بنیادی مسائل کے جوابات (18)
(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)
٭…حضورﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ ’’کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے‘‘۔ اس حدیث کی صحت کیا ہے نیز یہ ہمارے جماعتی لٹریچر میں نہیں ملتی۔
٭… دلہن کے والد کی وفات اور بھائی نہ ہونےکی صورت میں کیا دلہن کی طرف سے اس کا تایازاد بھائی ولی مقرر ہوسکتا ہے؟
٭…اگر جنت اور دوزخ کا ظاہری تصور درست نہیں ہے تو پھر جنت اور دوزخ کیا ہے؟ اور جب قیامت آئے گی تو جنت اور دوزخ کیسی لگیں گی؟
٭…جب سب کچھ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو وہ میرے بیٹے کو ٹھیک کیوں نہیں کر دیتا۔ اگر کہا جائے کہ انسان کو اس کے اعمال کی سزا ملتی ہے۔ تو میرا بیٹا تو پیدا ہی ایسا ہوا تھا، اس نے کونسا گناہ کیا ہے؟
٭…لجنہ اور ناصرات کی تربیت کس طرح کی جائے؟
٭…حضوربے حد مصروف رہتے ہیں کیا حضورکی ہفتہ وار چھٹی کا کوئی انتظام ہے اور حضوراپنے دوستوں اور اہل و عیال کےلیے کس طرح وقت نکالتے ہیں؟
٭…حضور جب خلافت سے پہلے افریقہ تشریف لے گئے تب کے حالات اب جیسے نہیں تھے۔ اس وقت کام کرتے ہوئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ حضور سے درخواست ہے کہ اس وقت کا کوئی تجربہ ہمیں بتائیں؟
سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ایک حدیث جس میں حضورﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ’’کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے‘‘ کی صحت کے بارے میں دریافت کیا نیز لکھا ہے کہ یہ حدیث ہمارے جماعتی لٹریچر میں نہیں ملتی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 4؍اپریل 2019ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انورنے فرمایا:
جواب: آپ نے اپنے خط میں جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ احادیث کی مختلف کتب میں روایت ہوئی ہے۔ حضرت امام بخاریؒ اور حضرت امام مسلمؒ نے بھی اس حدیث کو اپنی کتب میں درج کیا ہے۔ اوراس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَهُ فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَلْيَقُلْ اللّٰهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتْ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي۔
(صحیح بخاری کتاب المرضی بَاب تَمَنِّي الْمَرِيضِ الْمَوْتَ)
یعنی حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص کسی مصیبت کی وجہ سے جو اسے پہنچی ہو، موت کی تمنا نہ کرے۔ اور اگر اس کےلیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو پھر وہ یہ کہے کہ اے اللہ ! جب تک میرا زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہے، اس وقت تک مجھے زندہ رکھ اور جب مرجانا میرے لیے بہتر ہو تو مجھے موت دیدے۔
جماعتی لٹریچر میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے صحیح بخاری کی جو شرح لکھی ہے اس میں بھی اس حدیث کا ذکر موجود ہے۔ اور میں نے بھی 17؍اگست 2012ء کے خطبہ جمعہ میں اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: ’’کوئی شخص موت کی خواہش نہ کرے۔ ‘‘کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو نیکیوں میں بڑھے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو گا اور اگر بد ہے تو توبہ کی توفیق مل جائے گی۔
سوال: نکاح کےایک معاملے میں دلہن کے والد کی وفات کی صورت میں دلہن کی طرف سے اس کے تایازاد بھائی کے ولی مقرر ہونے پر شعبہ رشتہ ناطہ کی طرف سے اعتراض اٹھانے پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍جنوری 2020ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایت عطا فرمائی۔ حضور انورنے فرمایا:
