متفرق

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 78)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

بعد نما ز عصر ایک مجلس

فرمایا: وہ آدمی بڑا ہی خوش نصیب ہے اور اس کو خدا کا شکر کرنا چاہیے جو کسی حکومت کے نیچے نہیں اور جسے فکر نہیں کہ رات کو یادن کو کوئی آواز آئے گی۔ بعض لوگ اسیسر ہونے میں اپنی عزت سمجھتے ہیں مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ بڑے پابند ہوتے ہیں۔ ایک بار ایک اسیسر کو جو اپنے وقت پر نہیں آیا تھا، سزا ہوئی۔ اس نے کہا کہ میں شادی پر یا کہیں اور گیا ہوا تھا۔ حاکم نے اُسے کہا کہ کیا تم کو معلوم نہ تھاکہ میں اسیسر ہوں اور سزا دے دی۔ آخر چیف کورٹ نے اس کو بری کر دیا۔ غرض اس قسم کے مصائب اور مشکلات ہوتی ہیں اور پھر ان بیچاروں کی حالت تاتریاق از عراق آوردہ شود کی مصداق ہو جاتی ہے خواہ اپیل میں بری ہو جاویں۔ مگر وہ بے عزتی اور مصائب کا ایک بار تو منہ دیکھ لیتے ہیں۔ کیا اچھا کہا ہے سعدیؔ نے ؎

کس نیاید بخانۂ درویش

کہ خراج بوم و باغ گذار

جس قدر انسان کشمکش سے بچا ہوا ہو اسی قدر اس کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ کشمکش والے کے سینہ میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہو۔ کہتے ہیں ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا۔ راستہ میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا ستر ہی ڈھانکا ہوا تھا۔ اُس نے اُس سے پوچھا کہ سائیں جی کیا حال ہے؟ فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہو گئی ہوں۔ اس کا حال کیسا ہوتا ہے؟ اُسے تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مرادیں کس طرح حاصل ہو گئی ہیں۔ فقیر نے کہا جب ساری مرادیں ترک کر دیں تو گویا سب حاصل ہو گئیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے۔ لیکن جب قناعت کر کے سب کو چھوڑ دے تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے۔ نجات اور مکتی یہی ہے کہ لذت ہو دکھ نہ ہو۔ دُکھ والی زندگی تو نہ اس جہان کی اچھی ہوتی ہے اور نہ اُس جہان کی۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 421-422)

ا س حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ سعدی کے کلام سے ضرب المثل کا ایک ٹکڑا اور ایک مکمل شعر استعمال کیا ہے۔ جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

1۔ تَا تَرْیَاقْ اَزْ عِرَا قْ آوَرْدِہ شَوَدْ۔

شیخ سعدی نے گلستان میں ایک حکایت لکھی ہے جس میں ایک ضرب المثل استعمال کی ہے اس ضرب المثل کایہ آدھا حصہ ہے پوری ضرب المثل اس طرح سے ہے۔ تَا تَرْیَاقْ اَزْعِرَاقْ آوَرْدِہْ شَوَدْمَارْگَزِیْدِہْ مُرْدِہْ شَوَدْ۔ ترجمہ: ۔ جب تک عراق سے تریاق لایا جائے گا سانپ کا ڈسا ہوا مردہ ہو جائے گا۔

2۔ کَسْ نَیْاَیَدْ بِخَانَۂ دَرْوِیْش

کِہ خَرَاجِ بُوْم و بَاغْ گُزَارْ

ترجمہ: ۔ فقیر کے گھر کوئی نہیں آتا کہ زمین اور باغ کاخراج ادا کرو۔

گلستان میں بیان شدہ متذکرہ بالا حکایت کا ہی یہ شعر ہے جس میں صرف دو لفظ مختلف ہیں ’’بوم‘‘ کی جگہ’’ زمین‘‘ جبکہ ’’گذار‘‘ کی جگہ’’بدہ‘‘ کے الفاظ ہیں اور ان کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔

جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اوپر کےدونوں حوالے شیخ سعدی کی ایک حکایت کے ہیں جو کہ شیخ سعدی کی کتاب گلستان سعدی کے پہلے باب بعنوان (بادشاہوں کی سیرت ) میں موجود ہے۔ حکایت درج ذیل ہے۔

حکایت: ۔ دوستوں میں سے ایک دوست ناموافق حالات کی شکایت لےکر میرے (سعدی)پاس آیا کہ میں آمدنی تھوڑی رکھتاہوں اور بال بچے زیادہ۔ اور فاقہ کشی کی اب طاقت نہیں رہی۔ کئی مرتبہ دل میں آیا کہ کسی دوسرے ملک چلا جاؤں تاکہ جس حالت میں بھی زندگی کٹے کسی کو میرے اچھے برے کی اطلاع نہ ہو۔ پھر دشمنوں کی خوشی کا خیال کرتا ہوں کہ میری پیٹھ پیچھے طعنہ زنی کرکے ہنسی اڑائیں گے اور میری اس کوشش کو بال بچوں کے بارے میں بے مروتی پر محمول کریں گے اور کہیں گے اس بے غیرت کو دیکھو کہ ہرگز وہ نیک بختی کا منہ نہ دیکھے گا کہ اپنے لئے آسانی اختیار کرتاہے اور بیوی بچوں کو سختی میں چھوڑتاہے۔

