یاد رکھو کہ خدائی کے دعویٰ کی حضرت مسیحؑ پر سراسر تہمت ہے۔ انہوں نے ہرگز ایسا دعویٰ نہیں کیا۔
یہ تو مَیں نے آریہ صاحبوں کی خدمت میں گذارش کی ہے اور مسیحی صاحبان جو بڑی کوشش سے اپنے مذہب کی دنیا میں اشاعت کر رہے ہیں اُن کی حالت آریہ صاحبوں سے زیادہ قابلِ افسوس ہے۔ آریہ صاحبان تو اس زمانہ میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اپنے پُرانے مذہب مخلوق پرستی سے نکلیں۔ اور عیسائی صاحبان اس کوشش میں ہیں کہ مخلوق پرستی میں نہ صرف آپ بلکہ تمام دنیا کو داخل کر دیں۔ محض زبردستی اور تحکم کے طور پر حضرت مسیحؑ کو خدا بنایا جاتا ہے۔ اُن میں کوئی بھی ایک ایسی خاص طاقت ثابت نہیں ہوئی جو دوسرے نبیوں میں پائی نہ جائے بلکہ بعض دوسرے نبی معجزہ نمائی میں اُن سے بڑھ کر تھے۔ اور اُن کی کمزوریاں گواہی دے رہی ہیں کہ وہ محض انسان تھے۔ انہوں نے اپنی نسبت کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا جس سے وہ خدائی کے مدعی ثابت ہوں اور جس قدر اُن کے کلمات ہیں جن سے اُن کی خدائی سمجھی جاتی ہے ایسا سمجھنا غلطی ہے۔ اس رنگ کے ہزاروں کلمات اللہ خدا کے نبیوں کے حق میں بطور استعارہ اور مجاز کے ہوتے ہیں اُن سے خدائی نکالنا کسی عقلمند کا کام نہیں بلکہ انہیں کا کام ہے جو خواہ نخواہ انسان کو خدا بنانے کا شوق رکھتے ہیں۔ اور مَیں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میری وحی اور الہام میں اُن سے بڑھ کر کلمات ہیں۔ پس اگر اُن کلمات سے حضرت مسیحؑ کی خدائی ثابت ہوتی ہے تو پھر مجھے بھی (نعوذ باللہ) حق حاصل ہے کہ یہی دعویٰ میں بھی کروں۔ سو یاد رکھو کہ خدائی کے دعویٰ کی حضرت مسیحؑ پر سراسر تہمت ہے۔ انہوں نے ہرگز ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ جو کچھ انہوں نے اپنی نسبت فرمایا ہے وہ لفظ شفاعت کی حد سے بڑھتے نہیں۔ سو نبیوں کی شفاعت سے کس کو انکار ہے۔ حضرت موسٰی ؑ کی شفاعت سے کئی مرتبہ بنی اسرائیل بھڑؔ کتے ہوئے عذاب سے نجات پا گئے اور مَیں خود اِس میں صاحب تجربہ ہوں۔ اور میری جماعت کے اکثر معزز خوب جانتے ہیں کہ میری شفاعت سے بعض مصائب اور امراض کے مبتلا اپنے دکھوں سے رہائی پا گئے اور یہ خبریں اُن کو پہلے سے دی گئی تھیں اور مسیحؑ کا اپنی اُمت کی نجات کے لئے مصلوب ہونا اور اُمت کا گناہ اُن پر ڈالے جانا ایک ایسا مہمل عقیدہ ہے جو عقل سے ہزاروں کوس دُور ہے۔ خدا کی صفات عدل اور انصاف سے یہ بہت بعید ہے کہ گناہ کوئی کرے اور سزا کسی دوسرے کو دی جائے۔ غرض یہ عقیدہ غلطیوں کا ایک مجموعہ ہے۔ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑنا اور مخلوق کی پرستش کرنا عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ اور تین مستقل اور کامل اقنوم قرار دینا جو سب جلال اور قوت میں برابر ہیں۔ اور پھر ان تینوں کی ترکیب سے ایک کامل خدا بنانا۔ یہ ایک ایسی منطق ہے جو دنیا میں مسیحیوں کے ساتھ ہی خاص ہے۔ پھر جائے افسوس تو یہ ہے کہ جس غرض کے لئے یہ نیا منصوبہ بنایا گیا تھا یعنی گناہ سے نجات پانا اور دنیا کی گندی زندگی سے رہائی حاصل کرنا وہ غرض بھی تو حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ کفارہ سے پہلے جیسے حواریوں کی صاف حالت تھی اور وہ دنیا اور دنیا کے درہم و دینار سے کچھ غرض نہ رکھتے تھے اور دنیا کے گندوں میں پھنسے ہوئے نہ تھے۔ اور اُن کی کوشش دنیا کے کمانے کے لئے نہیں تھی۔ اِس قسم کے دل بعد کے لوگوں کے کفارہ کے بعد کہاں رہے۔ خاص کر اسؔ زمانہ میں جس قدر کفارہ اور خونِ مسیحؑ پر زور دیا جاتا ہے۔ اسی قدر عیسائیوں میں دنیا کی گرفتاری بڑھتی جاتی ہے اور اکثر اُن کے ایک مخمور کی طرح سراسر دن رات دنیا کے شغل میں لگے رہتے ہیں اور اس جگہ دوسرے گناہوں کا ذکر کرنا جو یورپ میں پھیل رہے ہیں خاص کر شراب خواری اور بدکاری اس ذکر کی کچھ حاجت نہیں۔
اَب مَیں عام سامعین کی خدمت میں اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کچھ بیان کر کے اِس تقریر کو ختم کروں گا۔ اے معزز سامعین! خداتعالیٰ حق کے قبول کرنے کے لئے آپ صاحبوں کے سینوں کو کھولے اور آپ کو حق فہمی کا الہام کرے۔ یہ بات آپ کو معلوم ہو گی کہ ہر ایک نبی اور رسول اور خداتعالیٰ کا فرستادہ جو لوگوں کی اصلاح کے لئے آتا ہے اگرچہ اس کی اطاعت کرنے کے لئے عقل کی رُو سے اس قدر کافی ہے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے وہ حق حق ہو اس میں کسی قسم کا دھوکا اور فریب کی بات نہ ہو۔کیونکہ عقل سلیم حق کے قبول کرنے کے لئے کسی معجزہ کی ضرورت نہیں سمجھتی۔ لیکن چونکہ انسانی فطرت میں ایک قوت واہمہ بھی ہے کہ باوجود اس بات کے کہ ایک امرفی الواقع صحیح اور سچا اور حق ہو پھر بھی انسان کو وہم اُٹھتا ہے کہ شاید بیان کرنے والے کی کوئی خاص غرض نہ ہو یا اُس نے دھوکا نہ کھایا ہو یا دھوکا نہ دیا ہو۔ اور کبھی بوجہ اس کے معمولی انسان ہونے کے اُس کی بات کی طرف توجہ بھی نہیں ہوتی اور اُس کو حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے۔ اور کبھی شہوات نفسِ ا مّارہ کا اِس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ گو سمجھ بھی آ جاوے کہ جو فرمایا گیا ہے وہ سب سچ ہے تاہم نفس اپنے ناپاک جذبات کا ایسا مغلوب ہوتا ہے کہ وہ اس راہ پر چل ہی نہیں سکتا جس پر واعظ ناصح چلانا چاہتا ہے اور یا فطرتی کمزوری قدم اُٹھانے سے روک دیتی ہے۔
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ235تا 238)