از مرکز

جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ء کے دوسرے اجلاس کی روئداد

جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کا پہلا اجلاس مورخہ 7؍ اگست 2021ء کو صبح ٹھیک دس بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مکرم بلال ا یٹکنسن صاحب نے کی۔ تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ مکرم راحیل احمد صاحب نے سورۂ آل عمران آیات109تا112سے کی۔ بعد ازاں مکرم عصام احمد صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام میں سے درج ذیل اشعار خوش الحانی سے پڑھے:

ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے

کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے

کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دِکھلائے

یہ ثمر باغِ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے

آؤ لوگو! کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے!!

لو تمہیں طَور تسلی کا بتایا ہم نے

مصطفیٰ پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت

اُس سے یہ نور لیا بارِ خدایا ہم نے

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مُدام

دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے

ہم ہوئے خیرِ اُمم تجھ سے ہی اے خیرِ رُسلؐ

تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے

اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم طاہر ندیم صاحب مربی سلسلہ عربی ڈیسک یوکے نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’’اسلام میں آزادیٔ اظہار کی حدود و قیود‘‘تھا۔ یہ تقریر اردو زبان میں تھی۔

تشہد ،تعوذ کے بعد موصوف نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت 54کی تلاوت کی۔ازاں بعد آزادی رائے کی تعریف بیان کرتے ہوئے موصوف نے فرمایاکہ انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے اورآزادئ اظہار انسان کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے۔ اسی لیے دنیا کے تمام مذاہب نے اسے قبول كیا ہے اور تمام قوموں نے اِسے تسلیم كر كے اپنے دساتیر میں اس كی ضمانت دی ہے۔اظہار رائے کی آزادی کا سادہ مفہوم یہ ہے كہ ہر انسان تقریر وتحریر اورعمل كے ذریعہ اپنے خیالات كے اظہار میں آزاد ہے۔مگر آج كے ترقی یافتہ معاشرے نے اس سے مراد مادر پدر آزادی لے لی ہے۔ ایسی آزادی كو انسان كا بنیادی حق قرار نہیں دیا جاسكتا۔حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمه الله تعالىٰ فرماتے ہیں: ’’معاشرے کے حوالے سے مطلق آزادی کا نعرہ بالکل کھوکھلا بے معنی غیر فطری اور غیر حقیقی نعره ہے۔ بعض اوقات آزادی کے ایسے غلط معنے لیے جاتے ہیں اور اس کے تصور کو اتنا غلط استعمال کیا جاتا ہے کہ آزادی تقریر کا حسین اصول بےحد بدنما اور بد صورت بن کر رہ جاتا ہے۔ گالی گلوچ دوسروں کی عزت و آبرو پر حملے اور پاک اور مقدس وجودوں کی توہین آخر کہاں کی آزادی ہے؟‘‘

آزادئ اظہار كےبارے میں اسلام جومكمل ضابطہ پیش كرتا ہے اس کے بنیادی نکات بیان کرتے ہوئے موصوف نے بتایاکہ اسلام نے ایك طرف تو آزادئ اظہار كی عمارت كو نہایت مثبت اورتعمیر ی بنیادوں پر اٹھایا ہے تاكہ یہ آزادی اپنے اصل ہدف كو پوری كرنے والی ہویعنی عامۃالناس کےلیےخیر وبھلائی كا موجب ٹھہرے اوراس كے ذریعہ سے معاشرے كے ہر فرد كو قوم وملت كی تعمیر میں بنیادی كردار ادا كرنے كا موقع ملے۔دوسری جانب اسلام ایسا ماحول پیدا كرتا ہے جس میں آزادئ اظہار كے حق كا درست نہج پر استعمال كرنے کےلیے ہر فرد كی تربیت ہوتی رہتی ہے۔تیسری بات یہ ہے كہ اسلام نے اس آزادی كی كچھ حدودوقیود مقرر كی ہیں تا كسی فرد كی آزادی كسی دوسرے فردیا قوم كی دل آزاری اور استحصال كا باعث نہ بنے۔

اس کے بعد موصوف نےآزادی اظہار کے لیے اسلام کے بیان کردہ اصول بیان کیے۔اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ لوگو ں سے ہمیشہ اچھی بات ہی كہا كرو۔صاف سیدھی اور سچی بات كہا كرو۔ بلكہ جو بات كرو سچی ہواور جھوٹ بولنے اور جھوٹی شہادت دینے سے بچو۔ اسلام سچی بات كہنے پر اتنا زور دیتا ہے كہ بعض حالات میں اسے جہاد بلكہ افضل تر ین جہاد قرار دیتاہے۔ چنانچہ نبی كریمؐ نے فرمایا ہے کہ سب سے افضل جہاد ،ایک ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے۔

جب بھی بولو تو عدل و انصاف پر مبنی بات كرو۔

اسلام آزادئ اظہار كے حق كو استعمال كرنے كا ماحول فراہم كرتا ہے تا ہر فرد امت كی اس حق كو درست طو رپر استعمال كرنے كی تربیت ہوتی رہے۔ اس بارے میں اسلام كہتا ہے كہ ہر فرد امت پر لازم ہے كہ وه نیكی كی باتوں كی ترغیب دے اور برائی كی باتوں سے منع كرے۔یعنی ہر ایك كی ذمہ داری ہے كہ وه اپنےقول و فعل اور تحریر و تقریر سے خیر کی شمعیں روشن كرے۔

اسلام آزادئ اظہار كے حق كو درست طریق پر استعمال كرنے كی تربیت كے لیے مشاورت كا نظام پیش كرتا ہے۔اسلام ہر فرد کو اظہار رائے كا موقع اور اس کی اجازت دیتا ہے۔

اسلام آزادئ اظہار كے پروان چڑھنے كے لیے مثالی ماحول فراہم كرتے ہوئے رحمت اور نرمی كے سلوك كو اپنانے كا درس دیتا ہے۔

اسلام آزادئ اظہار كا اس قدر قائل او رحامی ہے كہ ہر قسم كے جبرو اكراه اور دھمكی اور دھونس كی نفی كرتے ہوئے مذہبی آزادی كے لیے

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة:257)

اور

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الكہف:30)

جیسے عظیم اصولوں كا اعلان كرتا ہے ۔

اس کے بعد موصوف نے آزادی اظہار کی قیود بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام آزادئ اظہاركو احترام آدمیت۔ شرف انسانیت۔عدل وانصاف۔ادب واحترام اور امن وآشتی كے دائرے میں ركھنے كے لیےایسی حدود وقیود اورقواعد وضوابط بیان كرتا ہے جو اس حق كی افادیت كو چار چاند لگا دیتے ہیں اوراس كی عظمت وخوبی كو بڑھانے والے اور اس كے حسن كو دوبالا كرنے والے ہیں ۔

