متفرق مضامین

چودھری محمد علی صاحب (نمبر 8)

(‘ابن طاہر’)

حضو رؓ نے اپنے خطاب کے دوران مولوی محمد علی کی کوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ توچلے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں آج اسی علاقے، اسی قوم اور اسی قابلیت کا حامل ایک اور محمد علی عطا فرما دیا ہے جو احمدیت کو اپنی روایات سمیت قائم رکھنے کا عہد کیے ہوئے ہے۔

میں اس سے پہلے اپنے دو دوستوں، افضل اور اکبر کا ذکر کر چکا ہوں۔ ان ہی کی وجہ سے میری قبولِ احمدیت کی خبر افشا ہوئی تھی۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ ان کے چھوٹے بھائی اصغر تھے جو سپرنٹندنٹ آف پولیس ہوکر ریٹائر ہوچکے ہیں۔ ان کے ساتھ میری نوک جھونک رہتی تھی۔ ایک بار کہنے لگے: کسی وقت مجھے بھی تو اپنا قادیان دکھائو چنانچہ ہم دونوں پروگرام بنا کر وہاں چلے گئے۔ دارالضیافت میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے عبدالاحد خان افغان ملے۔ ان کے ہاتھ میں لوہے کا بھاری بھر کم صراحی نما لوٹا اور منہ میں مسواک تھی۔ ان کی چادر یا پاجامہ بھی ٹخنوں سے اونچا تھا۔ اصغر انہیں دیکھتے ہی کہنے لگے: چلو یار! واپس چلیں۔ میں نے ان سے پوچھا: اتنی جلدی؟ کیوں کیا ہوا؟ کہنے لگے: مجھے سمجھ آگئی ہے۔ کون کہتا ہے آپ مسلمان نہیں ہیں؟ یہاں بھی وہی لوٹا ہے اور وہی ٹخنوں سے اوپر شلوار!

ابھی عبدالاحد خان افغان کا ذکر ہوا ہے۔ اردو سے مکمل طور پر نابلد تھے۔ وہ حضورؓ کے باڈی گارڈ تھے لیکن ان کی ڈیوٹی میں یہ بات شامل تھی کہ حضورؓ باہر سے آئیں تو وہ آپ کے جوتے اتاردیں اور آپ باہر جارہے ہوں تو وہ آپ کو جوتا پیش کردیں اور جب آپ اس میں پائوں ڈال لیں تو وہ تسمے باندھ دیں۔ ایک بار جوتا پہناتے ہوئے ان کی جیب سے سگریٹ کی ڈبیہ زمین پر جاگری۔ حضورؓ نے دیکھا تو پوچھنے لگے: عبدالاحد یہ کیا ہے؟ وہ خاموش رہے۔ اس وقت حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ بھی پاس کھڑے تھے لیکن اتنے قریب نہ تھے کہ حضوؓر کا سوال سن سکتے چنانچہ بعد میں جب انہوں نے عبدالاحد خاں سے تفصیل جاننا چاہی تو انہوں نے جواباً کہا: خود حضور سے پوچھ لو۔ میں نہیں بتاتی۔ حضورؓ نے بھی عبدالاحد خاں کا بھرم رکھا اور کبھی کسی کے سامنے یہ بات منکشف نہیں ہونے دی کہ وہ سگریٹ نوشی کے عادی ہیں۔

اب دوبارہ اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے میں عرض کروں گا بفضلہ تعالیٰ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحبؒ نے مجھ پر ہمیشہ اعتماد کیا ہے چنانچہ جب کالج شروع ہوا تو آپ انگریزی کی ڈاک مجھے دے دیا کرتے تھے۔ ان ہی دنوں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ایک خط آیا کہ انٹرمیڈیٹ کالجز کے پرنسپلز کے لیے یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل میں ایک سیٹ خالی ہوئی ہے اور فلاں تاریخ کو اس پر انتخاب ہوگا لہٰذا کاغذاتِ نامزدگی بھیجے جائیں۔ مجھے الیکشن کا چسکا تو کالج کے زمانے سے پڑا ہوا تھا چنانچہ میں نے اس خط کی ایک جھلک میاں صاحب کو دکھائی اور پھر آپ کو کچھ بتائے سنے بغیر قادیان سے لاہور چلا گیا۔ بیدی اور حاجی لطیف سمیت اپنے کچھ دوستوں کو پکڑا اور فارم مکمل کر کے میاں صاحب کی طرف سے داخل کرادیا۔ ساتھ ایک نوٹ لگا دیا جس کے الفاظ ان الفاظ سے ملتے جلتے تھے

