متفرق مضامین

تابوتِ سکینہ (قسط اوّل)

(احمد منیب)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰیۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ قَالَ ہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوۡا ؕ قَالُوۡا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ قَدۡ اُخۡرِجۡنَا مِنۡ دِیَارِنَا وَ اَبۡنَآئِنَا ؕ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقِتَالُ تَوَلَّوۡا اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ۔

وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ قَالُوۡۤا اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰٮہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔

وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اٰیَۃَ مُلۡکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَ اٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحۡمِلُہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوۡتُ بِالۡجُنُوۡدِ ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ مُبۡتَلِیۡکُمۡ بِنَہَرٍ ۚ فَمَنۡ شَرِبَ مِنۡہُ فَلَیۡسَ مِنِّیۡ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَطۡعَمۡہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡۤ اِلَّا مَنِ اغۡتَرَفَ غُرۡفَۃًۢ بِیَدِہٖ ۚ فَشَرِبُوۡا مِنۡہُ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ ؕ فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ہُوَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۙ قَالُوۡا لَا طَاقَۃَ لَنَا الۡیَوۡمَ بِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوا اللّٰہِ ۙ کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ۔

وَ لَمَّا بَرَزُوۡا لِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔

فَہَزَمُوۡہُمۡ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۟ۙ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَ اٰتٰٮہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ۔

(البقرۃ: 247تا252)

ترجمہ: کیا تُونے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کا حال نہیں دیکھا۔ جب انہوں نے اپنے ایک نبی سے کہا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر تاکہ ہم اللہ کی راہ میں قتال کریں۔ اس نے کہا۔ کہیں تم ایسے تو نہیں کہ اگر تم پر قتال فرض کیا جائے تو تم قتال نہ کرو۔ انہوں نے کہا آخر ہمیں ہوا کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں قتال نہ کریں جبکہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں اور اپنی اولاد سے جدا کئے گئے ہیں۔ پس جب (بالآخر) قتال ان پر فرض کر دیا گیا تو ان میں سے معدودے چند کے سوا سب نے پیٹھ پھیر لی۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ یقیناً اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کو ہم پرحکومت کا حق کیسے ہوا جبکہ ہم اس کی نسبت حکومت کے زیادہ حقدار ہیں اور وہ تو مالی و سعت (بھی) نہیں دیا گیا۔ اُس (نبی) نے کہا یقینا ًاللہ نے اسے تم پر ترجیح دی ہے اور اُسے زیادہ کردیا ہے علمی اور جسمانی فراخی کے لحاظ سے۔ اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک عطا کرتا ہے اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ یقیناً اس کی بادشاہت کی نشانی یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے ربّ کی طرف سے سکینت ہو گی، اور (اس چیز کا) بقیہ ہو گا جو موسیٰ کی آل اور ہارون کی آل نے (اپنے پیچھے) چھوڑا۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ یقیناً اس میں تمہارے لئے (ایک بڑا) نشان ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔

پس جب طالوت لشکر لے کر روانہ ہوا تو اس نے کہا کہ یقیناً اللہ تمہیں ایک دریا کے ذریعے آزمانے والا ہے۔ پس جس نے اس میں سے پیا اس کا مجھ سے تعلق نہیں رہے گا۔ اور جس نے اسے (سیر ہوکر) نہ پیا تو وہ یقینا ًمیرا ہے سوائے اس کے جو ایک آدھ مرتبہ چُلو بھر کر پی لے۔ پھر بھی معدودے چند کے سوا ان میں سے اکثر نے اس میں سے پی لیا۔ پس جب وہ اُس (دریا) کے پار پہنچا اور وہ بھی جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے تو وہ (نافرمان) بولے کہ آج جالوت اور اس کے لشکر سے نمٹنے کی ہم میں کوئی طاقت نہیں۔ (تب) اُن لوگوں نے جو یقین رکھتے تھے کہ وہ اللہ سے ملنے والے ہیں کہا کہ کتنی ہی کم تعداد جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے کثیر التعداد جماعتوں پر غالب آگئیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

پس جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلہ کے لئے نکلے تو انہوں نے کہا اے ہمارے ربّ! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔

پس انہوں نے اللہ کے حکم سے انہیں شکست دے دی۔ اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا۔ اور اللہ نے اسے ملک اور حکمت عطا کئے اور اُسے جو چاہا اُس کی تعلیم دی۔ اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں بچانے کا سامان نہ کیا جاتا تو زمین ضرور فساد سے بھر جاتی۔ لیکن اللہ تمام جہانوں پربہت فضل کرنے والا ہے۔

’’شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا‘‘میں جناب سید قاسم محمود لکھتے ہیں:

’’تابوت سکینہ مسلمانوں کے لیے صرف ایک صندوق جتنی اہمیت رکھتا ہے اور قرآن میں اس کے بارے میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کو اس وقت فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے مزید اس کے بارے میں قرآن اور حدیث میں مکمل خاموشی ہےلیکن تابوت سکینہ یہودی مذہب میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور اسے انتہائی مقدس سمجھا جاتا ہے۔ مسیحیت میں بھی یہ اہمیت کا حامل ہے اور اس کا ذکر ان کی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ ‘‘

(شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیاصفحہ 503، جلد اوّل، از سید قاسم محمود، عطش درانی، مکتبہ شاہکار لاہور)