اسلام یہ جامع مانع ضابطہ پیش كرتاہے كہ

وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ(البقرة:206)

اور الله فساد كرنے والوں كو پسند نہیں كرتا۔ یعنی ہمیشہ یہ خیال رہے كہ آپ كی رائے قول و فعل یا تقریر وتحریر فساد فی الارض كا باعث نہ ہو ۔

اسلام كہتا ہے كہ سنی سنائی باتیں اور ملكی سلامتی سے متعلقہ امور كو بغیر تحقیق كے پھیلانا بھی آزادی اظہار میں نہیں آتا۔

اسلام كہتا ہے كہ آزادئ اظہار كے نام پربے بنیاد پروپیگنڈا كا حصہ نہ بنو۔

اسلام کہتا ہے کہ آزادئ اظہار ِرائے میں یہ خیال رہے كہ آپ كا كلام فواحش سے پا ك ہونا چاہیے ۔

اسلام اظہار رائے كے ضمن میں كہتا ہے كہ ہر غیبت اور عیب چینی كرنے والے كے لیے ہلاكت ہے۔

اسلام آزادی كی آڑ میں كسی کی بری تشہیر ، طعنہ زنی، فحش گوئی اور بہتان تراشی کی اجازت نہیں دیتا۔

اسلام كہتا ہے كہ آزادئ اظہار رائے كا یہ معنی نہیں كہ كسی كی تحقیر كی جائے۔

اسلام كہتا ہے كہ آزادئ اظہار كی آڑ میں كسی انسان كی عزت نفس كو مجروح نہ كیا جائے۔

اسلام دیگر ادیان كی توہین اور ان كے مقدسات كو گالی دینے كو آزادی كے خلاف سمجھتا ہے۔

اسلام كی اس اعلیٰ ا ور حسین تعلیم كے برعكس آج كے زمانے میں اظہار کی آزادی کی آڑ میں ذرائع ابلاغ کے نرغے سے مقدس مقامات ، شخصیات اور انبیاء کرام بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ آزادئ اظہار كے نام پر اہانت آمیز كارروائیوں پر مشتمل یہ لہر آج كی نہیں بلكہ كبھی یہ كوشش كتاب اندرونہ بائبل اور امہات المومنین كی صورت میں سامنے آئی تو كبھی رنگیلا رسول جیسی توہین آمیز كتاب كی شكل میں ظاہر ہوئی۔ كبھی شیطانی آیات كی شكل میں تو كبھی كارٹونوں اور بری فلموں كے ذریعہ اس مكروه ترین فعل كا ارتكاب كیا گیا۔اور ہر موقع پر بانی جماعت احمدیہ اور خلفائے كرام نے ان فتنوں كا اسلامی تعلیم كی روشنی میں بھر پور جواب دیا۔

گذشتہ سالوں میں جب یہ توہین آمیز روش ظاہر ہوئی تو جس ایك شخص نے اسلامی تعلیمات كی روشنی میں اس كا مدلل اور نہایت خوبصورت جواب دیا وه امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃا لمسیح الخامس ایده الله بنصره العزیز ہیں۔ آپ نے جہاں احمدیوں كو نبی كریم صلی الله علیہ وسلم كی سیرت كے اعلیٰ نمونے اپنانے اور انہیں دنیا كے سامنے پیش كرنے كی نصیحت فرمائی وہاں بعض مسلمانوں كے غلط ردّ عمل كو اسلامی تعلیمات سے جوڑنے كی نفی فرمائی۔آپ نے ایك طرف افراد جماعت كونصیحت كی كہ اپنے اپنے علاقے اور ملك كے سیاستدانوں اور ارباب حل وعقدكو ایسی توہین آمیز حركات كے خطرات سے آگاه كریں تو دوسری طرف آپ نے خود اپنے خطبات میں اس پر مفصل روشنی ڈالی۔ایك طرف آپ نے اسلامی حكومتوں كو مخاطب كر كے بعض اقدامات كرنے كی طرف توجہ دلائی تو دوسری طرف مغربی حكومتوں اور اقوام متحده كو بھی ایسے قوانین كی تبدیلی كے باره میں غور كرنے كی دعوت دی۔

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے مغرب كو متنبہ كرتے ہوئے فرمایا:’’كسی بھی مذہب كی مقدس ہستیوں كے باره میں كسی بھی قسم كا نازیبا اظہار خیال كسی بھی طرح كی آزادی كے زمرے میں نہیں آتا۔ تم جو جمہوریت اور آزادئ ضمیر كے چیمپئن بن كر دوسروں كے جذبات سے كھیلتے ہویہ نہ ہی جمہوریت ہے، نہ ہی آزادئ ضمیرہے۔ہر چیز كی ایك حد ہوتی ہے اوركچھ ضابطہ اخلاق ہوتے ہیں۔ آزادئ رائے كا قطعًا یہ مطلب نہیں ہے كہ دوسرے كے جذبات سے كھیلا جائے۔ اس كو تكلیف پہنچائی جائے۔ اگر یہی آزادی ہے جس پر مغرب كو ناز ہے تو یہ آزادی ترقی كی طرف لے جانے والی نہیں ہے بلكہ تنزل كی طرف لے جانے والی آزادی ہے۔‘‘

پھر حضور ایده الله بنصره العزیز نے مغرب اور یو این اوكو مخاطب كركے فرمایا:’’آزادی كے متعلق قانون كوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے۔پس اپنے قانون کو ایسا مکمل نہ سمجھیں کہ اس میں کوئی ردّوبدل نہیں ہو سکتا…آزادیٔ اظہار کا قانون تو ہے لیکن نہ کسی ملک کے قانون میں، نہ یو این او (UNO) کے چارٹر میں یہ قانون ہے کہ کسی شخص کو یہ آزادی نہیں ہو گی کہ دوسرے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرو۔یہ کہیں نہیں لکھا کہ دوسرے مذہب کے بزرگوں کا استہزاء کرنے کی اجازت نہیں ہوگی کہ اس سے دنیا کا امن برباد ہوتا ہے۔ اس سے نفرتوں کے لاوے ابلتے ہیں۔ اس سے قوموں اور مذہبوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی جاتی ہے۔ پس اگر قانونِ آزادی بنایا ہے تو ایک شخص کی آزادی کا قانون تو بیشک بنائیں لیکن دوسرے شخص کے جذبات سے کھیلنے کا قانون نہ بنائیں۔‘‘

