یادِ رفتگاں

مکرم و محترم منظور احمد شاد صاحب مرحوم (قسط دوم۔ آخری)

(تصور خالد۔ لندن)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی لندن ہجرت

یہ 29؍اپریل 1984ء کا وہ تاریخ ساز دن تھا کہ جب سید نا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بذریعہ کار ربوہ سے روانہ ہو کر سکھر تشریف لارہے تھے۔ پیارے آقا ؒکے سکھر میں ایک نہر کے کنارے استقبال اور پھر سکھر تا کراچی قافلہ کو ایسکورٹ کرنے کے لیے محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ کراچی نے جو وفد تشکیل دیا اس میں خوش قسمتی سے محترم منظور احمد شاد صاحب بھی شامل تھے۔آپ کے علاوہ اس وفد میں میجر بشیر احمد طارق صاحب،راجہ ناصر احمد صاحب، بریگیڈیئر چودھری عبدالوہاب صاحب، میجر نواز احمد منہاس صاحب شامل تھے۔چنانچہ 29؍اپریل صبح یہ کل آٹھ افراد پر مشتمل وفد کراچی سے روانہ ہوا اور سکھر بیراج کے قریب ایک نہر کے کنارے حضور ؒکے دو کاروں پر مشتمل وفد کو جا ملا۔کھانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد یہ قافلہ کراچی کی طرف روانہ ہوگیا۔ حیدر آباد ٹول پلازہ سے کچھ دور پہلے حضورؒ نے اپنی گاڑی رکوالی،اور کراچی سے آنے والے وفد کے سربراہ سے کراچی میں اپنی رہائش کے متعلق دریافت فرمایا۔جب آپؒ کو رہا ئش کےمتعلق بتایا گیا تو آپؒ نے کچھ خدشات کا اظہار کیا۔ چنانچہ محترم منظور احمد شاد صاحب قافلہ میں شامل اپنی گاڑی لےکر آ گے نکل گئے تاکہ محترم امیر صاحب کراچی کو حضور ؒکے خدشات سے آگا ہ کیا جاسکے۔ چنانچہ آپ حضورؒ کے آمد سے بیس منٹ پہلے حضورؒ کی رہائش کی جگہ پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد حضورؒ کے کراچی ایئر پورٹ آمد سے دو گھنٹے قبل محترم والد صاحب ایئر پورٹ پہنچ گئے تاکہ ماحول اور حالات کا جائزہ لیتےرہیں۔ چنانچہ جب حضورؒ پر نورتشریف لائے تو آپ انتہائی پر وقار انداز میں بڑی شان کے ساتھ پگڑی شیروانی پہنے اور ہاتھ میں چھڑی لیے ہوئے تشریف لائے۔ اسی دوران اطلاع ملی کہ جہاز کچھ تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے سب کو سخت پریشانی کا سامنا کرناپڑا۔ اس وقت سب کی یہی سوچ تھی کہ کہیں ضیا ءالحق کو اطلاع تو نہیں ہوگئی۔بہر حال تقریباً آدھے گھنٹے کی تاخیر کے بعد جہازپرواز کرگیا، امیر صاحب نے والد صاحب کو ہدایات دیں کہ تم نے ایئر پورٹ نہیں چھوڑنا اور ایک رابطہ کے ذریعہ تمہیں اطلاعات ملتی رہیں گی کہ جہاز پاکستان کی حدود چھوڑ چکا ہے۔کیونکہ یہ خطرہ مسلسل سر پر منڈلا رہا تھا کہ ضیا ءالحق اپنے اختیارات کو استعمال کر تے ہوئے پاکستانی حدود کے اندر جہاز کو واپس بھی بلوا سکتا ہے۔چنانچہ محترم والد صاحب جہاز کی روانگی کے بعد بھی کئی گھنٹوں تک ایئر پورٹ پر رُکے رہے۔

(تاریخ جماعت احمدیہ کراچی صفحہ 554 تا 565)

آپ بتایا کرتے تھے کہ میں مسلسل تین دن سے اپنے پولیس آفس سے غیر حاضر تھا۔ جب میں تین دن کے بعد ابھی اپنے دفتر میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ میرے ایک گہرے دوست مخدوم حیات جو کہ سپیشل فورس میں انسپکٹر تھے اور بہت اعلیٰ علمی ذوق رکھتے تھے میرے دفتر میں آئے۔ اس وقت میرا سارا اسٹاف میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔مخدوم حیات نے آتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے نام کا نعرہ لگایا۔ مَیں نے کہا کہ مخدوم اندر تو آؤ کیا بات ہے۔مخدوم صاحب کہنے لگے کہ مَیں نے بڑے بڑے لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے۔میں نے مرزا طاہر جیسا عظیم انسان نہیں دیکھا۔مخدوم صاحب کہنے لگے کہ مرزا صاحب نے باہر جاکر ملک کو خانہ جنگی سے بچالیا ہے۔حکومت کی یہ اسکیم تھی کہ اُن کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جائے اور راستہ میں مخالفین آپؒ کی شان میں گستاخی کریں۔تو ایسی صورت میں کون سا ایسا احمدی ہوگا کہ جس کے لیے یہ صورت حال قابل برداشت ہوتی۔میں نے کہا کہ مخدوم صاحب آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔چنانچہ میں نے یہ سارا واقعہ لکھ کر حضورؒ کی خدمت میں بھجوادیا۔ حضورؒ کا جواب آیا کہ آپ کا انسپکٹر دوست ٹھیک کہتا ہے۔ حکومت کا یہی پروگرام تھا۔

