متفرق مضامین

چودھری محمد علی صاحب (قسط پنجم)

(‘ابن طاہر’)

بیعت کے بعد

اگرچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے چودھری محمد علی صاحب کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی بیعت کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے مگر سُوئے اتفاق دیکھیے صوفی خدابخش عبد زِیروی کے ذریعہ کسی طرح یہ خبر صوفی بشارت الرحمٰن صاحب کو ہوگئی۔ چنانچہ وہ ایک روز خود گورنمنٹ کالج ہوسٹل میں آدھمکے اور اس بات کی پروا کیے بغیر کہ وہاں درجنوں اور لڑکے بھی بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے بآوازِ بلند چودھری صاحب سے اس خبر کی تصدیق کرنے کو کہا۔ یہ اُن کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ تھا مگر انہوں نے صدق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور جو حقیقت تھی بیان کردی۔ اس گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر ایرے غیرے کو چودھری محمد علی صاحب کی قبولِ احمدیت کا علم ہوگیا اور ہوتے ہوتے یہ خبر ان کے والدین تک بھی جاپہنچی جنہوں نے ناراضگی میں اِن کا خرچ بھجوانا بند کردیا۔ یوں چودھری صاحب کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔ آپ سلسلہ تعلیم منقطع ہونے سے اس قدر پریشان ہوئے کہ کسی ملازمت کی تلاش شروع کردی مگر افسوس! آپ کے پاس اس کے لیے ضروری وسائل میسر نہ تھے۔

اس باب میں چودھری محمد علی صاحب نے پی این ایس بیدی اور شبیر کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ پی این ایس بیدی نے تقسیمِ ہند سے پہلے مقابلے کے امتحان میں شرکت کی تھی اور وہ انڈین ریلوے سروس کے لیے منتخب ہوگئے تھے۔ چودھری صاحب نے ان کی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے بھی ملاقات کرائی اور وہ چودھری صاحب سے ملنے کے لیے ایک بار اپنے سیلون پر قادیان بھی آئے۔ رہے شبیر تو انہوں نے رائل پاکستان ایئرفورس میں غالباً سائیکالوجسٹ کے طورپر شمولیت اختیار کرلی تھی لیکن کسی وجہ سے جلد ہی انہیں آرپی اے ایف کو الوداع کہنا پڑا۔

قبولِ احمدیت کے بعد آپ کی قادیان آمدورفت بڑھ گئی جہاں آپ کو کئی بزرگان کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقع ملتا رہا۔

اگلے صفحات میں ان دوستوں اور بعض بزرگانِ قادیان کے قدرے تفصیلی ذکرِ خیر کے علاوہ قبولِ احمدیت کی وجہ سے چودھری محمد علی صاحب کو پیش آنے والی ان ہی پریشانیوں کی داستان بیان ہوئی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ازراہِ شفقت جوبلی فنڈ سے کچھ رقم مہیا کرکے موصوف کو تعلیم جاری رکھنے کا موقع فراہم کردیا اور اگرچہ آپ کا کچھ وقت تو ضائع ہوگیا مگر خدا کے فضل سے بالآخر ایم اے کے امتحان میں کامیاب ہوگئے۔

آئیے یہی واقعات چودھری محمد علی صاحب کی زبانی سنتے ہیں:

’’اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ اس وقت ہمارے پورے علاقہ (فیروز پور بہت بڑا ضلع تھااور میرا خیال ہے آج کے بعض ڈویژن بھی اس سے چھوٹے ہوں گے) کے دیہات میں شاید ہی کوئی احمدی ہوگا۔ ہاں ! ہمارے قریبی گائوں ’’مندراں ‘‘کے ایک صاحب احمدی ہوئے تھے لیکن وہ ملتان منتقل ہو چکے تھے اور بعد میں وہاں امیر جماعت بھی رہے۔ مبارک مصلح الدین صاحب کے عزیزوں میں سے تھے اور ان کا نام تھا ڈاکٹر عبدالکریم۔ سو کہا جا سکتا ہے کہ دیہات میں سے کوئی احمدی نہیں تھا البتہ شہروں میں خال خال احمدی تھے۔ وہاں پرایک صاحب خدابخش عبدہوتے تھے۔ بعد میں وہ صوفی خدابخش عبد زیروی کے نام سے معروف ہوئے اور دفتر وقف جدید میں بھی کام کرتے رہے۔ معلوم نہیں ان کو میری قبولِ احمدیت کا کیسے پتا چلا اور ان کے ذریعہ صوفی بشارت الرحمٰن تک خبر پہنچ گئی۔ صوفی خدابخش عبد نے صوفی بشارت الرحمٰن سے کہا کہ ان کے علاقہ کا ایک لڑکا احمدی ہوا ہے، آپ اس کا خیال رکھیں چنانچہ وہ میرا ’’خیال رکھنے کے لیے‘‘ایک روز ہمارے ہوسٹل میں آدھمکے۔

