متفرق مضامین

مکرم محمد عبد اللہ سوہاوہ صاحب کا قبول احمدیت

میں نے بتایا کہ اس طرح میں نے سورج دیکھا ہے۔ مولوی صاحب جو بالکل مخالف اور اہل حدیث تھے اوپر سے میرے دوست تھے۔انہوں نے کہا کہ ’’تم نبی دیکھو گے‘‘

27؍ دسمبر 1965ء کو محترم والد صاحب نے ہماری درخواست پر اپنے احمدیت قبول کرنے کے واقعات سنائے۔

(ریکارڈ کنندہ ظفر اللہ خاں )

حاضر: عزیز رفاقت اللہ خاں، برادرم عطاء اللہ خاں صاحب اور چند دیگر عزیزان ۔ مقام ربوہ برموقعہ جلسہ سالانہ 1965ء۔ ریکارڈنگ کو تحریر میں لایا گیا۔

(ظفر اللہ خاں بقلم خود)

تشہد و تعوذ اور سورت فاتحہ کے بعد والد صاحب نے فرمایا:

میرا نام محمد عبداللہ ہے۔ میں سوہاوہ ڈھلواں ضلع گوجرانوالہ کا باشندہ ہوں۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں احمدیت کے متعلق کچھ بیان کروں اور گواہی دوں۔ جس طرح کہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کے ساتھ میری قسمت میں کیا۔ لیکن یہ ساری خداتعالیٰ کی مہربانی کے ساتھ ہوا۔

میری چھوٹی عمر میں میری والدہ صاحبہ فوت ہوگئیں لیکن میں نے اُن کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ اسی وجہ سے میرے ننھیال میں میری نانی اور نانا مجھے اپنے ساتھ (اپنے گاؤں ) لے گئے۔ میری نانی صاحبہ نے بڑی محبت سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میری پرورش کی ۔اور میں پانچ جماعتیں پڑھا۔ اور میری نانی صاحبہ نے بڑی محبت سے پڑھایا۔الغرض میں مختصر بتاتا ہوں کہ میری والدہ بہت ہی مخلص اور پرہیز گار تھیں۔ اُن کی باتیں اور اخلاص کو دیکھ کر مجھے بھی نماز پڑھنے کا شوق ہوگیا۔ اس وقت ضلع گورداسپور میں رتن شریف کے میاں مبارک اللہ مکان شریف والے سیّد کہلاتے تھے۔ میں چک نمبر127بہلول پور ضلع لائلپور کا ذکر کرتا ہوں۔ آہستہ آہستہ میرے دل میں شوق ہوا کہ میں بھی بیعت کرو؟ لیکن میری عمر ابھی چھوٹی تھی۔ لیکن شوق میرا بہت بڑا تھا۔ میرے نانا صاحب نے میاں مبارک اللہ سیّد صاحب سے درخواست کر کے میری بیعت اُن سے قبول کروا دی۔ اور قریب والے گاؤں چک نمبر 125 بہلول پور میں جا کر میں نے اُن کی بیعت کی۔ میرے دل میں ان کی بہت بڑی محبت تھی۔ کیونکہ وہ نقش بندی طریق پرتھے۔ اور میں نے نقش بندی طریق سے ان کی بیعت کی۔ انہوں نے جس طرح مجھے کہا یا عمل کرنے کو کہا میں نے کیا۔ ان کا لقب ’’حضرت صاحب‘‘ ، ’’حضرت صاحب‘‘تھا۔ مجھے بہت محبت تھی۔ چودھری بوٹے خان صاحب جو میرے بڑے دادا تھے وہ میرے نانا کے رشتہ داروں میں سے تھے۔ انہوں نے بھی اُن کی بیعت کی ہوئی تھی۔ وہ بھی مراقبے میں رہتے تھے۔ مکان شریف والے چھوٹی عمر کے تھے۔ لیکن مجھ سے محبت بہت کرتے تھے۔اس طرح مجھے چھوٹی عمر میں بیعت کا بہت شوق تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حکمت، مَیں ابھی سکول میں پڑھتا تھا کہ چودھری عبداللہ خاں صاحب جن کے پاس انجیل پڑی ہوتی تھی اور مشہور تھا کہ انجیل پڑھ کر وہ عیسائی ہوچکے ہیں۔ پھر ایک دن مَیں نے اپنے کان سے سنا۔ انہوں نے کہا منشی صاحب ایک اللہ کا بندہ ضلع گورداسپور میں ہے اس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مہدی ہے۔ چودھری عبداللہ خاں صاحب نے وہاں سے ’’الحکم ‘‘اخبار منگوانا شروع کیا۔ اور پڑھتے رہے، اخیر وہ احمدی ہوگئے۔ لوگوں نے بہت مخالفت کی۔ جتنی زیادہ ان کی مخالفت ہوئی ان کا شوق بڑھتا گیا۔ اتنی مخالفت کہ لوگوں کو دیکھ کر میرا دل بھی چاہنے لگا کہ میں بھی مخالفت کروں۔ میری عمر چھوٹی تھی ابھی اتنی سمجھ نہیں تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے بچائے رکھا۔