کراچی میں آپ نے 35سال کا عرصہ گزارا۔اس دوران 30سا ل آپ نے محکمہ پو لیس میں سروس کی۔ آپ نے الحمدللہ بڑی ہی محنت کے ساتھ، انتہائی ایمان داری اور نیک نامی کے ساتھ ہمیشہ اپنے فرائض سر انجام دیےاسی وجہ سے اپنے ماتحت عملہ کے علاوہ اپنے افسران میں بھی انتہائی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔ کراچی میں افرادِ جماعت پر بننے والے متعدد پولیس مقدما ت کے سلسلہ میں اُن کی مدد کے لیے آپ ہمیشہ پیش پیش ہوتے۔ خاص طور پر 1974ءاور پھر 1984ء میں ایسے کئی واقعات پیش آئے۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ اپنے دفتر سے متعلقہ پولیس اسٹیشن میں ایک فون ہی کردیتے اور کام ہوجاتا۔آپ کی نیک نامی کے باعث اکثر غیراحمدی احباب بھی اپنے کاموں کے سلسلے میں آپ کے پاس آیا کرتے۔ آپ ایک بہت لمبا عرصہ تک کراچی کے تین اضلاع میں سے ایک کے کرائم برانچ کے انچارج رہے۔سرکاری نوکری کی وجہ سے آپ نے ساری زندگی انتہائی معمولی تنخواہ پر گزارہ کیا۔ اپنے برادر نسبتی کے کہنے پر آپ 1975ءمیں پانچ ماہ کے لیے چھٹی لے کر بحرین بھی گئے۔آپ کی روانگی کے موقع پر مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے آپ کے لیے ایک بہت ہی پُر وقار الوداعی تقریب کا اہتمام کیا اور سپاس نامہ پیش کیا۔لیکن جماعت اور بچوں سے یہ دوری آپ پر بہت گراں گزری اور جلدی ہی واپس آگئےاور پھر سے خدمت دین میں مگن ہو گئے۔ محکمہ پو لیس میں دورانِ ملازمت آپ کو بڑے بڑے امتحانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں نے اپنے ناجائز کام کے لیے آپ کو بڑی بڑی رقوم کی بھی پیشکش کی۔ لیکن محض اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے آپ نے انتہائی ثابت قدمی سے ہر مشکل کا سامنا کیا اوروالدمحترم حضرت منشی عبدالکریم صاحب ؓسے کیے ہوئے وعدہ کی ہمیشہ پاسداری کی۔جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ محکمہ پولیس میں آپ کو بہت ہی عزت اور وقار سے دیکھا جاتا تھا۔اور کبھی بھی افسران بالا کی طرف سے پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ ایک دفعہ کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ یورپ کے ایک لمبے سفر کے بعد کراچی تشریف لارہے تھے اور والد صاحب نے کراچی ایئر پورٹ سے حضورؒ کے قافلہ کو ایسکورٹ کرنا تھا۔ اُن دنوں والد صاحب ایئرپورٹ ایس پی آفس میں تعینات تھے۔والد صاحب نے اپنے سے اوپر ایک اعلیٰ پولیس افسر کو لکھا کہ ہمارے روحانی پیشوا تشریف لارہے ہیں اور میں نے اُن کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ جانا ہے۔ اُس افسر کے ساتھ آپ کے بہت ہی اچھے مراسم تھے اور آپ کے وہم میں بھی نہ تھا کہ وہ افسر انکار بھی کرسکتا ہے۔دراصل وہ متعلقہ افسر آپ کو سرپرائز دینا چاہ رہا تھا۔چنانچہ اُس نےآپ کو اجازت دینے سے انکار کردیا۔والد صاحب کو اپنے افسر کے اس رویہ سے سخت حیرت ہوئی اور آپ اپنے دفتر میں کام کے ساتھ ساتھ دُعاؤں میں مشغول ہوگئے۔چنانچہ جب حضورؒ کی آمد میں بہت ہی کم وقت رہ گیا تو متعلقہ افسر نے والد صاحب کو اُن کے دفتر سے بلوا بھیجا۔

جب آپ باہر گئے تو کیادیکھتے ہیں کہ وہ متعلقہ افسر بذات خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوۓ ہیں اور مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ آیئے منظور صاحب بہت ضروری کہیں جانا پڑ گیا ہے۔ والد صاحب کو اَور زیادہ پریشانی لاحق ہوگئی کہ اب تو میں ہرگز ایئر پورٹ نہیں پہنچ سکتا۔ آپ نہ چاہتے ہوئے جیپ میں بیٹھ گئے۔ کراچی ایئرپوٹ کا فاصلہ ایئر پورٹ پولیس اسٹیشن سے 5/7 منٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ چنانچہ ایس پی صاحب تیزی سے جیپ چلاتے ہوئےایئرپورٹ کے وی آئی پی گیٹ کی طرف سے رن وےپر سیدھے اُس جگہ پر پہنچ گئے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کاجہاز آکر کھڑا ہوا تھا۔امیر صاحب مع چند احبابِ جماعت حضور کے استقبال کے لیے وہاں پہلے سے موجود تھے۔چنانچہ جیسے ہی حضورؒ جہاز کی سیڑھیوں سے نیچے اترے تو ایس پی صاحب نے والد صاحب کو کہا کہ لیجیے منظور صاحب اپنے آقا کو مل لیجیے۔ والد صاحب نے کہا کہ چونکہ حضورؒ ایک لمبے سفر کے بعد آرہے ہیں اس لیےامیر صاحب کی طرف سے مصافحہ کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر ایس پی صاحب نے کہا کہ مان گئے جناب آپ کی جماعت کے ڈسپلن کو۔پیاسا بھی موجود ہے اور پانی بھی لیکن پینے کی اجازت نہیں اورپھرکہا کہ معذرت منظور صاحب مجھ پر تو آپ کی جماعت کے اصول لاگو نہیں ہوتے اور آگے بڑھ کر باقاعدہ حضورؒ کو سیلوٹ کیا اور شرفِ مصافحہ کے بعد والد صاحب کو ایئرپورٹ چھوڑ کر واپس چلے گئے۔خلفا ئےکرام اور دیگر جماعتی بزرگان کی کراچی آمد اور روانگی کے مواقع پر آپ کو اللہ تعا لیٰ کے فضل سے ہمیشہ خدمات بجالانےکی سعادت ملتی رہی۔