تقریر کے آخر پر موصوف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توہین آمیز كوششوں كو روكنے اور امن وامان كو قائم ركھنے كی خاطر ایك تجویز بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ اصول نہایت صحیح اور نہایت مبارک اور باوجود اس کے صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا ہے کہ ہم ایسے تمام نبیوں کو سچے نبی قرار دیں جن کا مذہب جڑ پکڑ گیا اور عمر پاگیا اور کروڑ ہا لوگ اس مذہب میں آگئے۔‘‘

…………………………

بعد ازاں مکرم خالد چغتائی صاحب نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے نعتیہ اشعار پیش کیے۔

بدر گاہِ ذی شانِ خیر الانام

شفیع الوری مرجع خاص و عام

بصد عجز و منت بصد احترام

یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک غلام

کہ اے شاہ کونین عالی مقام

عَلیکَ الصّلوٰۃُ عَلیکَ السّلام

محبت سے گھائل کیا آپ نے

دلائل سے قائل کیا آپ نے

جہالت کو زائل کیا آپ نے

شریعت کو کامل کیا آپ نے

بیاں کر دیئے سب حلال و حرام

عَلیکَ الصّلوٰۃُ عَلیکَ السّلام

نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال

وہ سب جمع ہیں آپ میں لا محال

صفات جمال اور صفات جلال

ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال

لیا ظلم کا عفو سے انتقام

عَلیکَ الصّلوٰۃُ عَلیکَ السّلام

اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم احمد سلام صاحب سیکرٹری صنعت و تجارت یوکے نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’غیر مسلموں کی نظر میں آنحضرت ﷺ کا مقام‘‘۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔

مقرر نے سورۃ الانبیا کی آیات 107 تا 108کا ترجمہ پیش کیا:

ترجمہ:اُس میں یقیناً ایک اہم پیغام ہے عبادت کرنے والے لوگوں کے لیے۔ اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت کے طور پر۔ (21: 107-108)

احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے، ہم سب آنحضورﷺ کے بہترین اور اعلیٰ کردار اور سیرت سے خوب واقف ہیں اور ہمیں بچپن سے ہی قرآن کریم، احادیث اور سنت کے ذریعہ سے آنحضورﷺ سے محبت کرنے اور آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنا سکھایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس محبوب بندے کے مقام کے متعلق ہمارے دلوں میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ آپؐ یقیناً لوگوں میں سب سے بہترین شخصیت ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنحضورﷺ رحمة للعالمین یعنی ساری دنیا کے لیے رحمت ہیں۔ مختلف زمانوں میں وقت کے ساتھ ساتھ دوسرے غیر مسلمانوں کے آپؐ کے متعلق نظریات تبدیل ہوئے۔

لوگوں کے کئی تبصرے ایسے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ بے جا تنقیدہے اور پیچھے سوچ یہ تھی کہ اسلام بنیادی طور پر تشدد کا مذہب ہے۔ غالباً اسلام کے ابتدائی زمانے کے تنقیدی حاشیہ نویس اور دانشور اُس انسانِ کامل اور اسلام کے مذہب کے اُس قائم کردہ تصور کہ اسلام ایک خطرہ پیش کرتا ہے، کے درمیان امتیاز نہیں کر سکے۔ لیکن، جس قدر وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہے کہ پچھلے 1300سالوں میں غیر مسلمان دانشور آنحضورﷺ کے متعلق بڑے اچھے اور تعریفی رنگ میں نظریات بھی رکھتے ہیں۔

سترھویں صدی میں ایک مؤرخ John Tolan صاحب نے کہا ہے کہ آنحضورﷺ کے متعلق مغربی تصورات یقیناً اِس وجہ سے قائم ہوئے کہ ’’اسلام کے نبی European مصنفین کے لیے ایک آئینہ معلوم ہوتے تھے۔آپؐ کو دیکھ کر انہیں اپنے خوف، امیدیں اور آرزوئیں نظر آتیں اور اِس کی وجہ سے آپؐ مغربی تہذیب میں ہمیشہ اُن کی نظروں میں رہتے۔ پس، اُن کا مقام زمانے کے لحاظ سے منفی طور پر اور مثبت طور پر لوگوں میں ادلتا بدلتا رہا ہے اور جیسا کہ ہم دیکھیں گے، یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو تاریخ میں اسلام کے وجود سے لے کر آج تک بار بار دہرایا گیا ہے۔‘‘

یہ حوالہ 400 سال بعد بھی اُسی طرح برمحل ہے اور اُسی طرح اب بھی اطلاق پاتا ہے۔

آنحضورﷺ کے زمانے کے مصنفین یا تبصرہ نگاروں کے زیادہ تر نظریات منفی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ محض اسلام کےنئے مذہب کے متعلق لوگوں کے قائم کردہ خطرے کے تصور کو discredit کرنے کی کوشش تھی۔لیکن قریب کے زمانے کے بھی تبصروں یا نظریات میں آنحضورﷺ کو واضح طور پر کئی اچھی خوبیوں کے ساتھ ایک عظیم الشان شخص کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔ اُن کے متعلق بڑی عزت سے لوگوں نے لکھا ہے۔ غالباً جو ابتدائی زمانے کے تبصرے ہیں، وہ اُس وقت کے ماحول اور لوگوں کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو اُس وقت معاشرے میں رائج تھیں لیکن بعد کے تبصرے بنیادی طور پر آنحضورﷺ سے محبت اور عزت کے جذبات کے قریب ہیں اور یہ وہی جذبات ہیں جو تمام مسلمانوں کے دل میں ہیں۔

یہود کی ابتدائی کتب میں آنحضورﷺ کا بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ذکر ہے۔ اُن میں عموماً آنحضورﷺ کے الہام پانے کے دعویٰ کوتردید کے ساتھ اور انہیں ایک جھوٹا نبی کہا گیا اور اُس سے بھی تکلیف دہ باتیں کی گئیں۔ ایک philosopher، Maimonides اپنی کتاب Epistle to Yemen میں کہتا ہے کہ آنحضورﷺ کا وجو د خدا تعالیٰ کے منصوبے کا حصہ تھا یعنی دنیا کو یہود کے مسیح کی آمد کے لیے تیار کرنا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’عیسیؑ کی تمام باتیں اور اِس اشمائیلی یعنی محمدﷺ کی تمام باتیں جو عیسیٰ کے بعد ظاہر ہوئے مسیحی بادشاہ کے لیے راستہ ہموار کرنے کے لیے پھیلیں۔‘‘