He is a citizen of both the worlds. He is a Hafiz-e-Quran. He is also

graduate of the Oxford University. It will be an honour to the Acadamic Council if he is returend unopposed.

ظاہر ہے میں نے جاتے ہوئے میاں صاحب کو نہیں بتایا تھا نہ انہوں نے ان کاغذات پر دستخط کیے تھے۔ میں تو اپنی طرف سے بڑا کارنامہ سرانجام دے کر آیا تھا چنانچہ جب میں نے قادیان واپس آکر خوشی خوشی آپ کو یہ خبر سنائی اور مبارک باد دی تو آپ خاموش ہوگئے۔ کم از کم ایک منٹ خاموش رہے۔ ایک منٹ کا وقفہ بہت لمبا وقفہ ہوتا ہے اور مجھے یوں لگا جیسے ایک ہفتہ گزر گیا ہو۔ پھر فرمانے لگے: مجھے کوئی ناراضگی نہیں ہے لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھ لیتے تو میں حضور سے اجازت لے لیتا۔ اللہ کا شکر ہے 1945-46ء کے لیے میاں صاحب اس سِیٹ پر بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔

میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے میاں صاحب کی جوانی دیکھی ہے۔ میرے خیال میں تصویر آپ کے حسن کا احاطہ کر ہی نہیں سکتی۔ حضورؒ کی جوانی ایسی تھی کہ انسان بس دیکھتا ہی رہ جائے۔ یہ بات کرتے کرتے یاد آگیا ہے کہ قاضی محمد اسلم کی روایت کے مطاق اس اکیڈیمک کونسل کا کوئی اجلاس تھا۔ یہ اجلاس پنجاب یونیورسٹی سینیٹ ہال میں ہوا۔ ہال کا سِیٹنگ ارینجمنٹ یُو شیپڈ تھا یعنی وائس چانسلر درمیان میں بیٹھتا تھا اور ممبران دائیں بائیں۔ قاضی محمد اسلم اور علامہ تاجوَر نجیب آبادی اِدھر بیٹھے تھے اور میاں صاحب اُدھر۔ قاضی صاحب بتاتے ہیں کہ علّامہ میاں صاحب کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہے تھے۔ پھر انہوں نے پوچھا: قاضی صاحب! یہ نوجوان کون ہے؟ میں نے کہا کہ کیا آپ نہیں جانتے؟ کہنے لگے: نہیں۔ قاضی صاحب نے کہا: یہ ہمارے حضرت صاحب کے بڑے صاحبزادے ہیں، مرزا ناصر احمد۔ اونچی آواز سے کہنے لگے: اچھا! اب سمجھا۔ سینیٹ کی کارروائی چل رہی تھی مگر انہوں نے دوبارہ اونچی آواز سے کہا: اچھا! اب سمجھا۔ کیوں نہ ہوں، کیوں نہ ہوں، آخر بیٹے کس کے ہیں؟ پوتے کس کے ہیں؟ کیوں نہ ہوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ وجاہت دی ہوئی تھی۔

1945ء کی بات ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے احمدیہ ہوسٹل، لاہور میں احمدیہ انٹرکالجیئٹ ایسوسی ایشن کے تحت کمیونزم کے خلاف ایک تقریر کی تھی۔ اس تقریب کی صدارت ایک ہندو بیرسٹر نے کی تھی جس کا نام رام چند مچندہ تھا۔ وہ حضورؓ کے علم و فضل سے بے حد متاثر ہوااور اس نے برملا اعتراف کیا کہ اس نے اس سے پہلے اس موضوع پر اتنا عالمانہ لیکچر کبھی نہیں سنا تھا۔ بعد میں یہی تقریر ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘کے عنوان سے شائع ہوئی۔

