کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

انسان نے خدا کو اُس کی قدرتوں سے شناخت کیا ہے

بڑا افسوس ہے کہ آریہ صاحبوں نے ایک صاف مسئلہ خالقیت باری تعالیٰ سے انکار کرکے اپنے تئیں بڑی مشکلات میں ڈال لیا اور پرمیشر کے کاموں کو اپنے نفس کے کاموں پر قیاس کرکے اُس کی توہین بھی کی اور یہ نہ سوچا کہ خدا ہر ایک صفت میں مخلوق سے الگ ہے اور مخلوق کے پیمانہ صفات سے خدا کو ناپنا یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کو اہل مناظرہ قیاس مع الفارق کہتے ہیں۔ اور یہ کہنا کہ نیستی سے ہستی نہیں ہوسکتی یہ تو مخلوق کے کاموں کی نسبت عقل کا ایک ناقص تجربہ ہے۔ پس اسی قاعدہ کے نیچے خدا کی صفات کو بھی داخل کرنا اگر ناسمجھی نہیں تو اَور کیا ہے۔ خدا بغیر جسمانی زبان کے بولتا ہے اور بغیر جسمانی کانوں کے سنتا ہے اور بغیر جسمانی آنکھوں کے دیکھتا ہے۔ اسی طرح وہ بغیر جسمانی لوازم کے پیدا بھی کرتا ہے۔ اُس کو مادہ کے لئے مجبور کرنا گویا خدائی صفات سے معطّل کرنا ہے۔ اور پھر اس عقیدہ میں ایک اور بھاری فساد ہے کہ یہ عقیدہ اَنادی ہونے کی صفت میں ذرّہ ذرّہ کو خدا تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے۔ اور بت پرست تو چند بتوں کو ہی خدا کے شریک قرار دیتے تھے مگر اس عقیدہ کے رُو سے تمام دنیا ہی خدا کی شریک ہے۔ کیونکہ ہر ایک ذرّہ اپنے وجود کا آپ ہی خدا ہے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں یہ باتیں کسی بغض اور عداوت سے نہیں کہتا بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ وید کی اصل تعلیم یہ ہرگز نہیں ہوگی۔ مجھے معلوم ہے کہ خود رو فلسفیوں کے ایسے عقیدے تھے جن میںسے بہت سے لوگ آخر کار دہریہ ہوگئے۔ اور مجھے خوف ہے کہ اگر آریہ صاحبوں نے اس عقیدہ سے دست کشی نہ کی تو اُن کا انجام بھی یہی ہوگا۔ اور اس عقیدہ کی شاخ جو تناسخ ہے وہ بھی خدا کے رحم اور فضل پر سخت دھبہ لگاتی ہے کیونکہ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دو تین بالشت کی جگہ میں مثلاً چیونٹیئیں اتنی ہوتی ہیں کہ کئی ارب سے زائد ہو جاتی ہیں اور ہر ایک قطرہ پانی میں کئی ہزار کیڑا ہوتا ہے او ر دریا اور سمندر اورجنگل طرح طرح کے حیوانات اور کیڑوں سے بھرے ہوئے ہیں جن کی طرف ہم انسانی تعداد کو کچھ بھی نسبت نہیں دے سکتے۔ اس صورت میں خیال آتا ہے کہ اگر بفرض محال تناسخ صحیح ہے تو اب تک پرمیشر نے بنایا کیا ؟ اور کس کو مکتی دی اور آئندہ کیا اُمید رکھی جائے ؟

