متفرق مضامین

اطاعتِ خلافت کے بابرکت ثمرات

(ادارے کو موصول ہونے والے مضامین میں سے انتخاب)

٭…نعیم احمد رضا صاحب یوکے سے لکھتے ہیں:

1994ءیا 95ء کی بات ہے میں جرمنی میں رہائش پذیر تھا۔ان دنوں میں نے اسائلم لے رکھا تھا۔ایک ایسا وقت آ گیا کہ میرا اسائلم کیس بالکل ختم ہوگیا اور مجھے کسی بھی وقت پکڑ کر واپس پاکستان بھیجا جا سکتا تھا۔اس وقت میں اور میری اہلیہ اور دو بچے تھے۔مَیں جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ میں رہائش پذیر تھا۔ بہرحال خاکسار اس وقت مشکلات اور پریشانیوں کا شکار تھا۔ بہتر مستقبل کے لیے کینیڈا جانے کا ارادہ کر لیا اور تمام معاملات،انتظامات بھی مکمل کر لیے۔ پروگرام کی اطلاع کرنے کے لیے محترم پیارے ابا جان سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تو میرے ابا جان نے میری بات صبر و تحمل سے سنی اور پھر اپنا حکم صادر کر دیا کہ حضور کی خدمت اقدس میں مکمل تفصیلی مشورہ اور دعا کے لیے عرض کروں اور پھر جو حضور نے فرمایا اس پر من و عن عمل کرو۔ یہ سن کر اور بھی پریشانی ہوئی کہ اباجان کو میرے حالات کا پتہ نہیں اگر اسی دوران مجھے پکڑ کر ڈی پورٹ کر دیا گیا۔مَیں نے بہت دعا کی۔ ا باجی کا حکم تھا اور اس پر عمل کرنا تھا چنانچہ میں نےحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت اقدس میں اپنے سابقہ اور موجودہ حالات پر مشتمل دعائیہ خط لکھا اور پوسٹ کر دیا۔ لیکن میری کیفیت ایسی تھی کہ ہر وقت ڈر لگا رہتا۔ کہ ابھی کچھ ہو نہ جائے۔ خط کے ہمراہ ایک نوٹ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے لیے بھی لکھ دیا کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے یہ خط حضور کی خدمت میں پہنچا دیں اور پھر جواب کا انتظار کرنے لگ گیا۔اسی طرح دن سے ہفتے اور ہفتے سے مہینے ہو گئے۔ میں نےایک روز جمعہ کی نماز سے واپس گھر آمد پر لیٹر بکس کھولا تو ایک خط لندن کی مہر والا نظر آیا جسے دیکھتے ہی دل سکون اور اطمینان کی کیفیت میں آگیا۔جلدی سے خط کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔ساتھ ساتھ سیڑھیاں چڑھتا چلا جا رہا تھا۔حضور ؒکی دعائیں اور شفقت سے پُر الفاظ میری ڈھارس بندھا رہے تھے۔پیارے حضورؒ نے اپنے دست مبارک سے لکھا تھا کہ

’’نعیم بیٹا آپ کوکینیڈا یا کہیں اور جانے کی کیا ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کی بہتری کے سامان یہیں پیدا کر دے گا۔‘‘

گھر کا دروازہ کھولا تو فون کی گھنٹی بج رہی تھی اور میں تو حضور کی محبت بھری ڈھارس سے حالت سکون میں آ چکا تھا۔

بہرحال فون کا ریسیور اٹھایا تو ایک محترمہ صاحبہ یوں مخاطب ہوئیں کہ

نعیم مبارک ہو آپ کا کیس پاس ہوگیا ہے۔ ایک نئے قانون کے تحت آپ کو ویزا مل رہا ہے۔

ایک ہاتھ میں فون اور دوسرے ہاتھ میں حضور کا خط۔میں اسے معجزہ کہوں یا قبولیت دعا سمجھ نہیں آرہی۔

اب میری توجہ اباجان کے اس حکم کی طرف گئی۔ بہرحال اسی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گیا۔حضور کی دعائیں اباجان کا حکم اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔

خلیفہ وقت کی اطاعت میں ہی ہر برکت پنہاں ہے۔بعض اوقات ہمیں کچھ چیزیں حالات کے موافق نہیں لگتیں۔لیکن خداتعالیٰ بہتر جانتا ہے اور خلیفہ کے دل میں وہی ڈالتا ہے جو ہرلحاظ سے بہتر ہوتا ہے۔ہماری عزتیں اور کامیابیاں خلیفہ وقت کی اطاعت میں اور ان کے ہر حکم پر عمل کرنے میں ہیں۔ اس لیے ہمیں خلیفہ وقت کی ہر حالت میں، ہر حکم میں اطاعت کرنی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور خلافت سے ہمیشہ جوڑے رکھے آمین۔

٭…عبد الحفیظ گوندل صاحب لکھتے ہیں:

خاکسار نے 1966ء میں ایف ایس سی (پری انجینئرنگ) کا امتحان دیا اور فوج میں بھرتی کے لیے کمیشن میں بھی درخواست جمع کر دی۔ والد صاحب کی خواہش تھی کہ حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒسے ملاقات کی جائےاور راہ نمائی حاصل کی جائے کہ فوج میں جانا چاہیے یا انجینئرنگ کے میدان میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ہم دونوں دربار خلافت میں حاضر ہوئے۔ حضورؒ نے نہایت شفقت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کریں۔

سول، میکینیکل اور الیکٹریکل انجینئرنگ کی کلاس میں اس سال میرٹ پر داخلے کے لیے 212نشستیں تھیں اور بی ایس سی فرسٹ ڈویژن کو داخلے میں ترجیح دی جاتی تھی۔ 1965ء کی جنگ کی وجہ سے داخلوں میں خلل پیدا ہو گیا تھا اور بہت سے بی ایس سی پاس نے داخلہ فارم جمع کرا دیے۔ داخل ہونےوالےمنتخب طلباءکی فہرست کے اعلان والے دن تک خطرہ تھا کہ شاید مجھے داخلہ نہیں مل سکے گا۔ حضور ؒکی خدمت میں دعا کا خط باقاعدگی سے ارسال کرتا رہا۔

جب فہرست لگی تو میرا نام آخری نام سے پہلےتھا۔ اس طرح حضورؒ کے ارشاد کی تعمیل پر پہلا ثمر مل گیا۔جب کلاس شروع ہوئی تو آخری داخل ہونے والے دوست سلیم احمد خان تھے اور وہ بھی احمدی تھے۔

سول انجینئرنگ کی ڈگری کا امتحان پاس کرتے ہی مجھے ملازمت مل گئی اور پھر پنجاب پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہوکر محکمہ انہار و برقیات میں اسسٹنٹ انجینئر کی ملازمت مل گئی۔محکمانہ کارکردگی، ٹریننگ اور خلافت کی دعاؤں کی برکت سے 2009ء میں بطور چیف انجینئرریٹائرڈ ہوا۔

ملازمت کے دوران 1986ءمیں برٹش کونسل کے وظیفے پر ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی انگلینڈ سے ایم ایس سی(اریگیشن انجینئرنگ ) کی ڈگری حاصل کی۔ 1992ء میں کالوراڈو یونیورسٹی امریکہ سے پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومہ لیا۔ یہ سب ثمرحضور کے ارشاد کی تعمیل کی برکت کی وجہ سے ملا۔

حضرت خلیفةالمسیح الرابع ؒنے ایک ملاقات میں خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ کینیڈا جانے کی کوشش کریں۔ 1998ء میں کینیڈا کی حکومت نے جو امیگریشن کا پروگرام مرتب کیا اس میں انجینئرنگ میں ڈگری کے حامل درخواست گزار کو اور بہت سے پیشوں پر ترجیح حاصل تھی۔ چنانچہ خاکسار کو بیوی اور بچوں کے ساتھ امیگریشن ویزا مل گیا اور 2009ء سے امارت وینکوور میں رہائش پذیر ہے۔

