تاریخ احمدیت

’’دختِ کرام‘‘ حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے دست مبارک سے سوئٹزرلینڈ کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد

25؍ظہور،اگست 1341ہش/1962ء کو سوئٹزرلینڈ کی پہلی یادگار مسجد کا سنگ بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دختر نیک اختر حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ ؓنے اپنے دست مبارک سے رکھا اور دعا فرمائی۔اس مقدس تقریب کے ایمان افروز کوائف واحوال مجاہد اسلام سوئٹزرلینڈ چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے قلم سے لکھے جاتے ہیں۔

’’دنیا میں بے شک تقدیر اور تدبیر دونوں الٰہی قانون جاری ہیں لیکن مجھے اپنی زندگی میں تقدیر اس طرح تدبیرپر حاوی نظر آئی ہے گویا تدبیر کا وجود ہی نہیں۔سوئٹزرلینڈ میں مبلغ مقرر کئے جانے کا خیال میرے دماغ کے کسی گوشے میں بھی نہیں آسکتا تھا لیکن تقدیر یہاں پر لے آئی۔ اور پھر وہم میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبشر اولاد میں سے کسی کے ہاتھوں مسجد زیورک کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ غیر متوقع طور پر حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ مدظلہا العالی کے دست مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جانا محض تقدیر الٰہی کا ایک کرشمہ ہے۔

عاجز نے یہاں سخت نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ کام شروع کیا اور جملہ مراحل یکے بعد دیگرے محض اس کے کرم سے سرانجام پاگئے حتیٰ کہ مسجد کے پلاٹ پر کام شروع کرنے کا دن آگیا۔ میں نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر سے درخواست کی تھی کہ وہ خودسنگ بنیاد کے لئے تشریف لاویں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میرے لئے امسال یورپ آنا ممکن نہیں آپ خود ہی بنیاد رکھ لیں۔ میں نے پھر اپنی اس شدید خواہش کا اظہار کیا کہ مسجد کی بنیاد ایسے ہاتھوں سے رکھی جائے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دوہرا تعلق ہو۔ نہ صرف یہ کہ وہ سلسلہ کا خادم ہو بلکہ جسمانی طور پر بھی حضور کے برگ وبار میں سے ہو۔ سنگ بنیاد رکھنے کا وقت قریب آرہا تھا کوئی انتظام نہ ہونے کے باوجود قلب کو اطمینان تھا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی جناب سے سامان پیدا کردے گا۔

اچانک ایک دن محترم امام صاحب مسجد لنڈن چودھری رحمت خان صاحب کا مکتوب گرامی آیا جس میں حضرت سیدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کی تشریف آوری کا ذکر تھا۔ یہ خبر اتنی غیر متوقع اور خوشکن تھی کہ اس کے سچا ہونے پر یقین نہ آتا تھا۔ میں نے یہ خط اہلیہ ام کو دیا انہوں نے بھی پڑھ کر تعجب کا اظہار کیا۔ خاکسار نے حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت میں بذریعہ تار یورپ تشریف آوری پر خوش آمدید عرض کیا اور مسجد زیورک کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کی آپ نے کمال شفقت سے اسے منظور فرمایا اور تحریر فرمایا کہ وہ اسے بڑی سعادت سمجھتی ہیں۔

میں نے سوئٹزرلینڈ کے تمام احمدی احباب سے جن میں سے اکثر زیورک سے باہر رہتے ہیں رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اس تقریب میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کریں۔ آسٹریا کے احمدیوں کو بھی مدعو کیاگیا۔ اخبارات اور نیوز ایجنسیوں سے بھی رابطہ قائم کیا۔ پھر اپنی جماعت کے احباب کے علاوہ زیورک یا اس کے نواح میں مقیم مختلف ممالک کے مسلمانوں کو بھی اس تاریخی تقریب میں مدعو کیا۔ اس موقعہ پر پریس کے لئے جرمن زبان میں ایک تفصیلی بیان تیار کیاگیا۔ اس دوران حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب مدظلہ، اور محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے پیغامات بھی موصول ہوگئے، ان کا بھی جرمن ترجمہ تیار کروایا گیا۔

