پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں تیرے آنے کے زمانے آئے

(محمد انیس دیال گڑھی۔جرمنی)

پوری دنیا کی جماعتیں ہمہ وقت خلیفہ وقت سے مسلسل اور مکمل رابطے میں ہیں اور براہ راست خلیفہ وقت کی دعا اور نگرانی میں دن بدن ترقی کی منازل طے کررہی ہیں

گرم موسم کے بعد اچانک بادل گِھر کر آئے اور ابرباراں خوب برسا۔ گرمی کا زور بھی ٹوٹ گیا اور موسم خوشگوار ہوگیا۔ ٹمپریچر بیس ڈگری تھا مگر ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی پُرنم ہوا چل رہی تھی۔ مَیں باہر بیٹھا موسم کا لطف اُٹھا رہا تھا کہ اچانک جلسہ یاد آگیا کہ یہ تو جلسے کا موسم ہے۔ جلسہ یاد آنے کی دیر تھی کہ یہی ٹھنڈی ہوا چُبھنے لگی اور موسم اچانک اداس ہوگیا۔ایسی ہی کوئی ہوا چلتی ہوگی جو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:

زخم تازہ کر گئی بادِ صبائے قادیاں

جیسے ہندوپاک میں دسمبر جلسے کا موسم ہوتا ہے۔ یورپ میں جولائی،اگست جلسوں کا موسم ہوتا ہے۔ایک کے بعد ایک دوسرے ملک کا جلسہ ہوتا ہے اور روحانی طیور جہاں تک اُن کی پرواز پہنچے وہاں تک پہنچتے ہیںا ور جلسے کی برکتوں کو سمیٹتے ہیں۔

پچھلے چند برسوں سے کورونا وبا نے دنیا کو ایسا جکڑا ہے کہ انسانوں کے میل جول کے ساتھ عبادت میں بھی فاصلے ہوگئے اور بڑے اجتماعات اور جلسوں پر تو مکمل پابندی لگ گئی گو الیکٹرونک اور ٹیلی فونک ترقی کی وجہ سے آن لائن رابطے موجود ہیں اور جماعت اور احباب جماعت رابطے میں ہیں۔ مگر مل بیٹھنے اور گلے لگانے کی حسرت بڑھتی جاتی ہے

سینےسے لگا لینے کی حسرت نہیں مٹتی

پہلو میں بٹھانے کی تڑپ حد سے سوا ہے

خلافت اور جماعت کا رابطہ تو کبھی کسی لمحے بھی منقطع نہیں ہوا اور

’’یہ سلسلۂ ربطِ بہم صبح و مَسا ہے‘‘

اور پوری دنیا کی جماعتیں ہمہ وقت خلیفہ وقت سے مسلسل اور مکمل رابطے میں ہیں اور براہ راست خلیفہ وقت کی دعا اور نگرانی میں دن بدن ترقی کی منازل طے کررہی ہیں اور ایم ٹی اے کی نعمت عظمیٰ اس رابطے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ مگر کیا کیجیے اس دل کا کہ تصوّر جاناں کے ساتھ ساتھ محبوب کو لب بام دیکھنے کا بھی آرزومند ہے۔ جو لطف، سکون و راحت اور بےخودی کی کیفیت حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود بابرکات کے ہمارے درمیان موجود ہونے اور آپ کے جلوے کے دیدار میں ہے وہ ایک نشہ ہے اور کیف و نشاط کی ایسی کیفیت ہے جو دل محسوس تو کرتا ہے مگر بیان نہیں کرپاتا۔ دیدار کی لذّت اور محبت و وارفتگی کی وہ حالت کہ چہرۂ مبارک سے نظر نہیں ہٹتی۔ بسااوقات ڈیوٹی دینے والے بھی مجبور و بےاختیار ہوکر ایک چور نظر اُس رشک ماہ تاب پر ڈال لیتے ہیں (کم از کم ہمارا تو یہی حال تھا کہ جوانی میں ڈیوٹی دیتے تھے تو مکرم و محترم محمود بنگالی صاحب مرحوم و مغفور کی ڈانٹ کے باوجود ’’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے‘‘ والی کیفیت ہوجاتی تھی)

حضورانور کی جادوبھری نگاہیں، پیاری موہنی اور پُرکشش شخصیت جو ’’گلاب کے کٹوروں میں شرب ناب بھردے‘‘۔ دل یہی چاہتا ہے کہ ان آنکھوں کا میکدہ میسر رہے اور کیف و نشاط اور بےخودی کی یہ حالت طاری رہے اور یہ لمحے تھم جائیں۔

آسودگی کی جان تیری انجمن میں تھی

ویسے تو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی میں ہر لمحہ نماز پڑھتا اور درودوسلام پڑھتا ہے مگر حضورانور کی اقتدا میں نماز کی تو کیفیت ہی اَور ہے، دل بےخود ہوکر آستانۂ الٰہی پر پگھلنے لگتا ہے۔

