرنے کا موقع ملا وہ

This week with Huzur

ہے۔ یہ پروگرام نومبر2018ء میں شروع کیا گیا تھا۔ اس کی پہلی قسط کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ لیکن دوسرے ہفتے یعنی دوسری قسط میں مجھ سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ مگر چونکہ مجھے معلوم نہ تھا،میں شام کو گھر آیا اور سو گیا اور یہ

پروگرام اس غلطی کے ساتھ ہی نشر ہو گیا۔

آدھی رات کو مجھے ایک میسج موصول ہوا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے پروگرام ملاحظہ فرما یا ہے اور اس میں ایک غلطی کی نشاندہی کی ہے۔ اس لیے اس پروگرام کو تمام سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز سے ہٹا دینا ضروری ہے۔ میں چونکہ سو رہا تھا اس لیے یہ میسج میں نے فجر کے وقت دیکھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ میں سخت پریشان ہوا۔ ایک بات تو یہ تھی کہ مجھ سے ایک بہت بڑی غلطی ہوئی تھی جو ایم ٹی اے پر نشر بھی ہو گئی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کرنے والا خیال یہ تھا کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو مجھ سے مایوسی ہوئی ہو گی۔ اور یہ ایسی تکلیف دہ کیفیت تھی کہ اس کے بیان کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کیونکہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے علم میں تھاکہ وہ غلطی مجھ سے ہوئی ہے۔ تو میرے ایسے ہی جذبات تھے۔ بہرکیف اس پروگرام کو سوشل میڈیا سے ہٹا دیا گیا۔ اسی شام مجھے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ایک ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ میں شش و پنج میں مبتلا تھا کہ مجھے اس ملاقات میں جانا بھی چاہیے یا نہیں۔ لیکن ملاقات میں حاضر تو ہونا ہی تھا۔ میرا خیال تھا کہ پیچھے کہیں چھپ کر بیٹھ جاؤں گا اور کوئی میری جانب متوجہ ہی نہیں ہو گا۔ میں وہاں بیٹھا رہوں گا اور ملاقات کے بعد دوسروں کے ساتھ مل کر چپکے سے نکل جاؤں گا۔ پھر جب میں ملاقات کے لیے پہنچا تو حالات میری توقعات سے بالکل الٹ تھے کیونکہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزتشریف لائے اور ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگے۔ اور ہر مرتبہ جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزہمیں کوئی مزے کی بات سناتے تو مجھے مخاطب کرکے فرماتے

’ہے ناں طالع!‘

اور ساتھ ہی مسکراتے اور تبسم فرمانے لگتے۔ میں اس قدر گھبرایا ہوا تھا کہ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ جواب دوں یا نہ دوں۔ اور یوں میری توقعات کے برعکس حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمیرے ساتھ نہایت شفقت کا سلوک فرما یا اور مجسم شفقت اور محبت بن کر میری غلطی سے درگزر فرمایا۔

تو یہ ایک موقع تھا۔ لیکن بدقسمتی سے جو غلطیاں مجھ سے ہوئیں ان کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ اس پروگرام کے ابتدائی دور میں بعض امور معیاری طور پر پیش نہیں ہو پارہے تھے۔ چنانچہ اس سے ملتا جلتا ہی ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک دفعہ ملاقات کے موقعے پر میرا خیال تھا کہ جس دروازے سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کمرے میں داخل ہونا تھا اُس دروازے کے پیچھے چھپ کر میں حضور کی نظروں سے بچ جاؤں گا اور خاموشی سے ملاقات میں بیٹھا رہوں گا۔ یہ اس وجہ سے تھا کیونکہ جو کام میں کر رہا تھا اس میں بہت سی غلطیاں ہو رہی تھیں اور میں ان کی وجہ سے کافی افسردہ تھا۔ مجھے تو یہاں تک خیال تھا کہ مجھے اس پروگرام پر مزید کام نہیں کرنے دیا جائے گا، اس سے الگ کر دیا جائے گا یا یہ پروگرام ہی ختم کر دیا جائے گا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ پروگرام تو چلتا رہے گا مگر شاید مجھے اس ٹیم سے نکال دیاجائے۔ میں اس خیال کی وجہ سے بہت غمگین تھا۔

لیکن اس روز ایسا ہوا کہ میری سوچوں کے برعکس حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہماری راہنمائی فرمائی کہ اس پروگرام کو جاری رہنا چاہیے اور ہمیں مزید محنت سے کام کرنا چاہیے۔ جب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزدروازے سے داخل ہوئے تو بجائے میرے پاس سے گزر کر آگے جانے کے،

حضور نے میرا بازو پکڑا

اور مجھے مخاطب ہو کر نہایت دھیمی آواز میں تاکہ دوسرے نہ سن سکیں ان غلطیوں کی نشاندھی فرمائی جو میں کر رہا تھا اور فرمایا کہ مجھے آصف باسط صاحب (جو ڈائریکٹر شعبہ پروگرامنگ ایم ٹی اے انٹرنیشنل ہیں) جیسے لوگوں سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ نیز مجھے حوصلہ دیا کہ ان کے ساتھ کام کرنے اور ان سے راہنمائی حاصل کرنے سے بہت جلد میں اپنی کمزوریوں اور غلطیوں پر قابو پالوں گا۔ چنانچہ اگرچہ میں اپنی غلطیوں سے بہت پریشان تھا حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مجھے امید دلائی اور پھر سے میرے حوصلے بلند ہونے لگے۔ اس موقع پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مجھ سے استفسار فرمایا کہ حال ہی میں جو گروپ ملاقات ہوئی تھی کیا تم اس میں موجود تھے؟ میرا جواب نفی میں سن کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ

مجھے ایسی ہر ملاقات میں حاضر ہونا چاہیے۔

سید طالع احمد اُس سکول کے باغیچے سے امرود توڑتے ہوئے جس میں حضورِ انور ایّدہ اللہ بطور واقفِ زندگی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے

کہاں مجھے یہ ڈر تھا کہ شاید مجھے ٹیم سے ہی نکال دیا جائے اور کہاں اس کے برعکس حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ازراہِ شفقت مجھے مزید قریب کر لیا اور پروگرام کی تیاری پر زیادہ توجہ دینے کی ہدایت فرمائی۔

میں اس پروگرام کے دوران ہونے والی غلطیوں کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا لیکن ایک اور غلطی کا تذکرہ ضرور کروں گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مثال کے طور پر جب ہم کوئی فٹبال کا میچ دیکھتے ہیں تو بعض اوقات کمنٹیٹر کہتا ہے اور بعض اوقات خود کھلاڑی بھی کہتے ہیں کہ ہم اس مینیجر کے لیے کسی دیوار سے بھی ٹکرا جائیں گے۔ یقیناً جماعت احمدیہ کا کام ایسا ہےجو ایک فٹبال کے میچ سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خادموں کا ایسے خوبصورت انداز میں خیال رکھتے ہیں اور ان سے مخاطب ہوتے اور پُرحکمت انداز میں ان کی راہنمائی کرتے ہیں کہ وہ جوش و جذبہ سے بھر جاتے ہیں اور حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی ہدایات کی تعمیل میں ہر طرح کی سختی اور مصیبت برداشت کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

اس حوالہ سے میں ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد فضل سے اسلام آباد تشریف لے گئے تو اس موقع پر میں اس ٹیم کا حصہ تھا جس نے ایک پروگرام تیار کیا اور ایک مرتبہ پھر اس میں کچھ خامیاں رہ گئیں خاص طور پر اس لحاظ سے کہ یہ پروگرام اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کی بدولت حضورِ انور کی مسجد فضل سے نئے مرکزِ احمدیت میں منتقلی کی عظمت کو بیان کرنے میں انصاف نہیں کر پا رہا تھا۔ جب یہ پروگرام چیکنگ کے لیے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خدمت میں پیش ہوا تو حضورِ انور نے اس امر کی طرف راہنمائی فرمائی۔ حضورِ انور کا یہ ارشاد ہمیں جمعرات کی رات عشاء کے قریب ملا جبکہ یہ پروگرام اگلے روز جمعہ کی شام کو نشر ہونا تھا۔ بالعموم ایسے پروگرام کو تیارکرنے کے لیے ایک ہفتہ درکار ہوتا ہے۔ ایم ٹی اے کی ٹیم نے اس پروگرام پر ازسر نو کام شروع کرنا تھا اور ہمارے پاس وقت بہت کم تھا۔ اسی وقت ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح کے پریس سیکرٹری اور ایم ٹی اے نیوز کے Head (جن کی نگرانی میں This week with Huzurپروگرام تیار ہوتاہے) مکرم عابد خان صاحب کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے کہ

ایم ٹی اے کے کارکنان کو میرا پیغام پہنچا دیں

کہ ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ کو جلسہ سالانہ کے پہلے دن جگہ کے حوالے سے انتظام میں تنگی محسوس ہوئی اور آپؓ نے اس کا اظہار بھی فرما دیا۔ اس وقت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب …… نے یہ سنتے ہی ڈیوٹی والے خدام کو اکٹھا کیا اور ساری رات کام کر کے اگلے دن تک جلسہ گاہ میں وسعت پیدا کر دی۔ اگلے روز جب حضرت مصلح موعودؓ تشریف لائے تو آپ نے اظہارِ خوشنودی فرمایا۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا کہ واقف زندگی اور ایم ٹی اے کے کارکن ہونے کی حیثیت میں ہمارے کام کا وقت رات 8:00بجے ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ہمارا وقت تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک کام ختم نہ ہو جائے۔ اب ایک طر ف تو ہمیں یہ بتایا گیا کہ جو پروگرام تیا ر ہوا تھا وہ معیاری نہ تھا اور دوسری طرف حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہمیں کس قدر جوش و جذبہ عطا فرما دیا اور پُرامید کر دیا کہ اگر ہم صرف ایک پوری رات اَور محنت کر لیں تو حضور ہم سے ایسے ہی خوش ہوجائیں گے جیسے حضرت مصلح موعودؓ خدام سے ہوئے تھے۔ ان الفاظ کے سننے کے بعد سہراب ذیشان صاحب (پروڈکشن)، سعید وسیم صاحب اور خاکسار اس رات صبح فجر تک کام کرتے رہے اور پھر صبح بھی جلدہی کام شروع کر دیا اور سارا دن اس پروگرام کو تیار کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ کام بروقت مکمل ہو گیا اوریہ پروگرام اپنے مقررہ وقت پر نشر ہوا۔ بالعموم پروگرام This Week with Huzur کی تیاری میں ہمیں پورا ہفتہ لگتا ہے مگر اس موقع پر یہ ایک رات میں ہی تیار ہو گیا۔ اور

یہ سب حضورِ انور کی ہدایات اور توجہ کے سبب ممکن ہوا۔

اگرچہ یہ قسط 24گھنٹے سے بھی کم وقت میں تیار ہوئی مگر یہ پروگرام کسی بھی دوسرے پروگرام کی نسبت زیادہ پسند کیا گیا اور اس کے ناظرین کی تعداد دوسری اقساط سے بہت زیادہ رہی۔ اور آج تک ایسا ہی ہے۔

اس پروگرام کے ابتدائی مراحل میں غلطیاں ہونے کے بعد خاکسار نے اپنے شعبہ کے نگران مکرم عابد خان صاحب کو مشورہ دیا کہ بہتر یہ ہو گا کہ ہماری نیوز ٹیم براہِ راست حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملاقات کرکے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے راہنمائی حاصل کرے۔ اللہ کے فضل سے حضورِ انور نے اس درخواست کو قبول فرما لیا اور ایم ٹی اے نیوز کے واقفینِ زندگی کارکنان کو ملاقات کے لیے اسلام آباد حاضر ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس ملاقات کے دوران مَیں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے پوچھا کہ حضور کی اس پروگرام This week with Huzurسے کیا توقعات ہیں۔ حضورِ انور کے جواب نے مجھے حیران کردیا۔ حضور نے فرمایا

