یادِ رفتگاں

محترمہ شاکرہ صادقہ خان صاحبہ

(ڈاکٹر عبدالباری ملک۔ یوکے)

خاکسار کی نسبتی بہن محترمہ شاکرہ صادقہ خان صاحبہ کنگسٹن ہسپتال لندن میں تین ہفتے ذیابیطس کے مرض کے باعث داخل رہنے کے بعد جمعرات21؍جنوری 2021ء کو وفات پاگئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ان کی نماز جنازہ اور تدفین بروک ووڈ قبرستان میں 30؍جنوری کو کی گئی۔

وفات کے وقت آپ کی عمر 67سال تھی۔آپ موصیہ تھیں۔ آپ کی پیدائش پشاور میں ہوئی۔

آپ محترم صوفی غلام محمد خان صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ ڈیرہ اسماعیل خان کی بیٹی تھیں۔صوفی غلام محمد خان صاحب افغان درانی تھے اور ان کی بیگم ہ مریم بیگم صاحبہ نیازی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔

صوفی غلام محمد خان صاحب1928ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں طالبعلم تھے تو ان کے کرائے دار جو احمدی تھے نے ان کو ریویو آف ریلیجنز کی چند جلدیں دیں۔ ان کو پڑھنے کے بعد ان کو احمدیت کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔

آپ کی ملاقات محترم قاضی محمد یوسف صاحب سے کروائی گئی جنہوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ دعا کریں اورخودقادیان جائیں۔

آپ نے قادیان سفر اختیار کرنے سے پہلے دعا کی تو ان کو خواب میں کسی بزرگ نے بتایا کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد ہوچکی ہے۔

آپ جب قادیان پہنچ کر مسجد مبارک میں داخل ہوئے تو حضرت مصلح موعودؓ پر نظر پڑی تو انہیں یاد آیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جن کو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔چنانچہ آپ نے حضرت مصلح موعود ؓسے ملاقات ہوتے ہی درخواست کی کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔بیعت کرنے کے بعد آپ واپس پشاور آئے تو رشتہ داروں کی طرف سے کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے دعائیں، کوشش اور تبلیغ کرکے اپنی والدہ محترمہ فاتح بی بی کی بیعت بھی کروادی۔

محترمہ شاکرہ صادقہ خان صاحبہ کا رشتہ محترم نواب مسعود خان صاحب نے کروایا۔آپ مارچ 1973ء میں شادی کے بعد لندن آگئیں اور مسجد فضل کے قریب رہائش اختیار کی۔

ان کے والدین اور بہن بھائیوں کو1974ءکے فسادات کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے گھر پر حملہ کیا گیا اور کئی دن تک گھیرائو کیا گیا۔ ان کے والد صاحب اور چھوٹے بھائی کو ہتھکڑیاں لگا کر قید کر لیا گیا اور جیل میں رکھا گیا۔ان کے بڑے بھائی ان دنوں پشاور میں حکومت کی ملازمت کر رہے تھے۔ ان کی کوششوں سے ان کو رہائی ملی۔

اس ظلم وستم کا ان کی والدہ کی صحت پر اثر پڑا اور چند ماہ میں وہ وفات پاگئیں۔آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں۔

ان کے والد صاحب 1977ء میں ہجرت کرکے لندن آگئے۔بعد میں ان کے بھائی اور دو بہنیں بھی یو کے آگئیں اور یہاں شادیاں کیں۔

ان دنوں لندن کی جماعت بہت چھوٹی تھی۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اکثر افراد ان کے گھر ٹھہرتے۔ ان میںحضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، محترم مرزا مبشر احمد صاحب، محترم نواب مسعود احمد صاحب، محترم نواب مودود احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا مجیب احمد صاحب اور ان کے گھروں کے افراد شامل ہیں۔

