رشتہ ناطہ

شادی کے معاملے میں دینداری کو ترجیح دی جائے

سوال: اسی ملاقات میں ایک لجنہ ممبرنے حضور سے دریافت کیا کہ شادی کے معاملے میں دین کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ہے۔ مگر آج کل لوگ خوبصورتی اور دوسری خصوصیات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جس وجہ سے جماعت کی کافی نیک اور دینی لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی، اس بارے میں حضور سے راہنمائی کی درخواست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

جواب: دیکھیں ہم نے تو کوشش کرنی ہے اور میں تو کوشش کرتا رہتا ہوں۔ لڑکوں کو بھی سمجھاتا رہتا ہوں۔ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ آنحضرتﷺ نے یہی فرمایا ہے کہ تم لوگ جو کسی سے شادی کرتے ہو تو اس کی خصوصیات کی بنا پر کرتے ہو یا اس کا خاندان دیکھتے ہو یا اس کی شکل دیکھتے ہویا اس کی دولت دیکھتے ہو۔ لیکن ایک مومن جو ہے اس کو ہمیشہ عورت کا دین دیکھنا چاہیے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر لڑکوں میں دین نہیں ہوگا تو وہ لڑکیوں کا دین کس طرح دیکھیں گے؟ تو جو جماعتی نظام ہے اور خدام الاحمدیہ ہے، میں ان کو بھی کہتا ہوں کہ لڑکوں میں دینداری پیدا کرو۔ جب لڑکوں میں دینداری پیدا ہوگی تو پھر وہ یقیناً ایسی لڑکیوں سے شادی کرنے کی کوشش کریں گے جو دیندار ہوں۔ تو یہ تربیت کا معاملہ ہے اور اس طرف میں جماعت کو بھی توجہ دلاتا رہتا ہوں اور خدام الاحمدیہ کو بھی توجہ دلاتا رہتا ہوں اور انصار اللہ کو بھی توجہ دلاتا رہتاہوں۔ لیکن لجنہ کا کام یہی ہے کہ وہ خود بھی کوشش کریں، جو بڑی عمر کی لجنہ ممبرات ہیں، مائیں ہیں وہ بھی اپنے بچوں اور لڑکوں کی تربیت کریں، ان کو توجہ دلائیں کہ تم نے نیک اور دیندار لڑکی سے شادی کرنی ہے۔ اگر مائیں اپنا کردار ادا کریں گی تو یقیناً ان کے لڑکے بھی دیندار لڑکیوں سے شادی کریں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب لڑکے کی شادی کا معاملہ آتا ہے تو مائیں کہتی ہیں کہ ہمارا بچہ جو ہے ہم اس کی شادی اپنی مرضی سےکریں گے۔ اور جب لڑکیوں کی عمر گزر رہی ہوتی ہے اور لڑکیوں کے رشتے نہیں ملتے، جب وہ بڑی ہو جاتی ہیں، تو پھر مائیں اور باپ کہتے ہیں کہ جماعت ان کی شادی کروادے۔ حالانکہ دونوں کو جماعت کے سپرد کرنا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ دیندار لڑکے اور دیندار لڑکیاں آپس میں مل کر شادیاں کریں تا کہ جماعت کے اندر ہی لڑکے اور لڑکیاں رہیں اور آئندہ بھی نیک اور دیندار نسل پیدا ہوتی رہے۔ تو یہ تو کوشش ہے، مردوں کی بھی اور عورتوں کی بھی مشترکہ کوشش ہے، جو مل کے کرنی چاہیے۔ اس میں ماوٴں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور باپوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کےلیے میں کوشش بھی کرتا ہوں، میں توجہ بھی دلاتا ہوں، دعا بھی کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button