ناگاساکی شہر کا تبلیغی دورہ۔ جاپان کے مسیحیوں اور بُدھوں کو دعوتِ اسلام
ناگاساکی شہر جاپان کے جنوب میں واقع ایک اہم بندرگاہ ہے۔ پہاڑی علاقوں اور سرسبزو شاداب وادیوں پر مشتمل یہ ساحلی شہر صدیوں سے جاپان کے بیرونی دنیا سے روابط کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ سولہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی عیسوی تک جب جاپان نے بیرونی دنیا سے اپنے روابط انتہائی محدود کرلیے تھے ناگاساکی وہ واحد بندرگاہ تھی جو غیرملکی تجارت کے لیے کھلی رکھی گئی۔ یہی وہ دور ہے جب مغرب سے تجارت کے ساتھ ساتھ مسیحیت بھی جاپان میں وارد ہوئی۔ ابتدائی کامیابیوں کے بعد پادریوں اور مسیحیت قبول کرنے والے جاپانیوں کو ظلم و ستم کے ایک لمبے دور سے گزرنا پڑا جو اڑھائی سو سال پر محیط تھا۔
ایک طویل عرصہ تک جاپان کے بیرونی دنیا سے روابط کا واحد ذریعہ بنا رہنے والا یہ شہر اپنے مزاج اور تہذیب وثقافت کے لحاظ سے جاپان میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ مسیحیت کے گڑھ ہونے کی وجہ سے یہ شہر ’’جاپان کا روم‘‘ بھی کہلاتا تھا۔ جبکہ چین سے آنے والے بدھ مت کے راہبوں نے بھی ناگاساکی میں بودو باش اختیار کی اور بدھ مت کے متعدد معابد تعمیر کروائے۔ اس لحاظ سے ناگاساکی کوبیرونی تہذیب و ثقافت کے جاپان میں متعارف ہونے کا داخلی دروازہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔
ناگاساکی کی اس تاریخی اہمیت کے پیش نظر اور ’’ناگاساکی کے پوشیدہ مسیحیوں‘‘ پر تحقیق کی غرض سے مورخہ 14 و 15نومبر 2020ء اور مورخہ 2و3 مئی 2021ء کو ناگاساکی شہر کے تبلیغی و تحقیقی سفر کا موقع ملا۔ اس سفر میں ’’ناگاساکی کے پوشیدہ مسیحیوں‘‘ کی یادگار کے طور پر قائم کئے عجائب گھر اور یادگاریں دینے کا موقع ملا۔ کچھ ایسے افراد سے ملاقات ہوئی جن کے آباء اجداد نےپوشیدہ زندگی گزارتے ہوئے اپنے عقیدہ کا تحفظ کیا۔ پادریوں اور بدھ مت راہبوں سے ملاقاتوں کے ذریعہ انہیں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق نصیب ہوئی۔ اسی طرح ناگاساکی کے مئیر سمیت شہر کی متعدد تنظیموں اور سوسائٹیوں کے نمائندگان کواسلام احمدیت سے متعارف کروایا گیا۔
پوشیدہ مسیحیوں کی یاد میں تعمیر ہونے والے چرچ کے پادری صاحب کو قرآن کریم کا تحفہ
پہاڑی وادیوں پر مشتمل ناگاساکی شہر کا Urakamiمحلہ کئی لحاظ سے غیر معمولی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وہ محلہ ہے جس کے باشندوں کی اکثریت نے مسیحیت قبول کرلی جس کے نتیجہ میں عقیدہ کی پاداش میں ان مسیحیوں کو طرح طرح کی تکالیف اور جوروستم سے گزرنا پڑا یہاں تک یہ مسیحی پوشیدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے اور اڑھائی سو سال اسی پوشیدگی میں رہتے ہوئے اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب رہے ۔
جاپان میں میجی بادشاہت کے آغاز کے ساتھ جب یہ تاریک دور اپنے اختتام کو پہنچا تو اس محلہ میں روزانہ ایسے گروہ نمودار ہونا شروع ہوئے جو غول در غول آتے اور اظہار کرتے کہ وہ مسیحی ہیں۔ جس مقام پر ان پوشیدہ مسیحیوں نے اپنے ایمان کا اظہار کیا وہاں 1925ء میں ایک چرچ تعمیر کیا گیا۔ جسے سینٹ میری کیتھیڈرل یا Urakami Cathedralکہا جاتا ہے ۔
یہ محلہ ایک اور حوالہ سے بھی شہرت رکھتا ہے اور دنیا بھر میں توجہ کا مرکز ہے۔ کیونکہ یہی وہ بد قسمت مقام ہے جو 9اگست 1945ء کو ایٹمی حملہ کا نشانہ بنا۔ ایٹم بم کے گرنے کے مقام سے Urakami Cathedral صرف چند سو میٹر کی مسافت پر واقع ہے ۔
ناگاساکی شہر کے تبلیغی دورہ کے دوران اس چرچ کے چیف پریسٹ جنابHisashi Toshioصاحب کوقرآن کریم اور اسلامی لٹریچر کا تحفہ پیش کیا گیا۔ محترم Hisashiصاحب کی طرف سے چرچ کا دورہ کروایا گیا اور چرچ میں قائم میوزیم دکھایا گیا۔ خاکسار نےسورہ مریم اور حضرت مسیح علیہ السلام کے ذکرپر مشتمل آیاتِ قرآنی کے علاوہ قرآن کریم سے درج ذیل آیات کھول کر دکھائیں اور چیف پریسٹ صاحب کو بتایا کہ قرآنی تعلیم کی عظمت و فراخدلی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ عظیم کتاب برملا اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ حضرت مسیحؑ پر ایمان لانے والے اور بعض راہب پادری تکبر سے عاری ہیں اور ایسے رقیق القلب ہیں کہ آیاتِ الہی کو سنتے ہیں تو ان کی آنکھیں آنسو بہاتی ہیں۔ محترم پادری صاحب نے ان آیات کا جاپانی ترجمہ پڑھتے ہوئے نہایت عقیدت و محبت سے یہ اظہار کرتے کہ مجھے قطعاً یہ علم نہیں تھا کہ قرآن کریم مسیحیوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی ذکرِ خیر کرتا ہے۔