دوسرے جس طرح حضرت صاحب نے مجھے نیکی کے کام بتائے ہوئے تھے وہ کرتا تھا۔ آخر میں تعلیم حاصل کر کے اپنے گاؤں سوہاوہ ڈھلواں آگیا۔ میرے والد صاحب زندہ تھے۔ میری والدہ جو کہ میرے والد صاحب سے دوسری شادی تھی ،میرے ساتھ بہت محبت کرتی تھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرماوے۔ (آمین)

ایک دن میں اپنے کنویں کی طرف جارہا تھا۔ ایک آدمی میرے ساتھ اور تھا۔ میں گھوڑی پر سوار تھا۔ اور وہ پیدل چل رہا تھا۔ جو میرے ساتھ تھا اس کانام ’’مانیا‘‘تھا۔ اس نے مجھے اچانک کہا کہ دیکھ وہ اوپر آسمان کی طرف کیا ہے۔جب میں نے آسمان کی طرف دیکھا مجھے ایک ستارہ نظر آیا۔میں نے دیکھا کہ وہ چل رہا تھا اس کے پیچھے ایک روشنی والی لکیر تھی۔ عام طور پر کہتے ہیں بودی والا تارا تھا۔وہ بہت سے لوگوں نے دیکھا ۔ اور لوگوں میں شور پڑ گیا کہ یہ تارا کیسا ہے۔ خیر وہ ستارہ کافی دیر تک نظر آتا رہا۔ آہستہ آہستہ وہ ستارہ تو گم ہوگیا لیکن اس کی روشن دار لکیر نظر آتی رہی بلکہ پھیل گئی۔

اس کے بعد طاعون کی بیماری بہت پھیلی۔ اس وقت مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ اس نشان کا کیا مطلب ہے۔ میری عمر چھوٹی تھی۔ میں احمدی نہیں تھا۔ بلکہ مخالفوں میں سے تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے رحم کرے۔

ہمارے گاؤں میں نمبردار صاحب جس کا نام جہان خاں تھا۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے احمدیت نصیب فرمائی۔ ان کی گاؤں میں بڑی مخالفت ہوئی۔ ان کے پاس سے بہت دفعہ میرا گذر ہوا۔ میں جب بھی ان کے پاس جاتا ان کے پاس ایک کتاب ہوتی تھی۔ میرا خیال ہے اس کا نام حقیقة الوحی تھا۔ ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا تھا کہ وہ میرے قریب سے ہمارے گاؤں کے سفید پوش چودھری قائم علی گذرے۔ میں نے جب ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے میری طرف اشارہ کیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ یہاں نہ بیٹھا کرو۔ یعنی اٹھ جاؤ؟ میں ان کےاشارہ کرنے پر اٹھ کر چلا گیا۔لیکن میرے دل میں خیال آتا رہا کہ کوئی موقع ملے تو میں ان سے کوئی باتیںسنوں۔

