یادِ رفتگاں

انجینئر محترم منیر احمد فرخ صاحب سابق امیر ضلع اسلام آباد

(ابن فضل الرحمٰن)

کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ۟ ثُمَّ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ۔

(العنکبوت: 58)

ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے۔ پھر ہماری ہی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍مارچ 2021ء میں محترم انجینئر منیر احمد فرخ صاحب سابق امیر ضلع اسلام آباد کا خاندانی تعارف اور خدمات کا اجمالی جائزہ پیش فرما کر نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

انجینئر منیر احمد فرخ صاحب کی عملی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام آباد (پاکستان) میں گزرا ۔وہ سنٹرل گورنمنٹ کے محکمہ ٹیلیفون اور ٹیلیگراف( T & T ڈیپارٹمنٹ) میں افسر تھے جو اب PTCLکہلاتا ہے۔

اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آپ کو مقدور بھر خدمت دین کی توفیق ملی اور آپ خلیفہ وقت کی خوشنودی حاصل کرتے رہے۔ آپ احمدیت کی بدولت حاصل ہونے والی برکات کا ایک زندہ نشان تھے۔ تمام تر اعلیٰ سطح کی مخالفتوں کے باوجود خدمت دین اور خلافت احمدیہ کی برکت اور دعاؤں سے آپ ترقی پر ترقی کرتے چلے گئے اپنے محکمہ میں ڈائریکٹر جنرل تک پہنچ کر باعزت ریٹائرڈ ہوئے اور جماعت میں ذیلی تنظیموں کی قیادت سے پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کے امیر ضلع کے عہدے پر خدمات بجا لاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اعزاز بھی عطا فرمایا کہ خلافت خامسہ کے انتخاب کے موقع پر آپ مجلس انتخاب خلافت کے ممبر تھے۔

اس عاجز کا تعارف اور تعلق آپ سے 1979ء میں ہوا جب NESPAKنے اس عاجز کو منسٹری آف واٹر اینڈ پاور اسلام آباد میں deputation پر بھیج دیا جہاں ایڈیشنل سیکرٹری واٹر کے ماتحت اس عاجز کو اوورسیز پراجیکٹس کوآرڈینیشن سیل کا انچارج بنا دیا گیا۔

اتفاق سے اس عاجز کی رہائش محترم فرخ صاحب کے قریب تھی۔آپ کا گھر نماز سنٹر بھی تھا جہاں ہم مغرب کی نماز با جماعت ادا کرتے تھے۔

1979ء سے لے کر آپ کی وفات تک اس عاجز کا آپ سے قریبی رابطہ رہا حتیٰ کہ ان کے کینیڈا شفٹ ہونے کے بعد بھی ان سے رابطہ رہا اور ان سے آخری ملاقات ستمبر 2019ء میں Abode of Peace Buildingٹورانٹو کینیڈا میں ہوئی جب آپ کافی بیمار تھے۔

اس مضمون میں یہ عاجز آپ کی زندگی کے چند پہلو بیان کرنا چاہتا ہے۔

وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ۔

آپ کا تعلق جماعت احمدیہ کے ابتدائی خاندانوں سے تھا ۔آپ کے والد مرحوم فضل عمر ریسرچ کے ڈائریکٹر رہ چکے تھے اور خلفائے کرام سے آپ کا گہراذاتی تعلق تھا۔ چنانچہ 1980ء میں جب ترجمانی کے نظام کی ٹیم کے pioneer members انجینئر ملک لال خان صاحب، انجینئر منیر احمد فرخ صاحب اورانجینئر ایوب ظہیر صاحب کی اسلام آباد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات ہوئی تو حضورؒ نے آپ کے ایک ایک بھائی اور بہن کا نام لے کر ان سے پوچھا۔