حضرت بیگم صاحبہ ممدوحہ حسب پروگرام مورخہ 24؍اگست بروز جمعہ پونے بارہ بجے ڈنمارک سے محترمہ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ کے ہمراہ تشریف لائیں۔ ہوائی اڈہ پر صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب معہ بیگم صاحبہ بھی موجود تھے جو ایک دن قبل ہمبرگ پہنچ گئے تھے۔ ایئرپورٹ پر پرتپاک خیرمقدم کیاگیا طے شدہ پروگرام کے مطابق اسی روز دو بجے ایک نیوز ایجنسی نے ایک خاتون کو ٹیپ ریکارڈ کے ساتھ حضرت بیگم صاحبہ کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لئے بھجوایا۔ حضرت بیگم صاحبہ سے اس خاتون نے مختلف سوالات کئے اور حضرت بیگم صاحبہ کی زبان مبارک سے جواب ریکارڈ کرنے کے بعد عزیزہ امۃ المجیدبنت چوہدری عبداللطیف صاحب امام مسجد ہمبرگ نے اس کا جرمن ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ بھی ریکارڈ کیاگیا۔

حضرت بیگم صاحبہ نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا کہ ’سویس لوگوں کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اسلام کا مطالعہ کریں اور ہمارے مبلغ مشتاق احمد صاحب باجوہ سے رابطہ پیدا کرکے لٹریچر حاصل کریں‘۔ اس کی اولین سعادت نیوز ایجنسی کے مینیجر کو حاصل ہوئی اس نے فوراً فون کیا کہ میں لٹریچر دیکھنا چاہتا ہوں مجھے بھجوایا جائے۔ چنانچہ بذریعہ ڈاک اسے لٹریچر بھجوایاگیا۔ حضرت بیگم صاحبہ کا یہ انٹرویو زیورک کے ایک اخبار میں من و عن شائع ہوا۔

25؍اگست کو ساڑھے دس بجے صبح مسجد کی بنیاد کا وقت مقرر تھا۔ صبح اٹھے تو مطلع ابر آلود تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ خاکسار صبح ہی وہاں پہنچ گیا کیونکہ بعض دوست جو باہر سے آرہے تھے ان سے مسجد کے قریبی ایک ریسٹوران میں ہی ملاقات کرنے کا اہتمام کیاگیاتھا۔ خاکسار بعض احباب و خواتین کے ہمراہ پلاٹ پر مہمانوں کا منتظر تھا کہ بارش میں کچھ اضافہ ہوگیا۔ اس اثناء میں حضرت بیگم صاحبہ کے ریسٹوران میں تشریف لے آنے کی اطلاع موصول ہوئی۔ اب کافی دوست جمع ہوچکے تھے۔ برادرم چودھری عبداللطیف صاحب بھی ہمبرگ سے پہنچ گئے تھے آپ کی بڑی خواہش تھی کہ اس مبارک تقریب میں شریک ہوں۔ حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت میں درخواست بھجوائی گئی کہ اب تشریف لے آویں۔ چند منٹ میں آپ کی کار آگئی۔ خاکسار نے آگے بڑھ کر کارکا دروازہ کھولا۔ حضرت بیگم صاحبہ مدظلہاالعالی محترمہ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ، محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب، عزیزہ امةالمجید اور اہلیہ ام کی معیت میں اترے۔