وَ لَتَجِدَنَّ اَقۡرَبَہُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنۡہُمۡ قِسِّیۡسِیۡنَ وَ رُہۡبَانًا وَّ اَنَّہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۸۳﴾ وَ اِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَی الرَّسُوۡلِ تَرٰۤی اَعۡیُنَہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَقِّ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ﴿۸۴﴾
(سورة المائدہ : 83، 84)
ترجمہ: اور یقیناً تُو مومنوں سے محبت میں قریب تر اُن لوگوں کو پائے گا جنہوں نے کہا کہ ہم نصرانی ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ ان میں سے کئی عبادت گزار اور راہب ہیں۔ اور ایسے (بھی) ہیں کہ جو تکبر نہیں کرتے۔ اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو اس رسول کی طرف اُتارا گیا تو حق پہچان لینے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے ہیں۔ اور وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے پس تو ہمیں گواہوں میں سے لکھ لے ۔
محترم چیف صاحب اس آیت کو پڑھتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ میں قرآن کریم کو اپنی لائبریری میں رکھوں گا اور جب وقت ملا پڑھنے کی کوشش کروں گا۔
ناگاساکی شہر میں واقع بدھ مت کے تاریخی معابد کا دورہ
ناگاساکی شہر جاپان میں مذاہب عالم کے داخلی دروازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے بدھ مت کے ابتدائی آثار بھی اس شہر میں نظر آتے ہیں۔ جاپان میں واقع بدھ مت کے صدیوں پرانےمعابدمیں سے کچھ ناگاساکی شہر میں بھی واقع ہے۔ موجودہ سفر کے دوران ان معابد کا بھی دورہ کیا گیا اور راہب حضرات سے ملاقات کرکے انہیں قرآن کریم کا تحفہ پیش کرنے علاوہ اسلام احمدیت کا تعارف کروایا گیا۔ جن معابد کا دورہ کیا گیا ان میں سے ایک معبد Shofukuji جبکہ دوسرا معبد Seifukujiکہلاتا ہے۔ یہ دونوں معابد چین سے تشریف لانے والے بدھ مت کے قدیم بزرگوں کی نشانیاں ہیں اور انہیں عالمی ورثہ اور جاپان کے قومی ورثہ کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ ان معابد کے مکھی راہبوں سے ملاقات کرکے انہیں بھی قرآن عظیم کا تحفہ پیش کیا گیا اور تبلیغی نشستوں میں تفصیل سے اسلام احمدیت کا تعارف کروایا گیا۔
جدید جاپان کے بانی ’’ساکاموتو ریوما‘‘ کے یومِ پیدائش کی تقریب میں شرکت
صدیوں سے گروہوں اور قبائل میں بٹے ہوئے جاپان کو اتحاد و یگانگت کی طرف ہدایت دینے والے نظریاتی مفکرین میں سے ایک نام Sakamoto Ryomaکا ہے۔ Edoعہد میں جب استعماری خطرات اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر اس وقت کی حکومت نے جاپان کو دنیا سے الگ تھلگ کر دیا اور تنہائی کی پالیسی اپنا کر جاپانی سرحد کو غیر ملکیوں کے لئے حد فاصل قرار دیدیا گیا۔ اس دوران جاپان کئی دہائیوں تک خانہ جنگی کا شکار رہا۔ لیکن ساکاموتو ریوما ان مفکرین میں شامل ہیں جنہوں نے جاپان کو دوبارہ بین الاقوامی دنیا کے ساتھ چلنے، مفاہمت اور قومی یگانگت کے قیام کا نظریہ پیش کرتے ہوئے نئے جاپان کا نعرہ لگایا۔ روایتی سرداروں اور جاگیرداروں کی طرف سے انہیں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں عین جوانی میں جاپان کے تاریخی شہرکیوتو میں قتل کردیا گیا۔
لیکن آج جاپانی قوم ساکاموتو ریوما کو ایک عظیم ہیرو اور جدید جاپان کے مفکرین میں شمار کرتی ہے۔ ساکاموتو ریوما کے یومِ پیدائش کے موقع پر ناگاساکی شہر میں ان کا ایک مجسمہ نصب کیا جانا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کے کے لئے خاکسار کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس تقریب میں شہر کے مئیر سمیت دیگر سرکردہ شخصیات سے ملاقات ہوئی اور انہیں اسلامی لٹریچر کا تحفہ پیش کیا گیا۔
ناگاساکی شہر کے ان تبلیغی اور تحقیقی سفروں کے دوران شنتو مت کے بعض تاریخی معابد کے دورہ کے علاوہ، ایٹمی حملہ کی یادگار، بعض تنظیموں کے عہدیداران اور 50سے زائد عام افراد سے تبلیغی روابط قائم ہوئے۔
(رپورٹ: انیس احمد ندیم۔ صدر جماعت و مبلغ انچارج جاپان)