خاکسار اللہ تعالیٰ کا انتہائی شکر گزار ہے کہ خلیفہ وقت کے ارشادات کی تعمیل کی برکت سے ان گنت ثمرات حاصل کیے ہیں اور ان کامزید فیض جاری ہے۔الحمد للہ۔

٭…محمد شعیب نیر صاحب لیڈز،یوکےسے لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ ہمیں احمدی پیدا کیا اور خلافت کی عظیم نعمت سے نوازا۔

آج خاکسار آپ کے ساتھ اپنی ذاتی زندگی میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت راہ نمائی اور اطاعت کے نتیجے میں اس کے بابرکت اثمار کی ایک جھلک پیش کرنا چاہتا ہے۔یوں تو ایسے بے شمار واقعات ہیں مگر ایک ایسا دَور جس میں خاکسار کو پیارے حضور کی مسلسل راہ نمائی حاصل رہی جس کے نتیجے میں 2012ء سے لے کر آج تک یوکےمیں وہ احمدی جو اسائلم کرتے ہیں فائدہ اٹھا رہے ہیں پیشِ خدمت ہے۔

یہ سن 2010ء کا واقعہ ہے کہ خاکسار لاہور میں رہائش پذیر تھا اور ہر دو سال کی طرح 2010ء میں بھی فیملی کے ساتھ جلسہ پر حاضر ہونا چاہتا تھا۔ویزے وغیرہ کی کوئی مشکل نہیں تھی کیونکہ الحمدللہ ساری فیملی کے ویزے کئی سالوں کے لیے لگے ہوئے تھے۔اچانک حالات بدلے اور 28؍مئی 2010ء کو خاکسار ماڈل ٹاؤن لاہور کی مسجد میں ہونے والے واقعہ میں شدید زخمی ہو گیا۔ پیٹ کا آپریشن ہوا اور ڈاکٹروں نے آنت کا وہ حصہ جو گولی سے چھلنی ہوچکا تھا کاٹ دیا۔جب جلسےکا وقت قریب آیا تو سوال یہ تھا کہ سفر کی اجازت لینی چاہیے یا نہیں۔ڈاکٹروں نے بارہ ہفتے تک بہت احتیاط کا کہا تھا بہرحال سفر کی اجازت ملی اورطے پایا کہ جلسے پر جایا جائے۔2010ء کے جلسے پر حاضر ہوا۔ کافی مشکل تھی نہ زیادہ چلا جاتا تھا اور نہ کھانا مکمل کھایاجاتا تھا۔

پیارے حضور کی خدمت میں حاضری ہوئی سارے واقعات سے آگاہ کیا۔ آپ نے کھانے پینے میں احتیاط کے بارے میں فرمایا اور کہا کہ لگتا ہی نہیں کہ تمہیں گولی لگی تھی۔آپ کی اس بات نے میرا حوصلہ بڑھا دیا۔جس دن ہم نے پاکستان واپس آنا تھا اس سے ایک دن پہلے حضور کی خدمت میں پھر حاضری دی۔خاکسار کی اہلیہ نے حضور کی خدمت میں عرض کی حضورہمیں پاکستان سے بہت ڈر لگتا ہے مگر میرے خاوند پاکستان کو نہیں چھوڑنا چاہتے کیونکہ ان کا کاروباروہاں چل رہا ہے۔ پیارے حضور نے فرمایا’’پاکستان چھوڑ دو‘‘عرض کی کہ پاکستان چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ فرمایا کینیڈا یا آسٹریلیا چلے جاؤ۔ میں نے عرض کی حضورآج کل ان ملکوں کے ویزے ملنے بہت مشکل ہیں۔ خاکسار کی اہلیہ نے عرض کی کہ حضور کیا ہم یو کے میں ہی رہ جائیں اور اسائلم کردیں؟ حضور نے فرمایا ٹھیک ہے۔

اگلے دن ہماری واپسی کی سیٹیں بک تھیں۔ یہ 24گھنٹے کافی مشکل میں گزرے کیونکہ ہم تو اس نیت سے آئے نہیں تھے اور نہ اس کی کوئی تیاری کی تھی۔خیر سب کا مل کر یہ فیصلہ ہوا کہ ہم پاکستان نہیں جا رہے اور یوکے میں اسائلم کریں گے۔اس وقت قوتِ فیصلہ بہت کمزور تھی اور چونکہ جسم بھی بہت مشکل میں تھا اس لیے لگتا تھا کہ باقی لوگوں نے مجھے منا لیا ہے۔ چنانچہ 25؍اگست کو اسائلم کیا گیا۔ اس کے بعد پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے استفسار فرمایا کہ وکیل کر لیا ہے؟ عرض کی حضور جتنے وکیلوں کو ملا ہوں سب کہتے ہیں، یہ کہانی بنا لو یا وہ کہانی بنا لو مگر چونکہ مجھے اس کی عادت نہیں نہ میرا دل مانتا ہے اس لیے میں نے کسی وکیل کو ہاں نہیں کہا۔ خیر ہوم آفس نے ہمیں کچھ دن کرائیڈن میں رکھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ’’ ہل ‘‘شہر بھیج دیا جائے۔ جس دن ہمیں وہاں لے کر جایا جا رہا تھا راستے میں ڈرائیور کو فون آیا کہ وہاں نہیں بلکہ ’’لیڈز ‘‘شہر لے کر جانا ہے اس وقت یہ تبدیلی سمجھ نہیں آئی مگر بعد میں سمجھ آیا کہ خلیفہ وقت کی دعاؤں کے نتیجے میں سب کچھ ہوا کیونکہ بچوں کی پڑھائی کےحوالے سے اور خاکسار کی مصروفیت کے حوالے سے یہ فیصلہ بہت مفید ثابت ہوا۔

کرائیڈن سے روانگی سے قبل خاکسار کا انٹرویو بھی ہو گیا۔ایک برٹش وکیل کے ساتھ معاہدہ بھی ہوگیا اور روانگی سے پہلے ہمارے اسائلم کیس کا نتیجہ بھی آ گیا جو کہ انکار کی صورت میں تھا۔ بظاہر یہ ناممکن لگتا تھا کیونکہ ہر ایک سمجھتا تھا کہ خاکسار کو گولی لگی تھی اور میرا کیس بہت آسانی سے پاس ہو جائے گا بہر حال لیڈز میں آنے کے بعد ہوم آفس کے فیصلے پر اپیل کی گئی۔نیاوکیل لیڈز میں کیا گیا۔ فرسٹ ٹرائبیونل سے بھی فیصلہ ہمارے خلاف آیا مگر جج نے یہ مان لیا کہ ہم احمدی ہیں مگر یہ نہیں مانا کہ خاکسار 28؍مئی کو مسجد میں زخمی ہوا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف پھر اپیل کی گئی۔ اپر ٹرائبیونل میں کیس گیا اور وہاں 9 ماہ تک کارروائی کی تاریخ ہی نہیں آئی۔ اس دوران خاکسار پیارےحضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور صورت حال سے آگاہ کیا۔حضور نے ایک ملاقات میں بڑی حیرانگی سے استفسار فرمایا کہ میرا کیس پاس کیوں نہیں ہوا؟ کیا میں نے ہوم آفس کو تمام شواہد نہیں دیے؟ میں نے عرض کی حضور جتنے شواہد خاکسار نے 28؍مئی کے حوالے سے پیش کیے ہیں شاید کسی نے پیش نہ کیے ہوں مگر ہوم آفس کے جواب سے لگتا ہے کہ وہ کہتے ہیں وہ گولی جو مجھے لگی اس کی رسید لے کر آؤ کہ میرے لیے خریدی گئی تھی۔