تصویری نمائش کے شاندار سلسلے کا آغاز

تاریخ جماعت احمدیہ کراچی میں تحریر ہے:

مجلس خدام الاحمدیہ ڈرگ روڈ کراچی نے اپنے سالانہ اجتماع منعقدہ 15تا 17؍ستمبر 1968ءسے ایک تصویری نمائش کا آغاز کیا۔یہ نمائش 1968ء سے لے کر 1972ء تک جاری رہی جو کہ جماعتی تقاریب کےمواقع پر لگائی جاتی رہی۔اس نمائش میں 320تصویری جبکہ 100تحریری چارٹس آویزاں کیے گئے۔ تصویری اور تحریری چارٹس کے ذریعہ تاریخ احمدیت کو بھی پیش کیا گیا۔ 1969ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر اس نمائش سے 30 ہزار افراد نے استفادہ کیا۔ اس نمائش کے انعقاد کے سلسلہ میں دیگر خدام کے علاوہ مکرم منظور احمد شاد صاحب نے بھی کردار ادا کیا۔

(تاریخ جماعت احمدیہ کراچی صفحہ 428)

بعض دیگر جماعتی ذمہ داریاں اور خدمات

1۔ جماعت احمدیہ کراچی کے مرکز احمدیہ ہال میں 1974ء کے انتہائی پُر آشوب حالات کے پیش نظر اور دیگر کئی مواقع پر خاص طور پر حکومت کی گرفت سے بچنے کی خاطر مرکز کی ہدایت پر مربیانِ سلسلہ کو خطبات جمعہ اور دیگر تقاریب میں تقاریر سے وقتی طور پر روک دیا گیا۔چنانچہ یہ ذمہ داری محترم والدصاحب کو تفویض ہوئی۔اس دَور میں آپ کو لاتعداد نکاح بھی پڑھانے کی توفیق حاصل ہوئی۔

2۔ سکھر میں ایک معاند احمدیت مُلا حمادی نے مباہلہ کا چیلنج دے رکھا تھا اور سکھر میں مخالفت میں اس کا بہت بڑا کردار تھا۔چنانچہ اس کے ساتھ مقابلے کے لیے والد صاحب کو بھجوایا گیا اور آپ کی معاونت کے لیے کراچی سے دیگر دو مربیان سلسلہ کو بھی ساتھ بھیجا گیا۔لیکن افسوس کہ عین موقع پر مُلا حمادی موقع سے فرار ہوگیا۔

3۔ سکھر ڈیوٹی

1984ء کے دور ابتلا میں اندرونِ سندھ و بلوچستان خصوصاً سکھر اور ارد گرد کے علاقوں کو خصوصی طور پر بہت بڑے ابتلاسے گذرنا پڑا۔ کئی احمدیوں نے جامِ شہادت نوش کیا، بعض احمدی قاتلانہ حملوں میں زخمی ہوئے۔ سب سے پہلےیکم مئی 1984ء کو مکرم و محترم عبدالرحمٰن قریشی صاحب امیر جماعت احمدیہ سکھر کو شہید کیا گیا۔اس کے علاوہ اسی دوران ایسا وقت بھی آیا کہ سکھر کے تمام احمدی گرفتار کر لیے گئے۔ان حالات میں مجلس خدام الاحمدیہ ضلع کراچی نے1984ءسے ایک لمبے عرصے تک اپنے خدام وہاں بھجوائےجو خدمتِ خلق کے امور سرانجام دیتے رہے۔ابتدا میں 14خدام اور ایک ناصر، بعد ازاں 10خدام اور اس کے بعد 6خدام بھجوائےجاتے رہے۔بطور نائب امیر ہنگامی امور کا شعبہ بھی محترم والد صاحب کے تحت تھا۔ اس لیے ان خدام کے تمام تر انتظامات مثال کے طور پرخدام کی تیاری، سکھر میں جماعت کے ساتھ رابطے قافلے کے آنے جانے کے اخراجات، وہاں پر رہائش اور کھانے کے مسائل، حفاظتی امور کے متعلق ہدایات وغیرہ سب آپ ہی کی ذمہ داری تھی۔

(تاریخ جماعت احمدیہ کراچی صفحہ 568)

4۔ آپ کو خلفائے احمدیت کے ساتھ کئی دفعہ اندرون سندھ دوروں اور پکنک وغیرہ پر بھی ساتھ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ان دورہ جات اور پکنک وغیرہ پر بھی آپ کو کئی مواقع پر خدمت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی۔