گورنمنٹ کالج میں تعلیم کے دوران میں نیوہوسٹل میں رہا کرتا تھا۔ میرا کمرہ سب سے اوپر والی منزل میں تھا جب کہ بیدی کا 69نمبر کمرہ درمیانی منزل میں تھا۔ میں بیدی کے کمرے میں بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا اور وہ میرے کمرے میں۔ فارغ ہوتے تو لڑکے ہوسٹل کی چھت پر جا بیٹھتے اور خوب گپ شپ ہوا کرتی۔ نیوہوسٹل میں صرف سکالرشپ ہولڈرز یا پھر ایچی سن کالج کے او لیول اور اے لیول کے لڑکے آتے تھے۔ تین سو کے قریب لڑکے وہاں ہوتے تھے۔

ایک روز جب ہم چھت پر بیٹھے تھے بیدی نے مجھ سے ذکر کیا کہ کوئی مولوی تمہیں ڈھونڈتا پھر رہا تھا مگر میں نے اسے بھگا دیاہے۔ میں نے کہا: میراتو کوئی مولوی واقف نہیں ہے۔ پتا نہیں کون آیا ہوگا۔ ابھی یہ بات ہو ہی ہو رہی تھی کہ صوفی بشارت الرحمن آگئے۔ انہوں نے اچکن پہنی ہوئی تھی اور سر پر سرخ ٹوپی تھی۔ مجھے کھٹکا کہ بیدی جس مولوی کا ذکر کررہا تھا شاید یہ وہی ہے۔ وہ آتے ہی کہنے لگے: آپ میں سے محمد علی کون ہے؟ میں اٹھا اور میں نے کہا: جی میں ہوں محمد علی۔ مجھے بتائیے میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟ وہ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ اس وقت اس طرح کا سوال کس حد تک مناسب ہے پوچھنے لگے: کیا آپ احمدی ہیں؟

وہاں بہت سے لڑکے بیٹھے تھے جن میں میرا بہت ہی پیارا دوست شبیر بھی تھا۔ وہ عمران خان کا غالباً چچا لگتا ہوگا۔ قد کاٹھ کے لحاظ سے وہ عمران خان سے دُگنے سائز کا تھا اور ڈیل ڈول اور چہرے مہرے سے جرمن نظر آتا تھا۔ وہ جالندھر کے پٹھانوں میں سے تھا۔ اس نے بہت مذاقیہ طبیعت پائی تھی۔ زبردست نقّال تھا۔ آپ اس سے صرف دو منٹ بات کرلیتے تو وہ آپ کی نقل اتار کر آپ کو حیران کردیتا۔ محسوس ہوتا گویا آپ ہی بول رہے ہیں۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ انہیں کیا جواب دوں لیکن جھوٹ تو بول نہیں سکتا تھا چنانچہ میں نے کہا: جی۔ میں خدا کے فضل سے احمدی ہوں۔ میرے جواب کی دیر تھی کہ شور مچ گیا۔ شبیر کو یہ اعتراض نہیں تھا کہ میں احمدی کیوں ہوا ہوں۔ اس کو اعتراض صرف یہ تھا کہ ا س سے یہ بات مخفی کیوں رکھی گئی ہے۔ اس پر دورے پڑتے تھے۔ کبھی وہ لمبی سی ڈاڑھی رکھ لیتا اور سر مونڈوادیتا اور ہمیں ہانک کر جمعہ پڑھانے مولانا محمد بخش مسلم کی مسجد واقع لوہاری دروازہ (جسے اب مُسلم مسجد کہا جانے لگاہے) لے جاتا۔ کبھی ڈاڑھی مُنڈا دیتاتھا۔ کہا کرتا تھا قاضی محمد اسلم کا مجھ پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔ وہ مجھے کہا کرتے تھےبڑی نمازیں پڑھتے ہو لیکن یہ سب تمہارا جنون ہے۔ تم ایک دفعہ نمازیں چھوڑ کر پھر پڑھنا شروع کرو تو میں مانوں گا کہ تم نماز پڑھتے ہو۔ ان کے کہنے پر میں نے ایک دفعہ نماز چھوڑی اور اس کے بعد پڑھی ہی نہیں۔ اس کے اپنے الفاظ میں یاراں نے فیر نماز پڑھی ای نہیں۔