یہ بات سن کر خاکسار نے دیکھا کہ پیارے حضور کے چہرے کے تاثرات اور رنگ بدلے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا تم ان کو بتاؤ کہ ٹھیک ہے کہ مسجد میں فائرنگ بلاامتیاز ہوئی اور تم اس کا شکار ہوئے مگر احمدی تو ابھی بھی محفوظ نہیں ہیں اور کوئی بھی احمدی پاکستان میں محفوظ نہیں۔ اس بات کی کیا گارنٹی کہ پاکستان واپس جانے پرتم پر بھی حملہ نہیں ہوگا۔

یہ وہ ملاقات تھی جو خاکسار نے اپر ٹرائبیونل میں کارروائی میں جانے سے پہلے کی۔قارئین!یقین جانیے کہ میرا پختہ ایمان ہے کہ حضور کے چہرے کے جوتاثرات بدلے تھےاس دن ہی میرے کیس کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا تھا۔مگر چونکہ اس کو ایک الگ شان سے ہونا تھا اس لیے خدا کی طرف سے اس کا انتظام بھی ہوا۔اپرٹرائبیونل میں 9 ماہ کےبعدجب کارروائی میں حاضر ہوئے تو جج صاحب نے فرمایا کہ چونکہ احمدی بہت تعداد میں پاکستان سے آتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کے بارے میں ’’کنٹری گا ئڈنس‘‘کیس پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔آخری’’کنٹری گائڈنس‘‘کیس جو احمدیوں کے بارے میں یو کے میں ہوا تھا وہ 2007ء میں ہوا تھا۔جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر احمدیوں کو ایک شہر میں خطرہ ہےتو دوسرے شہر میں چلے جائیں یا ربوہ چلے جائیں۔جج صاحب نے فرمایا کہ اب پرانے ’’کنٹری گائڈنس ‘‘کیس کو پانچ سال ہونے کو ہیں لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ تمہارا کیس باقی احمدیوں کے لیے ایک مثالی کیس کی صورت ’’کنٹری گائڈنس‘‘کے طور پر لیا جائے۔ہم نے عرض کی کہ چونکہ معاملہ جماعت کی عزت کا ہے ہمیں وقت دیا جائے کہ ہم جماعت سے مشورہ کرلیں۔اجازت مل گئی۔خاکسار ایک دفعہ پھر پیارے حضور کی خدمت میں حاضرہوااورصورتِ حال سے آگاہ کیا۔آپ نے پھر استفسار فرمایا کہ ’’اگر تمہارا کیس ’’کنٹری گائڈنس ‘‘کے طور پر لینا چاہتے ہیں اس کا فائدہ اور نقصان کیا ہے ؟ خاکسار نے یہ تو بالکل سوچا نہیں تھا۔کچھ دیر توقف کے بعد آپ نےفرمایا ’’اچھا اگروہ تمہیں قربانی کا بکرا بنا ناچاہتے ہیں تو بن جاؤ۔‘‘ آپ کے چہرے پر اس وقت بہت پُر مسرت تبسم بھی تھا۔چنانچہ دربارِ خلافت سے اجازت ملنےکے بعد اپر ٹرائبیونل کو بتا دیا گیا کہ خاکسار اپنا کیس جماعتِ احمدیہ کے لیے ایک مثالی کیس یا ’’کنٹری گائڈنس ‘‘ کے لیے پیش کرنے کو تیار ہے۔

کافی عرصہ پھرگزر گیا تو پتہ چلا کہ عدالت اور بھی ایسے اسائلم کیس چن رہی ہے جو کہ’’ کنٹری گائڈنس‘‘کیس کا حصہ بن سکیں۔چنانچہ انہوں نے تین یا چار اور احمدیوں کے کیس چنے اور اس طرح پانچ کیسز کو اکٹھا کیا گیا۔کیسز چننےکا طریقہ کار دلچسپ تھا۔ کوئی تو اکیلے آدمی کا کیس تھا، کوئی اکیلی عورت کا، ایک کسی ڈاکٹرکا اور میرا کیس شاید فیملی کے ساتھ اور ایک بزنس مین کے حساب سے چنا گیا۔

اس سارے عرصے میں کچھ اور ملاقاتیں بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ہوئیں۔ ایک ملاقات میں خاکسار نے ایک حقیر نذرانہ / تحفہ حضور کی خدمت میں پیش کیا اور قبول کرنے کی درخواست کی۔آپ نے استفسار فرمایا ’’کیا کیس پاس ہوگیا ہے؟‘‘میں نے عرض کی جی نہیں۔ فرمانے لگے’’کیس تو پاس ہوا نہیں تحفہ کی کیا ضرورت ہے۔‘‘لیکن ساتھ ہی خاکسار کا دل رکھنے کے لیے تحفہ قبول بھی فرما لیا۔ میں نے عرض کی حضورکیس تو خدا کے فضل سے اور حضور کی دعاؤں سے پاس ہوگا۔ ایک اور ملاقات اس وقت ہوئی جب خاکسارپیس سمپوزیم کے لیے لندن گیا ہوا تھا۔ملاقات کے لیےحاضر ہوا تو پھر پوچھا ’’کیس پاس ہوا کہ نہیں ‘‘میں نے عرض کیا حضور نہیں۔

ایک دفعہ خاکسار کی بیٹی عافیہ شعیب (واقفہ نو)بچیوں کی کلاس میں شامل تھی۔جب تعارف ہورہا تھا اس نے اپنا نام بتایا تو پیارے حضور نے استفسار فرمایا ’’شعیب نیر صاحب کی بیٹی ہو ؟کیس پاس ہوا کہ نہیں ؟‘‘عافیہ نے کہا حضور ابھی نہیں۔پیارے حضور کو خاکسار کے کیس کا اتنا خیال تھا کہ حیرت ہوتی تھی اور خوشی بھی ہوتی تھی کہ ڈھیر ساری دعائیں مل رہی ہیں۔الحمدللہ۔

بہر حال جب عدالت نے پانچ احمدیوں کے کیس چن لیے اور کارروائی کے لیے تاریخ مقرر کردی تو خاکسار لیڈز سے لندن کارروائی کے لیے حاضر ہوا۔یہ موقع ایک دفعہ پھر قابلِ غور ہے۔مجھے اپنے وکیل کا فون آیا وہ بہت افسردہ تھی،کہنے لگی کہ میں چاہتی تھی کہ ان 15 احمدیوں کے کیسز کاٹائٹل تمہارے نام سے ہو مگر جو کاغذات مجھے عدالت سے ملے ہیں ان کیسسز کے ٹائٹل پر تمہارا نام سرِفہرست نہیں ہے۔مجھے اس وقت نہ تو یہ پتہ تھا کہ اگر کیسز کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا اور اگر میرے نام سے یہ ’’کنٹری گائڈنس‘‘کیس لکھا گیا تو یہ ایک تا ریخی قدم ہوگا اور نہ ہی میں کچھ کر سکتا تھا اس لیے میں وکیل کو کچھ جواب نہ دے سکا۔

کارروائی والے دن ہم حاضر ہوئے۔کمرہ عدالت کے باہر کارروائی کی تفصیل میں پانچوں احمدیوں کے نام ترتیب وار لکھے گئے تھے۔اس میں میرا نام تیسرا تھا۔کارروائی شروع ہوئی تو وہی جج جو مجھے پرانی کارروائی میں سن چکا تھا کہنے لگا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کیس کی کارروائی محمد( شعیب) نیر سے شروع کریں گے۔ میری وکیل نے مڑکر مجھے دیکھا اور وہ بہت خوش تھی مگر مجھے سمجھ نہیں آئی۔بعد میں بتایاکہ اب ان پانچوں کیسز کا ٹائٹل میرے نام سے ہوگا۔یعنی M N and Others۔مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ فقط خلیفہ وقت کی توجہ اور دعاؤں سےممکن ہوا۔