عیسائی لٹریچر میں آنحضورﷺ کے متعلق کچھ علم بازنطینی ذرائع سے بھی ملتا ہے جو AD۔632میں آنحضورﷺ کے وصال کے کچھ عرصہ بعد مرتَّب کی گئی۔

قرون وسطیٰ کے اخیر میں صلیبی جنگوں اور عثمانی سلطنت سے جنگوں کی وجہ سے، عیسائی لوگوں کا آنحضورﷺ اور اسلام کے متعلق تصور شدید مخالفانہ ہوگیا۔وہ آپؐ کو مرتد سمجھتے اور آپؐ کی توہین کرنے میں بڑھتے جا رہے تھے اور ایسی توہین آمیز باتیں کرتے تھے جنہیں نہ دہرایا جا سکتا ہے اور نہ دہرانی چاہئیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایسے منفی تبصرے نفرت انگیزی سے نہیں کیے گئے بلکہ یہ باتیں یونانی روایات میں مذکور تھیں کہ کوئی حُجَّتی یا جھگڑالو قسم کا شخص ہوگا جو لوگوں کو صحیح راستے سے گمراہ کرےگا۔پھر تو ہمیں یہ نظریات اِس سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھنے پڑیں گے کہ گویا کہ اسلام دشمن تھا۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس زمانے کے غیر مسلمان لوگ اسلام کے پیغام سے خوف زدہ تھے اور اِس لیے ابتدائی حاشیہ نویس آنحضورؐ کی تعریف کرتے دکھائی نہیں دیتے۔

Teaching of Jacob (یعقوبؑ کی تعلیمات) ایک کتاب ہے جو تقریباً سن AD۔634 میں لکھی گئی۔ اُس میں ایک عیسائی convert اور کئی یہودیوں کے مابین ایک مکالمہ درج ہے۔ اُس میں ایک شخص لکھتا ہے کہ اُس کے بھائی نے ’’لکھا کہ ایک فریبی نبی Saracens میں ظاہر ہوا ہے۔‘‘ کتاب میں ایک اَور شخص آنحضورﷺ کے متعلق جواباً لکھتا ہے کہ ’’وہ فریبی ہے۔ کیا انبیاء تلوار اور رتھ کے ساتھ مبعوث ہوتے ہیں؟ تم اِس نام نہاد نبی سے خون ریزی کے علاوہ اَور کوئی سچائی نہیں پاؤ گئے۔‘‘

Sebeos جو کہ ساتویں صدی کے Armenian bishop اور مؤرخ تھے تھوڑی زیادہ سنجیدگی سے اور عزت سے کہتے ہیں کہ’’محمدﷺ نے لوگوں کو ابراہیم کے خدا کو پہچاننا سکھایا۔ وہ خاص طور پر مسیحی تاریخ سے واقف تھے اور اُس کا علم رکھتے تھے۔ چونکہ حکم خدا تعالیٰ سے آیا تھا، اِس لیے انہوں نے تمام لوگوں کوجمع کیا تاکہ انہیں ایک دین پر متحد کیا جائے اور تاکہ لغو چیزوں کی تعظیم کرنا ترک کردیا جائے۔‘‘

یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنحضورﷺ کے متعلق جو مثبت باتیں کی گئیں، وہ تب سامنے آئیں جبکہ آپؐ نے اُس زمانے میں مختلف مذاہب میں رائج شدہ طاقت، اقتدار، حد سے تجاوز کی عادت اور حرص جیسی چیزوں کو ختم کیا۔ اگر آپ کو یاد ہو، تو یہ وہ وقت تھا جبکہ مذہب کے نام پر بہت سی دنیاوی جنگیں لڑی گئیں۔ اور اِن میں سے بعض جنگیں ایسی بھی ہوں گی جو محض دولت اور مال کے حصول کے لیے لڑی گئیں۔

قرون وسطیٰ کے اوائل میں عیسائی دنیا اسلام کو زیادہ تر الحاد کے طور پر سمجھتی تھی۔ قرون وسطیٰ کے اخیر میں اسلام کو مشرکوں سے تشبیہ دی جاتی تھی اور آنحضورﷺ کے متعلق یہ تصور تھا کہ وہ نعوذ باللہ شیطان سے وحی و الہام پاتے ہیں۔عیسائی دنیا میں اگر کوئی علم آنحضورﷺ کے متعلق ابھر کر سامنے آیا تو وہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں پھیلنے کے بعد ہوا۔

دمشق سے John وہ پہلا شخص تھا جس نے اپنی کتاب Heresies in Epitome میں 750AD میں ’’جھوٹا نبی‘‘ کا فقرہ استعمال کیا۔ 2007ء کی Encyclopedia Britannica کے مطابق عیسائی لوگ آنحضورﷺ کی زندگی ’’تقریباً ہمیشہ بد زبانی اور لعن طعن‘‘ سے یاد کرتے تھے۔

نویں صدی کے بعد آنحضورﷺ کی سیرت و سوانح پر Latin زبان میں نہایت ہی منفی سوانح عمریاں لکھی گئیں۔ مشہور و معروف مصنف Dante Alighieri نے تیرھویں صدی میں آنحضورﷺ کے متعلق ایسی دل آزار اور توہین آمیز باتیں کیں کہ میں وہ یہاں پڑھ کر سنا نہیں سکتا۔

پچھلے چند سالوں میں ڈنمارک، فرانس اور یہاں انگلستان میں بھی گندے اور غلیظ کارٹونز کے سکینڈلز کی وجہ سے مسلمان دنیا میں ہمارے دل مجروح ہوئے ہیں۔ آنحضورﷺ کے متعلق سب سے پہلے کارٹونز 1315ء میں ظاہر ہوئے۔ یہ drawings یا خاکے انتہائی توہین آمیز اور دل کو ٹھیس پہنچانے والی ہیں۔یہ واضح طور پر آنحضورﷺ کی خوبصورت تعلیمات اور اسلام کے پیغام کے اثر کے خوف کی عکاسی کرتی ہیں۔ پھرآہستہ آہستہ اگلے زمانہ میں ہمیں آنحضورﷺ کے متعلق اَور مثبت نظریات دکھائی دیتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ لوگوں کے دل اور دماغ میں اِس تبدیلی کی وجہ مغربی دنیا میں سماجی، سیاسی اور فلسفیانہ انقلاب کا برپا ہونا تھا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وقت کے ساتھ روشن خیالی بڑھ گئی تھی اور کلیسا کا کردار آہستہ آہستہ ختم ہورہا تھا۔ ایک سربراہ کے طور پر آنحضورﷺ کے وصف، آپؐ کی طاقت اور آپؐ کی حکمت کو مثبت رنگ میں نمایاں کر کے دکھایا گیا جو پرانے اور سابقہ مذاہب کے برعکس تھی جن میں بہت زیادہ بگاڑ تھا۔