میں نے شبیر سے کہا: زیادہ شور نہ مچائو۔ اکیلا میں ہی احمدی نہیں، قاضی محمد اسلم بھی احمدی ہیں۔ وہ پھٹ پڑا قاضی صاحب کیسے احمدی ہو سکتے ہیں؟ وہ تو انسان نہیں فرشتہ ہیں اور میں کہتا ہوں اس میں شک ہے بھی نہیں کہ قاضی صاحب واقعی فرشتہ تھے۔ میں نے کہا: وہ کیمپس ہی میں رہتے ہیں، خود جاکر تصدیق کرلو۔ اس نے کہا: تم یہیں ٹھہرنا، میں پتا کر کے آتا ہوں۔ سب لڑکے انتظار کرنے لگے۔ شبیر واپس آیا۔ قاضی صاحب نے تو پتا نہیں اس سے کیا کہا لیکن شبیر کہنے لگا: میں پتا کر آیا ہوں قاضی محمد اسلم واقعی احمدی ہیں۔ خدا کا تصرف دیکھئے کہنے لگا: اگر کسی نے محمد علی سے صرف اس وجہ سے لڑائی کرنی ہے کہ اس نے احمدیت قبول کرلی ہے تو وہ پہلے مجھ سے نبٹے اور اس نے یہ بات ساری عمر نبھائی۔

شبیر کا ذکر ہوا ہے تو جی چاہتا ہے اسی کی باتیں کرتا چلاجائوں۔ اس نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو نہیں دیکھا تھا نہ ہمارا کوئی لٹریچر پڑھا تھا۔ اس نے صرف قاضی محمد اسلم کو دیکھا تھا۔ قاضی صاحب نے کبھی کسی لڑکے کو نہیں ڈانٹا تھا۔ صرف شبیر کو ایک بار ڈانٹا تھا کیوں کہ وہ شرارتیں بہت کرتا تھا۔ وہ قصہ بھی سن لیں۔ ایک دن میرے پاس آیا اور میرے کمرے میں لیٹ گیا۔ پریشان سا لگ رہا تھا۔ کہنے لگا: آج تو کام بڑا خراب ہوگیا ہے۔ میں نے پوچھا: کیا ہوا؟ کہنے لگا: بس آج تو حد ہوگئی ہے۔ قاضی صاحب نے مجھ سے کہا ہے شبیر! کیا تم فلاسفی چھوڑ کر کوئی اور مضمون نہیں رکھ سکتے؟ یہ تھی قاضی صاحب کی ڈانٹ جسے شبیر نے اس سنجیدگی سے لے لیاتھا۔

میں کیا بتائوں اس نے ساری عمر کیسے گذاری۔ اگر میں بتانا بھی چاہوں تو مجھ سے بتایا نہیں جاسکے گا۔ اس کی شرارتیں اگر سنائی جائیں تو سننے والا حیران رہ جاتا ہے۔ اس کے اندر کا انسان بے حد خوبصورت تھا۔ شبیر جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا زبردست نقّال تھا۔ اگر وہ کسی ڈِیبیٹ پر ہمارے ساتھ جاتا تو پورا انگریز بن کر جاتا تھا۔ انگریزی لہجہ میں بات کرتا لیکن آتے وقت ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کرکے سب کو حیران کر دیتا۔ عام طور پر ٹائی لگاتا تھا۔ بال سنہرے، گھنگریالے اور ڈاڑھی خوبصورت سنہری جو وہ کبھی مُنڈا بھی دیتا تھا۔ نیلی آنکھیں تھیں اس کی اور دیکھنے میں وہ بالکل جرمن لگتا تھا۔ ایک بار کسی کافی ہائوس میں بیٹھا تھا۔ باہر سے کوئی آدمی آیا۔ اس نے شبیر کو دیکھا تو انگریزی میں پوچھا: سر! آپ کا تعلق کس جگہ سے ہے؟ شبیر نے اسے پاس بٹھا لیا تو وہ پوچھنے لگا: آپ جرمنی سے ہیں؟ ایک اور آدمی آیا اور اس نے بھی شبیر کو غیرملکی تصور کرتے ہوئے انگریزی میں پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں تو اس نے جواباً کہا: ’’کی آکھیا ای؟ ‘‘