5۔ علم کے ساتھ آپ کو دلی لگاؤتھا۔گاؤں سےمڈل اور ربوہ سے میٹرک کیا اور پھر کراچی آکر مختلف ادوار میں پرائیویٹ طور پر ایف اے اور کراچی یونیورسٹی سے بی اے اور پھر پولیس سے ریٹائر منٹ سے کچھ عرصہ قبل حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے زیر ارشاد ایل ایل بی بھی کرلیا۔ ایل ایل بی آپ نے خاص طور پر جاعتی مقدمات کی پیروی کے لیےکیا اور پھر چند ایک مقدمات میں سینئر احمدی وکلاءکے ساتھ عدالتوں میں پیش ہونے کی سعادت بھی ملی۔(تاریخ جماعت احمدیہ کراچی صفحہ 680) اس کے علاوہ جماعتی کتب کا آپ نےبہت گہرائی سے مطالعہ کر رکھا تھا۔ آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی اوراردو کلام میں سے ایک معتدبہ حصہ زبانی یاد تھا۔جبکہ غیراحمدیوں کے دیگر مکاتب فکر کی کتب کا بھی آپ نے بہت گہرا مطالعہ کر رکھاتھا۔قرآن کریم کے ساتھ بہت گہرا لگاؤ تھا۔آدھی رات کے بعد بیدار ہوجاتے اور نوافل وغیرہ کی ادئیگی کے بعد دیر تک تلاوت قرآن کریم میں مشغول رہتے۔ اپنی زندگی کےآخری رمضان میں آپ کو چھ دفعہ قرآن کریم کے دور مکمل کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔آپ کو مختلف موضوعات پرقرآنِ کریم کی سینکڑوں آیات یاد تھیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے فنِ تقریر میں بھی ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔آپ کی تقاریر بہت ہی پُر اثر ہو اکرتیں، جرمنی میں قیام کے دوران مجلس انصار اللہ جرمنی کے تحت تین دفعہ ملکی سطح پر مقالہ نویسی کا مقابلہ ہوا۔الحمدللہ کہ آپ تینوں دفعہ جرمنی بھر میں اوّل قرارپائے۔ رمضان المبارک میں کراچی کے مختلف حلقہ جات میں محترم امیر صاحب کے زیرِ ارشاد درسِ قرآن دیا کرتے۔اسی طرح آپ نے کئی لوگوں کے نکاحوں کے اعلان بھی کیے۔

6۔آپ ایک بہت اچھے منتظم تھے۔چنانچہ جلسہ سالانہ ربوہ کے آخری چند سالوں میں آپ کو بطور ناظم حفاظت اسٹیج خدمت کا موقع ملا۔ آپ کے سپرد اس سلسلے میں نہ صرف کراچی کے احباب ہوا کرتے بلکہ اندرون سندھ کے احباب بھی آپ کے ساتھ ہی جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی دیا کرتے۔اس سلسلے میں آپ ایک احمدی دوست کےاخلاص و وفا کے حوالے سے یہ واقعہ سنایا کرتےکہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر تمام مقامات پر ڈیوٹیاں لگائی جاچکی تھیں کہ ایک دوست ڈیوٹی دینے کےلیے حاضر ہوئے۔میں نے اُنہیں عرض کیا کہ اب تو ڈیوٹیاں لگائی جاچکی ہیںاور اب مزید دوستوں کی ضرورت نہیں رہی لیکن وہ اپنے اخلاص کے باعث ڈیوٹی دینے کےلیے مُصر رہے۔چنانچہ میں نے اُنہیں عرض کیا کہ پھر آپ کی یہ ڈیوٹی ہے کہ آپ ڈیوٹی دینے والوں کی خدمت کریں اور اُن کی ریفریشمنٹ وغیرہ کا خیال رکھیں۔جلسہ کی مصروفیات کے بعد میں نے کہا کہ آپ کے ساتھ تعارف کا تو موقع مل ہی نہ سکا۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ میں میرپور خاص میں سیشن جج ہوں۔چنانچہ میں ان کے اخلاص و وفا سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ وہ قربانی کا جذبہ ہے جو صرف اور صرف مسیح پاک کے غلاموں ہی میں اس دَور میں دیکھنے کو ملے گا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی لندن ہجرت کے بعد اسلام آباد کی خرید کے بعد پہلے جلسہ سالانہ کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ چنانچہ جب اسٹیج کی تیاری کا مرحلہ آیا تو محترم چودھری حمیداللہ صاحب نے حضور ؒکی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اس کام کے سلسلے میں منظور شاد صاحب کو کراچی سے بلوایا جائے۔ کیونکہ اُنہیں پچھلے کئی سال سے بطور ناظم حفاظت اسٹیج جلسہ سالانہ ربوہ کا بھی تجربہ ہے۔چنانچہ اسی دن محترم امیر صاحب کراچی کو محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نےفون کیا کہ منظور شاد صاحب کو پہلی فلائٹ کے ذریعہ لندن بھجوایا جائے۔ چنانچہ اگلے ہی دن آپ لندن حاضر ہو گئے۔ حضورؒسے ملاقات کے بعد آپ محترم چودھری حمید اللہ صاحب سے ملے۔ اُن سے ہدایات وغیرہ لینے کے بعد آپ اسلام آباد روانہ ہو گئے اور پھر آپ کی نگرانی میں اسٹیج کی تیاری شروع ہوئی اور آپ ہی ناظم حفاظت اسٹیج مقرر ہوئے۔ آپ کے پاس یہ ذمہ داری اگلے سات آٹھ سال تک رہی۔اس دَور میں آپ کا طریق تھا کہ آپ ایک ماہ کےلیے لندن آیا کرتے اور پھر جلسے کے بعد حضور ؒکے زیرِ ارشاد شعبہ حفاظت خاص یا پھر دفترپرائیویٹ سیکرٹری میں خدمات سر انجام دیا کرتے۔اس قیام کے دوران آپ کو اکثر حضورؒکے ساتھ صبح سیر کے مواقع بھی میسر آیا کرتے۔الحمدللہ۔

