متفرق مضامین

ٹیری فاکس…ایک عالمی ہیرو

(محمد سلطان ظفر۔ کینیڈا)

ٹیرنس اسٹینلے فاکس Terrance Stanley Fox المعروف ٹیری فاکس Terry Fox۔ 28؍جولائی 1958ءکو کینیڈا کے صوبہ مینی ٹوباManitoba کے شہر وِنی پیگ Winnipegمیں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے اسکول Port Coquitlam اورپھر Simon Fraser Universityمیں لمبی دوڑ اور باسکٹ بال کے کھلاڑی تھے۔ 12؍نومبر 1976ء کو گاڑی چلاتے ہوئے اُن کو ایک حادثہ پیش آیا جس میں اُن کے دائیں گھٹنے پر چوٹ آئی جس کی وجہ سے اُن کے گھٹنے میں درد شروع ہوگئی اور یکم جنوری 1977ء کو اُن کی دائیں ٹانگ میں Osteosarcoma نامی ہڈیوں کے کینسرکی تشخیص ہوئی اور ڈاکٹروں کو مجبوراً اُن کی ٹانگ کاٹنی پڑی۔

ٹیری کو جلد ہی پتہ چل گیا کہ اُن کا کینسر، ٹانگ کاٹنے کے باوجود اُن کے جسم میں پھیلنا شروع ہوگیا ہے اور اس کا علاج دُنیا کے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل میں کوئی امید ہے نیز اُن کی زندگی بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔ تاہم ٹیری نے سسک سسک کرمرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے وہیل چیئر پر بیٹھ کر وینکوور میں ہونے والی قومی چیمپئن شپ تین دفعہ جیتی۔ اُن کا باقی ماندہ وقت ریت کے ذرات کی طرح مٹھی سے نکل رہا تھا اور ایسے موقع پر اُنہوں نے ایسا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے اُن کا نام کینسر کے مریضوں کےلیے امید کی ایسی کرن بن گیا جو آج پوری آب وتاب کے ساتھ آفتاب بن کر چمک رہاہے۔

ٹیری فاکس نے فیصلہ کیا کہ وہ کینسر جیسے ناقابل علاج مرض کے لیے تحقیق و مطالعہ اورمریضوں کے علاج کے لیے آگاہی اور فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے، رقبے کے لحاظ سے دُنیا کے دوسرے بڑے ملک کینیڈا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک میراتھن دوڑ لگائیں گے اور 24 ملین کی آبادی کے ہر شخص سے ایک ایک ڈالر لے کر 24 ملین ڈالر کی خطیر رقم بطور عطیہ اکٹھا کریں گے۔

12؍اپریل1980ءکوٹیری فاکس نے نیوفاؤنڈ لینڈ Newfoundland کے شہرسینٹ جانز St. John‘s میں، چنددرجن بہی خواہوں کے سامنے، بحرِاٹلانٹک کے ٹھنڈے پانیوں میں اپنی مصنوعی ٹانگ ڈبو کر، اپنی تاریخی Terry‘s Marathon of Hope کا آغاز کیا۔ ٹیری کے ڈاکٹروں سمیت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ٹیری کا یہ فیصلہ انتہائی احمقانہ ہے۔ لیکن ….ٹیری فاکس نے بھاگنا شروع کردیا۔

ٹیری فاکس روزانہ ایک نارمل میراتھن ریس جتنا دوڑتے تھے۔ راستے میں اُن کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹانگ کی درد بڑھتی جارہی تھی لیکن وہ صبر اور ہمت سے برداشت کرتے رہے تاہم راستے میں ملنے والے لوگوں اور گاڑیوں کا رویہ بعض اوقات بہت تکلیف دہ ہوتا تھا۔ وہ آوازے کستے اور ہارن بجاکراپنے غصہ کا اظہار کرتے۔ … وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ عام سا لڑکا کون ہے اور کیوں دوڑ رہا ہے۔