بات میری توقعات کی نہیں بلکہ دنیا بھر کے احمدیوں کی توقعات کی ہے۔

اس لیے آپ کو احمدی ناظرین سے بات کرنی چاہیے کہ اس پروگرام کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے نیز یہ کہ اسے کس طرح بہتر کیا جا سکتا ہے۔ حضورِ انور کے اس جواب سے جہاں حضورِ انور کی کمال عاجزی اور انکساری جھلکتی تھی وہاں دنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں سے حضورِ انور کی محبت کا اظہار نظر آتا تھا۔ یہاں مجھے حضور انور کا وہ ارشاد یاد آگیا جو آپ نے 2014ء میں یوں بیان فرمایا تھا کہ ’’دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لیے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔‘‘

ایک اَور چیز جس کے بارے میں مَیں بات کرنا چاہتا ہوں اور جس کو ہم نے اس پروگرام This week with Huzurمیں coverکرنے کی کوشش کی ہے وہ مصروفیات سے معمور حضورِ انور کا روزمرہ کا معمول ہے۔ خاص طور پر جب حضورِ انور مسجد فضل میںرہائش پذیر تھے تو ہم نے

حضورِانور کی ایک دن کی مصروفیات

پر مبنی ایک قسط تیار کی جس میں حضورِ انور نے ہمیں بتایا کہ حضور نمازِ فجر سے قبل تہجد کے لیے بیدار ہوتے ہیں۔ پھر حضورِ انور صبح کے وقت اپنے دفتری کام کا آغاز فرماتے ہیں۔ پھر دن کے ابتدائی حصہ میں دفتری ملاقاتیں ہوتی ہیں جن میں جماعتِ احمدیہ عالمگیر کے ذمہ دار افراد حضور انور کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی ذمہ داریوں سے متعلق راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ پھر شام کو کئی احمدی فیملیز سے طے شدہ شیڈیول کے مطابق ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ اور یہ معمول حضور انور کا اس وقت تھا جب حضور مسجد فضل میں رہائش پذیر تھے۔ مجھے مکرم منیر جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری نے بتایا کہ حضورِ انور کو ہر ہفتے دس ہزار خط موصول ہوتے ہیں اورحضور ذاتی طور پر سینکڑوں خطوط کا جواب دیتے ہیں اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ اب یہ تعداد مزید بڑھ گئی ہے۔ تو حضورِ انور کا معمول بہت مصروف ہوتا ہے۔

ایم ٹی اے نیوز کی ٹیم حضورِ انور کی معیت میں

ایک اور چیز جو ہم نے دیکھی ہے کہ ایک شام کو عشاء کے بعد حضورِ انور نے اپنے خاندان کے بعض افراد کو ملاقات کے لیے مدعو کیا اور گرمیوں میں کیونکہ عشاء کی نماز بہت دیر سے ادا ہوتی ہے اس لیے اندازہ تھا کہ اس ملاقات کے اختتام تک شاید دس بج جائیں گےاور ایسا ہی ہوا کہ یہ ملاقات دس بجے کے قریب ختم ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ حضورِ انور اس ملاقات کے بعد دوبارہ دفتر تشریف لے گئے اور اپنے دفتری کاموں میں مصروف ہو گئے جبکہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری خالی تھا۔ دفترپرائیویٹ سیکرٹری کا سٹاف اس وقت جا چکا ہوتا ہے یا جانے کی تیاری میں ہوتا ہے۔

میں نے عام دنوں میں حضورِ انور کے مصروف معمولات کا ذکر کیا ہے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ

جلسہ کے ایام میں حضور کی مصروفیات

کس قدر بڑھ جاتی ہوں گی۔ جلسہ سالانہ 2019ء کے دوران ہم نے دیکھا کہ حضور کی میٹنگز بھی چل رہی تھیں اور ان کے ساتھ ساتھ حضور نے پانچ خطابات بھی فرمائے۔ ان تقاریر کی تیاری کرنا پھر خطاب فرمانا اور پھر عالمی بیعت وغیرہ، ان سب کے ساتھ ساتھ یہ میٹنگز رات گئے تک جاری رہتیں۔ پھر ایسے وفود سے جن کے لیے دورانِ جلسہ وقت نکالنا ممکن نہیں ہوتا جلسہ کے کئی دن بعد تک ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ملاقاتیں بلاشبہ ہر روز کئی گھنٹوں تک جاری رہتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روزانہ 70سے زائد فیملیز بھی حضورِ انور سے شرفِ ملاقات حاصل کرتی رہیں۔

حضورِ انور کی اس قدر مصروفیات کو دیکھتے ہوئے ایم ٹی اے کی ٹیم نے از خود یہ فیصلہ کر لیا کہ جلسہ کے ایام میں پروگرام This week with Huzur کو نشر کرنے سے قبل حضورِ انور کو ملاحظہ کے لیے پیش نہیں کریں گے تاکہ اسے دیکھنے میں حضورِ انور کا وقت ضائع نہ ہو، حضور پر مزید بوجھ نہ پڑے۔

یہ بھی پڑھیے:

اس قسط کے نشر ہونے کے اگلے دن جب وفود کی حضورِ انور کے ساتھ ملاقاتیں چل رہی تھیں اور میں بھی وہاں ویڈیوگرافی کر رہا تھا عابد خان صاحب نے جو ایم ٹی اے نیوز کے ہیڈ بھی ہیں، بطور پریس سیکرٹری وہاں موجود تھے ایک وفد کے حضور کے دفتر سے نکلنے اور دوسرے وفد کے داخل ہونے کے درمیان حضورِ انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم نے گزشتہ روزThis week with Huzur کی قسط نشر کر دی ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا ہاں مجھے پتہ ہے اور میں نے دیکھی ہے، ٹھیک ہے اب آپ نے نشر کر دی ہے مگر آپ نے اسے منظوری کے لیے میرے پاس نہیں بھجوایا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قدر مصروفیت کے باوجود جبکہ حضور کو آرام کے لیے بھی مشکل سے چند لمحے میسر آتے ہوں گے حضور کتنی سنجیدگی سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے اور ہر شعبہ پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے تھے۔