ایک دفعہ محترم امیر صاحب کراچی نے آپ سے دریافت فرمایا کہ شاد صاحب کیا آپ کا پاسپورٹ بنا ہوا ہے؟والد صاحب نے عرض کیا کہ امیر صاحب میں ایک معمولی سا سرکاری ملازم ہوں بھلا میں نے پاسپورٹ کیا کرنا ہے۔اس پر محتر م امیر صاحب نے فرمایا کہ اب جبکہ حضور ؒ لندن تشریف لے گئے ہیں تو جماعتی امور کی انجام دہی کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس لیے تم فوری طور پر پاسپورٹ بنوالو۔ پاسپورٹ بنوانے کے ایک ماہ بعد ہی پہلے جلسہ سالانہ انگلستان منعقد ہونے والا تھا۔اور پھر جلسے میں شرکت کے علاوہ سال میں آپ کو کئی کئی دفعہ جماعتی کاموں کے سلسلے میں لندن آ نا ہوتا۔مثلاً 1987ء میں جب حضور ؒافریقی ممالک کے دورے پر تشریف لے جارہے تھے تو اس موقع پر سربراہان مملکت کو جو یاد گاری شیلڈز پیش کی گئیں وہ جماعت کراچی کی نمائندگی میں آپ ہی نے کراچی سے اپنی خاص نگرانی میں بنوائیں اور خود لندن حاضر ہو کر حضورؒکی خدمت میں پیش کیں۔آپ کو بفضلہ تعالیٰ حضورؒکی شفقتوں سے کئی بار فیض یاب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ شروع شروع میں ایک دن آپ مسجد فضل کے احاطے میں ڈیوٹی پر تھے۔ اسی دوران حضورؒبغیر کسی حفاظتی عملے کے باہر تشریف لائے۔ حضورؒ کے ہاتھوں میں ایک سویٹر تھا۔آپ نے فرمایا کہ میں نے اوپر سے دیکھا کہ آپ ڈیوٹی پر ہیں اور شاید آپ کو سردی لگ رہی ہوگی اس لیے میں آپ کے لیے یہ سویٹر لایا ہوں۔یہ میں نے صرف ایک ہی دفعہ پہنا ہے۔ایں سعادت بزوربازو نیست۔

جلسہ سالانہ 1986ء کے موقع پر حضورؒ نے جماعت احمدیہ کراچی کے وفدکواجتماعی شرف ملاقات عطا فرمایا۔حضورؒ نے ازراہِ شفقت ملاقات کے لیے کھلا وقت عنایت فرمایا۔دورانِ ملاقات حضورؒ نے فرمایا کہ یہاں بعض دوست مجھ سے پاکستان خصوصا ًسندھ کے بارے میں جو واقعات اور مظالم ہورہے ہیں سوال کرتے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب آپ دوست بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔مَیں امیر صاحب یو کے کو ہدایت کر دیتا ہوں کہ فوری طور پر آپ کا پروگرام بنا کر یو کے کی جماعتوں کا دورہ کروائیں تاکہ یوکے کی جماعتوں کے دوستوں کو وہاں کی صحیح صورت حال کا علم ہوسکے اور اس بارے میں ان کے دلوں میں جو سوال ہیں آپ ان کا جواب دے سکیں۔اس کے علاوہ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ کچھ دن ذہنی طور پر آرام کرلیں۔ کافی عرصے سے آپ لوگ مسلسل اس اذیت ناک دور سے گزر رہے ہیں۔جب آپ واپس آئیں تو جرمنی اور اس سےملحقہ4/5ممالک کادورہ کریں۔ چنانچہ اس خوش نصیب وفد نے 7؍تا 12؍اگست 1986ء یو کے بھر کی بڑی بڑی جماعتوں کا دورہ کیا، اس کے علاوہ بر منگھم، لیک ڈسٹرکٹ، مانچسٹر، بریڈ فورڈ، گلاسگو،اور ایڈنبرا کی سیر کی۔ اس وفد میں مکرم چودھری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی، مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نائب امیر کراچی، مکرم منظور احمد شاد صاحب نائب امیر کراچی،مرزاعبدالرشید بیگ صاحب وکیل سپریم کورٹ، مکرم علی احمد طارق صاحب وکیل سپریم کورٹ، مکرم اقبال منہاس صاحب، مکرم منیر احمد خورشید صاحب اور مکرم قریشی مشہود احمد صاحب شامل تھے۔

(تاریخ جماعت احمدیہ کراچی، صفحہ 617)

والد محترم بتایا کرتے تھے کہ حضور ؒنےازراہ شفقت وفدکو سیر وغیرہ کےلیے ایک اچھی خاصی رقم بھی تحفہ کے طور پر عطا فرمائی تھی۔الغرض کراچی میں طویل قیام کے دوران آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف جہتوں سے بھر پور خدمات دینیہ کی توفیق حاصل ہوئی۔