کینیڈین میڈیا کو جب ٹیری فاکس کے عزم اور دوڑ کی خبر ملی تو اُس نے اُن کی دوڑ کی خبریں واضح طورپر شائع کرنا اور اکا دُکا چینل پر دکھانا شروع کردیں۔ لوگوں کو جوں جوں اُن کے بارے میں علم ہوتا گیا وہ بڑھ چڑھ کر اُن کی مدد کرنے لگ گئے۔ اب لوگ اپنےاپنے شہر، گاؤں اور قصبے میں ٹیری کی آمد کا انتظار کرنے لگے اور جب ٹیری اُن کے شہر میں پہنچتے تو وہ بھی اپنے شہر کی حدود میں اُن کے ساتھ ساتھ دوڑتے رہتے۔

پھرٹیری فاکس کو ایک گاڑی بھی مل گئی جس میں اُن کا سامان اور دوائیں ہوتی تھی۔ نیز اکثر شہروں میں پولیس کے سپاہی اُن کے لیے راستہ صاف رکھنے کی کوشش کرتے۔ صوبہ انٹاریو تک پہنچتے پہنچتے ٹیری فاکس پورے ملک کے ہیرو بن چکے تھے۔

اس دوران اُن کے بیانات بھی اخبارات کی زینت بنتے چلے گئے۔ اپنی ریس کے پندرھویں دن اُن کا کہنا تھا کہ ’’آج ہم صبح 4بجے اُٹھے اور حسبِ معمول یہ ایک مشکل کام تھا۔ اگر میں مرجاتا ہوں تو میری لیے بڑی خوش قسمتی ہوگی کہ وہ کام کرتے ہوئے مارا گیا جو میں کرنا چاہ رہا تھا۔ ایسا کتنے لوگ کہہ سکتے ہیں؟ میں ایک ایسی مثال قائم کرنا چاہتا ہوں جو کبھی نہ بھلائی جاسکے۔ … اب کم از کم 26کلومیٹر روزانہ دوڑنا میرا معمول بن چکا ہے۔‘‘

ٹیری فاکس کا ایک ایک دن مشکلات سے بھرپور اور نشیب و فراز سے پُر تھا۔ 11؍جون کو اُن کا کہنا تھا:

’’آج سارا دن تیز مخالف ہوا مجھے روکنے کی کوشش کرتی رہی۔ ہوا کےمخالف دوڑنا سخت دشوار تھا۔ یہ میرے اندر گھسی جارہی تھی۔ یہاں اکثر لوگوں کو معلوم بھی نہ تھا کہ میں کون ہوں۔ کئی ٹرک ڈرائیورز نے ترس کھا کر مجھے لفٹ کی پیشکش کی۔ …سڑک تنگ تھی اور گزرنے والی گاڑیوں کے لیے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ وہ مسلسل ہارن بجا کر ناراضگی کا اظہار کررہے تھے۔ ایک گاڑی کی ٹکر سے میں گر بھی گیا اور مجھے چوٹ بھی آئی۔‘‘

کینیڈین دارالحکومت اوٹاوہ Ottawa میں داخل ہونے سے پہلے اُنہوں نے کہا:

’’…ایسا لگتا ہے کہ ہر ایک شخص (کینسرسے) شکست تسلیم کرچکا ہے۔ میں نے شکست تسلیم نہیں کی۔ یہ کام آسان نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن میں کچھ نہ کچھ تو ضرور حاصل کروں گا۔ جو میں آج کررہا ہوں، کسی نے بیس سال پہلے کیا ہوتا تو آج اس (کینسر) کا علاج ہوتا، لیکن اب مجھے یقین ہے کہ آج سے بیس سال کے بعد اس کا علاج ممکن ہوگا۔ ‘‘

14؍جولائی کو جب ٹیری فاکس ہملٹن Hamilton سے گزر رہے تھے تو 1960ءکے کینیڈین میراتھن چیمپئن گورڈ ڈِکسن Gord Dicksonنےاپنا گولڈ میڈل یہ کہتے ہوئے اُن کی نذرکردیا کہ ’’یہ نوجوان دُنیا کی تمام دوڑوں سے بہترین دوڑ لگا رہا ہے۔‘‘