ایک دن مجھے شاید کسی نےکہا یا نمبردار صاحب سے پتہ چلا کہ حضرت مہدی علیہ السلام کو الہام ہوا ہے۔

رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ

کہ جو اس دعا کو پڑھے گا وہ طاعون سے محفوظ رہے گا۔اس کا ترجمہ مجھے آتا تھا۔ کیونکہ مجھے قرآن کریم کی تلاوت کی وجہ سے عربی سمجھ میں آتی تھی۔ مجھے یہ دعا اتنی پسند آئی کہ میں نے زبانی یاد کر لی۔ اور عموماً پڑھتا رہا۔ ان دنوں میں طاعون اس قدر پڑی کہ ہمارے گاؤں میں بہت پھیلی اور میں اس دعا کو بہت زیادہ باربار پڑھتا تھا۔ مجھے اتنا اطمینان تھا کہ اس دعا سے اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے گھر والوں کو بچا کر رکھے گا۔

ایک دن میری والدہ جو موضع ’’گھچلی‘‘کی تھیں وہاں فوت ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔ ہماری زمین میں ایک ’’جُگھی‘‘تھی وہاں میرا رات کو آنا جانا تھا۔جو ’’سائیں دینے شاہ‘‘کا تھا۔ وہاں مجلس لگی رہتی تھی۔ دینی کتابیں مختلف قسم کی پڑھتے رہتے تھے۔ ایک دن اللہ تعالیٰ کی حکمت رات کو میں اپنے کوئیں کے پاس مویشیوں کے ’’کڑھ‘‘(کمرہ)میں سویا ہوا تھا کہ مجھے ایک خواب آئی۔ خواب یہ تھی کہ مجھے ایسا معلوم ہوا جیسا کہ میں مغرب کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں کہ مجھے اچانک دور سے دو لکڑیاں نظر آئیں میں جوکہ اونچی جگہ پر تھا وہ مجھے نظر آرہی تھیں وہ لکڑیاں اندازاً بالشت بالشت لمبی تھیں۔ کالے رنگ کی کیکر کی لکڑیاں۔ جس طرح سوکھی لکڑیاں عموماًکالے رنگ کی ہوجاتی ہیں ان میں ایک لکڑی نے حرکت کی۔ میری توجہ خاص طور پر آسمان کی طرف ہوئی کہ اچانک دوسری لکڑی نے بھی حرکت کی۔مَیں غور سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ لکڑیاں کیوں حرکت کر رہی ہیں۔ میرے دیکھتے دیکھتے ہی ایک لکڑی دوسری لکڑی کے اوپر جاپڑی۔ (یہ دن کا وقت معلوم ہورہا ہے رات نہیں)پھر اس طرح نیچے والی لکڑی اوپر والی لکڑی پر گری۔اسی طرح پھر نیچے کی لکڑی اوپر والی پر گری۔ جس طرح گتکا کھیلا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ زمین سے اوپر اٹھ گئیں۔ میں ان کو دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ یہ کیا چیز ہے؟ اور میں ان سے ڈرتا بھی نہیں کیونکہ دن کا وقت ہے۔ پھر وہ لکڑیاں اُسی حالت میں(مڑتی مڑتی) ٹکراتی ٹکراتی میری طرف آرہی ہیں۔ جہاں میں کھڑا ہوں۔ میرا منہ مغرب کی طرف ہے۔جب میرے بالکل نزدیک آگئیں تو میں دیکھتا ہوں کہ وہ لکڑیاں نہیں بلکہ دو شیر ہیں۔ پھر تبدیل ہو کر ایسے دکھائی دیےجیسے دونوں جوان لڑکے ہیں۔ جو بہت خوبصورت گورے رنگ کے اور موٹے ہیں۔ اور بال اُن کے کانوں تک پڑے ہیں۔ میرے نزدیک آئے۔ میں نے ان کے چہروں کو اچھی طرح دیکھا۔ جو اب تک میرے ذہن میں ہے۔ وہ میرے نزدیک آئے۔ اور جیسا کہ میرے ذہن میں تھے انہوں نے کہا’’دو گواہ ہوتے ہیں۔جو حضرت مرزا صاحب ہیں وہ سچے ہیں۔ ہم دونوں گواہی دیتے ہیں۔‘‘ جس کے بعد مجھے ہوش آگئی(یعنی خواب سے بیدار ہوگیا)۔