اب اس کا ایک لطیفہ سن لیں۔ لاہور میں ایک سکھ پولیس افسر ہوا کرتا تھا جو صرف مسلمانوں کے چالان کے لیے مشہور تھا۔ اس زمانے میں رات کے وقت بائی سکل کے ہینڈل پر بتی نہ جل رہی ہوتی تو چالان ہوجاتا تھا۔ وہ ایسے سائیکل سواروں کو روکتا۔ نام پوچھتا۔ اگر تو سائیکل سوار مسلمان نکل آتا تو وہ چالان کردیتا اور اگر وہ ہندو یا سکھ ہوتا تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑ دیتا۔ بیدی اور شبیر کو پتا چلا تو انہوں نے سوچا کہ اسے سیدھا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا نا مذہب تو بعد میں آتا ہے، ایک چیز شرافت ہوتی ہے چنانچہ ان دونوں نے مل کر ایک سکیم بنائی۔ ایک روز جب سردار اپنی ڈیوٹی پر چوک میں کھڑا تھا شبیر اپنے سائیکل کی بتی گُل کر کے وہاں سے گذرا۔ سردار نے اسے روکا اور کہنے لگا: نیچے اترو۔ وہ اتر گیا۔ کیا نام ہے تمہارا؟ سردار نے پوچھا۔ اس نے اپنا نام بتا دیا۔ پھر اس نے پتا پوچھا تو وہ کہنے لگا: سردار جی! ایڈریس میں بتا دوں گا لیکن یہ تو پتا چلے کہ آپ میرا ایڈریس کس خوشی میں پوچھ رہے ہیں اور اگر میرا چالان کرنا چاہتے ہیں تو کیوں؟ سردار کہنے لگا: نالے چور نالے چتّر۔ اک تے بتی نہیں بالی اتّوں میرے نال شیخیاں ماردا ایں۔ دس تیرا پتا کی اے۔ اس پر شبیر کہنے لگا: سردارجی! آپ نے میرا چالان کرنا ہے، کردیں لیکن ذرا غور سے دیکھیں، بتی تو جل رہی ہے۔ سردار کو اس بات پر شدید غصہ آیا۔ اتنی دیر میں طے شدہ منصوبے کے مطابق بیدی وہاں آ پہنچا اور پوچھنے لگا: شبیر! کیا ہو رہا ہے؟ اسے بتایا گیا سردار جی کہہ رہے ہیں کہ بتی نہیں جل رہی ہے حالانکہ بتی تو جل رہی ہے۔ بیدی نے ذرا سر جھکا کر دیکھا اور پھر کہنے لگا: سردار جی معاف کرنا! بتی تو واقعی جل رہی ہے۔ سردار بہت پریشان ہوا اور ہاتھ باندھ کر ان کے سامنے کھڑا ہوگیا ہُن معاف کردئیو۔ آئندہ تہاڈا چالان نہیں کراں گا۔

شبیر آئی ایس ایس بی یعنی اِنٹرسروسزسیلیکشن بورڈ میں سائیکالوجسٹ لگا ہوا تھا۔ وہ شبیر کیا جو شرارتوں سے باز آجائے۔ یہ 1953ء کی بات ہے۔ اِنٹرسروسزسیلیکشن بورڈ کا چیئرمین طبیعت کا کوئی سادہ منش آدمی تھا۔ بریگیڈیئر تھا لیکن میں نام نہیں لیتا۔ اس کا بیٹا بعد میں لیفٹیننٹ جنرل بھی ہوا۔ تو یہ اسی کا لطیفہ ہے۔

ہمارے اس شرارتی دوست نے اپنے چیئرمین کو بتایا کہ اس نے ایک نیا مذہب دریافت کیا ہے جو بے حد سادہ ہے۔ اس مذہب کے بنیادی اصول یہ ہیں کہ Live straight, ۔.speak straight and sit straightیعنی صاف ستھری زندگی گذارو، سیدھی سیدھی بات کرو اور سیدھا بیٹھو۔ وہ اپنے بریگیڈیئر کو اپنے کمرے میں ساتھ بٹھا کر اس مذہب کے اصولوں کے مطابق عبادت کیا کرتا تھا۔ شبیر نے آفیسرز میس میں اپنے کمرے کے دروازے میں ایک چھوٹا سا سوراخ کرکے لوگوں کو کہہ رکھا تھا کہ وہ آکر اپنے بریگیڈیئر کی حماقت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔ لوگ دیکھتے تھے اور اس کی حرکتوں سے محظوظ ہوتے۔ یہ مذاق کچھ عرصہ چلتا رہالیکن اسی دوران نئے آنے والے ایک افسر نے یہ بھانڈا پھوڑد یا چنانچہ شبیر کا کورٹ مارشل ہوا اور اسے ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔

شبیر کی عظمت دیکھیں۔ 1953ء میں جب احمدیوں کے خلاف فسادات زوروں پر تھے ایک روز وہ مجھے ملنے کے لیے آگیا اور کہنے لگا او ئے مرزائیا! باہر نکل۔ اس کے بعد بھی ملتا رہا۔ جب امن ہوگیا تو ایک دن میں پاک ٹی ہائوس گیا۔ وہاں ایک بیرا ہوتا تھا۔ میرا اس سے ناصر کاظمی کے ذریعہ تعارف ہوا تھا۔ وہ شعر بھی کہتا تھا اور چونکہ میں بھی تُک بندی کرلیتا تھا لہٰذا اس سے رابطہ رہنے لگا۔ کہنے لگا چودھری صاحب! آپ کے دوست نے تو مصیبت ڈال دی ہے ہمیں۔ میں نے پوچھاکیا ہوا؟ اس نے ایک گول میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ شورش کاشمیری اور ان کے ساتھی یہاں بیٹھا کرتے ہیں۔ ایک روز شبیر آکر اس میز پہ بیٹھ گیا۔ اس کو نہیں پتا تھا کہ ادھر شورش بیٹھتے ہیں بلکہ شبیر نے تو شاید ان کا نام بھی نہ سنا تھا۔ اتنے میں شورش بھی آ گئے۔ ان کے ساتھ پانچ سات آدمی تھے۔ وہ ساتھ والی میز پر بیٹھ گئے۔ اچانک شورش نے اپنی ٹانگ میز پر رکھ دی۔ شبیر دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا ٹانگ نیچے کرو اور انسانوں کی طرح بیٹھو۔ شورش نے اس بات کا یقیناً برا منایا ہوگا لیکن ٹانگ نیچے کرلی۔ اسی اثنا میں باہر سے ایک چھوٹا سا جلوس گزرا جو احمدیوں کے خلاف گند بک رہا تھا۔ شورش کو موقع مل گیا اور اس نے بھی حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دینا شرو ع کردیں۔ شبیر نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: دیکھو میاں ! میں تمہیں نہیں جانتا اور تم مجھے نہیں جانتے لیکن جس آدمی کو تم گالیاں دے رہے ہو نہ وہ خود یہاں ہے نہ اس کا کوئی دفاع کرنے والا یہاں موجود ہے لہٰذا یہ بات کسی طرح مناسب نہیں۔ ہاں ! اگر تمہیں زیادہ ہی تکلیف ہے تو اس جلوس میں شامل ہو جائو لیکن اگر یہاں بیٹھنا ہے تو اس طرح کی حرکتیں نہ کرو۔

شورش اس زمانے میں اپنے آپ کو لاہور کا بادشاہ سمجھتے تھے۔ شبیر نے محسوس کیا کہ اس کے ساتھی بھی یہاں موجود ہیں چنانچہ وہ جلد ہی وہاں سے اٹھ گیا۔ اگلے دن وہ بھی اپنے ساتھی لے آیا اور جس میز پر شورش بیٹھتے تھے اس پر بیٹھ گیا۔ شورش دوسری میز پر بیٹھے تو وہ بھی اپنی جگہ بدل کر ان کے پاس جا بیٹھا۔ شورش ایک فقرہ بولتے تو وہ ان کی نقل اتارتا۔ وہ دوسرا فقرہ بولتے تو وہ ان کی نقل اتارتاحتّٰی کہ ایک وقت وہ آگیا کہ پاک ٹی ہائوس میں میزیں چلیں، کرسیاں چلیں اور کراکری ٹوٹی اور مالک بیچارہ منتیں کرتارہ گیا۔ بقول اس بیرے کے پاک ٹی ہائوس شورش پر بند کر دیا گیا لیکن شبیر نے مجھے نہیں بتایا کہ وہ یہ کارنامہ سرانجام دے کر آیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ اس کی عظمت تھی۔