حضرت مہر آپا تین مرتبہ کئی کئی ماہ ان کے گھر ٹھہریں۔آپ حضرت مہر آپا کے ساتھ مختلف جگہوں پر گئیں۔ ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ حضرت مہر آپا کو ملنے کےلیے ان کے گھر تشریف لائے تو آپ نے شاکرہ صاحبہ کو پوچھا آپ کے کتنے بچے ہیں۔شاکرہ صاحبہ نے کہا کہ شادی کو آٹھ سال ہو گئے ہیں اور ایک بیٹا ہے ۔حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ؒنے ایک رقعہ لکھ کر حضرت مہر آپا کودیا۔ حضرت مہر آپا نے وہ رقعہ شاکرہ صاحبہ کو دیا اور فرمایا اس میں آپ کےلیے خوشخبری ہے جب مناسب موقع ہو تو اس کو کھولنا۔اس واقعہ سے گیارہ ماہ بعد 10؍ستمبر1983ء کو شاکرہ کے ہاں بچی پیدا ہوئی۔آپ نے ہسپتال میں وہ رقعہ منگوا کر کھولا تو اس میں تحریر تھا۔’’صباح السلام مبارک ہو‘‘۔ بچی کا نام صباح السلام رکھا گیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو آپ کے بیٹے مغفور احمد طارق سے بڑا پیار تھا ۔آپؒ اکثر اس کو اپنے ساتھ اپنی رہائش گاہ میں لے جاتے۔حضورؒ نے خصوصی طور پر جرمنی سے ایئر گن Diana 50 منگوا کر تحفہ دی ۔یہ گن ابھی تک ان کے گھر میں موجود ہے۔

شاکرہ صادقہ صاحبہ 1989ء سے لجنہ یوکے کی ضیافت کی ٹیم میں بڑی محنت اور خلوص کے ساتھ خدمات سر انجام دیتی رہیں۔ ان دنوں چند مستورات ہی اس ٹیم میں تھیں۔ہر اجتماع اور جماعتی تقریب میں کھانا پکانے اور تقسیم کرنے کی ڈیوٹی لجنہ یوکے کے ذمہ ہوتی۔ آپ بڑی خوش اسلوبی اور محنت سے یہ ڈیوٹیاں سرانجام دیتیں۔ان کی طبیعت بہت نرمی اور مزاح والی تھی اس لیے آپ اپنی باتوں سے پوری ٹیم اور لجنات کا دل بہلاتی رہتیں۔

1996ء میں ان کو سیکرٹری ضیافت لجنہ اماء اللہ یوکے مقرر کیا گیا۔آپ نے دن رات محنت کر کے اپنی ذمہ داریوں کو بہت خوش اسلوبی سے نبھایا۔لجنہ کی تقریبات اور اجتماعات سے جلسہ سالانہ یوکے تک آپ نے بڑی محنت سے اور ہر ایک کے ساتھ خوش اخلاقی سے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ بعد میں صحت کی خرابی کے باعث ان کو معذرت کرنا پڑی۔

آپ بہت صابرہ اورشاکرہ تھیں۔ باوجود گھریلو حالات کی خرابی اورعائلی نشیب و فراز کے آپ نے کبھی بھی کسی بات کا شکوہ نہیں کیا۔کسی عورت نے کبھی بات کی بھی تو ان کو سمجھاتیں اور مذاق سے بات کو ٹال دیتیں۔

آپ نیک، پرہیزگار، سلیقہ شعار، عبادت گذار تھیں۔ خلافت کے ساتھ ان کو عقیدت اورعشق تھا۔جب تک صحت نے اجازت دی لذیذ کھانے بنا کر حضورِ انور کی خدمت میں پیش کرتیں، ممکن ہوتا تو خود حضورِانور کے گھر حاضر ہو جاتیں۔ وقت پر نمازیں ادا کرتیں۔باقاعدگی سے تہجد ادا کرتیں۔ قرآن کریم کی تلاوت باقاعدگی سے کرتیں۔اپنا قریباََ سارا زیور مساجدکی تعمیر کےلیے پیش کر دیا۔خلافت اور نظام جماعت کا احترام ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اور اس کا اظہار بھی اپنے وقت پر کرتی۔

دنیابھر میں غریبوں اور ناداروں کی مدد کرتیں۔آپ کی وفات پر دنیا بھر سے اتنے فون آئے کہ حیرانی ہوتی تھی کہ کتنے ضرورت مندوں کی یہ مدد کرتی رہیں۔مرحومہ نے ایک بیٹی اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیںجولندن میں مقیم ہیں۔

دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرما ئے اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطافرمائے اور آپ کی نیکیوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button