ایک واقعہ تویہ ہوا۔لیکن یہ نہیں کہ میں نے فوراً احمدیت قبول کرلی۔ میں یہ خواب دیکھ کر حیران رہ گیا۔پھر اس پر کئی دن گذر گئے۔ اس سے پہلے یا بعد کی بات ہے کہ ہمارے کوئیں کی ’’کامدی‘‘پر میرے والد صاحب بیٹھے ہیں۔ میں قریب ہی جو کنویں سے ریت نکلی ہوئی تھی اس پر لیٹ گیا اور میں سو گیا۔ مجھے وہاں ایک خواب آئی۔میں نے خواب دیکھا کہ ایک سورج میں دیکھتا ہوں جو کہ بہت ہی روشن ہے۔ عام سورج کو تو دیکھنے سے آنکھ برداشت نہیں کرتی۔ لیکن یہ سورج بہت ہی خوبصورت ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ مجھے ہوش آگئی۔ میں اس نظارہ سے اتنا خوش تھا کہ جاگنے کے بعد بہت پچھتایا یعنی میں چاہتا تھا کہ وہ پیارا سورج دیکھتا ہی رہوں۔میں نے دوبارہ آنکھ بند کرلی۔اللہ تعالیٰ کی مہربانی کہ مجھے پھر وہ سورج نظر آگیا۔ میں حیران رہ گیا پھر مجھے ہوش آگئی۔ اس کا ذکر میں نے اپنے گاؤں کے مولوی صاحب جن کانام فتح محمد تھا کیا۔میں نے بتایا کہ اس طرح میں نے سورج دیکھا ہے۔ مولوی صاحب جو بالکل مخالف اور اہل حدیث تھے اوپر سے میرے دوست تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تم نبی دیکھو گے‘‘ میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ ’’مولوی صاحب نبی تو اب آنا نہیں ہے۔ کونسا نبی دیکھنا ہے؟‘‘۔جس پر انہوں نے یہ ہی جواب دیا کہ بھائی تعبیر تو یہی ہے۔ آگے کچھ علم نہیں۔ یہ مجھے دوسری دفعہ اشارہ ہوا۔

ایک دن پھر میں نمبردار صاحب (چودھری جہان خاں)کے پاس بیٹھا تھا۔ پھر اسی طرح سفید پوش صاحب ، اسی طرح گذرے لیکن میں نے ان کی طرف نہیں دیکھا اور نظر نیچے کر لی وہ گذر گئے۔ جنہوں نے پہلے مجھے بیٹھنے سے منع کیا تھا۔

میں پھر ایک دفعہ بہلول پورگیا اپنے ماموں صاحب کے پاس(نانا صاحب فوت ہوچکے تھے) ۔ وہ بہت محبت سے ملے اور کہنے لگے۔ محمد عبداللہ تم میرے پاس امید ہے کہ آٹھ دن رہیں گے۔ میرے پاس ایک کتاب ہے۔ اگر تم اس کو ساری پڑھ لیں۔ تو احمدی ہو یا نہ ہو یہ تیری اپنی مرضی لیکن تو اس کو ساری پڑھ لے۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ماما جی(جو میرے والد کی طرح تھے۔میں ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے) میں اس کو پڑھوں گا۔ میں نے وہ کتاب ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘آخر تک پڑھی۔کتاب میں دو لفظ پڑھنے کے بعد ایسا دل کُھلا، ایسا دل کُھلا۔ میں کیوں نہ جس طرح بھی ہو مَیں احمدی ہوجاؤں۔ اور میرے دل میں احمدیت کی محبت بیٹھ گئی اور وہ دو باتیں یہ تھیں جو میں نے’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘کتاب میں پڑھیں۔ جہاں جہاں یہ لفظ آئے’’اے شہزادے‘‘۔’’اے شہزادے‘‘وہ پڑھنے پر میرے دل میں بڑی پکڑ ہوتی تھی کہ یہ کوئی روحانی چیز ہے جو ایک بادشاہ کو’’اے ‘‘کر کے پکارتی ہے۔ جیسے اپنے سے کمزور کو کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میں نے بیعت کرنی ہے۔ اور میرا دل بہت ہی نرم مائل احمدیت ہوگیا ۔