سن 1720ء میں مصنف George Sale نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ چھاپا جس میں وہ Spanhumius جو ایک German Calvinist تھے اور اسلام کے شدید مخالف تھے۔انہوں نے آنحضورﷺ کے خلاف بہت سی منفی باتیں لکھی ہیں۔ Sale نے اُس کی تائیدکے باجوود رسول اللہﷺ کی جبلی خصوصیات کا اعتراف کیا۔ پھر ایک مؤرخ Edward Gibbon نے اٹھارھویں صدی میں مثبت تبصرہ کیا۔ اِن حوالہ جات میں ہمیں آنحضورﷺ کے مقام کے متعلق نہایت مثبت باتیں نظر آتی ہیں۔

1840ء میں Thomas Carlyle نے برطانوی عوام، فلسفیوں، اور church کے حکام اور مصنفین کے سامنے The Hero as a Prophet کے عنوان سے lecture دیا۔اور کہا کہ ’’یہ حقیقت کہ آنحضورﷺ نے مکمل طور پر سیدھی سادھی، خاموش اور عام زندگی بسر کی، یہ لوگوں کی اِس theory کے خلاف ہے کہ وہ بدمعاش تھے۔‘‘

انیسویں صدی کے وسط میںایک امریکن سوانح نگار Washington Irving نے لکھا کہ’’وہ سنجیدہ اور اعتدال پسند خوراک رکھتے تھے اور کئی روزے رکھتے۔وہ عالی شان کپڑے نہیں پہنتے تھے۔ وہ کم ظرفی میں دکھاوا نہیں کرتے تھے۔اُن کے پہناوے کی سادگی میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ انہیں اُس طرح ممتاز دکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔آپ کی جنگی فتوحات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر نہ تو تکبر پیدا کیا، نہ کوئی غرور اور نہ کسی قسم کی مصنوعی شان و شوکت پیدا کی۔ اگرانُ فتوحات میں ذاتی اغراض ہوتیں تو یہ ضرور ایسا کر تیں۔ اپنی طاقت کے جوبن پر بھی اپنی عادات اور حلیہ میں وہی سادگی برقرار رکھی جو کہ آپ کے اندر مشکل ترین حالات میں تھی۔ یہاں تک کہ اپنی شاہانہ زندگی میں بھی اگر کوئی آپ کے کمرہ میں داخل ہوتے وقت غیر ضروری تعظیم کا اظہار کرتا تو آپ اُسے ناپسند فرماتے۔‘‘

1888ء میں برطانوی bishop اور مصنف Reverend Bosword Smith نے بڑے مختصر اور جامع طریق پر آنحضورﷺ کے متعلق ایک برطانوی جائزہ پیش کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ مذہب اور حکومت کے رہنما اور governor کی حیثیت سے پوپ اور قیصر کی دو شخصیتیں حضرت محمدﷺ کے ایک وجود میں جمع تھیں۔ آپ پوپ تھے مگر پوپ کی طرح ظاہر داریوں سے پاک۔ آپ قیصر تھے مگر قیصر کے جاہ و حشمت، فوج، محافظ، محل شاہی اور لگان کی وصولی سے بے نیاز تھے۔اگر دنیا میں کسی شخص نے الٰہی منشاء کے موافق حکومت کی تو وہ محمدﷺ ہیں۔ آپ کو اُس سازوسامان کے بغیر ہی سب طاقتیں حاصل تھیں۔ اُن کی نِجی زندگی میں سادگی اُن کی عام زندگی کے عین مواقف تھی۔‘‘

یہ حوالہ جات ان لوگوں کی آنحضورﷺ کے متعلق سوچ اور مقام کے تصور میں تغیر کو بڑے واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔اصل بات جو نوٹ کرنے والی ہے یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ کے اِس دور میں آنحضورﷺ کے متعلق مثبت نظریہ نمایاں طور پر کیسے بڑھا۔

1854ء میں ایک فرانسیسی مصنف، سیاست دان اور مستشرق Alfonse de Lamartine۔، 1870ء میں ایک جرمن مستشرق Dr Gustav Weil اور 1920ء میں ایک برطانوی مستشرق Stanley Lane Poole نے رسول اللہ ﷺ کی تعریف کی۔

بیسویں صدی میں ہمیں آنحضورﷺ کے حق میں اَور بھی زیادہ مقبولیت نظر آتی ہے اور خاص طور پر جب آپؐ کو مغربی دنیا کے اخلاقی زوال کے بالمقابل دیکھا جائے۔

یہ حوالہ جات ایسے لوگوں کے تھے جنہیں مَشرق میں دلچسپی تھی۔ وہ مستشرقین تھے لیکن اُن کی سیاست، جمہوریت اور مذہب کے متعلق مختلف آرا تھیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ آنحضورﷺ کی عظمت، خوبی اور آپؐ کے پیغام کو سمجھتے تھے۔

مہاتما گاندھی پکّے ہندو تھے لیکن وہ آنحضورﷺ کے ثنا خواں تھے Young India میں 1924ء میں لکھتے ہیں کہ’’مَیں اُس شخص کی زندگی کے بارہ میں سب کچھ جاننا چاہتا تھا جس نے بغیر کسی اختلاف کے لاکھوں پر حکومت کی۔ اُس کی زندگی کا مطالعہ کر کے میرا اس بات پر پہلے سے بھی زیادہ پختہ یقین ہو گیا کہ اسلام نے اُس زمانے میں تلوار کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں بنائی بلکہ اُس پیغمبر کی سادگی، اپنے کام میں مگن رہنے کی عادت، انتہائی باریکیوں کے ساتھ اپنے عہدوں کو پورا کرنا اور اپنے دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ انتہائی عقیدت رکھنا، بیباک و بے خوف ہونا اور خدا کی ذات اور اپنے مشن پر کامل یقین ہونا، اُن کی یہی باتیں تھیں جنہوں نے ہر مشکل پر قابو پایا اور جو سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ جب مَیں نے اس پیغمبر کی سیرت کے متعلق لکھی جانے والی کتاب کی دوسری جلد بھی ختم کر لی تو مجھ پر اس کتاب کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اداسی طاری ہو گئی۔‘‘

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ آنحضورﷺ کے مقام اور سیرت نے گاندھی صاحب کو اپنے اوائل میں کیسے متاثر کیا ہوگا۔