قادیان میں ایک مجلس ہوتی تھی، مجلس ِمذہب و سائنس۔ اس کے صدر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تھے۔ اس کے اجلاس مسجد اقصیٰ یا مسجد مبارک میں ہوا کرتے تھے۔ تقریریں اردو میں ہوتی تھیں لیکن جن اجلاسات کی صدارت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ان کی تمام کارروائی انگریزی میں ہوتی۔ اب میں نام نہیں لیتا کیونکہ نام لینا مناسب نہیں لیکن ایک صاحب نے کی تقریر کی۔ موضوع تھا The way to success انہوں نے کہا:

If you want to succeed, you must burn your boats the way Tariq Bin

did

جب تقریر ختم ہوئی تو سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوگیا چنانچہ عبد السّلام اخترجو جماعت میں بطور شاعر شہرت پاکر اب وفات پاچکے ہیں کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اس موضوع پر تقریر کسی ایسے شخص کو کرنا چاہیے تھی جوسائیکالوجی میں کم سے کم ڈگری ہولڈر ہو۔ اس پر مقرر نے کہا کہ گو میرے پاس سائیکالوجی میں کوئی ڈگری نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے پاس اتنا علم ہے کہ میں چاہوں تو سائیکالوجی میں ماسٹرز ڈگری رکھنے والوں کو مزید دس سال تک پڑھا سکتا ہوں۔ حضرت صاحبؓ بیٹھے تھے۔ آپ نے برجستہ فرمایا:

Mr. So and So burnt his boats but he could not burn his boast!

مجلسِ مذہب و سائنس کا افتتاح ہوا تو حضورؓ بیمار تھے چنانچہ ہم نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے اس کے افتتاح کے لیے درخواست کی لیکن آپ نے معذرت کرلی۔ اُدھر سے مایوسی ہوئی تو ہم حضورؓ کے پاس حاضر ہوئے۔ حضورؓ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے رابطہ کرنے کا حکم دیا۔ جب حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو بتایا گیا کہ اب ہم لوگ حضورؓ کے حکم کے تحت آپ کے پاس حاضر ہورہے ہیں تو موصوف اسی وقت افتتاح کے لیے تیار ہوگئے اور اس موقع پر ایک ایسی شاندار تقریرکی کہ لوگ عش عش کراٹھے۔

مجلس مذہب و سائنس کے زیراہتمام میں نے بھی ایک لیکچر دیا تھا۔ عنوان تھا ’’علم النفس کے جدید نظریے‘‘۔ اس وقت میری شادی پر زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا چنانچہ اجلاس ختم ہونے کے بعد حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ مجھے ملے اور میرے کان میں کہنے لگے’’تم یہاں کیا کررہے ہو؟ تمہیں تو اس وقت ڈلہوزی میں ہونا چاہیے تھا۔ ‘‘

یہ تو میں نے ذاتی باتیں شروع کردیں جن کا یہ محل نہیں۔ آپ کو بتانے والی بات یہ ہے کہ شملہ کانفرنس کی ناکامی پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ملک کے سیاسی حالات پر ایک خطبہ دیا تھا جس کے بعد ہمیں فی الفور تحریک جدید کے دفتر میں پہنچنے کی ہدایت موصول ہوئی۔ اس زمانے میں تحریک جدید کے دفتر کی یہ صورت نہیں تھی جو آج ہے۔ دفتر صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ دفتر کے انچارج عبدالرحمن انورصاحب تھے۔ ان کے ساتھ ایک کارکن بھی ہوا کرتا تھا۔ ہم ان سے ملے تو انہوں نے ہم سے اس دفتر کو کچھ وقت دینے کی درخواست کی۔ چنانچہ ہم نے وہاں بیٹھ کر ڈاک دیکھنا شروع کردی۔ ساتھ ہی ساتھ چودھری مشتاق احمد باجوہ صاحب کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی جسے اس خطبے کا انگریزی ترجمہ کرنا تھا۔ اس ٹیم میں میرے علاوہ سید فضل احمد جو ٹی آئی کالج میں پڑھاتے تھے لیکن قیامِ پاکستان کے بعد بھارت کی پولیس سروس میں منتخب ہو کر ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے جو ہمارے انسپکٹر جنرل آف پولیس کے عہدہ کے برابر ہوتا ہے ریٹائرڈ ہوئے شامل تھے۔ وہ انتہائی مخلص احمدی اور بے حد شُستہ طبیعت کے مالک تھے۔ ہم سب اس وقت نوجوان اور ناتجربہ کار تھے چنانچہ ترجمہ کرنے بیٹھے تو اس کی پہلی سطر پر ہی ہمارا اختلاف ہوگیا۔ میں کچھ اور کہتا تھا اور دوسرے کچھ اور۔ ہمارے اس اختلاف کی خبر حضوؓر تک بھی پہنچ گئی جسے، میں نے سنا ہے، آپ نے انجوائے کیا۔