خیر اس کے بعد میں اپنے گاؤں سوہاوہ ڈھلواں واپس آگیا۔ جہاں میں چودھری جہان خاں صاحب نمبردار جو پہلے احمدی ہوچکے تھے ان سے ملا۔ اور میں نے بیعت کا خط قادیان تحریر کردیا۔ جب میں نے خط لکھ دیا تو خدا جانے کہ میری روحانیت اس قدر ترقی کر گئی کہ میں اپنے آپ کو بہت تبدیل محسوس کرنے لگا۔

والد صاحب نے مزید بتایا کہ میرا بڑا لڑکا عطاء اللہ اس وقت پیدا ہوچکا تھا جبکہ میں نے احمدیت قبول کی۔ ان کے بعد کی میری اولاد کی پیدائش کی خبر، اللہ تعالیٰ مجھے خواب میں خبر دیتے رہے۔ دوسرا لڑکا ہدایت اللہ پیدا ہوا تو قبل از وقت مجھے علم ہوگیا۔ان کے بعد آپ(ظفر اللہ خاں) کو میں نےپیدا ہونے سے پہلے اپنی گود میں دیکھا۔ جب آپ پیدا ہوئے تو چہرے کو دیکھ کر میں نے گواہی دی کہ اس کو میں نے گود میں دیکھا تھا۔

اس کے بعد رفاقت اللہ پانچ چھ سال بعد پیدا ہوا۔ اس وقت جبکہ ہم بالکل مایوس تھےکہ اب ہمارے اولاد نہیں ہوگی۔ انہیں دنوں میں اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ایک خدمت لی۔ میں سمجھتا ہوں اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے رفاقت اللہ بھی خواب میں دکھادیے۔سو اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے سارے بچے مجھے قبل از پیدائش دکھائے۔ وہ خدمت میرے ذہن کے مطابق یہ تھی کہ ہماری بہن کا بچہ جس کا نام ’’اقبال‘‘ تھا جس کو ہم پیار سے ’’بالا‘‘ ’’بالا‘‘ کہتے تھے۔ چھوٹی عمر میں یتیم ہوگیا۔ میرے والد صاحب چودھری قاسم خاں نے مجھے کہا کہ تم اس بچے کو لے کر یعنی اس کی پرورش کرو۔ میں نے وہ بچہ آپ لوگوں کی والدہ کی گود میں دے دیا۔ ہم نے اس کی پرورش اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنا بچہ سمجھ کر کی۔اس دوران اللہ تعالیٰ نے ایک سال کے بعد ہمیں رفاقت اللہ دے دیا۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے مجھ میں احمدیت کی تعلیم کا بہت جوش دیا۔ اور وہ جوش اس کی مہربانی سے اب تک ہے اور میری دعا ہے کہ میری وفات تک خدا تعالیٰ مجھے اس پر قائم رکھے۔ آمین