دو برس گزر گئے نہ جلسہ ہوا نہ وہ رشک چمن آیا نہ گُل کِھلے اور نہ دیدار کی مَے پی۔ ہر ملک و دیار میں درد و کرب کی یہی حالت ہے اور یہی ایک ہی خواہش ہے کہ کب وہ رشک بہار آئےا ور ’’چمن چمن اس کا اندازِ رنگ و بو بولے‘‘

ہجرزدوں کی عجیب حالت ہے ’’حیران ہیں لب بستہ ہیں دل گیر ہیں غنچے‘‘۔

کیا مزے تھے۔ سال میں عموماً دو بار محبوب کے دیدار کی مَے سے شادکام ہوتے تھے اور دل و جاں معطّر کرتے تھے۔ اب کیا ہوا کہ وہ بہار روٹھ گئی جبکہ ہم اس جان بہار کے عادی ہوگئے تھے۔ ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ ان احمدیوں کا خیال آیا جنہوں نے خلیفہ وقت کو کبھی نہیں دیکھا ۔ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ایک نہیں کئی بہاریں دیکھیں جبکہ بہت سے احمدی دنیا میں ایسے ہیں جن کی روح اور نگاہیںاس رشک ماہتاب کے دیدار کو ترس بلکہ تڑپ رہی ہیں وہ صرف ٹی وی پر ہی وہ چہرہ دیکھتے ہیں اور دل کی لگی بجھالیتے ہیں اور ایم ٹی اے کی بلائیں لیتے ہیں کہ اس کی بدولت دیدار نصیب ہوا۔ پہلے تو یہ بھی نہیں تھا۔

اب ان تشنہ لبوں اور بےقراروں اور دید کے پیاسوں کی سمجھ آئی کہ جب ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ افریقہ کے دورے پر تشریف لے گئے تو فرمایا کہ خلیفہ وقت کو دیکھ لو کہ اس دَور میں خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے بعد میں ان لمحوں کو یاد کروگے۔ پھر کیا تھا پیاسے تو پہلے ہی اس انتظار میں تھے خم پر خم چڑھانے لگے اور صحرا، سمندر کو پینے کی کوشش کرنے لگا۔ ان دیوانوں کے درمیان ایک ایسا بھی تھا جس کی روحانی آنکھیں تو دوچند تھیں مگر جسمانی آنکھوں سے محروم تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ مَیں اس حسن بےپناہ کو جسمانی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا، کیا مجھے اجازت ہے کہ مَیں اس مبارک چہرے اور حسن کے سچے موتی کو چُھو سکوں تا میری روح اندر تک سیراب ہوجائے۔ تو شمع حسن نے اپنے اس پروانے کو اجازت دی۔ محبت کے اس گھنے شجر نے اس کی درخواست مانی اور اپنے آپ کو پیش کردیا اور وہ شخص اپنے ہاتھوں کو اس چہرے پر پھیرنے لگا اور اس بہار حسن کو اپنی روح و جاں میں اتارنے لگا۔ کیسا خوش قسمت تھا وہ دیوانہ۔ آنکھوں والے اس پر رشک کرتے ہوں گے اور ہزاروں آنکھیں اس محبت بھرے نظارے پر قربان ہونے کے لیے تڑپ رہی ہوں گی۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا دورۂ انڈونیشیا یاد آیا اور ان ماؤں کی بےقراری سمجھ آئی جو اپنے بچوں کو اٹھااٹھاکر بچوں کو کہتی تھیں کہ خلیفہ وقت کو دیکھ لو، ساری زندگی ان لمحوں اور ان آنکھوں پر فخر کروگے۔ افریقہ کی وہ دیوانی یاد آئی جو بچے کو گود میں اٹھائے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتی رہی اور جب بچے کی نظر اُس شبیہ مبارک پر پڑگئی تو نہال ہوگئی گویا دونوں جہان کی نعمتیںاس کو اور اس کے بچے کو مل گئیں۔

جب خود کو زخم لگا تو سب زخم خوردہ یاد آگئے، پہلے ان کا خیال آتا تھا مگر اس قدر نہیں۔

قادیان اور ربوہ کے باسیوں کے ہجر کا خیال کرکے تو عجیب کیفیت ہوتی ہے کہ ان کا کیا حال ہوگا کہ یہ بہار وہیں سے تو پھوٹی تھی۔ یہ آب جُو وہیں سے تو چلی تھی جس سے آج ساری دنیا سیراب ہورہی ہے۔ وہ تو ہروقت اس نہرخوشگور کے کنارے موجیں کرتے تھے وہاں تو صبح و شام پھول کھِلتے تھے اور گل و گلزار اور بہار کا سماں ہوتا تھا اور ماحول ہمہ وقت مہکتا تھا اور وہ یہی سمجھتے تھے کہ موسمِ گُل ان کے آنگن میں ہی ٹھہرا رہے گا۔ اب ان کا کیا حال ہوگا، وہ تو سب سے زیادہ اس بہار کو ترس رہے ہوں گے۔ وہ بھی ہماری طرح دل کو تسلّی دیتے ہوں گے کہ یہ جدائی عارضی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے:

’’بس دیر ہے کل یا پرسوں کی‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button