کارروائی شروع ہوئی اور خاکسار پر پہلے میرے بیرسٹر نے اور پھر ہوم آفس کے بیرسٹر نے جرح کی۔اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس دن خدا تعالیٰ نے مجھے کہاں سے وہ جواب دیے کہ جب کارروائی ختم ہوئی تو میرا بیرسٹر اور تمام دوسرے وکلاءمجھے باری باری تھپکی دیتے رہے اور کہا آج تم نے اپنا کیس جیت لیا ہے۔(الحمدللہ)

وقفے کے دوران ہوم آفس کی طرف سے مقررہ بیرسٹر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نے سخت سوال پوچھے لیکن میں اپنی جاب کے ہاتھوں مجبور تھا۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہیں 28؍مئی کو مسجد میں گولی لگی تھی،میرے لیے بددعا نہ کرنا۔اس پہلے دن کمرہ عدالت میں تمام وکلاء اور بیرسٹر کی تعداد،علاوہ جج صاحبان کے 16؍تھی ۔اور سب کا یہ خیال تھا کہ آج کی کارروائی الحمدللہ جماعت کے حق میں گئی۔کارروائی کا یہ سلسلہ جو کہ مارچ،مئی،جون میں کل سات دنوں پر محیط تھا تقریباً تین ماہ چلتا رہا۔ کارروائی کے اخیر میں عدالت کے چیف جج نے فرمایا کہ کسی بھی مذہبی جماعت کے بارے میں اس سے پہلے اتنی لمبی اور بڑی کارروائی اس عدالت میں نہیں کی گئی۔اس کارروائی میں مکرم سر افتخار احمد ایاز صاحب، مکرم عطاءالمجیب راشد صاحب اور کئی کنٹری ایکسپرٹس آتے رہے۔عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو ویڈیولنک کے ذریعہ لاہور آواری ہوٹل سے کارروائی میں شامل کیا گیا۔

اس فیصلے کے نتیجے میں احمدیوں کے تمام پرانے کنٹری گائڈنس کیسز کالعدم قرار دیے گئے۔یہ فیصلہ 13؍نومبر 2012ء کو لکھا گیا اور14؍نومبر 2012ءکو شائع کیا گیا۔

اس فیصلے میں یہ قرار پایا کہ احمدی کسی بھی شہر میں بشمول ربوہ محفوظ نہیں اور کسی بھی متحرک احمدی کو جنیوا کنونشن کے تحت عالمی حفاظت ملنی چاہیے۔ 2012ء سے لے کر اب تک تمام احمدی جو یوکے میں یا یورپین یونین میں اسائلم کرتے ہیں ان کے وکیل اس کیس کا سہارا لے کر اپنے کلائنٹس کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کیس کے آتے ہی اکثر پرانے اور نئے کیسز آناً فاناً پاس ہونا شروع ہو گئے۔

میرا یہ پختہ ایمان ہے کہ سب کچھ محض خدا کے فضل کے بعد خلیفہ وقت کی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔آپ کا یہ فرمانا کہ ’’وہ تمہیں قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں تو بن جاؤ ‘‘ کس طرح مِن و عَن پورا ہوا۔پہلے تو میرا نام ہی اس کیس میں نہ تھا،وہ کنٹری گائڈنس کیس کے لیے چنا گیا۔پھر میرے نام کے پہلے اور آخری حصے کے حروف سے اس کا ٹائٹل ہونا اور پھرکیس ایسی شان سے پاس ہونا کہ اس سے پہلے اس تفصیل سے جماعت کے حالات کسی عدالت میں نہیں سنے گئے۔یہ سب غیر معمولی باتیں تھیں جو صرف اور صرف خلیفۂ وقت کی دعاؤں اور راہ نمائی کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئیں۔

پھر حضور کا یہ فرمانا کہ’’پاکستان کو چھوڑ دو۔‘‘اس میں اتنی برکت ہوئی کہ خاکسار اپنے پاکستان کے دو چلتے ہوئے کاروباروں کو وقت کے ساتھ بھول گیا اور رفتہ رفتہ ایک نئی زندگی کے ساتھ نئے کام میں مصروف ہوگیا۔میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 25 سال ٹیکسٹائل میں گزارنے کے بعد اس ملک میں وکالت کے شعبے سے منسلک ہو جاؤں گا۔خاکسار کے بچے جو پاکستان میں ایچی سن کالج اور پرائیویٹ سکولز میں پڑھتے تھے اور کبھی سوچتے تھے کہ یوکے یا امریکہ میں یونیورسٹی میں تعلیم کے لیے جدوجہد کریں گے وہ سب یوکے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اسائلم کرنے سے لے کر مثبت فیصلہ آنے تک تقریباً اڑھائی سال لگے۔ان سالوں میں خدا کے فضل سے تبلیغ کے ایسے مواقع میسر آئے کہ حیرت ہوتی تھی۔کبھی تو یونیورسٹی کے طلباءکے سامنے جا کر،کبھی پولیس اسٹیشن میں ان کے آفیسرز کی ٹریننگ کا حصہ بن کر اور کبھی پرائمری اور سیکنڈری سکول کا دورہ کرکے تمام لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچا یا۔رفتہ رفتہ اس کام کے لیے خاکسار نے ایک پاور پوائنٹ پریزنٹیشن بنا لی تھی۔ایک ملاقات میں اس تبلیغی مہم کا ذکر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے کیا اور جب حضورکو ساری پریزنٹیشن دکھائی تو آپ بہت خوش ہوئے۔ آپ کی وہ مسکراہٹ مجھے کبھی نہیں بھول سکتی۔ یہ ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مسلسل توجہ، دعاؤں اور راہ نمائی کی ان گنت مثالوں میں سے ایک مثال کی چھوٹی سی جھلک تھی۔

ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اطاعتِ خلافت میں جماعت کی زندگی اور جان ہے۔اطاعت خلافت میں برکت رکھی گئی ہے۔ اطاعتِ خلافت کے نتیجے میں ترقی کی رفتار غیر ممکن سے ممکن ہو جاتی ہے۔اطاعتِ خلافت زندگی کی سانس اور دل کی دھڑکن ہے۔اطاعتِ خلافت سے اخلاص اور وفا میں اضافہ ہوتا ہے۔اطاعتِ خلافت کے نتیجے میں فرشتے نازل ہوتے ہیں جو اس کام کو مکمل کرتے ہیں جو خلیفہ وقت کی زمان مبارک سے نکلے ہوتے ہیں۔اطاعتِ خلافت میں سکون کا وعدہ ہے۔ اطاعتِ خلافت میں حفاظت کی ضمانت ہے۔اطاعتِ خلافت میں نسلوں کی بقا ہے۔ اطاعتِ خلافت سے ایک قلبی تعلق خلیفہ سے پیدا ہوتا ہے جو ظاہری فاصلوں کو چیرتا ہوااطاعت کرنے والے کو خلیفہ وقت سے قریب کر دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں منصب خلافت کو سمجھنے اور اس کی کامل اطاعت کرنے والا بنائے۔ ہماری نسلوں کو قیامت تک خلافت سے وفا کرنے والا بنائے۔ کسی نفسانی خواہش، کسی شیطانی وسوسہ، کسی دنیاوی چاہت، کسی اور رشتےکو خلیفہ وقت کے ساتھ محبت میں حائل نہ ہونے۔ ہم سب کچھ خلیفہ وقت پر قربان کرنے والے ہوں، کرتے رہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں حتی کہ اپنی آخری سانس تک کامل وفاداری کا ثبوت دینے والے ہوں۔ آمیناللّٰہمآمین۔

٭…مکرم اے اے امجد صاحب لکھتے ہیں:

خاکسار کو خدا کےفضل سے 1980ءمیں مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی سالانہ تربیتی کلاس میں شمولیت کا موقع ملا۔اُس وقت مکرم محمود احمد صاحب شاہد صدرمجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے منصب پر فائز تھے۔ان دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی طرف سے احمدی طلباء کو سویا بین کھانے کی تلقین کی گئی۔

تربیتی کلاس کے اختتام پر محترم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی طرف سےازراہ شفقت جن طلباء کو سویا بین کے پیکٹ بطور تحفہ دیے گئے خوش قسمتی سے خاکسار بھی ان طلباء میں شامل تھا۔اُس وقت بظاہر سویا بین کے فوائد کا اتنا ادراک نہیں تھا لیکن یہ ضرور علم تھا کہ حضور ؒنے یہ تحریک فرمائی ہے کہ احمدی طلباء کو سویابین کا استعمال کرنا چاہیے۔چنانچہ خلیفہ وقت کی طرف سے جاری کردہ اس تحریک پر ہمیں بھی عمل کرنے کی سعاد ت ملی۔اس بات کو چالیس سال سے زائد عرصہ گزرچکاہے۔سویا بین کھانے کےمفید اثرات کا مشاہدہ زندگی میں مختلف مواقع پر کیا گیا۔خاکسار کی حافظےکی کمزوری بھی دُور ہوگئی کسی چیز کو یاد کرنا اور یاد رکھنا بہت آسان ہوگیا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ محض اللہ کا فضل ہے، خلیفہ وقت کی تحریک پر عمل کرنے کی برکت ہے کہ آج بھی میری یادداشت اورحافظہ بہت بہتر ہے۔الحمدللہ علیٰ ذالک

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی ہومیوپیتھک علاج کروانے کی تحریک

خاکسار کی اہلیہ گذشتہ سال ٹائیفائڈ بخار کے حملے کی وجہ سے بیمارہوگئیں۔ان دنوں کوروناوائرس کی وبا پورے عروج پرتھی اور لاک ڈاوٴن کی وجہ سے پابندیاں بھی تھیں۔ان حالات میں بہت پریشانی تھی۔کافی دنوں تک بخار بڑھتا اور اُترتا رہا۔ایلو پیتھک علاج کروایا گیا جس سے بخار تو اُتر گیا لیکن ٹائیفائیڈ کے دیگر اثرات یعنی موشن، معدے کی تیزابیت، نیند کی کمی اور بے چینی جاری رہی۔اسی پریشانی کےعالم میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکوتما م صورت حال لکھ کر دعا کی درخواست کی گئی۔چند دن بعد حضور انورکی طرف سے نہایت ہی محبت بھرا جواب ملا۔جس میں ڈھیر ساری دعاوٴں کے بعد اہلیہ کے علاج کے لیے راہ نمائی بھی فرمائی کہ آپ ہومیوپیتھک علاج کروائیں۔حسب ارشاد ہومیو پیتھک علاج شروع کروایاگیا۔محض خدا کے فضل اور حضورانور کی دعائوں کے طفیل اہلیہ کی طبیعت آہستہ آہستہ بہتر ہونا شروع ہوگئی اور اس علاج کی برکت سے شفایاب ہوگئیں۔

کورونا وائرس کےممکنہ علاج کے لیے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کےتجویزکردہ ہومیو پیتھک اور دیسی نسخہ جات کے استعمال کی برکت

خاکسار کے بھائی جن کی ایک سال قبل شادی ہوئی تھی کو امسال عید الفطر کے بعد ایک دن تیز بخار ہوگیا۔فوری طورپر ہسپتال جاکر ٹیسٹ کروایاگیا تو کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا۔اس کےبعد انہوں نے اہلیہ کا ٹیسٹ کروایاتووہ بھی مثبت آیا۔ڈاکٹرزنے دونوں میاں بیوی کو ضروری ادویات لکھ کر گھر پر 15یوم قرنطینہ میں گزارنے کی ہدایت کی۔اب صورت حال یہ تھی کہ گھر میں میاں بیوی کے علاوہ کوئی نہ تھا جو ان کی دیکھ بھال کرتا۔دونوں گھر میں بیمار پڑے تھے۔بھائی نے فون کرکے والدہ کو صورت حال بتائی۔والدہ اور ہم بہن بھائی ان کی بیماری سے بہت پریشا ن تھے۔ اسی پریشانی کے عالم میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعاکے لیے فیکس کی گئی اور علاج شروع کردیا گیا۔کھانا بھائی کے سُسرال کی طرف سے آجاتا اور دیگر ضروری اشیاوغیرہ کے لیے بھائی مجھےفون کردیتے جوان کو پہنچادی جاتیں۔دس دن گزرگئے لیکن بخار نہیں ٹوٹ رہاتھا۔ایلو پیتھک علاج کے ساتھ حضور انور کا تجویز کردہ ہومیوپیتھک اور دیسی نسخہ استعمال کیاگیا۔آہستہ آہستہ صورت حال بہتر ہونا شروع ہوگئی اور بخار کم ہوگیا۔یہ 15دن ہمارے لیے 15صدیوں کےبرابر لگ رہے تھے۔آخرکاران کاقرنطینہ پورا ہوگیا۔دوبارہ ٹیسٹ کروایاگیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیگیٹو آیا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاوٴں کے ساتھ ساتھ آپ کے تجویز کردہ نسخے کے استعمال کی برکت سےبھائی اور بھابھی جلد معجزانہ طور پر شفایاب ہوگئے۔

پس خلیفہ وقت ایک ایسا وجود ہے جو ہمارے لیے ہمارا درد رکھنے والا،ہماری محبت رکھنےوالا،ہمار ے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا،ہماری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا اور ہمارے لیے خدا کےحضور دعائیں کرنے والا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ سےدعا ہے کہ وہ ہمیں احسن رنگ میں خلافت کی نعمت عظمیٰ کی قدر کرنے اور اس کی کامل اطاعت کرنے کی توفیق دےتاکہ ہم ہمیشہ اس کی برکات سے مستفید ہوتےرہیں۔اور تمام انسانیت اس سےفیضیاب ہوتی رہے۔آمین

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیر ی عمرہو دراز

٭…محترمہ بشریٰ نذیر آفتاب صاحبہ سسکاٹون کینیڈا سے تحریر کرتی ہیں:

خاکسار 1997ء میںپاکستان سے جرمنی آئی۔ میرا نکاح پاکستان میں ہو چکا تھا اورپھر جرمنی میں بھائیوں کےگھر سے رخصت ہو کر اپنے سسرال فریڈ برگ آگئی۔ اگلے سال جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورۂ جرمنی کی خبر سنی تو شگوفۂ دل مسرت سے کھل اُٹھا ۔ ہم نے پیا رے آقا سے ملاقات کی درخواست دے دی ۔چند ہفتوں کے بعدانتظا میہ کی طرف سے ملاقات کی منظوری کی اطلاع آگئی۔ ہماری ملاقات سے ایک روز قبل میرے دل کی جوکیفیت تھی وہ بیا ن سے باہر ہے اور ہونی بھی چاہیے تھی کیونکہ یہ ملاقات کسی ملک کے بادشاہ یا حکمران سے نہ تھی بلکہ مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کے چوتھے جانشین اور خلیفۃ المسیح سےتھی جس کی ایک جھلک دیکھنے کو لاکھوں احمدی ترس رہے تھے اور سینکڑوں یہ حسرت دل ہی میں لیے اِس جہاں سے رخصت ہوچکے تھے۔ آپ کے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلی بار مجھے شرف ملاقات نصیب ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے ابو جان نذیر احمد خادم صاحب (مرحوم) کو جب بتایا کہ ہمیں پیارے آقا سے ملاقات کا وقت مل گیا ہے توآپ کی خوشی دیدنی تھی ۔ ابو جان نے خلیفۃ المسیح سے ملاقا ت کے آداب بتائے اور کہا کہ ملاقات کے لیے جانے سے قبل نوافل ادا کرنا اور صدقہ بھی دے دینا ۔آخر کار وہ دن آن پہنچا جس کا ہر احمدی کو انتظار ہوتاہے۔ اب وہ ساعت سعید آگئی جس کے لیے عرصہ چودہ سال سے میں دعائیں مانگ رہی تھی۔ میر ے میاں آفتاب انور اور میں گود میں اپنی تین ماہ کی واقفہ نو بیٹی نائیلہ انور کو اٹھائے کمرے میں داخل ہوئے جیسے ہی نظر اس رُخِ انور پر پڑی تو اپنا آپ بھی یاد نہ رہا کجا یہ کہ والدین اور عزیز و اقارب کے محبت و اُ لفت سے لبریز سندیسے آپ کی نظر کرتی۔ خلافت کا رُعب، خلافتِ احمدیہ محبتوں اور شفقتوں کا لا متناہی خزانہ اور خلیفۂ وقت کا افرادِ جماعت سے پیار و محبت کا تعلق ، اس بات کا حقیقی ادراک ملاقات کے دوران ہوا۔ حضورؒ نے السلام علیکم کے بعد فرمایا کہ’’چھوٹا سا بچّہ اٹھایا ہو ا ہے لگتا ہے نئی نئی شادی ہوئی ہے۔‘‘میرے میاں نے کہا جی حضور ۔ پھر حضورؒنے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا :’’تعا رف کرائیں یہ کن کی بیٹی ہیں ؟ ‘‘

میرے میاں نے عرض کیا :حضور یہ نذیر احمد خادم صاحب کی بیٹی ہیں ۔ پیارے حضور یہ سن کربہت خوش ہوئے اور فرمایا :’’اچھا !بہت اچھے خاندان میں شادی ہوئی ہے۔‘‘

پیارے آقا کے استفسار پر کہ آپ یہاں جرمنی میں کیاکام کر رہے ہیں اور آپ کی تعلیم کیا ہے؟ میرے میاں نے عرض کیا :’’حضور خاکسار نے ایم ایس سی آنرز ایگریکلچر اگرانومی کی ڈگری ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد سے حاصل کی ہے۔‘‘حضور پُر نور نے بلا توقف فرمایا :’’تو پھر یہاں آپ کیا کر رہے ہیں ، کینیڈا چلے جائیں وہاں آپ کو اچھی جاب مل جائے گی اور کینیڈا آپ کے لیے بہتر ملک ثابت ہو گا۔‘‘میرے میاں نے جوابا ًعرض کیا :’’جی حضور ‘‘

اب تو ہم دونوں کو پورا یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور خلافت کی برکت سے ہمارے کینیڈا جانے کا سامان ضرور پیدا فرمائے گا ۔ گو کہ حالات اس کے با لکل برعکس تھے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوسری بیٹی سے بھی نوازا۔

بلاشک و شبہ خلیفۂ وقت کی دعائیں اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ قبول فرماتا ہے۔ ہم نے چونکہ جرمنی میں اسائلم کیا تھا اور ابھی تک ہمارے کیس کی سماعت کی تاریخ نہیں آئی تھی، تاہم حضرت صاحبؒ سے ملاقات کے بعد کینیڈا کی امیگریشن کےلیے درخواست دے دی ، کچھ ماہ کے بعد ہی کینیڈین ایمبیسی نے ہماری امیگریشن کی درخواست مسترد کر دی۔اسی دوران ہمیں اپنے وکیل کی طرف سے اسائلم کے کیس کی پیشی کا خط بھی آگیا ۔ سب عزیز و اقارب نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ آپ کا جج جس نے کیس کا فیصلہ کرنا ہے بہت اچھا ہے اور اِس نے شاذ شاذ ہی کسی احمدی کا کیس نامنظور کیا ہے بعض رشتہ داروں نے تو مبارک سلامت کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ آخر کار ہمارے کیس کی سماعت کا دن آن پہنچا۔ہم Hessen صوبے کے شہر گیزن Giessenکی عدالت میں پہنچ گئے میرے جیٹھ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ہم ویٹنگ روم میں اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ اسی اثنا میں ہمارے پاس سے ایک قد آور مہذّب آدمی مسکراتا ہوا ہاتھ ہلاتے ہوئےگذرا۔ کمرۂ عدالت میں جاکر پتہ چلا کہ وہ ہمارے جج صاحب تھے۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی اس دوران جج صاحب میری ننھی منّی تتلیوں کو دیکھ کر مسکراتے رہے جس سے سب کی ڈھارس بندھی رہی کہ ہمارا کیس منظور ہو جائے گا، مگر ہوا اِس کے الٹ، جج صاحب نے کیس کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ’’آپ کا کیس مسترد کیا جاتا ہے ۔‘‘اس اعلان کے ساتھ ہی وہ بڑے اطمینان کے ساتھ ہاتھ ہلا تے ہوئے کمرۂ عدالت سے باہر چلے گئے۔

اس فیصلہ کی توقع نہ تو ہمارا وکیل اور نہ ہی ہما رے عزیز و اقارب کر رہے تھے ایک دفعہ تو سب پر اداسی چھا گئی۔

مگر ان میں سے کسی کو بھی بشمول جج صاحب ، یہ علم نہ تھا کہ یہ فیصلہ ہمارے حق میں مصلحت ِخداوندی کے تحت ہوا ہے نہ کہ ہمارے خلاف ، اور بعد کے حا لات نے یہ ثابت بھی کردیا کہ خلیفہ ٔوقت کی دعائیں اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ قبول فرماتا ہے۔

جرمنی میں کیس مسترد ہونے کے بعد اِنتظامیہ آپ کے خلاف کسی بھی وقت ڈیپورٹیشن کے آرڈر جاری (آپ کے ملک بھجوا سکتےہیں ) کر سکتی ہے۔ اللہ کی شان دیکھیےکہ اس واقعہ کے پانچ ماہ کے اندر اندر خدا تعا لیٰ کی غیبی طاقت نے ہمارے کینیڈا آنے کے سامان پیدا فرمائے ۔جب ہم نے یہاں آکر پناہ کی درخوا ست دی توہمیں بتایا گیا کہ آپ کی تمام معلومات پہلے ہی سے ہمارے کمپیو ٹر میں محفوظ ہیں اس طرح چند ماہ کے اندر ہی ہمیں عدالت میں کیس کی سماعت کے لیے بلا لیا گیا ، اس بار ہماری جج ایک خاتون تھیں ، کمرۂ عدالت میں ہمارا وکیل ، ہماری ترجمان ، جج صاحبہ اور ان کے ہمراہ ایک اور عورت ، ہم اور ہماری دو بیٹیاں نائیلہ انور عمر تین سال اور نور انور عمر ایک سال موجود تھے ۔ ہمارے کیس کی کارروائی شروع ہوتے ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے جج صاحبہ کو بہت متاثرکیا ، جیسے ہی جج صاحبہ نے ہمارا حال احوال دریافت کر کے کارروائی کا آغاز کیا تو میری چھوٹی بیٹی نے باتھ روم جانے کو کہا ، میں نے اسے نظر انداز کرکے پوری توجہ جج صاحبہ کی طرف مبذول رکھی ۔ میری بیٹی نے دوبارہ اور پھر سہ بارہ باتھ روم جانے کو کہا جس پر رحمدل جج صاحبہ نے ترجمان عورت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس ننھی بچّی کو کیا چا ہیے کیا اسے بھوک لگی ہے؟