بائبل اور تابوت سکینت

چونکہ تابوت سکینہ کا تعلق یہود اور بنی اسرائیل سے ہے اس لیے سب سے پہلے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ بائبل اس تابوت کے متعلق کیا کہتی ہے؟ چنانچہ اس صندوق کی ساخت کے متعلق پاکستان بائبل سوسائٹی کے اُردو ترجمہ مطبوعہ 2008ء میں لکھا ہے:

’’اور وہ کیکر کی لکڑی کا ایک صندوق بنائیں جس کی لمبائی ڈھائی ہاتھ اور چوڑائی ڈیڑھ ہاتھ اور اونچائی ڈیڑھ ہاتھ ہو۔ اور تو اس کے اندر اور باہر خالص سونا منڈھنا اور اس کے اوپر گردا گرد ایک زریں تاج بنانا۔ اور اس کے لیے سونے کے چار کڑے ڈھال کر اس کے چاروں پایوں میں لگانا۔ دو کڑے ایک طرف ہوں اور دو ہی دوسری طرف۔ اور کیکر کی لکڑی کی چوبیں بنا کر ان پر سونا منڈھنا اور ان چوبوں کو صندوق کے اطراف کے کڑوں میں ڈالنا کہ ان کے سہارے صندوق اُٹھ جائے۔ چوبیں صندوق کے کڑوں کے اندر لگی رہیں اور اس سے الگ نہ کی جائیں۔ اور تو اس شہادت نامہ کو جو میں تجھے دوں گا اسی صندوق میں رکھنا۔ ‘‘

(خروج باب 25آیات10تا 16)

جبکہ ایک پرانے ایڈیشن میں لکھا ہے کہ

’’وے شطیم کی لکڑی کا ایک صندوق بنا ویں جس کی لمبا ئی ڈھا ئی ہا تھ اور چوڑائی ڈیڑ ھ ہاتھ اور اونچا ئی ڈیڑھ ہاتھ ہووے۔ ‘‘

(خروج باب25آیت10)

یہود کے ہاں اس تابوت کی اہمیت

بنی اسرائیل اس صندوق کو بڑا متبرک اور اپنے لیے فتح و نصرت کا نشان سمجھتےتھے۔ جب یہ صندوق ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو پوری قوم کی ہمت جواب دے گئی اور ہر ایک اسرائیلی یہ سوچنے لگا کہ خدا کی رحمت ہم سے دور ہو گئی اور اب ہمارے برے دن آگئے۔

(سموئیل1باب6، 7)

یہ تابوت بہت مقدس شمار کیا جاتا تھا اور مذہبی راہ نما اسے ہمیشہ اٹھایا کرتے اور اس کی حفاظت کے لیے فوج کا ایک دستہ بھی مقرر تھا نیز یہ بنی اسرائیل کے نزدیک فتح و ظفراور برکت کی علامت تھا۔ جنگوں کے دوران لشکر سے آگے رکھا جاتا اور یہ سمجھا جاتا کہ اس تابوت کی برکت سے جیت ہمیشہ بنی اسرائیل کی ہی ہو گی۔

اجزائے تابوت

یعنی اس صندوق میں کیا ہے؟

یہودیوں اور مسیحیوں کے نظریے کے مطابق تابوت سکینہ حضرت موسیٰؑ نے خدا کے کہنے پر بنایا تھا اور اس میں یہودی مذہبی تعلیمات پر مشتمل پتھر کی لوحیں رکھی تھیں جو کوہِ سینا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی تھیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں عصائے موسٰی اور من وسلویٰ بھی رکھا گیا تھا جو بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل کیا تھا۔

بائبل کے مطابق اس میں حضرت یوسفؑ کا جسد مبارک اور بائبل ہی کی بعض روایات کی رُو سے ہڈیاں اور کپڑے تھے جسے ہجرت کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے اپنے ساتھ لائے تھے۔

تواریخ2 باب 5 آیت 10کے مطابق تابوت کو جب ہیکل سلیمانی میں رکھا جا رہا تھا تو:

’’اور اُس صندوق میں کُچھ نہ تھا سِوا پتھر کے اُن دو لوحوں کے جن کو موسیٰ نے حورن پر اس میں رکھا تھا جب خُداوند نے بنی اسرائیل سے جس وقت وہ مصر سے نکلے تھے عہد باندھا۔ ‘‘

قصص الانبیاء میں مذکورہے کہ اس متبرک صندوق میں تورات کا اصل نسخہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے عصا و پیرہن اور منّ کا مرتبان محفوظ تھے۔ فلسطینیوں نے اسے اسرائیلیوں سے چھین کر اپنے مندر ’’بیت وُجون‘‘ میں رکھ دیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اس میں آل موسیٰ اور آل ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات تھے۔ جن میں پتھر کی وہ تختیاں جو طور سینا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو دی تھیں۔ اس کے علاوه تورات کا وہ اصل نسخہ جسے حضرت موسیٰؑ نے لکھوا کر بنی لاوی کی حفاظت میں دیا تھا۔ نیز ایک بوتل بھی اس میں رکھ دی جس میں ’’من‘‘بھر کر محفوظ کر دیا گیا تھا تاکہ آنے والی نسلیں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں جو صحرا میں ان کے باپ دادوں پر کیا گیا تھا اور غالباً حضرت موسیٰؑ کا عصا بھی اس صندوق کے اندر تھا۔

