نکاح وطلاق

والد کی وفات اور بھائی نہ ہونےکی صورت میں لڑکی کی طرف سے اس کا تایازاد بھائی ولی مقرر ہوسکتا ہے

سوال: نکاح کےایک معاملے میں دلہن کے والد کی وفات کی صورت میں دلہن کی طرف سے اس کے تایازاد بھائی کے ولی مقرر ہونے پر شعبہ رشتہ ناطہ کی طرف سے اعتراض اٹھانے پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍جنوری 2020ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایت عطا فرمائی۔ حضور انورنے فرمایا:

جواب: محترم امیر صاحب کینیڈا نے نکاح کی رجسٹریشن کا ایک معاملہ مجھے بھجوایا ہے جس میں لڑکی کے والد فوت ہو چکے ہیں اور اس کا کوئی بھائی بھی نہیں ہے۔ اور لڑکی نے اپنے نکاح کےلیے اپنے تایازاد بھائی کو ولی مقرر کیا ہے۔ لیکن آپ نے یہ کہتے ہوئے کہ تایازاد بھائی ولی نکاح نہیں ہو سکتا، اس نکاح کی رجسٹریشن کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

مجھے بتائیں کہ آپ نے کس فقہ کے مطابق تایا زاد بھائی کے ولی نکاح بننے پر اس نکاح کی رجسٹریشن کرنے سے منع کیا ہے، جبکہ اس بچی کے نہ والد زندہ ہیں اور نہ کوئی بھائی ہے۔

فقہ احمدیہ کے مطابق تو والد کے بعدبچی کے عصبی رشتہ داروں میں سے جو قریبی رشتہ دار موجود ہو وہ لڑکی کا ولی بن سکتا ہے اور تایازاد بھائی کا شمار عصبی رشتہ داروں میں ہوتا ہے اور وہ لڑکی کا ولی بن سکتا ہے بشرطیکہ اس سے پہلے عصبی رشتہ داروں میں سے کوئی رشتہ دار زندہ نہ ہو۔ لہٰذا اس نکاح کو رجسٹرڈکرلیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button