ماسوا اس کے یہ قانون بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ سزا تو دی جائے مگر سزا یافتہ شخص کو جرم پر اطلاع نہ دی جائے۔ اور پھر ایک نہایت مصیبت کی جگہ یہ ہے کہ مکتی تو گیان پر موقوف ہے اور گیان ساتھ ساتھ برباد ہوتا رہتا ہے اور کوئی کسی جون میں آنے والا خواہ کیسا ہی پنڈت کیوں نہ ہو کوئی حصہ دید کا یاد نہیں رکھتا۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ جُونوں کے ذریعہ سے مکتی پانا ہی محال ہے۔ اور جو جُونوں کے چکر میں پڑ کر مرد اور عورتیں دُنیا میں آتی ہیں اُن کے ساتھ کوئی ایسی فہرست نہیں آتی جس سے اُن کے رشتوں کا حال معلوم ہو،تا کوئی بےچارہ کسی ایسی نوزاد کو اپنی شادی میں نہ لائے جو دراصل اُس کی ہمشیرہ یاماں ہے۔

اورنیوگ کا مسئلہ جو آج کل آریہ صاحبوں میں رائج ہے اِس کی نسبت تو ہم باربار یہی نصیحت کرتے ہیں کہ اس کو جہاں تک ممکن ہو ترک کردینا چاہئے۔ انسانی سرشت ہرگز قبول نہ کرے گی کہ ایک شخص اپنی عزت دار عورت کو جس پر اُس کے تمام ننگ و ناموس کا مدار ہے باوجود اپنے جائز خاوند ہونے کے اور باوجود اس علاقہ کے قائم ہونے کے جو زن و شوہر میں ہوتا ہے۔ پھر اپنی پاک دامن بیوی کو اولاد کی خواہش سے دوسروں سے ہم بستر کرا دے۔ اس بارہ میں ہم زیادہ لکھنا نہیں چاہتے صرف شریف انسانوں کے کانشنس پر چھوڑتے ہیں۔ بایں ہمہ آریہ صاحبان اس کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں کو اپنے اس مذہب کی دعوت کریں۔ سو ہم کہتے ہیں کہ ہر ایک عقلمند سچائی کے قبول کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے مگر یہ سچائی نہیں ہے کہ اُس خدا کو جس نے اپنی بزرگ قدرتوں سے اپنی ہستی کو ظاہر فرمایا ہے خالقیّت سے جواب دیا جاوے اور اُس کو تمام فیضوں کا مظہر نہ سمجھا جائے۔ ایسا پرمیشور ہرگز پرمیشور نہیں ہو سکتا۔ انسان نے خدا کو اُس کی قدرتوں سے شناخت کیا ہے۔ جب کوئی قدرت اس میں نہیں رہی اور وہ بھی ہماری طرح اسباب کا محتاج ہے تو پھر اس کی شناخت کا دروازہ بند ہو جائے گا۔

پھر ماسوا اس کے خداتعالیٰ اپنے احسانات کی وجہ سے قابلِ عبادت ہے مگر جب کہ اُس نے رُوحوں کو پیدا ہی نہیں کیا اور نہ اس میں بغیر عمل کسی عامل کے فضل اور احسان کرنے کی صفت موجود ہے تو ایسا پرمیشر کس وجہ سے قابلِ عبادت ٹھہرے گا؟ جہاں تک ہم غور کرتے ہیں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آریہ صاحبوں نے اپنے مذہب کا اچھا نمونہ پیش نہیں کیا۔ پرمیشر کو ایسا کمزور اور کینہ ور ٹھہرایا کہ وہ کروڑہا ارب سزا دے کر پھر بھی دائمیُ مکتی نہیں دیتا اور غصہ اُس کا کبھی فرو نہیں ہوتا اور آریہ صاحبوں نے قومی تہذیب پر نیوگ کا ایک سیاہ داغ لگا دیا ہے اور اس طرح پر انہوں نے غریب عورتوں کی عزت پر بھی حملہ کیا۔اور دونوں پہلو حق اللہ اور حق العباد میں قابل شرم فساد ڈال دیا۔ یہ مذہب پرمیشور کو معطّل کرنے کے لحاظ سے دہریوں سے بہت قریب ہے۔ اور نیوگ کے لحاظ سے ایک ناقابلِ ذکر قوم سے قریب۔

(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ231تا 233)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button