مجھے شبیر سے یوں بھی محبت تھی لیکن یہ دیکھ کر کہ اس کے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا بہت احترام ہے میرے دل میں اس کے لیے محبت اور بڑھ گئی تھی اور ہم بکثرت ملنے لگے۔ وہ کبھی کبھی رات کو بھی میرے پاس آجایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ہم رات دس بجے کے بعد بھنگیوں والی توپ پر بیٹھے تھے۔ اچانک پولیس کا ایک گشتی دستہ ادھر آنکلا۔ آگے آگے کوئی ایس ایچ او تھا یا انسپکٹر۔ پیچھے اس کے ماتحت سپاہی تھے۔ ہم ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس تھے، ہم نے چپلیاں پہن رکھی تھیں اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے ڈاڑھی رکھی ہوئی تھی۔ میری بھی چھوٹی موٹی ڈاڑھی تھی۔ میرا خیال ہے ہم تلنگے سے لگ رہے تھے چنانچہ پولیس والے پوچھنے لگے کہ ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔ بالکل جائز سوال تھا کہ ہم رات کے اس سمے وہاں کیوں بیٹھے تھے۔ میں تو چپ رہا لیکن شبیر نے جواباً کہا آپ پوچھ رہے ہیں لیکن ہم بتا نہیں سکتے اور بہتر ہے کہ آپ ہم سے نہ ہی پوچھیں کیونکہ اگر ہم نے آپ کو بتا دیا تو غضب ہوجائے گا۔ میری درخواست ہے کہ آپ آرام سے یہاں سے تشریف لے جائیں۔ اتنی دیر میں باقی سپاہی بھی وہاں آپہنچے۔ ماتحتوں کے سامنے اس طرح کی کوئی بات ہو تو افسر کو غصہ آہی جاتا ہے چنانچہ اس کو شدید غصہ آیا۔ تب شبیر نے قدرے دھیمے لہجہ میں کوئی اس طرح کی بات شروع کردی کہ جناب ہیں تو ہم آپ کے خادم۔ آپ کا جو حکم ہوگا ہم اس کی تعمیل کریں گے لیکن جو کام ہم کرنے جا رہے ہیں اگر آپ کو اس کی تفصیل معلوم ہوگئی تو آپ کو اچھا نہیں لگے گا لہٰذا ہماری مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ ہم سے یہ سوال نہ ہی پوچھیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس میں آپ کا کوئی نقصان نہیں۔ پولیس والے نے ذرا سختی سے کہا کہ باتیں نہ بنائو، کام کی بات کرو۔ شبیر نے کہا: ہم اس تاک میں ہیں کہ لوگوں کی نظر بچا کر یہ توپ اٹھا لے جائیں۔ پولیس والے شرمندہ سے ہوکر وہاں سے چلے گئے۔

بے ضرر مذاق شبیر کی فطرت میں تھا لیکن وہ اندر سے بہت صاف اور سُچا انسان تھا۔ بدقسمتی سے اس نے ایئرفورس کی ملازمت کے دوران شراب پینا شروع کر دی تھی۔ میں نے اسے بہت دفعہ سمجھایا مگر اس نے میری یہ بات سُنی اَن سُنی کردی۔

جب وہ کراچی چلا گیاتو مجھے انگریزی میں خط لکھا کرتا تھا اور وہ بھی نظم کی صورت میں۔ وہ میری ڈاڑھی کو ’’Goaty‘‘کہا کرتا تھا۔ انگریزی اس کی بہت اعلیٰ تھی۔

بعد میں وہ لندن چلا گیا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ 1967ء میں وہاں تشریف لے گئے تو اخبارات میں آپ کی آمد کا چرچا ہوا۔ یہ خبریں اس کی نظر سے بھی گزریں چنانچہ ایک روز اس کا فون آیا کہ مجھے آکر ملو۔ میں نے کہا: نہیں تم آئو۔ کہنے لگا: میں نہیں آسکتا، تمہیں ہی آنا پڑے گا۔ میں فجر سے لے کر رات بارہ بجے تک حضورؒ کے ساتھ رہتا تھا اس لیے نہیں جا سکا۔ دوسری دفعہ گئے توپھر اس کا فون آیا۔ میں اپنی مصروفیت کی وجہ سے پھر نہیں جا سکا۔ ظہور احمدباجوہ صاحب کے بھائی بشیر اصغر باجوہ ان دنوں وہاں تھے۔ ایک بار وہ مجھے کہنے لگے یہاں آپ کا ایک دوست ہے، شبیر۔ بہت اچھا آدمی ہے۔ بیچارے میں ایک ہی عیب ہے لیکن اس کے علاوہ اس میں کوئی عیب نہیں۔ وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ آپ ملتے کیوں نہیں ہیں؟ میں نے کہا وہ آکر مل لے۔ کہنے لگےوہ آنا نہیں چاہتا۔ میں نے اسے فون کر کے آنے کو کہا تو وہ رو پڑا۔ میں نے شبیر کو پہلی دفعہ روتے ہوئے سنا تھا اس لیے گھبرا گیا۔ کہنے لگامحمد علی! میں تمہارے پاس کس طرح آسکتا ہوں۔ تم تو وہاں ٹھہرے ہوگے جہاں مرزا ناصر احمد ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں وہاں آنے کی جرأت کس طرح کرسکتا ہوں؟ میں نہیں آسکتا چنانچہ میں اسے ملنے کے لیے گیا۔ وہ ملا۔ ٹھیک ٹھاک، اچھا بھلا تھا۔ بہت اچھی طرح ملا۔ اس نے ہمارے لیے سلاد تیار کررکھا تھا۔ وہ حسبِ معمول مجھے کہنے لگا لو جی چرو! ونڈرفُل مین! اچھے لوگ اچھے ہی ہوتے ہیں۔