جواب: محترم امیر صاحب کینیڈا نے نکاح کی رجسٹریشن کا ایک معاملہ مجھے بھجوایا ہے جس میں لڑکی کے والد فوت ہو چکے ہیں اور اس کا کوئی بھائی بھی نہیں ہے۔ اور لڑکی نے اپنے نکاح کےلیے اپنے تایازاد بھائی کو ولی مقرر کیا ہے۔ لیکن آپ نے یہ کہتے ہوئے کہ تایازاد بھائی ولی نکاح نہیں ہو سکتا، اس نکاح کی رجسٹریشن کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مجھے بتائیں کہ آپ نے کس فقہ کے مطابق تایا زاد بھائی کے ولی نکاح بننے پر اس نکاح کی رجسٹریشن کرنے سے منع کیا ہے، جبکہ اس بچی کے نہ والد زندہ ہیں اور نہ کوئی بھائی ہے۔
فقہ احمدیہ کے مطابق تو والد کے بعدبچی کے عصبی رشتہ داروں میں سے جو قریبی رشتہ دار موجود ہو وہ لڑکی کا ولی بن سکتا ہے اور تایازاد بھائی کا شمار عصبی رشتہ داروں میں ہوتا ہے اور وہ لڑکی کا ولی بن سکتا ہے بشرطیکہ اس سے پہلے عصبی رشتہ داروں میں سے کوئی رشتہ دار زندہ نہ ہو۔ لہٰذا اس نکاح کو رجسٹرڈکرلیں۔
سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر جنت اور دوزخ کا ظاہری تصور درست نہیں ہے تو پھر جنت اور دوزخ کیا ہے؟ اور جب قیامت آئے گی تو جنت اور دوزخ کیسی لگیں گی؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 04؍فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: جنت اور دوزخ کے بارے میں جس طرح دوسرے مذاہب میں طرح طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں مسلمانوں نے بھی قرآن کریم اور احادیث میں بیان جنت و دوزخ کے بارے میں بیان امور کو نہ سمجھنے اور انہیں ظاہر پر محمول کر دینے کی وجہ سے غلط قسم کے خیالات اپنے ذہنوں میں پیدا کر لیے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث نے انسان کو سمجھانے کےلیے جنت و دوزخ کے بارے میں یہ تمثیلی نقشہ بیان فرمایا ہے۔ اور ان کے بارے یہ الفاظ بطور استعارہ استعمال فرمائے ہیں اور ان کے پیچھے ایک اور حقیقت مخفی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے اس تمثیلی نقشہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ
فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔
(السجدۃ:18)
یعنی کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے ان کے اعمال کے بدلہ کے طور پر کیا کیا آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔
اسی طرح حدیث میں بھی آیا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جنت کی نعماء ایسی ہیں
مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ۔
کہ انہیں نہ کبھی کسی انسانی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی انسانی کان نے ان کا حال سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کے بارے میں کوئی تصور گزرا۔
دراصل جنت اور دوزخ اسی دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک ظلّ ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آکر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندر ہی سے نکلتی ہے اور اسی کے ایمان اور اعمال صالحہ ہیں جن کی اسی دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہے اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ نظر آتے ہیں۔ اور نہریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے۔ اسی لیے قرآن کریم جنتیوں کے بارے میں فرماتا ہے:
کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا
(البقرۃ: 26)