تابوت کی گم شدگی

بنی اسرائیلی روایات کے مطابق جب بنی اسرائیل اللہ کے احکام کی نافرمانی کرنے لگے اور کھلم کھلا ایسے کام کرنے لگے جن سے اللہ نے انہیں منع فرمایا تھا تو یہ تابوت ان سے ایک جنگ کے دوران کھو گیا اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر یہ تابوت حضرت طالوت علیہ السلام کے زمانے میں واپس مل گیا۔

بائبل کے مطابق یہ صندوق ایک ظاہری صندوق تھا جسے ایک بار دشمن اٹھا کر لے گئے تھے۔ عہد کا یہ صندوق ان سے چھن گیا۔ پھر فلستیوں کے پاس پہنچا اور سات مہینے ان کے پاس رہا پھر انہو ں نے یہ صندوق قریت یعریم کے لوگوں کےحوالے کر دیا۔ پھر ساؤل کا بادشاہ بنایا جانا اور اس تابوت کی واپسی کا سارا واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ 1۔ سموئیل میں درج ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:

’’اور جب لوگ لشکر گاہ میں پھر آئے تھے تب اسرائیل کو بزرگوں نے کہا کہ خداوند نے ہم کو فلستیوں کے سامنے کیوں شکست دی۔ آ ؤ ہم خدا کے عہد کا صندوق سیلا سے اپنے پاس لے آ ئیں تا کہ وہ ہمارے درمیان ہو کے ہم کو ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں سے رہا ئی دیوے۔ سو انہوں نے سیلا میں لو گ بھیجے تا کہ وہ رب الا فواج کے عہد کے صندوق کو جو دو کر وبیوں کے درمیا ن دھرارہتا ہے وہاں سے لے آویں اور عیلی کے دونوں بیٹے حفنی اورفیخاسںخدا کے عہد کے صندوق کے پا س وہاں حاضر تھے۔ اور جب خدا وند کے عہد کا صندوق لشکر گاہ میں آ پہنچا تو اسرائیلی خوب للکارے۔ ایسا کہ زمین لرز گئی اور فلستیوں نے جو للکارنے کی آ واز سنی تو بو لے کہ ان عبرانیوں کی لشکر گاہ میں کیسی للکارنے کی آ واز ہے۔ پھر انہوں نے معلوم کر لیا کہ خدا وند کا صندوق لشکر گاہ میں آ پہنچا۔ سو فلستی ڈر گئے اور انہوں نے کہا۔ خدا لشکر گاہ میں آ یا ہے۔ اور بولے ہم پر وا ویلا ہے اس لیے کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہ ہوا۔ ہم پر واویلا ہے۔ ایسے خدا ئے قادر کے ہاتھ سے ہمیں کون بچائےگا۔ یہ وہ خدا ہے جس نے مصریوں کو میدان میں ہر ایک قسم کی بلا سے مارا۔ اے فلستیو! تم مضبوط ہو اور مردانگی کرو تا کہ تم عبرانیوں کے بندے نہ بنو جیسے کہ وے تمہارے بندے بنے بلکہ مرد کی طرح بہادری کرو اور لڑو۔ سو فلستی لڑے اور بنی اسرائیل نے شکست کھائی اور ہر ایک اپنے اپنے خیمے کو بھا گا۔ اور وہاں نہا یت بڑی خونر یزی ہوئی کہ تیس ہزار اسرائیلی پیا دے مارے پڑے اور خدا کا صندوق لُو ٹا گیا۔ ‘‘

(1۔ سموائیل باب 4آیت 3تا 11)

یہ الگ بات ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ آگے چل کر اِس کی تفصیل آئے گی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ تابوت جب تک مشرکین کے پاس رہا تب تک وہ شدید مشکلات کا شکار رہے اور ان پر آفات سماوی نازل ہوتی رہیں جن کی وجہ سے آخرکار تنگ آکر انہوں نے ایک بیل گاڑی پر تابوت رکھا اور اپنے علاقے سے باہر نکال دیا وہاں سے فرشتوں نے اس بیل گاڑی کو ہنکا کر واپس بنی اسرائیل تک پہنچا دیا۔

حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے تک اس تابوت کو رکھنے اور سنبھالنے کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں تھا اور جنگ کے دوران پڑاؤ کی جگہ پر ایک الگ خیمہ لگا کر اس میں یہ صندوق رکھ دیا جاتا تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے خدا کے حکم سے خدا کا گھر بنانا شروع کیا جو عین اس مقام پر تھا جہاں آج مسجد اقصیٰ موجود ہےلیکن یہ عالی شان گھر آپ کے بیٹے حضرت سلیمان کے عہد میں مکمل ہوا اور اس لیے اسے ہیکلِ سلیمانی کا نام دیا گیا۔ اس گھر کی تعمیر کے بعد تابوت سکینہ کو یہاں مکمل ادب واحترام کے ساتھ رکھ دیا گیا۔ یوں یہ مقام یہودیوں کے لیے مقدّس ترین مقام بن گیا۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتاہے کہ بعد کے زمانے میں پیش آنے والی جنگوں نے ہیکلِ سلیمانی کو بہت نقصان پہنچایا حتٰی کہ بابل کے بادشاہ بخت نصر (نبو کد نضر) نے اسے مکمل طور پر تباہ کر کے آگ لگا دی، وہ یہاں سے مالِ غنیمت کے ساتھ ساتھ تابوتِ سکینہ بھی لے گیا۔ اس تباہی کے نتیجے میں آج اصلی ہیکل کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ ان تمام تباہیوں کے نتیجے میں تابوت سکینہ ایسا غائب ہوا کہ بعد ازاں اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔

تابوت سکینہ کے متعلق بہت سی روایات ملتی ہیں، بعض مفسّرین کے مطابق یہ روایات نومسلم یہود نےاسلام میں داخل کیں اس کی تفصیل الاسرائیلیات والموضوعات فی کتب التفسیر میں ملتی ہیں۔ بحارالانوار جلد13باب19 ’’قصة إشمويل عليه السلام و طالوت و جالوت و تابوت السكينة‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تابوت ائمہ علیہ السلام کے پاس نسل در نسل موجود رہا۔

آج بھی ماہرین آثار قدیمہ اور خصوصاً یہودی ماہرین تابوت سکینہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں تاکہ اسےپاکر وہ اپنی اس روحانیت کو واپس پا سکیں جو کبھی انہیں عطا کی گئی تھی۔ وکی پیڈیا کے مطابق تابوت سکینہ کی موجودہ جگہ کے متعلق لوگ مختلف قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اسے افریقہ لے جایا گیا، مشہور ماہر آثار قدیمہ ران وائٹ کا کہنا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں موجود ہے اور کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ برطانیہ میں اس کے آثار ملے ہیں۔ بہرحال آج تک تابوت سکینہ کی تلاش میں ناکامی کا ہی سامنا ہے۔

جب لوگ کسی معاملے میں تحقیق کر رہے ہوں تو کوئی بھی روایت اس میں داخل کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں تحقیق کرتے ہوئے وکی پیڈیا پر ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ یہ تابوت قیصرانی قبیلے کے علاقے غربن میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ غربن پاکستان کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی ایک تحصیل تونسہ شریف میں واقع ہے۔

تفاسیر قرآنیہ

اب ہم دیکھتے ہیں کہ تفاسیر قرآن کریم میں مسلمان مفسرین نے تابوت سکینت والی اس آیت کے زیرتفسیر کیا لکھا ہے

جب ہم قرآن کریم کے مسلمان مفسرین کی تفاسیر اٹھاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تابوت سکینہ کے تعلق میں بعض مسلمان مفسرینِ قرآن بھی اسرائیلی روایات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے حالانکہ اگر وہ

یُفَسِّرُبَعْضُہٗ بَعْضًا

والے اصل کو سمجھ کر اس آیت کی تفسیر کرتےتو ایسا نہ ہوتا بلکہ وہ تابوت سکینہ کی لطیف تفسیر کرتےجبکہ انہوں نے ان آیات کی تفسیر میں بے سروپا باتیں درج کر دی ہیں اور نفسِ مضمون اور اس کی مقصدیت و حکمت سمجھنے اور بیان کرنے کی بجائے اس کے لفظی تعاقب پر ہی اکتفا کیا ہے لیکن ایسے مفسرینِ قرآن بھی موجود ہیں جنہوں نے ان آیات کے مفہوم کو سمجھا اور اسے رُوحانی معانی کا بیش قیمت زیور پہنایا۔ وقت کی رعایت سے چند ایک نمونےپیش خدمت ہیں:

تفسیر القرطبی میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

’’وَقالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ) إِتْيَانُ التَّابُوتِ، وَالتَّابُوتُ كَانَ مِنْ شَأْنِهِ فِيمَا ذُكِرَ أَنَّهُ أَنْزَلَهُ اللّٰهُ عَلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَكَانَ عِنْدَهُ إِلَى أَنْ وَصَلَ إِلَى يَعْقُوبَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَكَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ يَغْلِبُونَ بِهِ مَنْ قَاتَلَهُمْ حَتَّى عَصَوْا فَغُلِبُوا عَلَى التَّابُوتِ غَلَبَهُمْ عَلَيْهِ الْعَمَالِقَةُ: جَالُوتُ وَأَصْحَابُهُ فِي قَوْلِ السُّدِّيِّ، وَسَلَبُوا التَّابُوتَ مِنْهُمْ. قُلْتُ: وَهَذَا أَدَلُّ دَلِيلٍ عَلَى أَنَّ الْعِصْيَانَ سَبَبُ الْخِذْلَانِ، وَهَذَا بَيِّنٌ. قَالَ النَّحَّاسُ: وَالْآيَةُ فِي التَّابُوتِ عَلَى مَا رُوِيَ أَنَّهُ كَانَ يُسْمَعُ فِيهِ أَنِينٌ، فَإِذَا سَمِعُوا ذَلِكَ سَارُوا لِحَرْبِهِمْ، وَإِذَا هَدَأَ الْأَنِينُ لَمْ يَسِيرُوْا وَلَمْ يَسِرِ التَّابُوتُ. وَقِيلَ: كَانُوا يَضَعُونَهُ فِي مَأْزِقِ الْحَرْبِ فَلَاتَزَالُ تَغْلِبُ حَتَّى عَصَوْا فَغُلِبُوا وَأُخِذَ مِنْهُمُ التَّابُوتُ وَذَلَّ أَمْرُهُمْ، فَلَمَّا رَأَوْا آيَةَ الِاصْطِلَامِ وَذَهَابِ الذِّكْرِ، أَنِفَ بَعْضُهُمْ وَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِهِمْ حَتَّى اجْتَمَعَ مَلَؤُهُمْ أَنْ قَالُوْا لِنَبِيِّ الْوَقْتِ: ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا، فَلَمَّا قَالَ لَهُمْ: مَلِكُكُمْ طَالُوتُ رَاجَعُوهُ فِيهِ كَمَا أَخْبَرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ، فَلَمَّا قَطَعَهُمْ بِالْحُجَّةِ سَأَلُوهُ الْبَيِّنَةَ عَلَى ذَلِكَ، فِي قَوْلِ الطَّبَرِيِّ. فَلَمَّا سَأَلُوا نَبِيَّهُمُ الْبَيِّنَةَ عَلَى مَا قَالَ، دَعَا رَبَّهُ فَنَزَلَ بِالْقَوْمِ الَّذِينَ أَخَذُوا التَّابُوتَ دَاءٌ بِسَبَبِهِ، عَلَى خِلَافٍ فِي ذَلِكَ. قِيلَ: وَضَعُوهُ فِي كَنِيسَةٍ لَهُمْ فِيهَا أَصْنَامٌ فَكَانَتِ الْأَصْنَامُ تُصْبِحُ مَنْكُوسَةً. وَقِيلَ: وَضَعُوهُ فِي بَيْتِ أَصْنَامِهِمْ تَحْتَ الصَّنَمِ الْكَبِيرِ فَأَصْبَحُوا وَهُوَ فَوْقُ الصَّنَمِ، فَأَخَذُوهُ وَشَدُّوهُ إِلَى رِجْلَيْهِ فَأَصْبَحُوْا وَقَدْ قُطِعَتْ يَدَا الصَّنَمِ وَرِجْلَاهُ وَأُلْقِيَتْ تَحْتَ التَّابُوتِ، فَأَخَذُوهُ وَجَعَلُوهُ فِي قَرْيَةِ قَوْمٍ فَأَصَابَ أُوْلَئِكَ الْقَوْمَ أَوْجَاعٌ فِي أَعْنَاقِهِمْ. وَقِيلَ: جَعَلُوهُ فِي مَخْرَأَةِ قَوْمٍ فَكَانُوا يُصِيبُهُمُ الْبَاسُورُ، فَلَمَّا عَظُمَ بَلَاؤُهُمْ كَيْفَمَا كَانَ، قَالُوا: مَا هَذَا إِلَّا لِهَذَا التَّابُوتِ! فَلْنَرُدَّهُ إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فَوَضَعُوْهُ عَلَى عَجَلَةٍ بَيْنَ ثَوْرَيْنِ وَأَرْسَلُوهُمَا فِي الْأَرْضِ نَحْوَ بِلَادِ بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَبَعَثَ اللّٰهُ مَلَائِكَةً تَسُوقُ الْبَقَرَتَيْنِ حَتَّى دخلنا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَهُمْ فِي أَمْرِ طَالُوتَ فَأَيْقَنُوْا بِالنَّصْرِ، وَهَذَا هُوَ حَمْلُ الْمَلَائِكَةِ لِلتَّابُوتِ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ. وَرُوِيَ أَنَّ الْمَلَائِكَةَ جَاءَتْ بِهِ تَحْمِلُهُ وَكَانَ يُوشَعُ بْنُ نُونَ قَدْ جَعَلَهُ فِي الْبَرِّيَّةِ، فَرُوِيَ أَنَّهُمْ رَأَوُا التَّابُوتَ فِي الْهَوَاءِ حَتَّى نَزَلَ بَيْنَهُمْ، قَالَهُ الرَّبِيعُ بْنُ خَيْثَمٍ. وَقَالَ وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ: كَانَ قَدْرُ التَّابُوتِ نَحْوًا مِنْ ثَلَاثَةِ أَذْرُعٍ فِي ذِرَاعَيْنِ. الْكَلْبِيُّ: وَكَانَ مِنْ عُودِ شِمْسَارٍ الَّذِي يُتَّخَذُ مِنْهُ الْأَمْشَاطُ. وَقَرَأَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ’’التَّابُوهُ‘‘ وَهِيَ لُغَتُهُ، وَالنَّاسُ عَلَى قِرَاءَتِهِ بِالتَّاءِ وَقَدْ تَقَدَّمَ. وَرُوِيَ عَنْهُ’’التَّيْبُوتُ‘‘ ذَكَرَهُ النَّحَّاسُ. وَقَرَأَ حُمَيْدُ بْنُ قَيْسٍ’’يَحْمِلُهُ‘‘ بِالْيَاءِ‘‘