یہ نظارہ سویس آنکھوں کے لئے عجیب تھا۔ پریس فوٹو گرافروں کے کیمرے حرکت میں آگئے۔ سب سے پہلے جماعت احمدیہ سوئٹزرلینڈ کی طرف سے السلام علیکم اور خوش آمدید عرض کرنے کے لئے ہماری نو مسلمہ بہن مس فاطمہ ہولٹزشو آگے بڑھیں اور ان سے مصافحہ کے بعد پھول پیش کئے۔ ان کے ساتھ دوسری نومسلم بہن مس جمیلہ سوسترنک تھی۔ حضرت بیگم صاحبہ مدظلہاالعالی دونوں کے ہمراہ سٹیج کی طرف تشریف لے گئیں چند منٹ وہاں خواتین کے ساتھ ٹھہرنے کے بعد خاص طور پر تیار شدہ سیڑھیوں کے ذریعے نیچے بنیاد کی جگہ پر تشریف لے گئیں۔ خاکسار آپ کے ہمراہ تھا۔ ایک بالٹی میں سیمنٹ رکھا تھا۔ میں نے آپ کی خدمت میں مسجد مبارک کی وہ اینٹ جو سیدنا حضرت امیرالمومنین اطال اللہ بقاء واطلع شموس طالعہ سے دعا کے بعد ربوہ سے بھجوائی گئی ہوئی تھی پیش کی۔آپ نےاس پر سیمنٹ لگایا اور دعا کےساتھ بنیاد میں رکھ دی پھر اس کے اوپر تھوڑا سا سیمنٹ لگایا۔ خاکسار نے اس کے بعد مزید پلستر لگاکر حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی لخت جگر اور مبشرہ صاحبزادی کے دست مبارک کی رکھی ہوئی بنیاد کو محفوظ کردیا۔ اس کے بعد حضرت بیگم صاحبہ سیڑھیوں پر سے ہوتی ہوئی اوپر سٹیج پر تشریف لائیں۔ خاکسار نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد کعبہ کے موقع کی دعائیں تلاوت کیں۔ سویس ریڈیو کا نمائندہ اس کارروائی کو ریکارڈ کرنے کے لئے آیا ہوا تھا اس نے اپنا مائیک میرے سامنے رکھ دیا۔ ہمارے نومسلم بھائی مسٹر رفیق چانن نے جو اس تقریب کے لئے لمبا سفر کرکے آئے تھے ان کا جرمن ترجمہ پڑھ کر سنایا۔

حضرت بیگم صاحبہ نے اللہ تعالیٰ کا شکرادا کیا اور دعا فرمائی اور پھر برادرم چودھری عبداللطیف صاحب نے اس کا جرمن ترجمہ سنایا اور آخر میں خاکسار نے حضرت بیگم صاحبہ اور حاضرین سمیت ہاتھ اٹھاکر لمبی دعا کی اس طرح یہ تاریخی تقریب انجام پذیر ہوئی۔

اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب قدرت تھی کہ حضرت بیگم صاحبہ کی آمد سے قبل بارش ہورہی تھی لیکن اس تقریب کے آغاز کے ساتھ ہی بارش بالکل رک گئی۔ حضرت بیگم صاحبہ اپنے قافلہ سمیت مشن ہاؤس تشریف لے گئیں اور باقی احباب و خواتین جن میں سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کے احمدی بہن بھائیوں کے علاوہ مختلف ممالک کے مسلمان بھی موجود تھے، ریستوران میں تشریف لے گئے۔ یہاں پر ریڈیو کے نمائندہ نے بعض سوالات دریافت کئے برادرم لطیف صاحب نے ان کے جوابات ریکارڈ کروائے۔

مسجد کے پلاٹ کے ساتھ جلد سازی کی ایک بہت بڑی فرم کا کارخانہ ہے اس کے ڈائریکٹر نے 23؍ اگست کو جب خاکسار انجنیئروں کے ہمراہ پلاٹ پر بنیاد کی سکیم طے کررہا تھا، آکر ملاقات کی اور ہمیں خوش آمدید کہا اور اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ اس نے ایک خوبصورت بیضوی البم تیارکروایا اس البم کو اس تاریخی تقریب میں شریک ہونے والے احباب و خواتین کی یاد محفوظ رکھنے کے لئے دستخطوں کے واسطے استعمال کیا گیا۔

25؍کی شام کو جب ریڈیو نے ہماری اس مسجد کے افتتاح کی خبر نشر کی تو اس کے ساتھ ہی ایک پادری کا مسجد کے بارہ میں تبصرہ بھی براڈ کاسٹ کیاگیا۔ ایک نومسلم خاتون نے اس بارہ میں اپنا تاثر دیتے ہوئے بتایا کہ اس پادری کی آواز کی لرزش سے اس کی سراسیمگی ہویدا تھی۔ اس نے کہا کہ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ عین گرجا کے سامنے کیوں مسجد بنائی جارہی ہے!