جس پر میں نے معزّز جج صاحبہ کو بتایا کہ میں نے اس بچی کو باتھ روم کی ٹریننگ دی ہوئی ہے اس کو ڈائپر کی عادت نہیں اس لیےیہ مصر ہے کہ حوائجِ ضروریہ کے لیے باتھ روم ہی استعمال کر نا ہے حا لانکہ آج میں اسے ڈائپر پہنا کر لائی ہوں کہ کہیں عدالت میں دورانِ کارروائی خلل واقع نہ ہو۔ میری بات سنتے ہی اس شفیق و مہربان عورت نے مسکراتے ہوئے کہا:’’آپ اس ذہین اور سمجھدار بچیّ کو ابھی باتھ روم میں لےجائیں ہم اُتنی دیر تک کارروائی روکتے ہیں اور یاد رکھیں کوئی جلدی نہیں۔‘‘سبحان ا للہ! یہ ہیں یہاں کی عدالتیں جن میں اسلام کی تعلیم نظر آتی ہے اور ا یک وہ ہمارے ملکوں کی عدالتیں جہاں اسلام کی خو بصورت تعلیم کی اسلام ہی کے نام پر دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔

تقریبا ً دس منٹ کے بعد میں اور میری بیٹی کمر ۂ عدالت میں واپس آئیں تو جج صاحبہ یوں گویا ہوئیں ۔

“Your case is accepted, now Canada is your home and country. You have also impressed me with the way you have potty trained your little daughter at such a small age, it‘s very impressive.”

یعنی آپ کا کیس منظور کیا جاتا ہے۔ اب کینیڈا آپ کا گھر ہے اور آپ کا ملک بھی ہے۔میں اس بات سے بھی متا ثر ہوئی ہوں کہ اتنی چھوٹی عمر میں آپ نے اپنی بیٹی کو باتھ روم کی تربیت دے دی ہے ۔‘‘

میں اور میرے میا ں بے اختیار الحمدللّٰہ ثمّ الحمدُللّٰہ پڑھنے لگے کہ ہمارے خلیفۃ المسیح نے بھی یہی فرمایا تھا کہ’’کینیڈا آپ کے لیے بہتر ملک ثابت ہوگا۔‘‘ آج یہ عدالت اور ہم اس بات پر گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس شان سے حضورؒ کے منہ سے نکلے الفاظ کو قبول فرمایا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصبِ خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہےکیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کےاپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے۔‘‘

( منصب خلافت،انوارالعلوم جلد 2صفحہ49)

خلافت کی اطاعت اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ثمرات کا مشاہدہ تو ہم نے جرمنی ہی سےشروع کردیا تھا مگر یہاں کینیڈا آکر تو ربّ رحیم و کریم نےان ثمرات کی گویا موسلا دھار بارش ہی بر سا دی۔ یہاں آکر میرے میاں نے یارک یونیورسٹی سے مزید تعلیم حاصل کی اور ساتھ ساتھ سکیورٹی کی نوکری کی۔ ہم چھ سال ٹورانٹو Toronto ,Ontarioمیں رہے جن میں سے احمدیہ ابورڈ آف پیس میں گذرے ہوئے تین سال یاد گار ترین سال ہیں 2003-2006ءاُن دنوں ہمارے مو جودہ امیر جماعتہائے کینیڈا مکرم ومحترم لال خان ملک صاحب احمدیہ ابورڈ آف پیس کے منتظمِ اعلیٰ تھے۔ 2006ءمیں ہم سسکاٹون Saskatoon, Saskatchewan آگئے ، جو ٹورانٹو سے تقریباً دو ہزار سات سو کلو میٹر مغربی جانب واقع ہے۔ اُن دنوں مکرم و محترم نسیم مہدی صاحب (سابق امیر جماعت کینیڈا)نے تحریک کی ہوئی تھی کہ زیادہ سے زیادہ احمدی خاندان سسکاٹون آباد ہوں تاکہ وہ مسجد جس کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نےاپنے دستِ مبارک سے رکھا تھا اس کی تعمیر کا آغاز ہو سکے۔ الحمد للہ مسجد بیت الرحمت چند سال پہلے مکمل ہو چکی ہے۔ اب اہالیانِ سسکاٹون شدت سے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب امیر المو منین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفسِ نفیس اس مسجد کا افتتا ح فرمائیں۔

یہاں سسکاٹون میں میرے میا ں کوان کے شعبے میں بہت اچھی جاب مل گئی، ہمیں باقی احمدی خاندانوں کی طرح مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی کی بھی توفیق ملی، میرے میاں نے پاکستان سے میرے دیور کی فیملی جو چھ افراد پر مشتمل ہے کو سپانسر شپ کے تحت بلایا، ہماری بڑی بیٹی سسکیچوان یونیورسٹی میں ڈاکٹر آف میڈیسن میں دوسرے سال کی طالبہ ہے اور دوسری بیٹی اسی یونیورسٹی میں بی ایس سی کے چوتھے سال میں ہے یہ دونوں بچیاں محض خدا کے فضل اور خلیفہ وقت کی دُعاؤں سے جلسہ سالانہ یو کے کے موقع پر حضور پُر نُور سے تعلیمی ایوارڈ بھی لے چکی ہیں ۔ ہمارا بیٹا مبارز احمد انور(وقفِ نو) بارھویں کلاس میں اور سب سے چھوٹی بیٹی نورین انور نویں کلاس میں پڑھ رہی ہے۔اسی طرح خاکسار بھی چند سال سے مقامی پبلک سکول میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو مقامی صدر لجنہ (سسکا ٹون ) کے طور پر چار سال ، اور اب عرصہ چھ سال سے پہلے ریجنل صدر پریری ریجن اور اب ریجنل صدر سسکاٹون کے طور پر کام کرنے کی توفیق دے رہا ہے۔ اسی طرح ہمارے سب بچوں کو بھی اللہ تعا لیٰ کے خاص فضل سے جماعتی خدمت کرنے کی توفیق مل رہی ہے اور یہ بچے اپنے تمام اُمور میں پیا رے آقا سے مشورہ لیتے ہیں اور پھر حضورِ انور کی ہدایت کی روشنی میں کام کرتے ہیں اور اس طرح خلیفہ وقت کی دعاؤں سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ الحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

آخر پر اپنے ربِّ رحمان و منّان سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہما ری آئندہ قیا مت تک آنے والی نسلوں کو خلافتِ احمدیہ سے وابستہ رکھے تاکہ ہم اور ہماری نسلیں خلافتِ احمدیہ حقّہ کی برکات و ثمرات سے ہمیشہ مستفیض ہوتی چلی جائیں۔ آمین یا ربّ العا لمین!

خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا

وہ دل ہے ہمارا آقا ہمارا

٭…مکرم احمد منیب صاحب لکھتے ہیں:

میرے محترم والد صاحب نے میرے بڑے بھائی جان کو 1967ء میں ان کی پیدائش سے پہلے وقف کر دیا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت محمدمحموداحمد نام تجویز فرمایا اور وقف بھی قبول فرما لیا۔نیز ابا جان کو باقاعدہ ہدایات جایا کرتی تھیں کہ بچے کی تربیت کس طرح کرنی ہے۔دو سال بعد جب مَیں پیدا ہوا تو حضور ؒنے میرا نام رکھا لیکن محترم والد صاحب نے مجھے وقف نہیں کیا تھا۔اباجان اُس وقت ضلع شیخوپورہ کی مجلس خدام الاحمدیہ کے ضلعی معتمد تھے اور مقامی طورپر بھی امارت کی مجلس عاملہ میں تھے۔ حضورؒ کے ارشادات کی روشنی میں محترم والد صاحب نے بھائی جان کے لیے سکول میں عربی کا مضمون رکھا اور بھائی جان پر خصوصی توجہ رکھی حتیٰ کہ بھائی جان جب آٹھویں کلاس میں تھے اور میں چھٹی میں تھا تو بھائی جان سکول اور ٹاؤن کمیٹی کے ہال میں منعقد ہونے والے تقریری مقابلہ جات میں عربی زبان میں تقریر کیا کرتے تھے۔