ترجمہ مکمل ہوا تو اس کی ٹائپنگ کی باری آئی۔ کمپیوٹر تو اس زمانے میں ہوتا نہ تھا چنانچہ حسن محمد خان عارف نے اسے ٹائپ کیا اور پھر سائیکلوسٹائل کرکے اس کی کاپیاں مختلف سیاسی زعماء کو بھجوائی گئیں۔ ان میں مولانا ابوالکلام آزاد، صدر آل انڈیا نیشنل کانگریس کے علاوہ قائداعظم بھی شامل تھے۔ برسبیلِ تذکرہ ذکر کررہا ہوں کہ اس ترجمے کی ایک نقل کسی طرح ایک احمدی بچی تک بھی جا پہنچی جو اُن دنوں او یا اے لیول میں پڑھتی تھی یا شاید جونیئر یا سینئر کیمبرج کررہی تھی۔ ہماری قابلیت کا یہ عالم تھا کہ سکول کی اس بچی نے اس ترجمے میں بعض اغلاط کی نشاندہی کرڈالی۔

اسی زمانے میں کالج کمیٹی نے گیسٹ ہائوس کی عمارت کو ہوسٹل کے لیے ناکافی سمجھتے ہوئے اسے جامعہ احمدیہ والی عمارت میں منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ عمارت تعلیم الاسلام کالج کے قریب تھی اور خلافتِ اولیٰ کے زمانے میں مولوی محمد علی، صدر انجمنِ احمدیہ اشاعتِ اسلام کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس عمارت کو کچھ اضافوں اور تبدیلیوں کے بعد ہوسٹل بنادیا گیا۔ اس عمارت کی دیواریں غلافی تھیں۔ ان پر سرخ رنگ کردیا گیا۔ یہ عمارت خاصی بڑی تھی۔ اس کا ایک حصہ مجھے رہائش کے لیے دے دیا گیا۔ جب میں یہاں منتقل ہوا تو میرے کمرے میں بہت دیمک تھی۔ ہم نے اسے تو ختم کردیا لیکن پھر سوچا دیکھیں اس دیمک کا سورس کہاں ہے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ دیمک کی ایک ملکہ ہوتی ہے۔ اسے تلاش کرتے کرتے ہم بیرونی گیٹ تک جاپہنچے۔ ہم نے بالآخر ملکہ کو جو اچھی خاصی موٹی تھی ڈھونڈ نکالا۔ یہ خبر کسی طرح حضرت سید محمد سرور شاہ صاحبؓ تک پہنچ گئی چنانچہ وہ اگلے روز تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ ملکہ کہاں ہے۔ ہم نے کہا: ہم نے تو اسے مار دیا۔ پوچھنے لگے: کہاں پھینکی؟ کوشش کے باوجود وہ ہمیں نہ مل پائی۔ اس پر آپ نے ہمیں ایک لمبا لیکچر سفید چیونٹیوں پردیا۔

اس عمارت کا ایک حصہ تو میرے پاس تھا، دوسرے حصے میں ایک کمرے کو کامن روم بنادیا گیا، ایک کمرے میں ڈسپنسری قائم کردی گئی اور ایک کمرے میں دفتر بنا دیا گیا۔