تاریخ جماعت احمدیہ کراچی کے صفحہ نمبر1164 اور 1165 پر آپ کا مفصل تعارف پیش کیا گیا ہے۔

جرمنی آمد

1993ءسے قبل ہماری والدہ محترمہ اور ہم چاروں بہن بھائی جرمنی منتقل ہو چکے تھے۔چنانچہ محترم والد صاحب نے 1993ء میں حضورؒ کی خدمت اقدس میں جرمنی منتقلی کے متعلق اجازت اور مشورہ کے لیے عرض کیا۔ اس خط کے جواب میں حضور ؒنے اپنے خط محررہ 13؍جولائی 1993ءمیں فرمایا کہ

پیارے مکرم منظور احمد شاد صاحب

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ کی فیکس محررہ 93/07/12 بابت ذاتی مسئلہ اور مشورہ موصول ہوئی۔ٹھیک ہے۔اللہ نصرت فرمائے اور جماعت کراچی کو نعم البدل عطافرمائے۔جہاں تک آپ کا خدمت دین کا معاملہ ہے وہ تو آپ کو انشاءاللہ دنیا میں ہر جگہ توفیق مل جائے گی۔اللہ تعا لیٰ آپ کا اپنے خاندان میں جانا مبارک فرمائے۔

چنانچہ 1993ء میں آپ جرمنی آگئے۔ حضورؒنے محترم امیر صاحب جرمنی کے نا م آپ کو ایک خط دیا اور اس میں لکھا کہ منظور شاد صاحب جرمنی آرہے ہیں ان سے تربیتی امور میں خدمات لیں۔ چنانچہ جرمنی آمد کے بعد شروع ہی سے آپ کو خدمات کی توفیق عطا ہوتی چلی گئی۔آپ پہلے نیشنل سیکرٹری ضیافت، پھر نیشنل سیکرٹری سمعی و بصری رہے۔ اُسی دور میں جماعت احمدیہ جرمنی کا مبشر اسٹوڈیو بھی قائم ہوا۔اس کے بعدآپ کو فرینکفرٹ ریجن کا امیر مقرر کیا گیا۔ 1995ء میں آپ نیشنل سیکرٹری تربیت منتخب ہوئے۔ اسی دوران آپ کو لوکل امارت مائنز ویز بادن کا لوکل امیر منتخب کیا گیا۔ 2000ء میں آپ کو گروس گیراؤ کا ریجنل امیر مقرر کیا گیا۔ 2004ءتا 2007ء آپ نیشنل سیکرٹری امورِ عامہ رہے۔2004ءمیں میں دارلقضاء جرمنی میں مختارِ عام کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد ہوئی۔ بطور ریجنل امیر آپ کا طریقہ تھا کہ تمام جماعتوں کا دورہ کرتے۔ مجالس عاملہ کے اجلاسات بلاتے۔ہر ایک عہدہ دار کے ساتھ آپ کا ایک ذاتی تعلق ہوتا تھا۔ آپ مختلف کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے۔الغرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی میں قیام کے دوران بھی آپ کو بھر پور رنگ میں خدمت دین کی توفیق عطا ہوئی،الحمدللہ۔

ہومیو پیتھک

اس شعبہ کے ساتھ آپ کو قلبی لگاؤ تھا۔یہ لگاؤ آپ کو بہت پہلے سے تھا لیکن دیگر جماعتی مصروفیات کے باعث چاہتے ہوئے بھی اس طرف توجہ نہ دے سکے۔چنانچہ جرمنی آنے کے بعد آپ نے اس شوق کو صرف اپنے افراد خانہ تک ہی محدود رکھا ہوا تھا۔آپ کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نےشفا رکھی تھی۔اس کی بڑی وجہ دوا پہ یقین سے زیادہ آپ کا دُعا پر یقین تھا۔چنانچہ رفتہ رفتہ باہر بھی آپ کی اس حوالے سے شہرت ہونے لگی۔آپ نے اس سارے عرصے میں کبھی بھی کسی مریض سے کوئی فیس وغیرہ کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ سارا کام آپ بغیر کسی لالچ کے صرف اور صرف اللہ تعا لیٰ کی خوشنودی کے لیے کرتے تھے۔چنانچہ آپ کے پاس نہ صرف جرمنی سے بلکہ جرمنی سے باہر کے لوگ بھی دوائی کے لیے رجوع کرنے لگے اور یہ سلسلہ روز بروز پھیلتا چلا گیا۔جرمنی بھر میں آپ کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں تھی حضورؒبھی آپ کے کام سے بہت خوش تھے اور کئی مریضوں کو آپ کے ساتھ رجوع کرنے کا بھی کہا کرتے تھے۔