میرا وقف

خاکسار جماعت احمدیہ سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ میں جماعتی خدمات کو اپنے لیے فخر کا باعث جانتا تھا اسی لیےمیرے دن رات خدمت دین میں گزرتے تھے۔ حافظ محمود احمد ناصر صاحب مربی سلسلہ نابینا تھے لیکن ان کے ساتھ دلی عقیدت و محبت تھی انہوں نے ہماری تربیت اپنے بچوں کی طرح کی۔ پڑھائی میں بھی میں نے پانچویں کے وظیفہ کے امتحان میں ضلع بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی اور آٹھویں میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے وظیفہ کا حق دار بنایا تھا۔اس وقت محترم مربی صاحب نے میرے دادا جان محترم کو خاکسار کے حوالے سے مشورہ دیا کہ محمود بھی بہت اچھا ہے لیکن آپ اسے وقف کر دیں اور مربی بنا دیں یہ زیادہ اچھا ہو گا۔اس پر دادا جان، ابا جان اور ہماری پھوپھو امی محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ نے باہمی مشورے سے فیصلہ کیا کہ چونکہ خاکسارکا مذہبی رجحان زیادہ ہے اس لیے اسے مربی سلسلہ بنانے کے لیے حضور ؒکی خدمت میں پیش کردیا جائے۔چنانچہ یہ فیصلہ ہوتے ہی اگلی صبح ہم دونوں بھائی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی قدم بوسی کے لیے حاضر خدمت ہو گئے۔…

جب ہم قصرخلافت میں محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر حاضر ہوئے تو تھوڑی ہی دیر بعد ہماری ملاقات کی باری آ گئی۔اب میں اباجان کے بائیں اور بھائی جان دائیں چل رہے تھے ہم حضور ؒکی خدمت میں حاضر ہوئے تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضور ؒ ازراہِ شفقت کھڑے ہو کر ہم سے ملے اور پہلے ابا جان نے مصافحہ کا شرف حاصل کیا اور پیارے آقا کے ہاتھ کو بوسہ دیا، پھر بھائی جان نے حضورؒ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور بوسہ لیا آنکھوں پر لگایا پھر حضورؒنے میرا ہاتھ اپنے مبارک ہاتھوں میں لیا اور مجھے موقع دیا کہ میں بھی اپنی حسرت پوری کر سکوں۔چنانچہ میں نے حضور ؒکا ہاتھ ہاتھوں میں لیا اور بڑی گرم جوشی سے اپنی آنکھوں پر لگایا، سینے سے لگایا اور بوسہ دیا لیکن حضور ؒنے میرا ہاتھ چھوڑا نہیں نہ ہی میں نے چھڑانے کی کوشش کی۔ دادا جان، نانا جان اور گھر والوں کا حال احوال جاننے کے بعد حضور ؒنے ابا جان سے پوچھا کہ فرمایئے ڈاکٹر صاحب خیر سے تشریف لائے؟ تو ابا جان نے بلا کسی تمہید کے حضور ؒسے خاکسار کے حوالے سے عرض کی کہ ہمارے مربی صاحب کا مشورہ ہے کہ محمود کی بجائے اسےمربی سلسلہ بنانے کے لیے وقف کر دیا جائے کیونکہ اس کا اس طرف زیادہ رجحان ہے۔ چنانچہ میں دونوں کو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ محمود کی بجائے اسے قبول فرما لیں۔ حضور ؒنے مجھے اپنے دائیں طرف بغل میں بھر لیا اور بھائی جان محمود صاحب کو اپنی بائیں بغل میں بھر لیا اور کھل کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ’’ڈاکٹر صاحب! آپ یہ کیا بات کر رہے ہیں مجھے تو دونوں ہی قبول ہیں۔ ہاں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مقصود کو مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ بنا دے۔‘‘

اس کے بعد کچھ دیر مزید گفتگو ہوئی اور ہم اجازت لے کر باہر آئے اور میں نے اس دن محسوس کیا کہ میری زندگی بدل گئی ہے۔ میں نے ایک بہت بڑی اور الگ قسم کی ایسی تبدیلی اپنے اندر محسوس کی جسے میں بیان نہیں کر سکتا تھا اور اس طرح میں نے چھ ماہ کے اندر اندر روحانی خزائن کی اُردو کتب، تفسیر کبیر کی دس جلدیں، پاکٹ بک اور دیگر بہت سی جماعتی کتب کو ایک الگ انداز میں پڑھنا شروع کر دیا۔ یوں اللہ کے فضل سے 1988ء میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ ہوا اور 1994ء میں خاکسار اپنے شہر سانگلہ ہل اور اپنے خاندن میں سے پہلامربی سلسلہ عالیہ احمدیہ بن کر سلسلہ کے خدمت میں لگ گیا اور تا دمِ تحریر خاکسار اِس خواہش اور دعا کے ساتھ خدمت بجا لا رہا ہے کہ آخری سانس تک خدمت کا موقع پاؤں۔

بھائی جان کا انداز خدمت

بھائی جان نے مکینکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا لیکن حالات کی وجہ سے 1989ء میں سب کے مشورہ سے وہ جرمنی چلے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں اور اباجان بھائی جان کو ایئرپورٹ پر چھوڑنے گئے تو اباجان نے ان سے کہا کہ خدمت دین میں پیش پیش رہنا اور خلیفۂ وقت کے قریب رہنا ہی آپ کا مطمعِ نظر ہونا چاہیے۔ جرمنی میں آپ کو خدام الاحمدیہ میں بطور نائب اور پھر مہتمم مال خدمت کا موقع ملا۔ اسی سال حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک جمعہ کے خطبہ میں فرمایا کہ اس سال خدام الاحمدیہ جرمنی کی مالی قربانی میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔بھائی جان اس وقت خدام الاحمدیہ جرمنی میں ناظم حفاظت خاص بھی تھے۔ اس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی قربت آپ کو نصیب ہوئی۔ پھر حضورؒ نے 1996ء میں غالباً بھائی جان کو صدر خدام الاحمدیہ نامزد فرما دیا اور مجھے حضور ؒکی وہ بات یاد آ گئی جو حضور نے محترم اباجان سے فرمایا تھا کہ:’’ ڈاکٹر صاحب! آپ یہ کیا بات کر رہے ہیں مجھے تو دونوں ہی قبول ہیں۔…‘‘یوں بھائی جان کو حضرت خلیفۃ المسیح کی شفقتوں تلے خدمت دین کی توفیق مل رہی تھی۔مَیں نے اسی وقت حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو یہ سارا واقعہ لکھ کر بھیجا تو حضور ؒنے فرمایا کہ آپ کے مخلص والد محترم نے بڑے اخلاص کے ساتھ آپ کو آپ کے بڑے بھائی کی جگہ مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ بنانے کے پیش کیا تھا تو کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کے بڑے بھائی جنہیں پورے اخلاص کے ساتھ پیدائش سے قبل وقف کیا گیا تھا اللہ تعالیٰ خدمت دین سے محروم رکھتا؟ اس لیے دیکھ لیں کہ اللہ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو قبول کر لیا ہے۔اس پر ہم جتنا بھی خدا کا شکر ادا کریں کم ہے۔

المختصر یہ کہ خدا تعالیٰ کا ہمارے خاندان پر بہت بڑا احسان ہے کہ اپنے خلیفہ کے الفاظ کی برکت سے ہم دونوں بھائیوں کو اللہ تعالیٰ دین کی خدمت کی توفیق دے رہا ہے اور ہماری دعا ہے کہ آخری سانس تک خدمت کی توفیق ملتی رہے کہ یہ ہمارے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button