آپ کو دعاؤں پر بہت یقین تھا۔ بتایا کرتے تھے کہ انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران جب کہ exemption rulesنہیں تھے آپ کا ایک پیپر بہت خراب ہوا ۔کئی out of course سوال تھے اور انہوں نے اتنے نمبر کا پیپر attempt ہی نہیں کیا تھا کہ پاس ہو سکتے۔ آپ کی والدہ صاحبہ ان کو لاہور سے ربوہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ صحابی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس دعا کروانے لے گئیں۔ حضرت راجیکی صاحبؓ نے ہاتھ اٹھا کر دعاکی اور فرمایا پاس ہو جائے گا۔ فرخ صاحب حیران تھے یہ کیسے ممکن ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھایا کہ ساری کلاس کو 15گریس مارکس مل گئے اور فرخ صاحب پاس ہو گئے۔ جب آپ سے اس عاجز کا تعلق ہوا آپ کے والد صاحب فوت ہو چکے تھےاور آپ کی والدہ صاحبہ آپ کے پاس تھیں۔ آپ کو ان کی خدمت کی بہت توفیق ملی۔

آپ کے اندر قائدانہ صلاحیت بہت تھی۔ خود کام کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے لیکن دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا اصل خوبی ہے جو آپ کے اندر بے انتہاتھی۔ جب ترجمانی کا نظام تشکیل دیا جا رہا تھا تو تین افراد پر یہ ٹیم مشتمل تھی۔ لیکن آپ کی قائدانہ صلاحیت نے لا تعداد خدام کو کھینچا اور اسلام آباد سے لاہور اور کراچی تک کئی انجینئر اور ٹیکنیشن اور معاونین آپ کی ٹیم میں شامل ہو گئے۔ آپ کی شخصیت ایک مقناطیسی وجود کی حامل تھی۔

ترجمانی کا نظام simultaneous interpretation systemحضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی سرپرستی میں تیار ہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی منظوری سے 1980ء کے جلسہ سالانہ ربوہ پر install ہوا اور آپ نے مردانہ اور زنانہ جلسہ گاہوں میں علی الترتیب خدام و انصار اورلجنہ کی ٹیموں کے ذریعے نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے یہ کارنامہ سر انجام دیا۔

پندرھویں صدی ہجری کا پہلا جلسہ سالانہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 27؍دسمبر 1980ء کے روز خطاب کے دوران ترجمے کے نظام کا ذکر کرتے ہوئےفرمایا:

’’فضل عمر فاؤنڈیشن ….. انہوں نے اس سال جو نمایاں کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ جو بیرونی ممالک سے آئے ہوئے ہیں ان کے لئے دو زبانوں میں انگریزی اور انڈونیشین میں ترجمہ کا انتظام کیا ہے۔ یہ دو کھوکھے ادھر بنے ہوئے ہیں۔ یہاں چاٹ نہیں بکتی۔ یہاں وہ ترجمہ کرنے والے بیٹھے ہوئے ہیں جو ترجمہ ساتھ ساتھ کرتے ہیں وہ بالکل بند ہیں۔ آواز ان کی باہر نہیں جاتی انہوں نے کانوں کے ساتھ یہ لگائے ہوئے ہیں۔ (غیرملکیوں نے) جو انگریزی جانتے ہیں یا انڈونیشین۔ اور یہ مترجم کو اسی وقت ترجمہ کر کے بتاتے جاتے ہیں۔ اس کی ابتدا ہو گئی ہے اور اس کا اندازہ جب باہر سے مختلف ایجنسیز سے لگایا گیا تو ان کا خیال تھا کہ ہم شاید ڈیڑھ سو ایسے بیس پچیس لاکھ میں تیار کرکے دیں گے۔ تو اللہ بھلا کرے احمدی انجینئرز کا انہوں نے کہا ہم بہت سستا بنا سکتے ہیں پیسے نہ ضائع کریں۔ چنانچہ میرا خیال ہے یہ دو سو اٹھائیس ہیں اور اسی ہزار روپے میں انہوں نے تیار کر دیئے ہیں۔ ان کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے۔ اور انشاء اللہ یہ بھی بڑھ جائے گا۔ پھر اور بھی ہو جائیں گے۔ ہمیں تو ڈرایا گیا تھا کئی سال سے تجویز تھی لیکن باہر کی ایجنسیز اتنا روپیہ مانگتی تھیں کہ جرأت نہیں ہوئی۔‘‘

(خطابات ناصر جلد دوم صفحہ 479)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button