’’تابوتِ سکینہ حضرت آدم علیہ السلام کا صندوق تھا، آپ علیہ السلام کے بعد نسل در نسل چلتے چلتے حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا، پھر بنی اسرائیل کے انبیاء میں چلتا رہا، حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے بعد ان کے اور دیگر انبیاء کے تبرکات اس میں موجود تھے، بنی اسرائیل اس صندوق کو لڑائی میں آگے رکھتے اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے فتح دیتے تھے، جب بنی اسرائیل نے نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے قومِ عمالقہ (جالوت اور اس کی قوم) کو ان پر مسلط کیا، انہوں نے بنی اسرائیل اور ان کے شہروں کو تاراج کیا، انہیں علاقہ بدر بھی کیا، ان کی اولادوں کو قتل و گرفتار بھی کیا اور تابوت بھی لے گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے جالوت اور اس کی قوم کو تابوت کی وجہ سے مختلف آزمائشوں میں گرفتار کیا، انہوں نے تابوت کو بیل گاڑی پر رکھ کر بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہنکا دیا، اس پورے عمل میں فرشتے پسِ پردہ مختلف امور انجام دیتے رہے اس وجہ سے سورت بقرہ میں اللہ پاک نے فرمایا کہ فرشتے اسے اٹھالائیں گے، یا پھر براہِ راست فرشتے اٹھاکر لائے، اور تابوت کا لوٹنا اللہ کے نیک بندے طالوت کی بادشاہت کے من جانب اللہ ہونے کی دلیل ٹھہری۔ چنانچہ بنی اسرائیل طالوت کی قیادت میں عمالقہ سے لڑے اور حضرت داؤد علیہ السلام جو طالوت کے لشکر میں شامل تھے اور ابھی تک نبوت سے سرفراز نہیں ہوئے تھے، انہوں نے بہت بہادری سے کفار کا مقابلہ کیا اور جالوت (کافر بادشاہ) کو قتل کردیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو بادشاہت، حکمت اور نبوت عطا فرمائی اور جو چاہا علم دیا۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے نبوت اور بادشاہت ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک عظیم الشان عبادت گاہ (مسجد) تعمیر کرانا شروع کی، اسی تعمیر کو ’’ہیکل سلیمانی‘‘ کہا جاتاہے، جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے والد کی وصیت کے مطابق نہایت اہتمام اور شان سے مکمل کروایا، یہاں تک کہ اس کی تعمیر میں اِتقان و اِستحکام کے لیے جنات سے بھی خدمت لی۔ چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس مسجدِ بیت المقدس کی تکمیل کی اور نمایاں وعظیم الشان تعمیرات آپ علیہ السلام نے کروائیں اس لیے اسے ہیکلِ سلیمانی کہا جاتاہے۔ معلوم ہواکہ ہیکلِ سلیمانی سے مراد وہی مسجدِ بیت المقدس ہے جس کی تعمیر کا ذکر قرآنِ مجید نے بھی کیا ہے، اور جو آج تک موجود ہے، جہاں سے رسول اللہﷺ کو معراج کے موقع پر آسمانوں کے سفر کے لیے لے جایا گیا۔ اس کے علاوہ مزید کوئی خاص وضع کی تعمیر مراد نہیں ہے۔ ‘‘

تفسیرمعارف القرآن میں مفتی شفیع لکھتے ہیں:

’’اَنْ يَّاْتِيَكُمُ التَّابُوْت بنی اسرائیل میں ایک صندوق چلا آتا تھا، اس میں برکات تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وغیرہ انبیاء (علیہم السلام) کے، بنی اسرائیل اس صندوق کو لڑائی میں آگے رکھتے اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے فتح دیتا، جب جالوت بنی اسرائیل پر غالب آیا تو یہ صندوق بھی وہ لے گیا تھا، جب اللہ تعالیٰ کو صندوق کا پہنچانا منظور ہوا تو یہ کیا کہ وہ کافر جہاں صندوق کو رکھتے وہیں وبا اور بلا آتی، پانچ شہر ویران ہوگئے، ناچار ہو کردو بیلوں پر اس کو لاد کر ہانک دیا، فرشتے بیلوں کو ہانک کر طالوت کے دروازے پر پہنچا گئے، بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر یقین لائے اور طالوت نے جالوت پر فوج کشی کردی اور موسم نہایت گرم تھا۔ ‘‘

تفسیر جلالین میں درج ہے:

’’اس تابوت میں موسیٰ اور ہارون کے تبرکات تھے، اس تابوت کو ان کے دشمن عمالقہ چھین کرلے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر یہ تابوت فرشتوں کے ذریعہ حضرت طالوت کے دروازہ پر پہنچا دیا جسے دیکھ کر بنی اسرائیل بہت خوش ہوئے اور من جانب اللہ طالوت کی بادشاہت کی نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس تابوت کو ان کی فتح و شکست کا سبب قرار دیا۔ ‘‘

(تفسیرجلالین، جلال الدین السیوطی، سورت البقرۃ، آیت248)

مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی نے تابوت سکینہ سے مراد مقامات مقدسہ لیے ہے جن پر قبضہ کرنے کی کوشش میں آج بھی یہود سرگرداں ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی اپنی چار جلدوں پر مشتمل تصنیف قصص القرآن میں تابوت سکینہ والی آیت کی ذیل میں رقم طراز ہیں:

’’یہودیوں کے ہاں بھی اہمیت اسی لحاظ سے ہے کہ وہ بھی ان انبیاء کے ماننے والے ہیں ؛ لہٰذا یہ مقدسات ہیں، جن پر قبضہ کرنے کا وہ خواب دیکھتے ہیں۔ تاہم یہود بے بہبود نے اپنی عادت کے مطابق (کہ جیسے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اَحکام میں تبدیلی و تحریف کی) یہاں بھی کچھ من گھڑت نظریات اور باتیں پھیلا دی ہیں، جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے، ان کی حیثیت توہمات اور شیطانی دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ حقیقت وہی ہے جس کی نشان دہی قرآنِ مجید نے کردی ہے۔ فقط واللہ اعلم‘‘