میں نے حضورِ انور کے

خاندان کے افراد کی حضور انور سے ملاقات

کا ذکر کیا ہے۔ میرا بیٹا طلال جو اس وقت ایک سال کا ہو گا اس نے ایک بچگانہ سی عادت اپنائی ہوئی تھی۔ تو ملاقات کے اختتام پر جب حضور اپنے گھر سے دفتر جانے کے لیے باہر تشریف لاتے تو میرا بیٹا حضور انور کے پیچھے دوڑتا اور کہنے لگتا کہ ’باہر جانا ہے، باہر جانا ہے‘ اور کیونکہ وہ ابھی بولنا سیکھ رہا تھا اسے الفاظ کے درست استعمال کا معلوم نہیں تھا۔ میرے خیال میں وہ یہ دیکھنے کے لیے حضورِ انور کے ساتھ باہر جانا چاہتا تھا کہ اس ملاقات کے بعد حضور کہاں تشریف لے جاتے ہیں۔ ایسا کئی مرتبہ ہوا۔ میں ہمیشہ اپنے بیٹے کو روکے رکھتا اور کوشش کرتا کہ وہ حضور کے لیے کوئی پریشانی نہ بنا دے۔ غالباً تیسری یا چوتھی مرتبہ جب یہ ہوا تو حضور اُس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے اپنے ساتھ جانے کے لیے بلایا۔ پھر ہم نے یہ دل نشین منظر دیکھا کہ حضورِ انور سیڑھیوں سے نیچے تشریف لےجا رہے تھے اور میرا بیٹا حضورِ انور کا ہاتھ تھامے حضور کے ساتھ چل رہا تھا۔ میرے بیٹے نے ابھی چلنا سیکھا ہی تھا چنانچہ چند قدم چلنے کے بعد حضورِ انور کو یہ محسوس ہوا کہ اسے خود چل کر سیڑھیاں اترنے میں کافی وقت لگ جائے گا۔ تو حضور نے میرے بیٹے کو اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے اور وہ بخوشی تیار ہوگیا۔ حضورنے اس کو اٹھا لیا اور اپنے ساتھ سیڑھیوں سے نیچےلے گئے۔ پھر سیڑھیاں اتر کر حضور اپنے دفتر تشریف لے گئے۔ اس وقت تک تو میں پیچھے پیچھے آتا رہا تاکہ خیال رکھوں کہ میرا بیٹا حضورِ انور کے شایانِ شان ادب سے پیش آئے۔ لیکن جب حضور دفتر میں تشریف لے گئے تو میں نے حضورِ انور کی اجازت کے بغیر دفتر میں داخل ہونا مناسب نہ سمجھا۔ خیر ایک یادو منٹ کے بعد جب حضور کے دفتر کا دروازہ کھلا تو منظر کچھ یوں تھا کہ حضور نے میرے بیٹے کو اٹھایا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں چاکلیٹس کا ایک بڑا ڈبہ ہے۔ اصل بات یہ ہے اور ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی ٹیم اس بات کی گواہ ہے کہ میرے میں یا میرے بیٹے میں کوئی خصوصیت نہیں تھی۔ ہاں دنیا میں کہیں بھی بچے حضور سے ملیں تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسی طرح ان سے شفقت اور محبت کا سلوک فرماتے ہیں۔

حضور کے خاندان کے افراد کی ملاقات بالعموم 5سے10منٹ تک چلتی ہے مگر بعض اوقات یہ ملاقاتیں لمبی بھی ہو جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک ملاقات مجھے یاد ہے کہ حضور کی کزن خالہ امۃالحئی صاحبہ بہت سخت بیمار تھیں بلکہ اپنی زندگی کے آخری مراحل میں تھیں اور انہیں ڈاکٹرز نے مکمل آرام کا کہا ہوا تھا لیکن خلافت سے محبت اور حضورِ انور سے قربت کا ایسا جذبہ تھا کہ عشاء کے بعد اس ملاقات کے لیے تشریف لے آئیں۔ چنانچہ حضورِ انور کے ساتھ یہ ملاقات کم ازکم 40منٹ تک جاری رہی۔ مجھے یقین ہے کہ حضورِانور کی توجہ اور شفقت خالہ امتہ الحئی صاحبہ کے لیے ضرور سکون اور تسکین کا باعث ہوئی ہو گی۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ ایسی طویل ملاقاتوں کے بعد بھی حضور اپنے دفتر تشریف لے گئے اور اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔

بیماروں سے شفقت فرمانے کا یہ سلوک صرف خالہ امۃالحئی صاحبہ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ دنیا بھر کے احمدی گواہ ہیں کہ حضور بیماری میں مبتلا لوگوں سے خاص شفقت کا سلوک فرماتے ہیں۔ بلکہ یہ صفت حضورِ انور کی شخصیت کا ایسا حصہ ہے جس کا دائرہ نہ صرف جماعت احمدیہ بلکہ پوری انسانیت پر محیط ہے۔

میں ایک دفعہ اطہر زبیر صاحب کا انٹرویو کر رہا تھا جنہیں دنیا کے مختلف ممالک میں حضورِ انور کے قافلے کاحصہ بن کر کئی دورہ جات پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ انہوں نے مجھے