اب جو نظریات میں آخر پر آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ بیسویں صدی کے اوائل اور درمیانی حصے کے بعد بڑے مؤثر اور معزز شخصیات کے ہیں۔ اِن حوالہ جات میں ہم آنحضورﷺ کی سیرت پر ابتدائی تنقید کے زمانے سے لے کر مکمل طور پر قبولیت کا سفر دیکھ سکتے ہیں۔

Russian novelist Leo Tolstoy لکھتے ہیں کہ’’محمدﷺ ہمیشہ عیسائیت سے بالا رہے۔ آپؐ خدا کو انسان نہیں سمجھتے تھےاور نہ ہی اپنے آپ کو خدا کا شریک ٹھہراتے۔ مسلمان خدا کے سوا اَور کسی کی عبادت نہیں بجا لاتے اور محمدﷺ اُس کے رسول ہیں۔ اِس میں کوئی بھید یا راز کی بات نہیں ہے۔‘‘

مشہور برطانوی مصنف George Bernard Shaw دہریہ تھے۔وہ 1936ء میں The Genuine Islam میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر کوئی مذہب تھا جو انگلستان پر حکومت کرنے کے قابل ہوتا یا اگر کوئی مذہب ہوتا جو Europe پر اگلے سو سالوں میں حکومت کرنے کے قابل ہوتا تو وہ اسلام کا مذہب ہوتا۔‘‘ ’’میں نے ہمیشہ محمد ﷺ کے مذہب کی قوتِ حیات کی وجہ سے اُس کے متعلق نیک خیال رکھے ہیں۔ یہ وہ واحد مذہب ہے جو میرے نزدیک زندگی کے بدلنے کے دور کے مطابق چلتا ہے جس کی وجہ سے یہ ہر دور میں لوگوں کے لیے بڑا appealing دکھائی دے سکتا ہے۔ میں نے محمدﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے، بڑے زبردست انسان تھے اور میری رائے میں آپؑ دجال تو ہرگز نہیں تھے بلکہ کہنا چاہیے کہ آپؐ انسانیت کے نجات دہندہ تھے۔‘‘

1932ء میں خواتین کے حقوق کی وکیل Annie Besant نے بھی اور پھر 1936ء میں مشہور مستشرق William Montgomery Watt نے اپنی کتابThe Holy Prophet at Medina میں اور ایک سابقہ nun اور مخلص کیتھولک Karen Armstrong نے 1991ء میں اپنی تصنیف Muhammad A Biography of the Prophet میں اور 1992ءمیں Michael Hart نے اپنی کتاب The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History میں اور Tibet Buddhism کے Head Monk معروف Dalai Lama نے بھی مدح سرائی کی۔ہمارے پاس European اور امریکن مصنفین اور دانشوروں کے کئی حوالہ جات ہیں اور اُن سب میں آنحضورﷺ کی تعریف کی گئی ہے۔آنحضورﷺ کے مقام اور اوصاف کا اقرار اب عالمی سطح پر ہوتا ہے۔ یہ اگلا حوالہ اِسی بات کو ثابت کرتا ہے۔

جرمن فلاسفر Arthur Schopenhauer کہتے ہیں کہ ’’ہر سچائی تین مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے اُس کا استہزا کیا جاتا ہے۔ پھر اُس کی پُر تشدد مخالفت کی جاتی ہے اور پھر اُسے اظہر من الشمس کی طرح قبول کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہی بات آنحضورﷺ پر اطلاق پاتی ہے۔‘‘

عیسائیت اور یہودیت کے ابتدائی ایام میں، اسلام جیسے نئے مذہب کے متعلق ایک خود تراشیدہ خطرے کے تصور کی وجہ سے اسلام اور آنحضورﷺ پر مستقل طور پر حملے ہوتے رہے۔ برسوں بعد جب یہ نام نہاد خطرہ کم ہوا تو آنحضورﷺ کی حیات پر تجزیے غیر جانبدار ہوئے، بڑے غور و فکر اور تحقیق سے وہ تجزیے کیے گئے اور بالآخر تعریفی رنگ اختیار کر گئے۔ دانشور اور معروف سربراہان نے آنحضورﷺ کی خوبیوں اور نیک سیرت کا اعتراف کرنا شروع کیا۔ ظاہری بات ہے کہ آنحضورﷺ کے سب سے افضل اور نیک محب حضرت مسیح موعودؑ تھے۔

جن جذبات اور احساسات کا اظہار حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آقا و مولیٰ کے متعلق فرمایا ہے، وہ ایک نہ ختم ہونے والا سمندر ہے۔ پورے ایمان و ایقان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جس پیار کا اظہار حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آقا و مولیٰ کے لیے کیا، اور جس طرح سے انہوں نے اپنے آپ کو اُن کی محبت میں فنا کردیا، اُس کی نظیر اسلام کی پوری تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جس محبت کا اظہار اِس سچے محب یعنی حضرت مسیح موعودؑ نے دکھلایا، وہ ہر لحاظ سے بے مثل اور بے نظیر ہے۔پس، آنحضورﷺ کا مقام وہ اعلیٰ معیار ہے جو ہر انسان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اب میں ہمارے پیارے خلیفہ کے الفاظ کے ساتھ اپنی تقریر کا اختتام کرتا ہوں اور اِس سے زیادہ بہتر الفاظ اَور کوئی نہیں۔ حضورِ انور فرماتے ہیں کہ ’’اللہ کرے کہ دنیا اِس عظیم ترین انسان کے مقام کو سمجھتے ہوئے بجائے لاتعلق رہنے یا مخالفت اور استہزا کرنے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکے۔ دنیا کے نجات دہندہ صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ہر حقیقت پسند منصف اور سچے غیر مسلم کا بھی یہی بیان ہو گا۔ پہلے انبیاء کی سچائی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی ثابت ہوتی ہے۔ یہ ہے مقامِ ختم نبوت جس کا ہر احمدی نے دنیا میں پرچار کرنا ہے اور اِس کے لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

……………………………………

اس تقریر کے بعد مکرم شیخ ندیم احمد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے درج ذیل اشعار پیش کیے:

محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے

کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے

مرا دل اس نے روشن کردیا ہے

اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے

مرا ہر ذرّہ ہو قربان احمدؐ

مرے دل کا یہی اک مدعا ہے

محمدؐ جو ہمارا پیشوا ہے

محمدؐ جو کہ محبوب خدا ہے

خدا کو اس سے مل کر ہم نے پایا

وہی اک راہِ دیں کا رہنما ہے

اس نظم کے بعد مکرم نصیر احمد قمر صاحب ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن نے ’’نظام جماعت کی برکات اور ہمارا فرض‘‘ کے موضوع پر اردو زبان میں تقریر کی۔