جرمنی سے لندن آمد

آپ 2010ء میں جرمنی سے لندن منتقل ہو گئے۔چنانچہ جب آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی خد مت اقدس میں جرمنی سے لندن منتقل ہونے کے متعلق ذکر کیا تو حضور نے ازراہ شفقت فرمایا کہ آپ شعبہ ہومیو پیتھک میں وقت دیا کریں۔ چنانچہ پچھلے دس سال سے مسلسل آپ بطور نائب انچارج شعبہ ہومیو پیتھک کےطور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔اور اس حیثیت سے ہفتے میں تین دن بیت الفتوح ہو میو پیتھک ڈسپنسری میں بیٹھا کرتے تھے۔یہاںپر بھی آپ کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ صرف لندن ہی میں یہ تعداد 1350سے زائد فیملیز پر مشتمل تھی، اسی طرح انگلستان کے دیگر شہروں سے بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ایک دفعہ جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر ایک عمر رسیدہ خاتون نے بہت اصرار کرکے آپ کو اپنے گھر مدعو کیا۔واپسی پر والد صاحب نے ہمیں بتایا کہ یہ وہ واحد مریضہ ہے کہ جس کو میری دوائی سے آرام نہیں آیا۔لیکن میری کوئی بھی ایسی تہجد کی نماز نہیں ہوتی کہ جس میں ان کے لیے میں دُعا نہیں کرتا۔ یہ وہ طریقہ علاج تھا کہ جو آپ کی کامیابی کا راز تھا۔ چنانچہ جب آپ کی وفات کے موقع پر آپ کے سینکڑوں مریضوں کے فون وغیرہ آئے تو اکثر لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ دوائیاں تو کسی بھی ڈاکٹر سے مل سکتی ہیں لیکن ہمیں تو فکر اُن دُعاؤں کی ہے کہ جن سے ہم محروم ہو گئے ہیں۔ الحمد للہ آپ کے علاج سے کئی ایسے مریض بھی شفایاب ہوئے جنہیں ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دے دیا تھا۔

عمرے کی سعادت

آپ کو اللہ تعا لیٰ کے فضل سے زندگی میں دو دفعہ عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔پہلی بار اپریل 2011ء اور دوسری بار اپریل 2019ءمیں۔ اس وقت میں یہاں پر آپ کے تعلق باللہ کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو کہ پہلے عمرے کے دوران پیش آیا۔جب آپ مسجد نبویؐ میں حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پر حاضر ہوئے تو شدید خواہش کے باوجودبہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے روضۂ مبارک کی جالی کےقریب ہونے یا ہاتھ لگانے سے محروم رہے۔چنانچہ آپ کو اس بات کا بہت ہی افسوس ہوا اور پھر اسی ملال کی کیفیت میں آپ ہوٹل جا کر سو گئے۔ لیکن نماز تہجد پر بیدار ہونے سے کچھ لمحے قبل آپ نے کشفی طور پر ایک عجیب نظارہ دیکھا آپ نے دیکھا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل قبر مبارک کے پاس مو جود ہیں اور قبر پر ہلکی ہلکی شبنم بھی پڑی ہوئی ہے۔اور آپ قبر مبارک کا بوسہ لیتے ہیں اور آپ کو وہ شبنم کی نمی اور مٹی کے ذرات اپنے ہونٹوں پر محسوس ہوتے ہیں۔ اُسی لمحے آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے اور ہونٹوں پہ نمی والی کیفیت جاگنے کے بعد بھی چند ایک لمحوں تک آپ نے محسوس کی۔ الحمد للہ۔

محترم والد صاحب نے اللہ تعا لیٰ کے فضل سے چار خلفائے احمدیت سے فیوض و برکات پائیں۔حضرت مصلح موعودؓ سے یہ برکتوں اورشفقتوں کاشروع ہونے والا سلسلہ ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز تک جاری و ساری رہا ۔چنانچہ 16؍ مارچ 2013ء بروز ہفتہ مسجد فضل لندن میں حضور انور ایدا للہ تعالیٰ نے اس عاجز کی بیٹی عزیزہ امۃالمتین خالد کے نکاح کا اعلان عزیزم مکرم محمد احمد خورشید مربی سلسلہ مانچسٹر کے ساتھ فرمایا۔الفضل انٹرنیشنل کی اشاعت 16/01/15 میں درج ہے کہ فریقین کے درمیان ایجاب و قبول کرواتے ہوئے حضور انور نے لڑکی کے والد سے دریافت فرمایا آپ شاد صاحب کے بیٹے ہیں۔ان کے اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضور انور نے فرمایا : یہ خاندان بھی بڑا خدمت کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ آئندہ نسلوں کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

پیارے آقا کی بے مثال غلام پروری اور شفقت

تقریب نکاح کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصر ہ العزیز نہ صرف یہ کہ شادی میں بنفس نفیس شریک ہوئے بلکہ اگلے روز تقریب ولیمہ میں بھی تشریف لائے۔ اللھمّ اید امامنا بروح القدس

چند سال ہوئے کہ ہم لوگ شرف ملاقات کے لیے حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔جیسے ہی ہم لوگ حضور انور کے دفتر میں داخل ہوئے والد صاحب کو دیکھتے ہی حضور نے فرمایا کہ شاد صاحب کہاں رہتے ہیں۔میں پچھلے دنوں آپ کو یاد کررہا تھا ( ہم نے دیکھا ہے کہ خلفاء سے ملاقات کے وقت آپ کبھی بھی ٹھیک طرح بات نہ کر پائے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے) چنانچہ یہاں بھی یہی صورت حال تھی۔ آپ نے روتے ہو ئے عرض کیا کہ حضور میں یہیں پر ہوتا ہوں۔ اس پر حضور نے فرما یا کہ نہ آپ کبھی جمعہ پر نظر آتے ہیں اور نا ہی کسی شادی وغیرہ پر نظر آتے ہیں۔اس پر والدصاحب نے عرض کیا کہ حضور میں جمعہ پر جاتا ہوں لیکن میں اوپر کرسی پر بیٹھتا ہوں۔اس پر پیارے آقا نے ازراہِ شفقت فرمایا کہ اچھا تو آپ کو یہاں آکر کرسی مل گئی ہے۔