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا دخل نہ تھا۔ اتفاق سے ہمیں مسجد کے لئے پلاٹ ایسی جگہ ملا ہے جو عین گرجا کے سامنے ہے۔ مسجد خدائے واحد کا گھر ہے اور اس سے پانچوں وقت اس کی توحید کی منادی ہوتی ہے۔ اس کے بالمقابل مسیحی گرجا تثلیث کا مرکز ہے۔ ان کے ایک دوسرے کے مقابل پر ہونے سے تصویری زبان میں توحید و تثلیث کے مقابلہ کا اظہار ہے اور یہی چیز ہے جس کو سوئٹزرلینڈ میں فطری طور پر محسوس کیا جارہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے سوالات ان کے اس احساس کے آئینہ دار ہیں۔

سویس پریس نے اس واقعہ کو غیرمعمولی اہمیت دی ہے۔ ملک کے ایک سرے سے لیکر دوسرے تک جرمن۔ فرنچ اور اطالوی زبان کے اخبارات نے یہ خبر شائع کی۔ بعض نے تبصرہ بھی کیا ہے اور بعض نے مضمون لکھے ہیں۔ بعض اخبارات نے تقریب کی تصاویر شائع کی ہیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 172 ایسے اخبارات یا ان کے تراشے موصول ہوچکے ہیں جن میں یہ خبر شائع ہوئی ہے،الحمدللہ۔

پریس کے نقطہ نظر سے سویس کے لئے اس خبر کی اہمیت کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ہوسکتا ہے۔

اخبار ٹسرشر (ZURCHERWOCHE) نے جو زیورک کا اپنی تعداد اور اثر کے لحاظ سے بہت وقیع 24 صفحات کا ہفت روزہ ہے، 28؍اگست کو اس بناء پر میرا انٹرویو لیاکہ مسجد کے باعث لوگوں میں اسلام اور جماعت کے متعلق کوائف معلوم کرنے کی جستجو پیدا ہوگئی ہے۔ یہ انٹرویو 31؍ اگست کے پرچہ میں شائع ہوا۔ یہ اخبار ہر ہفتہ نیا پرچہ شائع ہونے پر پوسٹر شائع کرتا ہے جس میں اس ہفتہ کے پرچہ کے اہم مضامین کے عنوان دیئے ہوئے ہوتے ہیں تا لوگوں میں اس کو خریدنے کے لئے کشش پیدا ہو۔ یہ پوسٹر تمام ٹراموں اور بسوں میں لٹک رہا ہوتا ہے اور اس اخبار کے بیچنے والے ایجنٹ اپنی دکانوں کے باہر نمایاں جگہ پر اسے لگاتے ہیں۔

31؍اگست کو یہ پوسٹر زیورک میں تمام جگہوں پر ایک ہفتہ کے لئے لگادیاگیا۔ اس پوسٹر کا پہلا جلی عنوان یہ تھا ’’زیوریک میں مسجد کیوں؟‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے ایک کے اس موقعہ پر لمبا سفر کرکے سوئٹزرلینڈ میں پہنچ جانا اور اپنے دست مبارک سے یورپ کے اس امیر ترین اور حسین ترین خطہ میں جسے بعض قلب یورپ کہتے ہیں مسجد کی بنیاد رکھنا زیورک یا سوئٹزرلینڈ کے عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے لئے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم نہ صرف مسجد کی اس اینٹ وکنکریٹ کی عمارت کو شایان شان طریق پر مکمل کریں اور فرنش کریں بلکہ اس کو ہمیشہ نمازیوں سے آباد رکھیں اور اسے اسلام کی تبلیغ واشاعت کے ایک موثر مرکز کے طور پر قائم رکھنے کی سعی کریں جس کے لئے طویل اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔

حضرت بیگم صاحبہ ممدوحہ نے اپنے ایک نوٹ میں تحریر فرمایا۔

’’…بنیاد کے تعلق کی بناء پر کچھ ایسی ذمہ داری محسوس ہورہی ہے جیسے میرے ہی کاندھوں پر بوجھ ہے۔‘‘

جو ذمہ داری ہمارے پیارے آقا کی صاحبزادی پر بنیاد رکھنے سے عائد ہوئی ہے ہم سب احمدی اپنے آقا سے تعلق کی نسبت سے اس میں شریک ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے باحسن عہدہ برآ ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین!