علامہ شبیراحمد عثمانی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’بنی اسرائیل میں ایک صندوق چلا آتا تھا اس میں تبرکات تھے موسیٰ وغیرہ انبیائے بنی اسرائیل اس صندوق کو لڑائی میں آگے رکھتے اللہ اس کی برکت سے فتح دیتا جب جالوت غالب آیا ان پر تو یہ صندوق بھی وہ لے گیا تھا جب اللہ تعالیٰ کو صندوق کا پہنچانا منظور ہوا تو یہ کہا کہ وہ کافر جہاں صندوق رکھتے وہیں وبا اور بلا آتی پانچ شہر ویران ہو گئے ناچار ہو کر دو بیلوں پر اس کو لاد کر ہانک دیا فرشتے بیلوں کو ہانک کر طالوت کے دروازے پر پہنچا گئے بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر یقین لائے اور طالُوت (ساؤل) نے جالوت پر فوج کشی کی اور موسم نہایت گرم تھا۔ ‘‘

(تفسیر عثمانی، شبیر احمد عثمانی۔ سورت البقرۃ، آیت248)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر میں ظاہری اور روحانی دونوں معانی بیان کیے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’تابوت بروزن فعلوت۔ توب سے مشتق ہے جس کے معنی رجوع کے ہیں۔ اور اسے تابوت اس لیے کہتے ہیں کہ جو چیز اس میں سے نکالی جاتی تھی وہ پھر واپس اسی میں چلی آتی تھی۔

اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ تابوت بمعنی لکڑی کا صندوق عموماً مستعمل ہے اس کی جمع توابیت ہے۔ سکینۃ یعنی اس میں ایسی چیزیں رکھی ہوئی ہیں جن سے تمہاری تسکین ہو جائے گی۔ یا تابوت کی واپسی کا امر سکون اورطمانیت کاموجب ہو گی۔ سکینۃ۔ تسکین۔ تسلی خاطر۔ اطمینان۔ سکون سے بروزن فعیلۃ مصدر ہے جو اسم کی جگہ استعمال ہوا ہے۔ جیسے کہ عزیمۃ ہے۔ ‘‘

(تفسیر مظہری۔ قاضی ثنا ءاللہ پانی پتی)

اب چند مثالیں ان تفاسیر کی ملاحظہ فرمایئے جنہوں نے تابوتِ سکینہ کے روحانی معانی مراد لیے ہیں۔ چنانچہ علامہ بُغوی سید محمد مرتضٰی زبیدی لکھتے ہیں:

’’سکینہ وہ اطمینان۔ چین و قرار اور سکون ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کے قلب میں اس وقت نازل فرماتا ہے جب کہ وہ ہولناکیوں کی شدت سے مضطرب ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد جو کچھ بھی اس پر گزرے وہ اس سے گھبراتا نہیں ہے یہ اس کے لیے ایمان کی زیادتی۔ یقین میں قوت اور استقلال کو ضروری کر دیتا ہے۔ ‘‘

(انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد1 صفحہ204، علی محمد، سورت البقرۃ، آیت248، مکتبہ سید احمد شہید لاہور)

یہاں پر اہل قرآن کے بانی جناب غلام احمد پرویز کا ایک بہت لمبا لیکچر قابل ذکر ہے۔ یہ لیکچر انہوں نے 29؍جون 1969ء کو دیا۔ متعلقہ حصہ پیش خدمت ہے:

’’تابوتِ سکینہ (عام ترجمہ جو کیا جاتا ہے) واپس لے کر آئے گا جس میں موسیٰؑ اور ہارونؑ کے باقیات ہیں اور اسے فرشتے اُٹھائے ہوتے ہیں۔ یہ ترجمہ کیا جاتا ہے۔ یہ ترجمہ دراصل تورات کے بیان پر مبنی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ ان کا سونے سے منڈھا ہوا ایک صندوق ہوتا تھا اس میں تبرکات ہوتے تھے، وہ محفوظ رکھا تھا، کچھ عرصے کے بعد دشمن اس کو چھین کر لے گیا اور یہ اس کی واپسی کے لیے بہت متردد اور پریشان تھے اور کہا یہ گیا کہ اس کی پہلی نشانی یہ ہے کہ یہ وہ تابوت واپس لے آئے گا۔ پھر اس تابوت کو فرشتے اُٹھائے ہوئے تھے، وہ پھر واپس چھوڑ گئے۔ تورات کا یہ بیان ہے۔ اب وہ تو ان باریکیوں میں جاتے نہیں تھے کہ اگر فرشتے اُٹھائے ہوئے تھے، انہی کا تابوت تھا، تو پھر وہ یہ انتظار کیوں کرتے رہے کہ یہ طالوت آئے، کماندار بنے، فوج آئے، وہ آگے بڑھے، پھر وہ فرشتے لے کر آئیں۔ یہاں تابوت ہے جس میں سکینت ہے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ ہمارے ہاں بھی یہ بنیادی نقص ہوگیا کہ ایک لفظ کا ایک معنی لیا گیا اور ہر جگہ وہی معنی چسپاں کیے گئے۔ حالانکہ اہل زبان جانتے ہیں، ہر زبان میں یہ کیفیت ہے کہ ایک لفظ کئی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور عربی زبان میں تو پھر یہ خصوصیت بڑی وسیع ہے، خود زبان بڑی وسیع ہے۔ ایک اس کے مادے کے اعتبار سے، بنیادی معنی ہوتے ہیں پھر استعمال کے اعتبار سے مختلف مقامات پر اس کے مختلف معنی ہوتے ہیں اور یہ نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے اس کو وہ معنی پہنا دے۔ اہل زبان نے وہ معنی متعین کیے ہوتے ہیں اور اسے ہمیں کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ قرآنِ کریم کلام تو خدا کا ہے، اترا ہے عربی مبین میں، ان لوگوں کی زبان میں جو صاف واضح زبان ہے۔ لہٰذا اس کے الفاظ کے معنی سمجھنے کے لیے دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ اہل زبان اسے کس معنی میں لیتے تھے اور جب وہ چیز سامنے آ جائے معنی متعین ہو جائیں اور پھر قرآنِ کریم کے دیگر مقامات میں اسے دیکھ لیا جائے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ تصریف آیات سے اپنے مطالب کو واضح کرتا ہے۔ ایک بات ایک جگہ کہتا ہے، دوسرے مقامات اس کی تشریح کرتا ہے، تفصیل دیتا ہے، استثنا کرتا ہے، اضافہ کرتا ہے اور اگر وہ سارے کے سارے مقامات سامنے آ جائیں تو قرآن کی کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جو تشنہ تفصیل رہ جائے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ وہ کیا لائے گا؟ کہا کہ تابوت لائے گا۔