کہ جب بھی وہ اُن (باغات) میں سے کوئی پھل بطور رزق دیئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا جا چکا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس محض اس سے ملتا جلتا(رزق) لایا گیا تھا۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنت و دوزخ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کی رو سے دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں۔ کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے۔ یہ سچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے مگر وہ اصل روحانی حالتوں کے اظلال و آثار ہوں گے۔ ہم لوگ ایسی بہشت کے قائل نہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین پر درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں درحقیقت گندھک کے پتھر ہیں۔ بلکہ اسلامی عقیدہ کے موافق بہشت دوزخ انہی اعمال کے انعکاسات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے۔ ‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 413)
سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے بیٹے کی بیماری کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ جب سب کچھ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو وہ میرے بیٹے کو ٹھیک کیوں نہیں کر دیتا۔ اگر کہا جائے کہ انسان کو اس کے اعمال کی سزاملتی ہے۔ تو میرا بیٹا تو پیدا ہی ایسا ہوا تھا، اس نے کونسا گناہ کیا ہے؟ یہ سب میری سمجھ سے باہر ہے۔ مجھے یہ سب سمجھائیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 04؍فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطافرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: خدا تعالیٰ جو کامل علم والی ہستی ہے، اس کے مقابلے پر انسان کا علم بہت ہی ناقص اور نامکمل ہے۔ اس لیے انسان کےلیے خداتعالیٰ کے ہر فعل کی حکمت سمجھنا ناممکن ہے۔ لہٰذا انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ایسا اعتراض کرنا زیب نہیں دیتا۔ اس سے اس کے احسانات کی ناشکری کا اظہار ہوتا ہے۔ کیونکہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں وہ اَن گنت ہیں اور اگر ان کا انسان شکر ادا کرنا چاہے تو نا ممکن ہے۔ اسی لیے آنحضورﷺ نے فرمایا کہ انسان کے جسم کے ہر جوڑ پر ہر روز ایک صدقہ واجب ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ جوڑ نہ ہوں تو اس کا سارا جسم بے کار ہو جائے۔ پھر ایک اور نصیحت حضورﷺ نے ہمیں یہ فرمائی کہ تم میں سے کوئی جب ایسے شخص کو دیکھے جو مال یا جسمانی ساخت میں اس سے بہتر ہے تو اسے اس شخص پر بھی نظر ڈالنی چاہیے جو مالی لحاظ سے یا جسمانی لحاظ سے اس سے کمزور ہے۔ ان نصائح پر عمل کرنے سے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا حقیقی شکر پیدا ہو تا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان کاموں میں بھی انسان کی ہی ترقی کے بہت سے راز مضمر ہیں۔ اگر یہ دکھ، تکالیف اور بیماریاں نہ ہوتیں تو انسان میں سوچنے اور ترقی کرنے کی تحریک ہی پیدا نہ ہوتی اور وہ ایک پتھر کی طرح جامد چیز بن کر رہ جاتا۔ یہ تکالیف ہی ہیں جو انسان میں تحقیق اور جستجو کے مادہ کو متحرک رکھتی ہیں۔ چنانچہ اکثر سائنسی تحقیقات اور ایجادات کے پیچھے انسانی تکالیف اور بےآرامی سے چھٹکارا پانے کی ایک مستقل جدو جہد کار فرما نظر آتی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جو تکالیف انسان کو پہنچتی ہیں وہ انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے نظام کو چلانے کےلیے ایک قانون قدرت بنایا اور دنیا میں بہت سی چیزیں پیدا کر کے انسان کو ان پر حاکم بنا دیا ہے۔ اب اگر انسان بعض چیزوں سے فائدہ نہ اٹھائے یا ان چیزوں کا غلط استعمال کر کے نقصان اٹھائے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ چنانچہ میڈیکل سائنس سے ثابت ہے کہ ماں باپ کی بعض کمزوریوں کا ان کی اولاد پر اثر پڑتا ہے۔ حمل میں اگر پوری طرح احتیاط نہ برتی جائے تو بعض اوقات اس کا پیدا ہونے والے بچےکی صحت پربُرا اثر پڑتا ہے، جو مائیں ڈائٹنگ کرتی ہیں ان کے بچے بعض اوقات کمزور پیدا ہوتے ہیں، جن بچیوں کو بچپن میں مٹی چاٹنے کی عادت ہو بعض اوقات ان کی اولاد معذور پیدا ہوتی ہے۔ پس تکالیف خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ اس قانون قدرت کے غلط استعمال یا اس میں کمی بیشی کرنے کے سبب سے ہیں جو انسانوں کے فائدہ کےلیے بنایا گیا تھا۔ البتہ اللہ تعالیٰ انسان کی بہت سی غلطیوں سے درگزر فرماتے ہوئے اسے ان کے بد نتائج سے بچاتا رہتا ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ
’’اور تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس سبب سے ہے جو تمہارے اپنے ہاتھوں نے کمایا۔ جبکہ وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔‘‘
(سورۃ الشوریٰ: 31)
پھر خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون قدرت میں ایک بات یہ بھی شامل ہے کہ ہر چیز دوسرے سے اثر قبول کرتی ہے۔ اسی قانون کے تحت بچے اپنے والدین سے جہاں اچھی باتیں قبول کرتے ہیں وہاں بُری باتیں بھی قبول کرتے ہیں، صحت بھی ان سے لیتے ہیں اور بیماری بھی ان سے لیتے ہیں۔ اگر بیماریاں یا تکالیف ان کو ماں باپ سے ورثہ میں نہ ملتیں تو اچھی باتیں بھی نہ ملتیں۔ اور اگر ایسا ہوتا تو انسان ایک پتھر کا وجود ہوتا جو بُرے بھلے کسی اثر کو قبول نہ کرتا اور اس طرح انسانی پیدائش کی غرض باطل ہو جاتی اور انسان کی زندگی جانوروں سے بھی بد تر ہو جاتی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ دنیوی زندگی دراصل عارضی زندگی ہے اور اس کی تکالیف بھی عارضی ہیں۔ اور جن لوگوں کو اس عارضی زندگی میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ایسے شخص کی اخروی زندگی جو دراصل دائمی زندگی ہے، کی تکالیف دور فرما دیتا ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک مومن کواس دنیا میں رستہ چلتے ہوئے جو کانٹا بھی چبھتا ہے اس کے بدلے میں بھی اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اجر لکھتا ہے یا اس کی خطا ئیں معاف کر دیتا ہے۔
اس دنیوی زندگی کے مصائب میں اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو سب سے زیادہ ڈالتا ہے۔ اسی لیے حضورﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں سے انبیاء پر سب سے زیادہ آزمائشیں آتی ہیں پھر رتبے کے مطابق درجہ بدرجہ باقی لوگوں پر آزمائش آتی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کسی آدمی کو حضورﷺ سے زیادہ درد میں مبتلا نہیں دیکھا۔
چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ آپﷺ کے کئی بچے فوت ہوئے، حالانکہ صرف ایک بچہ کی وفات کا دکھ ہی بہت بڑا دکھ ہوتا ہے۔
پس دنیوی تکالیف اور آزمائشوں میں بہت سی الٰہی حکمتیں مخفی ہوتی ہیں، جن تک بعض اوقات انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ پس انسان کو صبر اور دعا کے ساتھ ان کو برداشت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’بعض وقت مصلحت الٰہی یہی ہوتی ہے کہ دنیا میں انسان کی کوئی مراد حاصل نہیں ہوتی۔ طرح طرح کے آفات، بلائیں، بیماریاں اور نامرادیاں لاحق حال ہوتی ہیں مگر ان سے گھبرانا نہ چاہئے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 23، ایڈیشن 2016ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ بنگلا دیش کی Virtual ملاقات مورخہ 14؍نومبر2020ء میں لجنہ اور ناصرات کی تربیت کے بارے میں حضور انورنے فرمایا: لجنہ کی تربیت اس طرح کریں کہ لجنہ کو عادت ڈالیں کہ ایک تو ان کاباقاعدہ حیادار لباس ہو، وہ پردہ کرتی ہوں اور گھر سے باہر نکلیں توان کا لباس ایسا نہ ہو کہ غلط قسم کے مردوں کی اس پر نظریں پڑیں، اور پردہ کر کے باہر نکلا کریں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ احمدی لڑکی اور احمدی عورت کا دوسروں سے ایک فرق ہونا چاہیے۔ اور عادت ڈالیں کے ہر لجنہ ممبر جو ہے وہ روزانہ پانچ وقت نمازیں پڑھنے والی ہو۔ یہ کوشش کریں کہ ہر لجنہ ممبر جو ہے وہ قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرنے والی ہو۔ اور یہ بھی کوشش کریں کہ آپ کی جو نوجوان لڑکیاں ہیں ان کو اپنے احمدیوں میں ہی رشتے کرنے کی طرف زیادہ توجہ ہو بجائے اس کے کہ باہر رشتے کریں۔ اور جو نوجوان لڑکیاں کام کرتی ہیں یا جو عورتیں کام کرتی ہیں ان کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ اپنے کام کی جگہ پراپنا ایسا لباس پہنیں جو حیا دار لباس ہو اور پردہ میں رہ کر کام کیا کریں۔ اسی طرح تربیت کے سیمینار بھی کیا کریں اور ان سیمینار میں نوجوانوں کو بلایا کریں اور ان کو سمجھایا کریں کہ اللہ اور رسول کے کیا حکم ہیں اور اس کے مطابق اپنی تربیت کریں۔
اسی ملاقات میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے ناصرات کی تربیت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
ان کےلیے تربیت کے پروگرام ایسے بنائیں کہ ناصرات کی تربیت اچھی طرح کر دیں، ان کو نمازیں پڑھنے کی عادت پڑ جائے، ان کو قرآن کریم پڑھنے کی عادت پڑ جائے، ان کو دعائیں کرنے کی عادت پڑ جائے، ان کو میرا ایم ٹی اے پہ جو خطبہ آتا ہے اس کو سننے کی عادت پڑ جائے، ناصرات کی اگر اچھی طرح تربیت کر دیں گی تو وہی ناصرات لجنہ میں جا کے پھر زیادہ اچھا کام کریں گی۔ اگر ناصرات کی آپ ٹریننگ کر دیں گی تو ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کی لجنہ بھی بڑی اچھی ہو جائے گی۔ اس لیے کوشش کریں کہ ناصرات کی زیادہ سے زیادہ اچھی تربیت کر سکیں۔
سوال: اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے حضورانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ آپ بے حد مصروف رہتے ہیں کیا آپ کی ہفتہ وار چھٹی کا کوئی انتظام ہے اور آپ اپنے دوستوں اور اہل و عیال کےلیے کس طرح وقت نکالتے ہیں؟ اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جواب: بس اسی طرح گزار لیتے ہیں۔ اس وقت بھی میں آپ کے ساتھ میٹنگ کر کے ہفتہ وار چھٹی منا رہا ہوں۔ یہ میری ہفتہ وار چھٹی ہے۔
سوال: ایک ممبرلجنہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور جب خلافت سے پہلے افریقہ تشریف لے گئے تب کے حالات اب جیسے نہیں تھے۔ اُس وقت کام کرتے ہوئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ حضور سے درخواست ہے کہ اُس وقت کا کوئی تجربہ ہمیں بتائیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: بات یہ ہے کہ مشکلات کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے۔ اوراس وقت بڑے مشکل حالات تھے، اب تو بڑے اچھے حالات ہیں۔ تو یہی تھا کہ جس کام کےلیے ہم آئے ہیں اس کام کو کرنا ہے اور اس مقصد کو پورا کرنا ہے۔ مشکلات تو کام کے رستے میں سامنے آتی ہیں لیکن دین کے کام میں مشکلات روک نہیں بننی چاہئیں۔ اس لیے ہماری، میری بھی اور میری بیوی کی بھی اُس وقت یہی کوشش ہوتی تھی کہ ہمارے جو کام ہیں وہ چلتے رہیں اور کوئی روک نہ ہمیں بنے۔ اور ایسے حالات میں، مشکل حالات میں عورتوں کو بھی خاوندوں کا ساتھ دینا چاہیے اور خاوندوں کو بھی عورتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور جو دینی کام ہیں وہ چلتے رہنے چاہئیں۔ باقی اللہ تعالیٰ پہ توکل کرتے ہوئے جب آپ کام کرتے ہیں تو چاہے مشکل حالات بھی ہوں اللہ تعالیٰ ان کے حل کا کوئی نہ کوئی ذریعہ نکال دیتا ہے۔ اور اسی طرح کام کرنے کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے رہنا چاہیے تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی ڈال دیتا ہے۔ بس یہی تھا کہ محنت کرو اور دعا کرو تو اللہ تعالیٰ حل کر دیتا ہے۔ کسی بات سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
٭…٭…٭