ایک ایمان افروز واقعہ

سنایا کہ 2018ء میں حضورِ انور سپین کے دورہ پر تشریف لے گئے اور اطہر زبیر صاحب کو بھی قافلے کے ساتھ جانے کی سعادت ملی۔ لیکن اطہرزبیر صاحب کو یہ شکایت تھی کہ سفر کرنے سے انہیں بخار ہو جاتا۔ چنانچہ اس دورے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ انہیں پہلے یا دوسرے دن بخار چڑھ گیا۔ تیسرے دن تو طبیعت اتنی زیادہ خراب ہو گئی کہ وہ فجر کی نماز پر مسجد بھی نہ آسکے۔ ظہر کی نماز پر حضورِ انور نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ فجر پر نظر نہیں آئے، آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ اطہر زبیر صاحب نے اپنی کیفیت بیان کی تو حضورِ انور نے تھوڑی دیر کے لیے ان کو پکڑے رکھا اور فرمایا کہ ’یہ بخار اب چلا گیا ہے۔‘ جس وقت میں اطہر صاحب کا انٹرویو کر رہا تھا اس واقعہ کو ایک سال گزر چکا تھا اور اطہر صاحب نے بتایا کہ ان کو اس سے پہلے اکثر و بیشتر اور بالخصوص دورانِ سفر بخار ہو جاتا تھا مگر اس دن شام تک جو بخار ٹوٹا تو پھر دوبارہ نہیں ہوا۔ اطہر صاحب کے گھر والے اور دیگر عزیز جنہیں ان کی اس بیماری کا علم تھا وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیسے ٹھیک ہو گئے ہیں؟ وہ سب کو یہی جواب دیتے ہیں کہ حضور نے میرے لیے دعا کی ہے!

سید طالع احمد شہید بستانِ احمد گھانا میں (15؍ اگست 2021ء)

اسی قسم کا ایک واقعہ

میرے ساتھ بھی پیش آیا۔ امید ہے یہ لوگوں کے ایمان میں اضافے کا موجب ہو گا۔ ایک دفعہ فٹبال کھیلتے ہوئے مجھے hamstringمیں تکلیف ہو گئی۔ میں نے حضور کو خط لکھنے کا ارادہ کیا۔ میں نے کئی لوگوں سے سن رکھاتھا کہ حضور کو خط بہت مختصر لکھنا چاہیے تاکہ حضور کا وقت ضائع نہ ہو۔ میرے خیال میں یہ ایک اچھی نصیحت تھی۔ دوسرے یہ کہ خط ہاتھ سے لکھنا چاہیے کیونکہ اس سے خط میں خلیفۂ وقت سے ایک ذاتی تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔ مجھے ان دنوں کچھ مالی پریشانی کا بھی سامنا تھا۔ چنانچہ ان باتوں کے پیشِ نظر مَیں نے حضور کی خدمت میں ہا تھ سےخط لکھا جس میں معمول کی باتوں کے بعد تحریر کیا کہ مجھے صحت کے مسائل اور مالی پریشانی ہے۔ حضور سے دعا کی درخواست ہے۔ اگلے روز مجھے ایک غیر مانوس فون نمبر سے کال موصول ہوئی۔ میں نے فون اٹھایا تو حضور کے دفتر، پرائیویٹ سیکرٹری آفس سے ایک دوست کا فون تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ حضورِ انور نے آپ کا خط پڑھا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کون سا خط! اس پر انہوں نے بتایا کہ جس میں آپ نے اپنی صحت اور مالی پریشانی کے بارے میں لکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حضور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ کل صبح آ جائیں۔

اگلے دن میں ملاقات کے لیے حاضر ہوگیا۔ حضورِ انور کے دفتر داخل ہوا تو حضور نے پہلے میری صحت کے بارے میں استفسار فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میری ٹانگ میں چوٹ لگی ہے۔ پھر فرمایا کہ مالی پریشانی کیا ہے؟ عرض کیا کہ مجھے پارکنگ ٹکٹس ملی ہیں۔ حضور نے فرمایا اپنی صحت کے متعلق مجھے تفصیل سے لکھو تاکہ میں تمہارے لیے دوا تجویز کر سکوں۔ اور جہاں تک تمہاری مالی پریشانی کا تعلق ہے تو آئندہ پارکنگ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا۔ نیز فرمایا کہ آئندہ مجھے ہاتھ سے خط نہ لکھنا کیونکہ تمہارا خط تمہارے علاوہ کسی کے لیے بھی پڑھنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے آئندہ ٹائپ کر کے خط لکھا کرو۔ وہ ملاقات تو ختم ہو گئی لیکن

ایک دلچسپ بات

یہ ہوئی کہ جونہی یہ ملاقات ختم ہوئی مجھے hamstring کی تکلیف میں بہت افاقہ محسوس ہوا۔ میرے دوست جنہیں پہلے یہ تکلیف ہو چکی تھی ان کا خیال تھا کہ مجھے صحت یاب ہونے میں کم از کم تین ہفتے سے ایک ماہ تک کا وقت لگے گا۔مگر میں گویا فوراً ہی صحتیاب ہو گیا اور لوگوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ میں اتنی جلدی کیسے دوبارہ فٹ بال کھیلنے کے قابل ہو گیا ہوں۔ جہاں تک

مالی پریشانی

کا تعلق ہے تو مجھے گذشتہ چند مہینوں کے دوران اپنے گھر کے باہر ایک ہی کونسل کی جانب سے تین پارکنگ ٹکٹیں لگ چکی تھیں۔ اور میں نے ان تینوں کی اپیل کر رکھی تھی۔ اپیل کے پہلے دو مراحل میں مَیں نے حضور کو دعا کے لیے نہیں لکھا تھا اور میری اپیل مسترد کر دی گئی تھی۔ جب میں نے تیسری مرتبہ اپیل کی تو دو مہینے گزر گئے اور کونسل کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔ میں نے انہیں لکھا کہ میں نے اپنی پارکنگ کے جرمانوں کے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی ہیں اور آپ کی طرف سے ان کا کوئی فیصلہ موصول نہیں ہوا۔ اس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ ہمارے نزدیک غلطی چونکہ تمہاری تھی اس لیے پارکنگ ٹکٹ درست طور پر جاری کی گئی تھی لیکن اب کیونکہ دو ماہ گزر چکے ہیں اس لیے ہم تمہیں جرمانہ ادا کرنے پر قانوناً مجبور نہیں کر سکتے۔ یوں پارکنگ ٹکٹس بھی خارج کر دی گئیں۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ کے فضل سے میرے یہ دونوں معاملات حضور کی خدمت میں دعائیہ خط لکھنے کے نتیجے میں حل ہوئے۔الحمدللہ