اس کے بعد ایک دفعہ میں قادیان میں جلسہ سالانہ کے دنوں میں ملاقات کرنے والوں میں شامل تھا کہ حضور(خلیفة المسیح الثانیؓ)کے قریب میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ اس دوران حضورؓ نے دو تین دفعہ میری طرف دیکھا۔ حضور ؓکی آنکھوں کی چمک مَیں برداشت نہ کرسکا۔اور میں آنکھ نیچے کر لیتا تھا۔یہ موقع تین دفعہ میرے ساتھ ہوا۔ حضورؓ کا مبارک چہرہ بار بار دیکھتا۔ حضور ؓکے آنکھ اٹھانے کے بعد میں وہ پیاری چمک برداشت نہ کرسکتا مجھے آنکھ نیچے کرنی پڑتی۔ہمارے گاؤں میں چودھری خورشید احمد جو احمدی تھے آئے (جو چودھری سلیم اللہ صاحب کے بہنوئی تھے) ان سے میں نے اس واقعۂ ملاقات کا ذکر کیا تو انہوں نے فوراً اس کی تصدیق کی کہ آپ نے صحیح دیکھا۔یہ ہمارا بھی تجربہ ہے۔

آج آپ لوگ میرے پاس بیٹھے ہو اور میری باتیں سن رہے ہو۔میں یہ باتیں کیوں کر رہا ہوں۔ صرف اس لیے کہ احمدیت کی بیعت کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے۔جو اللہ تعالیٰ نے ہماری قسمت میں کی ہے۔دن رات دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس صراط مستقیم پر رہنے کی توفیق دے۔استغفار کرتے رہو۔اور درود شریف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجتے رہو۔اور حضور (خلیفۂ وقت) کی طرف سے جو حکم آپ کو ملے اُس پر پورے طور پر چلنے کے لیے تیار رہیں۔

پھر فرمایا:جب بھی رات کو ہوش آوے تو چارپائی پر ہی بُکّلمار کر بیٹھ کر استغفار کرتے رہیں۔ جب بھی موقع ملے دن میں بھی استغفار کرتے رہیں۔ اپنی بیویوں اور اولاد سے زیادہ تر ذکر احمدیت کا کریں۔ ایسا ذکر کریں جس سے ان کی تربیت بھی ہو دین سے محبت بھی ہو۔ اور ساتھ ساتھ دعا بھی کریں یاالٰہی ان کو پیار اور محبت سے زندگی گذارنے کی توفیق دے۔( آمین)

جب تک خدا تعالیٰ کو ساتھ نہیں رکھیں گے آپ کی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

پھر فرمایا:دعا کرو کے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں میں شامل کریں۔

فَاللّٰهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ

آپ میری زندگی میں اور زندگی کے بعد دلی محبت رکھو۔ اپنے درد سے زیادہ بھائی کے درد کو محسوس کریں۔ حضور فرماتے ہیں جو دوسروں کے لیے دعا کرتا ہے وہ اصل میں اپنے لیے دعا کرتا ہے۔ اپنے دشمن کو بھی دعا سے باہر نہ رکھیں۔ کیا پتہ کہ اس کے ذریعے سے کوئی ایسا کام ہوجائے جس کے ذریعے سے آپ کی دعا بھی قبول ہوجاوے۔اللہ تعالیٰ اس کو بھی نیک کر دے اور آپ لوگوں کو بھی نیکی کرنے کی توفیق دیتا رہے۔ آپس میں محبت کرو۔ کوئی فیصلہ کرتے وقت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ صرف اپنی عقل کو ہی فوقیت نہ دو۔ خدا تعالیٰ کی خاطر آپس میں ہمدردی کرو اورمحبت کرو۔

دوسرا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو زیادہ سے زیادہ زندگی دے۔ میری زندگی کے بعد(یعنی میری وفات پر) ربوہ یا قادیان جیسا بھی موقع ہو۔ میرا وہاں لے جانا آپ کی ذمہ داری ہے اور میں موصی بھی ہوں۔ میرے لیے دعائیں کرتے رہیں۔

فرمایا:

وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا

بس یہ باتیں میں نے آپ سے کرنی تھیں اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو۔( آمین)

(ظفر اللہ خاں گلشن اقبال کراچی04/11/02)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button