تشہد،تعوذکے بعد موصوف نے سورت آل عمران آیت104کی تلاوت کی جس میں خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے اور تفرقہ نہ کرنے کی تاکید ہے۔ازاں بعد جماعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت اُن افراد کے مجموعہ کو کہتے ہیں جو ایک امام کی ماتحتی میں متحد ہو کر کام کرنے کا فیصلہ کر چکے ہوں اور ایک متحدہ پروگرام کے مطابق کام کر بھی رہے ہوں۔مسلمان آج اربوں کی تعداد میں ہیں لیکن نہ ان کا کوئی امام ہے اور نہ کوئی پروگرام ۔ رُوئے زمین پر خلافت حقّہ اسلامیہ سے وابستہ صرف جماعت احمدیہ ہی وہ واحد عالمی جماعت ہے جو ایک امام اور خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر بیعت کر کے للّہی محبت اور حقیقی اسلامی وحدت کی لڑی میں اِس طرح پروئی ہوئی ہے کہ خلیفہ ٔ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔

جماعت احمدیہ کا منشور بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ احمدیت کسی سوسائٹی کا نام نہیں جو ایک اصلاحی پروگرام کے ماتحت قائم کی گئی ہو۔ اور نہ وہ دنیا کے نظاموں میں سےایک نظام ہے جس کا مقصد کسی خاص سکیم کا اجرا ہو۔بلکہ یہ ایک خالصۃً الٰہی تحریک ہے جو اُسی طریق پر قائم کی گئی ہے جس طرح قدیم سے الٰہی سلسلے قائم ہوتے آئے ہیں۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اِس سلسلے کے قیام سے وابستہ جو خواہش تھی کہ اس کے افراد ایسے ہوں جو’’اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشقِ زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں۔ اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اور ہمدردیٔ بندگانِ خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آوے۔‘‘

نظام جماعت کی ترکیب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کا نظام ملکی، قومی یا علاقائی حدود میں مقیّد نہیں۔ یہ جماعت نہ مشرقی ہے، نہ مغربی۔جماعت احمدیہ کا نظام ہر قسم کے قومی و نسلی تفاخر ، لِسانی تعصّبات اور اَمارت و غربت کے امتیازات سے پاک ، حقیقی اسلامی مساوات پر قائم ہے۔ یہاں کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، یا کسی اَسْوَد کو اَحْمر پر یا اَحْمَر کواَسْوَد پر محض اپنی قومیت یا زبان یا رنگ و نسل کی بنا پر کوئی فضیلت نہیں دی جاتی بلکہ اِس نظام میں وجہِ فضیلت صرف تقویٰ ہے۔پروگرام کے لحاظ سے بھی جماعت احمدیہ مُسلمہ ہی ایک متحدہ پروگرام رکھتی ہے۔

نظام جماعت کا جزو اعظم اور روح رواں خلافت کا خدائی نظام ہے۔جس کی برکت سےساری دنیا کے احمدی مسلمان باوجود رنگوں اور نسلوں کے اختلاف کے ،سبھی ایک ہی رنگ یعنی رنگِ تقویٰ سے آراستہ ہیں اور باوجود مختلف قوموں اور مختلف زبانوں کے خدا تعالیٰ کی توحید کے تابع اِس طرح مومنانہ اَخُوّت میں پروئے گئے ہیں کہ گویا ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔اُن کی سوچ کےدھارےاپنے امام کی سوچ کے تابع ایک ہی طرف بہتے ہیں۔اور اُن کے قدم ایک ہی منزل کی طرف بڑھتے ہیں جو تمام دنیا میں خدا تعالیٰ کی سچی اور خالص اور چمکتی ہوئی توحید کے قیام اور حجت اور برہان اور آسمانی روشن نشانات کے ذریعہ عالمگیر غلبۂ اسلام کی منزل ہے۔

موصوف نےتقریر میں نظام جماعت کی عملی اور اعتقادی برکات بیان کیں۔اوّلاً نظام جماعت کی عملی برکات کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ نظام جماعت کی ایک برکت دنیا کے کناروں تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانا ہے۔جماعت احمدیہ تبلیغ اسلام کے جس مربوط منصوبے پر کام کر رہی ہے ان میں 76زبانوںمیں مکمل قرآن مجید کے تراجم، ہزارہا مساجد کی تعمیر، دنیا کی کم و بیش 125 زبانوںمیں اعلیٰ درجہ کے لٹریچر کی اشاعت، مختلف زبانوں میں جماعتی اخبارات و رسائل،جماعتی ویب سائٹس انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع کا استعمال ، مختلف EXHIBITIONS اور بُک فیئر زمیں شمولیت ، بک سٹالز، انفرادی طور پر ذاتی روابط،بہت سے مقامات پر گھر گھر جاکر داعیان الیٰ اللہ کے ذریعہ تبلیغ،مبلغین و معلمین اور واعظین و مربیان کی تیاری کے لیےجامعات،کئی ممالک میں ریڈیو اسٹیشنز ،ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے آٹھ چینلز کے ذریعہ روزانہ 24گھنٹے ،دنیا کے تمام بر ّاعظموں میں ،مختلف زبانوں میں، اسلام کی تبلیغ کا کام شامل ہیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا:’’یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ تبلیغ اسلام کا وہ کام جو اِس وقت دنیا میں کوئی اورجماعت نہیں کر رہی ،صرف جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔‘‘پھر ایک اور موقع پر آپؓ نے فرمایا:’’تم دیکھ لو ہماری جماعت کتنی غریب ہے لیکن خلافت کی وجہ سے اسے بڑی حیثیت حاصل ہے اور اس نے وہ کام کیا ہے جو دنیا کے دوسرے مسلمان نہیں کرسکتے ۔‘‘

نظام جماعت کی ایک بہت بڑی برکت ہمدردی بنی نوع انسان اور خدمت خلق کا نظام ہے۔جس کے لیے متعدد غریب اور پسماندہ ممالک میں بیسیوں تعلیمی و طبّی ادارے ، ہسپتال اورکلینکس اورہومیو پیتھک ڈسپنسریز ، مختلف قدرتی آفات ، زلازل ،سیلاب ، قحط اور وباؤں کے موقع یا حوادث کے نتیجے میں متاثرین کی امداد ، Humanity First کے تحت سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر ، میڈیکل کیمپس کے قیام، مستحق طلباء کے لیے تعلیمی وظائف ، مختلف ہنر سکھانے کے ادارے Water for life, Feed a Village, Orphan Care, Food Banks, Gift of Sight, ،Disaster relief کے پراجیکٹس کے علاوہ احمدی آرکیٹیکٹس اور انجنیئر ز کی ایسو سی ایشن اور جماعت کی ذیلی تنظیموں کے تحت بھی خلیفۂ وقت کی زیر ہدایت خدمتِ خلق اور خدمتِ انسانیت کے بہت سےکام ہو رہے ہیں جن سے ہر سال لاکھوں افراد مستفید ہوتے ہیں۔