میں اب ایک نسبتازیادہ سنجیدہ اور اہم بات بیان کر نا چاہتا ہوں۔ جب میری اہلیہ امید سے تھیں تو ان کو بھی صحت کے کچھ مسائل تھے۔ ہماری حضرت امیرالمومنین سے ملاقات تھی۔ اس موقع پر کافی لوگ موجود تھے، صرف میں اور میری اہلیہ نہیں تھے۔ تو دورانِ ملاقات حضور انور نے میری اہلیہ کے چہرے پر کچھ پریشانی کے اثرات دیکھے۔ جب ہم گھر سے نکلے تھے تو میری اہلیہ ٹھیک تھیں، اگر ان کی طبیعت ٹھیک نہ ہوتی تو میں انہیں سفر نہ کرواتا۔ لیکن سفر کی وجہ سے جب ہم اسلام آباد کے قریب پہنچے تو اُن کی طبیعت کچھ ناساز ہو گئی۔

حضور نے جب اُن کی طرف دیکھا تو جان گئے

کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ حضور نے اپنی نواسی کو فرمایا کہ میری اہلیہ کو کچن میں لے جائیں اور فلاں دوا دے دیں۔ ان کے جانے کے بعد حضورِ انور کو تسلی نہ ہوئی اور چند لمحے خاموش رہنے کے بعد حضور انور بھی ان کے پیچھے کچن میں تشریف لے گئے۔ ملاقات ختم ہو گئی۔ کچن میں جا کر حضور نے پانی میں چینی گھولی اور اس میں دوا ملا کر میری اہلیہ کو دی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ انور کی تشخیص بالکل درست تھی کیونکہ اس کے چند منٹ بعد میری اہلیہ کی طبیعت سنبھلنے لگی اور ہم گھر واپس جانے کے قابل ہو گئے۔ حضور انور اور حضور کے اہلِ خانہ کی ہم پر شفقت یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ جب ہم گھر کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو حضورکی حرم محترم خالہ سبوحی صاحبہ نے ہمیں کہا کہ

گھر پہنچتے ہی خیریت کی اطلاع دینا۔

مجھے یقین ہے کہ حضور اور حضور کے اہلِ خانہ ہمارے خیریت سے گھر پہنچ جانے کی دعائیں کرتے رہے ہونگے۔

اگرچہ میری اہلیہ کی طبیعت وقت طور پر سنبھل گئی تھی لیکن کچھ عرصہ بعد ایک دفعہ پھر میری اہلیہ کی طبیعت اس قدر خراب ہوگئی کہ ہمیں ہسپتال جانا پڑا۔ جب حضورِ انور کو پتہ چلا تو حضور نے فوراًدوائی تجویز فرمائی مگر معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو تسلی نہ ہوئی تو کسی کے ذریعہ پیغام ملا کہ حضور نے دریافت فرمایا ہے کہ

کیا یہ ادویہ آپ کے پاس موجود ہیں۔

اس پر حضور انور کو بتایا گیا کہ یہ ادویہ گھر میں موجود نہیں ہیں۔تو باوجودیکہ جلسہ سالانہ کی مصروفیات والے دن تھے،خاندان کے افراد بھی دیگر ممالک سے آئے ہوئےتھےاور جلسہ کے لیے اسلام آباد ٹھہرے ہوئے تھے۔حضورِ انور نے اپنے بھتیجے اور بھتیجی کو اسلام آباد سے لندن بھجوایا کہ ہمیں دوائی پہنچا دیں اور اس وقت غالباً آدھی رات کا وقت تھا جب انہوں نے وہ دوائی St. Georges Hospital Tooting میں ہمیں پہنچائی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور انور احباب جماعت کے لیے کس قدر فکر مند رہتے ہیں خاص طورپر جب کسی کی بیماری یا تکلیف کی اطلاع ملتی ہے۔حضور انور کی راہنمائی اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور میری اہلیہ بالکل ٹھیک ہوگئیں اور چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوسرے بچے سے نوازا۔

ایک چیز جو ہم حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شخصیت میں دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ

حضور بحیثیت خلیفۂ خامس اس دور میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بہترین نمائندہ ہیں۔

یقینی طورپر آپ خلیفۂ وقت ہیں۔ حضورِ انور کی بیماروں کے لیے ایسی فکر مندی ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یاد دلاتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں جب ڈاکٹرز کسی کے بارے میں مایوس ہو جاتے کہ اس کی زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں تو حضور ان کے لیے دعا کرتے اور فکر کا اظہار فرماتے اور اللہ تعالیٰ انہیں معجزانہ شفا سے نوازدیتا۔ بعض لوگوں کے بارے میں ڈاکٹرز نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ وہ جلد اپنی بینائی کھو دیں گے تو حضورؑ ان کے لیے دعا کرتے یا بعض واقعات ایسے بھی ہوئے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بابرکت لمس سے وہ معجزانہ طوپر پر شفاپا گئے۔ اس طرح ان مشابہتوں سے حضور انور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد دلادیتے ہیں۔لیکن یہ مشابہت کا صرف ایک پہلو ہی نہیں ہے دیگر مشابہتیں بھی ہیں۔

ایک معروف واقعہ ہے کہ چندمخالفین نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف برٹش انڈیا کے ایک مجسٹریٹ کواکسایا اور حضورؑ پر جھوٹے الزامات لگا کر یہ منصوبہ بنایا کہ حضورؑ کو لمبے عرصے کے لیے قید کروا دیں۔ انہوں نے حضورؑ کو چند توہین آمیز پیغامات بھی بھجوائے۔ جب اس کی خبر حضور علیہ السلام کو ہوئی تو حضورؑ نے فرمایا کہ

میں خدا کا شیر ہوں!