اُن دنوں کسی نے ہمارے دماغ میں ڈال دیا کہ رَیبِٹ فارمنگ یعنی خرگوش کی افزائش سے کالج کے لیے آمدنی کی صورت پیدا کی جاسکتی ہے۔ امرتسر ویسے ہی خرگوش کی مشہور منڈی تھی اور انگریز خرگوش بہت شوق سے کھاتا تھا۔ اس کی افزائش بڑی تیزی سے ہوتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خرگوش جس جگہ رہتا ہے اُسے کسی لائق نہیں چھوڑتا۔ میاں صاحب نے اس تجویز پر کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا البتہ یہ ضرور کہا کہ آپ کا کام صرف پڑھانا ہے، آپ اس طرح کی باتیں نہ سوچا کریں۔

ہوسٹل کے افتتاح کے موقع پر میں نے بطور سپرنٹنڈنٹ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا۔ حضورؓ اس عاجز و گنہگار پر ہمیشہ شفقت فرماتے تھے۔ چنانچہ حضو رؓ نے اپنے خطاب کے دوران مولوی محمد علی کی کوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ توچلے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں آج اسی علاقے، اسی قوم اور اسی قابلیت کا حامل ایک اور محمد علی عطا فرما دیا ہے جو احمدیت کو اپنی روایات سمیت قائم رکھنے کا عہد کیے ہوئے ہے۔ حضورؓ کے الفاظ یہ ہیں:

’’یہ سامنے کی کوٹھی جنہوں نے اپنے رہنے کے لیے بنوائی تھی اس میں اب ہوسٹل کے جو سپرنٹنڈنٹ رہیں گے وہ ان کے ہم نام، ہم قوم، ہم ڈگری او رہم علاقہ ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا ہےپہلا آدم آیا تو اسے شیطان نے جنت سے نکالا مگر دوسرا آدم اس لیے آیا کہ جنت میں داخل کرے۔ اس کوٹھی میں پہلے رہنے والے محمد علی نام کے، ایم اے ڈگری والے، ارائیاں قوم کے اور وطن کے لحاظ سے جالندھری تھے۔ ان کے ساتھیوں نے خلافت کے اختلاف کے وقت کہا تھا: دیکھ لینا ! دس سال تک یہاں عیسائیوں کا قبضہ ہوگا۔ خداتعالیٰ کی نکتہ نوازی دیکھو۔ دس سال بعد نہیں، تیس سال بعد ایک دوسرا شخص اسی نام، اسی ڈگری، اسی قوم اور اسی ضلع کا آج ہمارے سامنے یہ کہہ رہا ہے کہ اب میں اس کوٹھی میں رہوں گا اور احمدیت کی روایات قائم رکھنے کی کوشش کروں گا۔ جو کچھ پہلے محمد علی ایم اے ارائیں جالندھری نے کہا تھا بالکل غلط ہے۔ یہ جگہ خداتعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ہی بنائی اور یہاں اسلام کے خادم ہی رہیں گے اور میں محمد علی ایم اے ارائیں جالندھری اپنے طلبہ سمیت پوری کوشش کروں گا کہ احمدیت اپنی سب روایات سمیت قائم رہے اور دنیا پر غالب آئے۔ ‘‘

اس کے بعد حضورؓ نے کسی مجلس میں ایک دفعہ پھر میری اور مولوی محمد علی کی اس مماثلت کا ذکر کیا۔ اس پر میں نے ایک روز حضورؓ سے کہا: آپ دو دفعہ بیان فرما چکے ہیں کہ میں جالندھر کا ہوں حالانکہ میں فیروزپور کا رہنے والا ہوں۔ پتا نہیں اس وقت میں حضورؓ کے ساتھ اس طرح کی کج بحثی کی جرأت کیسے کرلیتا تھا۔ حضورؓ اوپر والے کمرے میں تشریف رکھتے تھے۔ آپؓ نے اسی وقت نقشہ طلب فرمایا۔ اسے کھول کر سامنے رکھا اور پھر پوچھنے لگے: تمہارا ڈویژن کون سا ہے؟ میں نے کہا: جالندھر۔ اس پر حضورؓ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور فرمانے لگے: تو تم جالندھر ہی کے ہوئے نا۔ پھر کہا: اب انگلی رکھو کہاں ہے تمہارا گائوں؟ میں نے اپنے گائوں کے نام پر انگلی رکھ دی۔ مولوی محمد علی اور ہمارے گائوں کے درمیان صرف سات آٹھ میل کا فاصلہ تھا۔ حضورؓ نے فرمایا: تم بول بول کر، پکار پکار کر کہہ رہے ہو کہ تم ان ہی کے علاقے کے ہو۔ حضورؓ نے شاید میری بول چال سے بھی ان مشابہتوں کا کچھ اندازہ لگالیا ہو۔