جیسا کہ جناب کو معلوم ہےمیں علم حساب میں سے کچھ جانتاہوں اگر جناب کے مرتبہ کے طفیل کوئی خدمت میرے لئے مقرر ہوجائے تو اس احسان کے شکریہ سے سبکدوش نہ ہو سکوں گا۔ میں نے کہا بھائی بادشاہ کی نوکری دو پہلو رکھتی ہے۔ روٹی کی امید اور جان کا خطرہ۔ اور اس امید میں اس خطرہ میں پڑنا عقلمندوں کی رائے کے خلاف ہے۔

قطعہ؂

کَسْ نَیْاَیَدْ بِخَانَۂ دَرْوِیْش

کِہ خَرَاجِ زَمِیْن وبَاغْ بِدِہْ

ترجمہ: ۔ فقیر کے گھر کوئی نہیں آتا کہ زمیں اور باغ کا ٹیکس ادا کر

یَابِہْ تَشْوِیْق و غُصّہ رَاضِیْ شُوْ

یَا جِگَرْبَنْدپِیْشِ زَاغْ بِنِہْ

ترجمہ: ۔ یا تو رنج وپریشانی پر راضی ہو جا۔ یا کلیجی (چیل)کوے کے لئے نکال کر رکھ دے۔

اُس نے کہا جناب نے یہ بات میرے مناسب حال نہیں فرمائی اور میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ آپ نے یہ نہیں سنا کہ بزدلی کی وجہ سے اس کا ہاتھ کانپتا ہے جو خیانت کرتاہے …جس کا حساب پاک ہےاس کو حساب کتا ب کا کیا ڈر؟

میں نے کہا ایک لومڑی کا قصہ تیرے حال کے مناسب ہے۔ جس کو لوگوں نے بھاگتے ہوئے اور گرتے پڑتے ہوئے دیکھا۔ کسی نے اس سے دریافت کیا کہ کیا مصیبت ہے؟ جو ڈر کا سبب ہے۔ اس نے کہا میں نے سنا ہے کہ شیر کو بیگار میں پکڑ رہے ہیں۔ اس نے کہا اے بیوقوف تجھے شیر سے کیا نسبت ہے؟ اور اس کو تجھ سے کیا مشابہت؟ اس نے کہا چُپ رہ کہ اگر حاسد لوگ دشمنی میں کہہ دیں کہ یہ بھی شیر کا بچہ ہے اور میں پکڑی جاؤں تو مجھے چھڑانےکا کسے غم ہوگا کہ جو میرے حال کی چھان بین کرے گا۔

تَا تَرْیَاقْ اَزْعِرَاقْ آوَرْدِہْ شَوَدْمَارْگَزِیْدِہْ مُرْدِہْ شَوَدْ۔

جب تک عراق سے تریاق لایا جائے گا سانپ کا ڈسا ہوا مردہ ہو جائے گا۔

بے شک تجھ میں بزرگی، دیانت پرہیز گاری اور امانت ہے لیکن نکتہ چین گھات میں ہیں اور دشمن گوشوں میں چھپے ہیں۔ اگر وہ لوگ تیری عادت کےخلاف ثابت کریں اور تو بادشاہ کے روبرو جواب طلبی کے لئے جائے تو اس حالت میں کس کو بات کرنے کی طاقت ہوگی۔ لہٰذا میرے نزدیک مناسب یہی ہے کہ تو قناعت کے ملک ہی کی نگہبانی کرے اور سرداری کا خیال چھوڑ دے …دوست نے جب یہ بات سنی ناراض ہوگیا اور یہ حکایت سن کر منہ بگاڑ لیا…میں نے دیکھا کہ وہ بگڑ رہا ہےاور میری نصیحت کوخود غرضانہ سمجھ کر سن رہا ہے۔ میں کچہری کے افسر کے پاس گیا اور اپنی پہلی جان پہچان کی بنا پر اس دوست کو کام دلادیا۔ ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ اپنی طبیعت کی پاکیزگی کی وجہ سے وہ اس عہدہ سے بڑے عہدہ پر پہنچ گیا…یہاں تک کہ وہ ترقی کرتا کرتا شاہی دربارکا مقرب اور معتمد علیہ بن گیا۔

قریبی وقت میں مجھے کچھ دوستوں کے ساتھ سفر کرنے کا اتفاق ہوگیا۔ جب مکہ کی زیارت سے واپس لوٹا۔ اس دوست نے ایک دو پڑاؤ آگے بڑھ کر میرا ستقبال کیا۔ میں نے اس کے ظاہری حال کو پریشان اور درویشوں کی ہیئت میں دیکھا۔ میں نے کہا کیاحال ہے اس نے کہا جیسا کہ جناب نے فرمایا تھا۔ ایک گروہ نے حسد پیدا کیا اور مجھ پر خیانت کا الزام لگا دیا اور بادشاہ سلامت نے اس کی حقیقت کی جستجو میں پوری کوشش نہ فرمائی۔ اور پرانے ساتھی اور پکے دوست سچ بات کہنےسے خاموش ہوگئے۔ خلاصہ یہ کہ میں طرح طرح کی سزاؤں میں گرفتار ہوا۔ یہاں تک کہ اس ہفتہ جب حاجیوں کی خیریت کی خوشخبری پہنچی تو مجھے بھاری بیڑیوں سے نکالااور میری اپنی جائیدا د مجھے دی۔ میں نے کہا اُس وقت تو نے میرا مشورہ نہ ماناکہ میں نے تجھ سے کہاتھا کہ بادشاہوں کی نوکری دریائی سفر کی طرح ہے خطرناک اور مفید۔ یا تو خزانہ ہی حاصل کرلےگا یا بھنور میں مرے گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button