وہ اپنی کوشش کر کے دیکھ لیں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے آپ کو دشمن کی سازشوں سے محفوظ رکھا اور وہ اپنے ارادوں میں ناکام ونامراد ہوگئے۔مجھے جس چیز نے زیادہ متاثر کیا ہے وہ آپ علیہ السلام کا ’خدا کا شیر‘ کے الفاظ کا چناؤ ہے۔اور اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ہمیشہ اسلام کے دفاع کے لیے مستعد رہتے، اللہ تعالیٰ اور آنحضرتﷺ کے دفاع کے لیے کسی بھی دشمن اور حالات کی کچھ بھی پروا نہ کرتے اور نہ ہی دشمنوں کے خطرناک ارادوں کو خاطر میں لاتے۔

یہ وہ عظیم الشان صفت ہے جو مَیں نے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میں مشاہدہ کی ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 2019ء کے دورۂ جرمنی کے دوران حضور انور برلن میں تھے۔ حضور ایک صبح جب دفتر تشریف لائے تو وہاں

ایک صحافی پہلے سے حضور کی منتظر بیٹھی تھی۔

حضور کے آتے ہی اس نے حضور کا انٹرویو ریکارڈ کرنا شروع کر دیا۔ وہ سوال پوچھتی جاتی اور حضور جواب دیتے جاتے۔ اگرچہ وہ صحافی بظاہر نہایت نرم لہجے میں سوالات کر رہی تھی مگر اس نے اسلام مخالف رنگ میں تحقیق کررکھی تھی اور اس کے سوالات کسی خاص ایجنڈے کے تحت معلوم ہوتے تھے۔ تمام سوالوں میں وہ کسی نہ کسی طرح اسلام پر حملے کر رہی تھی۔ حضور نے نہایت تحمل اور شفقت اور محبت سے اس کے سوالات کے جواب دیے۔ان سوالات کاایک بڑا حصہ اسلام میں عورتوں کے حقوق اور ان سے ہونے والے ناروا سلوک سے متعلق تھا۔ حضور انور نے اسے فرمایا کہ ہماری عورتوں کی اپنی تنظیم ہے اور وہ بہت فعال ہے۔اگر آپ کبھی بھی ہمارے اجتماع یا جلسہ سالانہ کو دیکھیں تو آپ دیکھیں گی کہ عورتیں خود اپنے پروگرام تشکیل دیتی ہیں۔اور وہ بہت فعال ہیں اور ہماری جماعت میں ایک بڑی تعداد میں عورتیں ڈاکٹرز، ٹیچرز، آرکیٹیکٹس بھی ہیں اور وہ کام کرنے کے لیے باہر بھی جاتی ہیں۔وہ باہر جاکر اپنی تنظیمی میٹنگز کرتی ہیں اور پروگرام منعقد کرتی ہیں اور انکا اپنا ایک الگ نظام ہے۔

اس پر صحافی خاتون نے کہا کہ بہت سے لوگ جرمنی میں یہ سوال کرتے ہیںکہ

عورتوں کا نظام الگ کیوں ہے؟

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہماراماننا ہے کہ عورتیں مردوں کے سائے سے ہٹ کر زیادہ اچھی طرح نشوونما پا سکتی ہیں۔ جیسے ایک بڑے درخت کے نیچے ایک چھوٹا درخت اچھی طرح نشونما نہیں پاسکتا اس لیے اگر وہ آزاد ہوں گی اور الگ ہوں گی تو ان کی صلاحیتیں بہتر طورپر نکھر کر سامنے آئیں گی۔ مگر ساتھ ساتھ ان کے اپنے حقوق ہیں،اسلام انہیں طلاق کا حق دیتا ہے،اسلام انہیں وراثت کا حق دیتا ہے۔ مزید یہ کہ اسلام میں عورتوں کے دیگر حقوق ہیں جو چند دہائیوں پہلے تک مغرب میں بھی نظرانداز کر دیے جاتے تھے۔اب اگرچہ آپ مغربی خواتین کے پاس وہ حقوق ہیں لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ عورتوں کو حقوق کے چیمپئن ہیں۔ بلکہ دراصل اسلام ہی ہے جو عورتوں کو حقوق فراہم کرنے کا چیمپئن ہے۔

یوں یہ انٹرویو اختتام پذیر ہوا اور حضور انور نے نہایت خوبصورتی سے ان سوالات کے جوابات عطا فرمائے۔

اس انٹرویو کے اختتام پر ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ حضورِانور نے اس صحافی خاتون سے معذرت کی کہ کیونکہ مجھے اس انٹرویو کے بارے میں علم نہیں تھااس لیے ممکن ہے کہ آپ کو میرا کچھ انتظار کرناپڑا ہو۔ اور چونکہ اس انٹرویو کا ذکر حضور کے پروگرام میں نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ حضور کو اس کے بارے میں اسی وقت معلوم ہوا جب حضور اپنے دفتر تشریف لائے۔میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ گویا حضور کے دفتر میں ایک مخالفانہ علمی محاذ کھولا گیا اور بجائے حیرت اور پریشانی کے حضور انور نے نہایت اعلیٰ طریق پر اس صحافی کے سوالات کے جوابات دیے اور بالآخر ایک فاتح کی حیثیت سے اس انٹریو کا اختتام فرمایا۔