یہ حضورؓ کا اس عاجز پر احسان ہے جو میرا تعریفی رنگ میں ذکر فرمایا ہے لیکن میں اس میں ایک اضافہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ خدا کرے ہم دونوں میں یہ مماثلت نام، ذات، ڈگری اور علاقے تک ہی محدود رہے، اس سے آگے نہ بڑھے۔

تعلیم الاسلام کالج کے احمدی طلباء اللہ کے فضل سے دینی جذبہ سے سرشار تھے۔ ہوسٹل میں رہائش پذیر طلباء کے اخلاق پر کڑی نگرانی رکھی جاتی اور کوشش رہتی تھی کہ ان کی تربیت کا کوئی پہلو نظرانداز نہ ہو۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کی صحبت سے مستفید ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور اسی جذبے سے انہوں نے ’’مجلسِ صحابہ حضرت مسیح موعوؑد‘‘کے نام سے ایک انجمن بھی قائم کی تھی۔ ایک رجسٹر میں اس کے ممبران کا اندراج کیا گیا۔ کوائف میں ہر رفیق کے نام اور سنِ بیعت کے علاوہ وجہِ قبولِ احمدیت بھی درج کرکے دستخط کرائے گئے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا اصرار تھا کہ اس رجسٹر میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ کا نام بھی درج کیا جائے اور اس کی دلیل یہ دی کہ جب میاں صاحب پیدا ہوئے تو حضرت اماں جانؓ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی جگہ یہ بیٹا دیا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا خیال تھا کہ چونکہ میاں صاحب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کے قائم مقام ہیں لہٰذا ان کا نام صحابہ میں لکھا جائے چنانچہ نام لکھا گیا اور اس پر آپ کے دستخط بھی کرائے گئے۔

اس وقت حضرت مسیح موعوؑد کے بہت سے صحابہ زندہ تھے حتی کہ ہمارے ہوسٹل کے نان پُز حضرت میاں غلام احمدؓ بھی ان میں شامل تھے اور ان کا نام بھی رجسٹر میں لکھا گیا تھا۔ ہم نے صحابہ کی زیارت اور ان کی بابرکت صحبت سے فیض یاب ہونے کے لیے ہوسٹل میں ایک تقریب منعقد کی اور تمام صحابہؓ کو اس میں شمولیت کا دعوت نامہ بھجوایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کسی وجہ سے اس تقریب میں شامل نہیں ہو سکے۔ جو صحابہ اس تقریب میں تشریف نہ لاسکے تھے ان میں سے چند نام مجھے اب بھی یاد ہیں مثلاً حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ جو اُن دنوں قادیان میں موجود نہ تھے اور حضرت پیر منظور محمدصاحبؓ جو گنٹھیا کی تکلیف کی وجہ سے اِدھر ادھر آنے جانے سے قاصر تھے۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ اپنی بیماری کی وجہ سے نہ آسکے تھے چنانچہ انہیں اس فنکشن کی اطلاع بھجوائی گئی تو انہوں نے اس پر لکھ بھیجا اِنِّیْ سَقِیْمٌ یعنی میں بیمار ہوں اور حاضر ہونے سے معذرت خواہ۔