شبیر کے بعد اب کچھ ذکر سید محمد رضاکا۔ ہاکی کا ایک بہت مشہور کھلاڑی ہوگذرا ہے جس کا نام سید محمد جعفر تھا۔ وہ لاس اینجلس اولمپکس منعقدہ 1932ء اور برلن اولمپکس منعقدہ 1936ء میں حصہ لینے والی انڈین ہاکی ٹیم کا رکن تھا۔ رینالہ خورد کے نواحی گائوں، شیرگڑھ کا رہنے والا تھا اور حضرت دائود بندگی کے گدی نشینوں میں سے تھا۔ نوعمری میں ایک حادثہ میں وفات پاگیا تھا۔ رضا اس کا بھائی تھا۔ میرے احمدی ہونے پر شبیر کے برعکس رضا نے میری بہت مخالفت کی اور ساری زندگی مخالفت کرتا رہا۔

رضا کے ذکر سے یاد آگیا ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانۂ طالب علمی میں ایک بار لڑکوں کے درمیان بحث چل نکلی کہ کیا اسلام میں مِلکِ یمین یعنی کنیزوں کے ساتھ نکاح کے بغیر جنسی تعلق کا قیام جائز ہے۔ کچھ لڑکے کہتے تھے کہ یہ بات جائز ہے جب کہ کچھ لڑکوں کی رائے اس سے بالکل اُلٹ تھی۔ ایک رات لڑکے جن میں رضا بھی شامل تھا لڑتے جھگڑتے میرے پاس آگئے اور اس مسئلے پر میری رائے پوچھنے لگے۔ میں نے انہیں کہا ایک طرف آپ مجھے مسلمان نہیں سمجھتے اور دوسری طرف اس مسئلے پر میری رائے کے طلب گار ہیں تو میں کیا عرض کروں ماسوا اس کے کہ آپ مولانا دائود غزنوی سے رابطہ کریں۔ وہ کچھ ہی عرصہ پہلے یہ فتویٰ جاری کر چکے تھے کہ مِٖلکِ یمین والا اصول صرف ان عورتوں پر لاگو ہوتا ہے جنہیں بازار سے قیمتاً خریدا گیا ہو چنانچہ بعض لڑکے ان کے پاس نہیں جانا چاہتے تھے۔ تب میں نے کہا ان کے پاس نہیں جانا تو مولوی کریم بخش کے پاس چلے جائو۔ انہوں نے کہا ہم ان کے پاس سے ہو آئے ہیں۔ وہ بھی مولانا کے ہمنوا ہیں۔ اس پر میں نے کہا کہ میں خود تو عالم نہیں ہوں لیکن قادیان سے ہمارے امام تشریف لائے ہوئے ہیں اور ٹیمپل روڈ پر شیخ بشیر احمدکی کوٹھی پر قیام فرما ہیں۔ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کو ان کے پاس لے جا سکتا ہوں تاہم اگر آپ وہاں جانے کا فیصلہ کرلیں تو پہلے آپ کو بیدی کے علاوہ کسی لڑکے کو اپنا لیڈر منتخب کرنا ہوگا۔ اصل میں بیدی بے حد منہ پھٹ تھا اور مجھے ڈر تھا کہ وہ حضورؓ کی شان میں کسی گستاخی کا مرتکب نہ ہوجائے تاہم لڑکے بضد ہوگئے کہ ہمارا لیڈر بیدی ہی ہوگا۔ ہم مغرب کی نماز سے ذرا پہلے وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت تک حضورؓ اندر تھے اور ملک خدابخش جو جماعت کے سیکرٹری اور بہت جہیرالصّوت تھے بہ آواز بلند باربار اعلان کررہے تھے کہ حضورؓ کا گلا خراب ہے لہٰذا آپ سے کوئی سوال نہ پوچھا جائے۔ یہ اعلان سن کر میں دل ہی دل میں بے حد پریشان ہوا کیونکہ اس اعلان سے لڑکوں کے دل میں یہ بدگمانی پیدا ہوسکتی تھی کہ میں نے انہیں سوال سے روکنے کے لیے یہ چال چلی ہے۔ بہرحال نماز ہوئی اور مجھے حضورؓ کے عین پیچھے پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جب نماز ختم ہوگئی تو حضورؓ ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ گئے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سب گورنمنٹ کالج، لاہور کے لڑکے ہیں۔ پھر میں نے بیدی کے متعلق بتایا کہ یہ ان کا لیڈر ہے۔ اس وقت تک بیدی نے اپنا سر رومال سے ڈھانپ لیا تھا جس سے مجھے قدرے اطمینان ہوگیا کہ اللہ نے چاہا تو اب وہ کوئی بیہودگی نہیں کرے گا اور ایسا ہی ہوا۔ حضورؓ نے اس کا پورا نام پوچھا تو اس نے بتایاپی این ایس بیدی۔ جب اس نے حضورؓ کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اس کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وہ گنڈاسنگھ بیدی کو جانتا ہے۔ یاد رہے کہ گنڈاسنگھ بیدی اس کا بڑابھائی تھا۔ وہ مجسٹریٹ یا جج تھا اور اس نے ان ہی دنوں زرعی اصلاحات کے تحت کاشتکاروں کے حق میں ایک اہم فیصلہ لکھا تھا جس کی وجہ سے وہ خاصا مشہور ہوچکا تھا۔ حضورؓ نے کہااس کا مطلب ہے آپ فلاں صاحب کے پوتے اور فلاں صاحب کے نواسے ہیں اور بیدی کا پورا خاندان کھنگال ڈالا۔ اس کے بعد محفل پر خاموشی چھا گئی۔ چنانچہ میں نے بیدی سے کہا کہ وہ کوئی سوال پوچھنا چاہتا ہے تو پوچھ لے لیکن وہ مسلسل خاموش رہا۔ تب حضورؓ نے خود ہی پوچھا: آپ کون سی کلاس میں پڑھتے ہیں؟ بیدی نے بتایاایم اے میں اور پھر اپنے مضمون یعنی تاریخ کا ذکر کیا۔ حضورؓ نے پوچھا: تاریخ میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ گفتگو آگے بڑھی تو حضورؓ نے پوچھا: کیا آپ نے فلاسفی آف ہسٹری پڑھی ہے؟ نفی میں جواب پاکر حضورؓ نے کہا: اس کا مطلب ہے آپ صرف تاریخیں اور سنین یاد کرتے ہیں لیکن ان سے تو لائبریریاں بھری پڑی ہیں۔ آپ کسی لائبریری میں جاکر یہ ساری معلومات بآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس طرح ایم اے کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ حضورؓ نے اسے بتایا کہ فلاسفی آف ہسٹری کا مضمون مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اس حوالے سے آپ دیر تک مقدّمہ ابن خلدون پر گفتگو کرتے رہے۔ پھر طویل خاموشی کا ایک وقفہ آیا جس کے بعد ہم نے بتایا کہ ہم ایک مسئلے پر حضورؓ سے راہ نمائی کے طلب گار ہیں اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ کیا اسلام میں لونڈی کو نکاح کے بغیر زوجیت میں لایا سکتا ہے؟ حضورؓ نے یہ سوال سن کر ایک زوردار قہقہہ لگایا اور پھر اس موضوع پر ایک لمبا لیکچر دیا۔ اس وقت مجھے لیکچر کی جزئیات تو یاد نہیں ہیں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ حضورؓ نے صرف دین کی خاطر لڑی جانے والی جنگوں کی خواتین اسیران کو نکاح کے بغیر زوجیت میں لانے کے خیال کی تائید فرمائی تھی۔

جب حضورؓ تشریف لے گئے تو ملک خدابخش ہم سے بہت ناراض ہوئے اور پنجابی میں کہنے لگے: کیہڑے سی او علم دے پُکّھے؟ میرے سامنے ذرا آئونا۔ میں کہیا نہیں سی کہ حضور کولوں کوئی سوال نہیں پُچھنا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button