اسلام کے عظیم الشان دفاع کی ایک اَور مثال

گزشتہ سال 2019ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر مشاہدہ میں آئی۔جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے حضورِ انور ان دنوں میں بے حد مصروف ہوتے ہیں۔سپین سے ایک وفد آیا ہواتھا۔اس واقعہ کا پس منظر بیان کردوں کہ جلسے سے ایک ہفتہ پہلے یوکے میں میڈیا پر ایک بحث چل رہی تھی۔ وزیرِ اعظم برطانیہ Boris Johnson نے پریتی پٹیل نامی سیاست دان خاتون کو ایک بڑے عہدے پر فائز کیا تھا اور میڈیا میں اُس خاتون کے ماضی میں سزائے موت کی تائید میں دیے جانے والے بعض بیانات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ چنانچہ شدید دباؤمیں پریتی پٹیل نے نے بی بی سی کو انٹرویو دیا اور اُن کی وضاحت کو کئی اخبارات نے شائع بھی کیا کہ وہ اپنے سابقہ بیانات کو مسترد کرتی ہیں نیز یہ کہ اب وہ سزائے موت کے حق میں نہیں ہیں۔

جب سپین سے آئے ہوئے وفد سے ملاقات ہوئی تو ایک سیاستدان نے حضور سے پوچھا کہ میری بیٹی کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ اسلام میں ایسے جرائم کرنے والے شخص کے لیے کیا سزا ہے؟ جس وقت اس سیاست دان نے یہ سوال کیا تو میں ویڈیو بنا رہا تھا۔ مجھے کچھ گھبراہٹ سی ہوئی کہ حضور اس سوال کا جواب کیا عطا فرمائیں گے، خاص طورپر ان حالات میں جو گزشتہ ہفتے سے میڈیا میں بحث مباحثہ چل رہا تھا۔ پھر مزید یہ کہ یورپین ممالک بھی سزائے موت کے خلاف ہیں اور یہ بھی پریشانی تھی کہ سپینش وفد کا حضور کے جواب پر کیا رد عمل ہوگا۔لیکن حضورِ انور نے فوراً جواب دیا کہ یہ ایک سفّاکانہ جرم ہے اور

سزائے موت ہی اس کی سزا ہے۔

میرے علاوہ اس کمرے میں موجود دیگر احمدی احباب بھی اس سوال کو سن کر گھبرائے ہوئے تھے اس لیے حضور کا جواب انگریزی سے سپینش میں ترجمہ کرنے سے پہلے مترجم نے حضور سے دوبارہ آہستگی سے پوچھا کہ کیا حضور نے یہی فرمایا ہے کہ اس کی سزا سزائے موت ہے۔حضور نے پورے اعتماد کے ساتھ دوبارہ اپنے جواب کو دہرایا اور پھر اس کا ترجمہ پیش کیاگیا۔ حضور نے مزید وضاحت فرمائی کہ ہاں اسلام میں معاف کرنے کی اجازت بھی ہے اور وہ معافی کا اختیار صرف اور صرف مقتول کی فیملی کو ہے نیز یہ کہ کوئی گورنمنٹ یا عدالت اس بات کا اختیار نہیں رکھتی کہ وہ معاف کردے۔

جب اس سپینش سیاست دان نے یہ سنا تو اس نے مائیکرو فون پکڑا اور کہا کہ

آپ کے جواب نے میرے دل سے بے چینی دور کر دی ہے۔

میں اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے جرم کے بعد سیاست میں آیا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس جرم کی سزا بہت نرم ہے اور میرا سیاست میں آنے کا مقصد اس سزا کو تبدیل کروانا ہے۔مجھے احساس ہوا کہ ماحول سے گھبراہٹ ختم ہو گئی ہے۔بلکہ ہم نے دیکھا کہ سپینش وفد کے افرادنے ایک لمبی قطار بنا کر حضور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی خواہش کا اظہار کیا اور اللہ کے فضل سے حضور کی حکمت اورفراست سے متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکے۔ الحمدللہ

تو جب ہم حضور انور کو اس قدر بہادری اور دلیری سے خدا کے شیر کی طرح اسلام کا دفاع کرتے دیکھتے ہیں تو پھر ہمیں حضور کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ

ہمیں حضور کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے

اور یہ ہم کیسے کر سکتے ہیں! اس کا جواب مجھے حضور سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ملتا ہے۔ حضور سے سوال پوچھا گیا کہ جب ہم مختلف پیشگوئیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ایک ایک کرکے پوری ہو رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے گویا ہم اسلام احمدیت کے غلبے کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے بہت قریب ہیں جب لوگ جوق در جوق احمدیت کے حصار میں داخل ہوں گے۔ حضور کا اس بارےمیں کیا خیال ہے۔

حضورِ انور نے جواب میں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہماالسلام سے بھی موعود سرزمین کا وعدہ فرمایا تھا۔مگر جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنے احکامات پر عمل کرنے کی تلقین کی، تو اگرچہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پوری طرح پابندی فرماتے تھے لیکن بنی اسرائیل ان پر عمل پیرا ہونے کو تیار نہ تھے۔ چنانچہ باوجودیکہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا، ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کے وعدے کی تکمیل میں چالیس سال کی تاخیر ڈال دی گئی۔ حضور نے فرمایا اسی طرح اسلام احمدیت کے غلبہ کی پیشگوئی تو موجود ہے، اس کے جلد یا بدیر پورا ہونے کا تعلق اس بات سے ہے کہ

ہم کس قدر محنت کرنے کو تیار ہیں۔

اور جب حضور یہ فرما رہے تھے تو مجھے ایسا لگا کہ

حضور کمرے میں موجود نوجوانوں سے مخاطب تھے۔

مجھے امید ہے کہ کئی نوجوان اس گفتگو کوسنیں گے۔میں امید کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اس اطفال ریلی کے دوران مختلف تقاریر میں آپ کو جو بتایا گیا ہے کہ مجلس اطفال الااحمدیہ اور جماعت آپ سے کیا توقعات وابستہ رکھتے ہیں آپ ان توقعات پر پورا اتریں۔ اور ہم خلافتِ احمدیہ کے خدمتگار بنیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہوں۔ آمین ثم آمین۔

(ترجمہ: ابو سلطان)

٭…٭…٭

اس انٹرویو کو سید طالع احمد شہید کے اپنے الفاظ میں سننے کے لیے درج ذیل لنک سے استفادہ فرمائیں:

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button