الحمدللہ ہم نے دیکھا ہے کہ ہر ملاقات میں حضورپر نور محترم والد صاحب کے ساتھ انتہائی پیار اور شفقت کا اظہار فرماتے رہے۔محترم والد صاحب کا طریق تھا کہ ملاقات پر جانے سے قبل نظامِ خلافت اور نظام جماعت کی مضبوطی کے لیے لازمی بڑے درد اور سوز کے ساتھ دُعا کرواکر گھرسے روانہ ہوتے اور سفر میں بھی مسلسل دُعاؤں میں مشغول رہتے۔نظام جماعت اور نظام خلافت کے لیے آپ ہر قربانی کے لیے تیار رہتے۔خلفاء کی طرف سے جب بھی کوئی تحریک ہوتی آپ فورا ًاس پر لبیک کہتے۔لازمی چندہ جات کے علاوہ متعدد دیگر تحریکات میں بھی حسب توفیق ادائیگی کیا کرتے۔ سینٹ تھومس ہسپتال لندن کی طرف سے غریب اور نادار مریضوں کے لیے ایک چیریٹی میں باقاعدہ ہرماہ 30پاؤنڈ آپ کے اکاؤنٹ سے جا رہے تھے۔ جس کا ہمیں آپ کی وفات کے بعد علم ہوا۔

آپ بہت سادگی پسنداور نہایت نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ گھر میں تمام افرادِ خانہ کے ساتھ بہت ہی مشفقانہ سلوک تھا۔اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ اور پھر ان کے بچوں کے ساتھ آپ گھل مل جاتے۔چھوٹے بچوں کے لیے ہمیشہ اپنےکمرے میں چاکلیٹ وغیرہ رکھتے۔ بلکہ یہ شفقت کا سلوک اپنے مریضوں کے بچوں کےساتھ بھی تھا۔آپ کے چہرے پر ایک خدائی رعب تھا۔ایک روحانیت چھلکتی تھی۔آپ خاندان بھر کے افراد کے لیے قابل صد احترام بزرگ تھے۔ہر چھوٹا بڑاآپ کو دُعا کے لیے عرض کرتا۔ آپ نے ہمارے ساتھ بڑے لمبے لمبے سفر بھی کیے ہیں۔ دورانِ سفرآپ کی زبان ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہتی۔ بچوں کے یا گھر کے دیگر معاملات میں آپ نے کبھی بھی بے جا دخل اندازی نہیں کی۔آپ ایک صائب الرائے شخصیت رکھتے تھے۔ خاندان کے علاوہ آپ کے دوست احباب اور دیگر جاننے والے بھی آپ سے مشورہ وغیرہ لیتے اور پھر اس پر عمل پیرا بھی ہوتے۔آپ ایک عمدہ شاعر بھی تھے۔آپ بہت ہی کم کہا کرتے تھے۔ لیکن کبھی کسی خاص موقع پر طبع آزمائی کر بھی لیا کرتے۔چنانچہ جب ایم ٹی اے کا آغاز ہوا تو آپ نےایک نظم لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی خدمت اقدس میں بھجوائی۔حضورؒ نے نہ صرف نظم کو پسند فرمایا، بلکہ ایم ٹی اے کے ایک پروگرام میں حضورؒنے ایک خادم کو ترنم کے ساتھ پڑھنے کو کہا اور بعد میں حضورؒنے یہ نظم الفضل انٹر نیشنل کو اشاعت کے لیے بھجوا دی۔ چنانچہ یہ نظم 13؍ مئی 1994ءکے الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہوئی۔

آپ 17؍جنوری 2021ءسہ پہر ساڑھے تین بجے لندن کے ایک مقامی ہسپتال میں تین ہفتوں تک زیر علاج رہنے کے بعد اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ 22؍جنوری بروز جمعۃ المبارک آپ کی نماز جنازہ آپ کے بھتیجے مولانا منور احمد خورشید صاحب نے اسلام آباد کے قریب جماعت کے نئے قبرستان واقع ایشنگ۔گوڈالمنگ میں پڑھائی، اور بعد ازاں وہیں پر احاطہ موصیان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت آپ کا ایک نواسہ عزیزم سلمان احمدقمر بطور مربی سلسلہ خدمات کی توفیق پارہے ہیںالحمد للہ

حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 9؍ اپریل 2021ء کے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔حضور نے فرمایا:

’’اگلا جنازہ منظور احمد شاد صاحب کا ہے جو 17؍ جنوری کو 82سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

خاندان میں احمدیت آپ کے والد حضرت میاں عبدالکریم صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے 1903ء میں آئی تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے تھے۔ شاد صاحب 1956ء میں کراچی منتقل ہوئے۔ پھر وہاں بطور قائد ضلع کراچی خدمت کی توفیق ملی اور انہوں نے وہاں خدام الاحمدیہ میں بڑا اچھا کام کیا۔ پھر صدر جماعت ڈرگ روڈکالونی اور نائب امیر کراچی کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔1984ء میں جس وفدنے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا سکھر میں استقبال کیا تھا آپ اس وفد میں شامل تھے اور ان کی روانگی تک ایئر پورٹ پہ ہی رہے۔2010ء میں لندن منتقل ہوئے۔ یہاں بیت الفتوح ہومیوپیتھک ڈسپنسری میں بھی باقاعدہ وقت دیا کرتے تھے۔ وفات کے وقت آپ سیکرٹری تربیت اور سیکرٹری تربیت نومبائعین جماعت نَوربری (Norbury)خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے دو پوتے اور ایک نواسہ مربی ہیں اور یہیں یو کے میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button