سوال یہ اٹھا کہ اس مجلس کا صدر کون ہو؟ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کا نام تجویز کیا اور حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے ان کی تائید کی۔ اس پر حضرت سید محمد سرور شاہ صاحبؓ نے معذرت طلب کی اور کہا کہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ جیسے بزرگ کی موجودگی میں اس مجلس کی صدارت قبول نہیں کرسکتا۔ بڑی بحث ہوئی حتی کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو کہنا پڑا کہ صدر تو آپ ہی رہیں گے لیکن میں آپ کی نیابت میں صدارت کے فرائض انجام دے دیا کروں گا۔ اس مجلس کے اراکین کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا گویا وہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہوں۔ وہ غریب تھے لیکن بے حد خوش اور مطمئن۔ آپس میں اُن کی اتنی بے تکلفی تھی کہ انسان حیران رہ جاتا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ ضعیف العمر تھے لیکن وہ نوجوانوں کی طرح ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرلیتے تھے۔ تقریب کے اختتام پر صحابہ کا ایک گروپ فوٹو ہوا۔

اس گروپ فوٹو کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یاد آگئی ہے۔ یکے از صحابہ، حضرت حکیم محمد عمرصاحبؓ جو ایک روایت کے مطابق کسی زمانے میں نامی گرامی ڈاکو تھے کا تعلق فیروزپور سے تھا۔ چونکہ مَیں بھی ضلع فیروزپور کا رہنے والا تھا لہٰذا وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ اُنہیں کالج کے احاطہ میں اس جگہ جہاں تصویر کھینچی جا رہی تھی پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی اور اگلی قطار میں جگہ نہ ملی تو انہوں نے ایک بزرگ کو ’’ہٹ پِچّھے۔ میری تھاں اے‘‘ کہتے ہوئے بازو سے پکڑ کر اٹھا دیا اور خود ان کی جگہ بیٹھ گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دوسرے بزرگ نے بھی کسی منفی ردعمل کا اظہار نہیں کیا اور مسکراتے ہوئے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے۔

بدقسمتی سے صحابہ کا یہ رجسٹر محفوظ نہیں رہ سکا لیکن یہ تصویر تاریخِ احمدیت مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد کی نویں جلد میں چھپ چکی ہے۔ یہ تصویر 18؍ مارچ 1946ء کو کھینچی گئی تھی۔

جو لوگ جماعت کی تاریخ سے واقف ہیں بخوبی جانتے ہیں کہ تعلیم الاسلام کالج کے قیام کے ساتھ ہی فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا قیام بھی عمل میں آگیا تھا۔ اس کے افتتاح کی تقریب کالج ہی میں منعقد ہوئی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بھی تشریف فرما تھے لیکن مہمانِ خصوصی سر ایس ایس بھٹناگرتھے جو کسی زمانے میں گورنمنٹ کالج، لاہور میں کیمسٹری کے استاد ہوا کرتے تھے اور اُن دنوں کونسل آف دی سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے ڈائریکٹر تھے۔ ضمناً یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ وہ اردو کے اچھے شاعر تھے۔ وہ اس بات پر اپنی حیرت چھپانے سے قاصر رہے کہ ہم ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی بنیاد تو رکھ رہے ہیں لیکن اس پر اٹھنے والا خرچ کہاں سے پورا کریں گے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اس انسٹیٹیوٹ کے قیام پر ڈاکٹر عبدالاحد اس کے ڈائریکٹر مقرر ہوگئے اور عطاء الرحمن غنی کی خدمات بھی کالج سے ادھر منتقل کردی گئیں۔

ان دنوں کالج سٹاف کی منظوری یونیورسٹی دیتی تھی اور اس مقصد سے ہمارے کالج میں جو کمیشن آیا اس کے ایک ممبر خالصہ کالج، امرتسر کے پرنسپل، بھائی جودھ سنگھ تھے۔ اوربھی کچھ افرادتھے۔ اس وقت تک میرا ایم اے کا نتیجہ نہیں آیا تھا لہٰذا میرے متعلق بہت فکر کی جا رہی تھی لیکن میرا خیال ہے قاضی محمد اسلم نے سفارش کی ہوگی چنانچہ بفضلہ تعالیٰ یونیورسٹی نے میرا نام بطور لیکچرر منظور کرلیا۔ کچھ نام اس وقت منظور نہ ہو سکے اور ادھر آنے کے بعد منظور ہوئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button