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب مدظلہ العالی کو اللہ تعالیٰ نے بہت نکتہ سنج طبیعت بخشی ہے آپ نے اس موقعہ پر یہ دعا تحریر فرمائی ہے۔

’’اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عزیزہ امتہ الحفیظ بیگم کے سنگ بنیاد رکھنے کو مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ کرے اور ہمشیرہ کے نام کی طرح اس مسجد کو یورپ کے اس علاقہ کے لئے حفاظت کا قلعہ بنادے۔ آمین۔‘‘

حضرت بیگم صاحبہ مدظلہاالعالی اپنے ایک مکتوب میں لنڈن سے تحریر فرماتی ہیں۔

’’مجھے بے حد خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مسجد کو شروع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ورنہ مبلغ تو اس ملک میں عرصہ دراز سے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص احسان ہے۔ میری دعا ہے کہ آپ ہی کے ہاتھوں سے یہ پایۂ تکمیل کو پہنچے اور اس کا افتتاح بنیاد کے موقعہ سے بھی شاندار اور خوشی کا موجب ہو میں تو یہ دعا کررہی ہوں کہ اللہ تعالیٰ سیدنا بھائی صاحب ہی کو کامل صحت عطا فرمائے اور رسم افتتاح ان کے مبارک ہاتھوں سے انجام پائے۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے اگر ایسا ہوجائے تو آپ کی خوش نصیبی قابل رشک ہوگی۔‘‘

حضرت بیگم صاحبہ کے قلب مطہر سے جو دعا نکلی ہے وہ ہراحمدی کے دل میں درد کی ٹیس پیدا کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے میرے دل میں شدید تڑپ پیدا ہوگئی ہے کہ کاش ایسا ہی ہو اگر اللہ تعالیٰ یہ دن لے آئے تو میری خوش نصیبی میں کیا شبہ! یہ مبارک دن ساری دنیا کے احمدیوں کے لئے ایک مسرت کا دن ہوگا۔ کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مسیح پاک علیہ السلام کے جگر گوشہ کی یہ پرسوز دعا، ایک دردمند بہن کی بارگاہ الٰہی میں پکار، ایک مخلصہ کے قلب کی صدا جس سے ہراحمدی کے قلب کی صدا ہم آہنگ ہے، سن لے!

’’حضور اطال اللہ بقاء کی ولادت با سعادت سے قبل سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد کی دیوار پر محمود لکھا دیکھا تھا۔ بیشک یہ جماعت کی امامت کی پیشگوئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں بھی اس کو پورا کیا کہ سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ الودود کو مشرق و مغرب میں جابجا مساجد تعمیر کروانے کی توفیق بخشی۔ گویا اس لحاظ سے ان مساجد کی دیوار پر محمود کا نام ہی تحریر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی پیشگوئیوں کے ماتحت اس پسر موعود، اس اولوالعزم امام کو مراکز تثلیث میں خدائے واحد کے نام کی منادی کے لئے مساجد بنانے اور روحانی لحاظ سے ایک وسیع عالمی نظام قائم کرنے کی توفیق بخشی ہے اب وہ خدائے قدیر اپنی قدرت کاملہ سے اسے حضور کی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھنا بھی دکھائے۔ کامل صحت بخشے اور صحت وعافیت کے ساتھ لمبی، کامیاب، بامراد عمردے تانہ صرف زیورک کی مسجد میں آپ کی تلاوت قرآن پاک گونج پیدا کرے بلکہ یورپ اور دنیا بھر میں ان مقدس ہونٹوں سے نکلی ہوئی تلاوت دیر تک گونج پیدا کرتی رہے۔ آمین۔‘‘

(الفضل 28؍ستمبر 1962ء صفحہ 3تا4)

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد دہم صفحہ 123تا130)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button