نظام جماعت کی برکت سے ملنے والی اعتقادی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ احمدیت سے باہر دیگر مسلمانوں میں مروّج تراجمِ قرآن کریم اور تفاسیر اور احادیث کی تشریحات میں کئی ایسی باتیں ملتی ہیں جو قرآنی تعلیمات کے منافی اور اس سے متصادم ہیں۔ مثلاً بعض لوگ قرآن مجید میں نسخ کے قائل ہیں۔ بعض حدیث کو قرآن پر قاضی قرار دیتے ہیں۔ اُن کی کتب میں اللہ تعالیٰ کی ہستی، ملائکۃ اللہ ، انبیاء کرام علیہم السلام، جنّ و شیطان ، تقدیر، بعث بعد الموت ، نعمائے جنت وغیرہ امور سے متعلق ایسی باتیں درج ہیں جو بہت ہی مضحکہ خیز ، توہین آمیز اور عقل ، تاریخ ، مشاہدہ اور حقائقِ ثابتہ کے صریح مخالف ہیں۔ غیر احمدی مسلمانوں میں تعویذ گنڈوں، پیر پرستی، قبروں پر سجدے کرنے، پیدائش اور وفات ، خوشی و غمی اور شادی بیاہ وغیرہ مواقع پر رائج بہت سی بدعات اور فضول اور بیہودہ رسومات سے ہم محفوظ ہیں۔ احمدیت سے باہر دوسرے مسلمان بہت سے فروعی معاملات مثلاً نماز میں رفع یدین، آمین بالجہر ، سینے پر ہاتھ باندھنے، شلوار یا تہبند وغیرہ کے ٹخنوں سے اوپر ہونے وغیرہ امور کے بارے میں اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کی تکفیر بازی اور مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود امام مہدی ،حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت اور نظام ِخلافت سے وابستگی کی برکت سے ہم ایسے تمام فتنوں اور شور و شر سے محفوظ و مصئون ہیں۔ اور ہر مسئلے کے حل کے لیے اور اللہ اور رسول ﷺکےاحکامات کی حقیقی روح کو سمجھنے کے لیے مسلسل ہمیں ایک راہ نمائی میسر ہے۔

نظام خلافت کی برکت سے جماعت کی اعتقادی اصلاح کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر یہ بھی فضل اور احسان ہے کہ جب خلیفۂ وقت کی کسی مضمون کی طرف توجہ ہوتی ہے تو وہ اگر اصلاحی پہلو ہے تو جماعت کا بڑا حصہ اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔‘‘

نظام جماعت کا ایک کلیدی حصہ ذیلی تنظیموں کا نظام ہے۔اس نظام کی برکات کا ذکر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر یوں فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ بھی احسان ہے کہ جماعت کی برکت سے ،ایک نظام کی برکت سے ہمیں جماعتی اور ذیلی تنظیموں کا نظام میسّر ہےتربیتی کلاسیں ہیں۔ اجتماع ہیں، جلسے وغیر ہ ہوتے ہیں جہاں بچوں کی تربیت کا انتظام بھی ہے۔‘‘

نظام جماعت کی ایک برکت آزمائشوں اور ابتلاؤں کے زمانہ میں محفوظ و مامون رہنا ہے۔چنانچہ تاریخ احمدیت گواہ ہے کہ 1934ء کافتنہ احرارہو،1953ء ،1974ء اور 1984ءکی یورش ہو یا2010ء میں لاہور (پاکستان) میں جمعہ کے روز ایک ہی دن میں دو احمدیہ مساجد پر حملہ کر کے 100 کے قریب افراد کی شہادت اور بیسیوں افراد کو زخمی کرنے کی دہشت گردانہ کارروائی ہمیشہ، ہر موقع پر خلیفۂ وقت کی بر وقت راہ نمائی اور آسمانی روشنی سے منوّر فیصلوں کے نتیجے میں جماعت بڑی کامیابی سے ان تمام امتحانوں سےسر خرو ہو کر نکلی اور اس کا قدم ہمیشہ آگے ہی بڑھتا رہا۔

دنیا نے دیکھا کہ

ہماری رات بھی ہے نُور اَفشاں

ہماری صبح خوش ہے ،شام مسرور

نظام جماعت کی مضبوطی کا ایک زریں اصول بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’نظام کی کامیابی کا اور ترقی کا انحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی پر ہوتا ہے‘‘ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا:’’اِس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظامِ جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں۔‘‘

تقریر کے آخر پر موصوف نے احباب جماعت کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم خلیفۂ وقت کے زندگی بخش خطبات و خطابات ، آپ کے انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں میں فرمودہ کلمات طیّبات ، مختلف خطوط ، پیغامات و مکتوبات ، مجالس ِعرفان اور مجالسِ سوال و جواب میں بیان فرمودہ ارشادات و ہدایات سے علمی وعملی اور مادّی و روحانی طور پر فیضیاب ہوتے ہوئےاپنی دنیا و عاقبت کو سنوارتے چلے جائیں۔

………………………………

بعد ازاں مکرم مبارک احمد صاحب نے در عدن سے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔

نہ روک راہ میں مولا شتاب جانے دے

کھلا تو ہے تری ’’جنت کا باب‘‘ جانے دے

مجھے تو دامن رحمت میں ڈھانپ لے یونہی

حساب مجھ سے نہ لے، بے حساب جانے دے

سوال مجھ سے نہ کر اے مرے سمیع و بصیر

جواب مانگ نہ اے ’’لاجواب‘‘ جانے دے

مرے گناہ تیری بخشش سے بڑھ نہیں سکتے

ترے نثار! حساب و کتاب جانے دے

تجھے قسم تیرے ’’ستار‘‘ نام کی پیارے

بروز حشر سوال و جواب جانے دے

بُلا قریب کہ یہ ’’خاک‘‘ پاک ہو جائے

نہ کر یہاں مری مٹی خراب جانے دے

رفیقِ جاں مرے، یارِ وفا شعار مرے

یہ آج پردہ دری کیسی؟ پردہ دار مرے

…………………………………………………………

اس نظم کے ساتھ یہ اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button