ٹھیک ہے تابوت صندوق کو بھی کہتے ہیں، تابوت قلب کو بھی کہتے ہیں دل کو بھی کہتے ہیں۔ ان کی کیفیت یہ تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں، موت کے ڈر سے، گھر بار چھوڑ کر، بھاگ نکلے ہوئے تھے…اضطراب کا یہ عالم تھا کہ پھر کہیں ایک مرکز پہ جمع نہیں ہو سکتے۔ دل ہے کہ وہ اضطرابِ پیہم اور اضطرار کی آماجگاہ بن رہا ہے، سکون نصیب نہیں ہے۔ پہلی چیز یہ کہی کہ ٹھیک ہے، فتح تو ہوگی اور سب سے بڑی جو اس قسم کے کماندار کی زیر کمان حاصل ہوگی وہ یہ ہوگی کہ تمہیں ایک قلب ملے گا جس میں سکینت ہوگی، تسکین قلب حاصل ہو جائے گی۔ سب سے بڑی دولت تو یہ ہے لیکن یہ سکونِ قلب وہ نہیں ہے جو افیونیوں کو حاصل ہوا کرتا ہے، یہ وہ نہیں ہے جو زاویوں میں اور تکیوں میں حاصل ہوا کرتا ہے، کونوں میں اور حجروں میں حاصل ہوا کرتا ہے۔

برادرانِ عزیز! میدانِ جنگ میں فتح کے بعد جو سکون حاصل ہوتا ہے، یہ وہ سکون ہے جو بتایا گیا ہے۔ Positive (مثبت) سکون تو یہ ہوتا ہے کہ آپ شرکی قوتوں کے اُوپر غالب آ جائیے اور اس کے بعد جو آپ کو توازن نصیب ہوتا ہے، آپ کی Personality میں اسے سکینیت کہتے ہیں۔ ایک اطمینان ہوتا ہے ایک فریب نفس ہوتا ہے اور ایک اطمینان بذکر اللہ ہوتا ہے جو قانونِ خداوندی کو ہر وقت سامنے رکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور اس کے برعکس ایک اطمینان افیون کا ہوتا ہے جبکہ قرآن Positive (مثبت) سکون، تسکین عطا کرتا ہے اور اس کے لیے ہم نے دیکھ لیا کہ کہاں جا کر یہ ہوتا ہے۔ فوج مرتب ہو رہی ہے، میدانِ جنگ میں جایا جا رہا ہے، وہاں کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے بعد کہا گیا ہے کہ اس میں پھر تمہارے قلب کو ایک سکون حاصل ہوگا اور حضرتِ موسیٰ اور ہارون ان کی جو صحیح صحیح تعلیم تھی اور جو تم سے کھوئی گئی، جس کے تم پابند نہ رہے، وہ اس تعلیم سے واپس لے آئے گا۔ یہ جو تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ (2: 248) ہے کہ یہ ملائکہ اسے اُٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ اُٹھائے ہوئے والی بات نہیں ہے۔ کہا ہے کہ حفاظت میں رکھے ہوئے کائناتی قوتیں اس تعلیم کی حفاظت کر رہی ہیں۔ تم سے تو چھن گئی ہے، وہ موجود ہیں، کائناتی قوتیں ان کی حفاظت کر رہی ہیں۔ اب یہ جو چیز تمہیں میسر آئے گی تو اس کے بعد ایک سکون آمیز قلب ہوگا، وہ صحیح تعلیم ہوگی جو موسیٰؑ اور ہارونؑ چھوڑ گئے تھے اور جو، اب تمہارے پاس نہیں رہی، اور اس کی محافظت کائناتی قوتیں کر رہی ہیں۔ یہ سارا کچھ تمہیں نصیب ہو جائے گا، اس ایک کماندار کی زیر کمان میدانِ جنگ میں جا کر اگر تم نے ثبات اور استقامت سے دشمن کا مقابلہ کیا۔ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (2: 248) جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں، اگر اس پہ تم یقین رکھتے ہو، تو اس میں تمہارے لیے بات کے سمجھنے کی بہت بڑی نشانی ہے۔ ‘‘

(جاری ہے)…

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button