12؍اگست کو ریڈیو پر یہ خبر نشر ہوئی کہ ٹیری فاکس کی مصنوعی ٹانگ کا اسپرنگ ٹوٹ گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ناقابل استعمال ہوگئی ہے۔ ایک مکینک جو ایک گاؤں میں یہ خبر سُن رہا تھا اپنے اوزار لے کر سڑک پر پہنچ گیا اور نوے منٹ کے اندر مصنوعی ٹانگ کو مرمت کرکے ٹیری فاکس کو دوبارہ دوڑنے کے قابل بنا دیا۔

ٹیری فاکس کے بقول اُن کے لیے سب سے زیادہ جذباتی لمحہ صوبہ انٹاریو کے شہر ٹیرس بے میں آیا جب ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا اور ایک ٹانگ سے محروم دس سالہ گریگ اسکاٹ نے چھ میل تک ٹیری فاکس کے پیچھے پیچھے اپنی سائیکل چلائی۔

یکم ستمبر1980ء کو جب ٹیری فاکس تھنڈر بے Thunder Bay پہنچے تو ڈاکٹروں نے، اُن کی تشویش ناک حالت کی بدولت یہ دوڑ زبردستی رکوادی۔ وہ اُس وقت تک پانچ ہزار تین سو تہتر کلومیٹردوڑ چکے تھے اور اس دوڑ نے اُن کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا تھا اوراُن کی حالت انتہائی بگڑ گئی تھی۔ 9؍ستمبر1980ء کوایک ٹی وی چینلCTVنے ٹیری فاکس سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنی خصوصی نشریات پیش کیں جس دوران 10.5ملین ڈالر اکٹھے کیے گئے۔ فروری 1981ءمیں بالآخر ٹیری فاکس کا ہدف 24ملین ڈالر حاصل ہوگیا۔

ٹیری فاکس 21؍جون 1981ء کو 22سال 11ماہ کی عمر میں، اپنی دوڑ مکمل کیے بغیر اس دُنیا سے کوچ کرگئے۔

کینسر کے ایک اور مریض سٹیو فونیو Steve Fonyo کو بھی ٹانگ میں کینسر تھا، تاہم اُن کی ٹانگ کاٹنے کی وجہ سے، کینسر اُن کے باقی جسم میں نہیں پہنچ سکا تھا۔ اُنہوں نے مصنوعی ٹانگ لگا کر ٹیری فاکس کی نامکمل دوڑ کو 1984ء اور 1985ءمیں مکمل کیا۔

ٹیری فاکس کا دوڑنا ایک عام دوڑنا نہیں تھا۔ اُن کی اس دوڑ کی وجہ سے لوگوں میں کینسر کے بارے میں آگاہی ہوئی، بہت سی کمپنیوں نے اس کا علاج تلاش کرنے کے لیے ریسرچ میں بڑی بڑی رقوم عطیہ کیں، لوگوں میں کینسر کی وجوہات اور ان سے بچاؤ کا شعور پیدا ہوا۔ ماہرینِ طب کی توجہ اس کا علاج ڈھونڈنے میں بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوئی اور چند سالوں میں ہی کینسر کی کئی اقسام کا علاج ممکن ہوسکا۔ ٹیری فاکس کی جرأت اور بہادری نے پوری قوم کو ایک کردیا اور اُن کو یہ ہمت عطا ہوئی کہ اکٹھے مل کر کسی ناممکن کام کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

ٹیری فاکس کو کینیڈا کے سب سے بڑے اعزا ز’’آرڈر آف کینیڈا ‘‘سے نوازاگیا۔ وہ یہ اعزاز پانے والے کم عمر ترین شخص ہیں۔

ٹیری فاکس کے اعزاز میں، کینیڈا میں 32 سڑکیں اور ہائی ویز، 14 اسکول، 14سرکاری عمارات، 9صحت کے مراکز، ایک پہاڑی سلسلہ، ایک صوبائی پارک، ایک برف توڑنے والا بحری جہاز اور دوسرے کئی مقامات ٹیری فاکس سے منسوب کردیے گئے ہیں۔ اُن کے آٹھ مجسمے، کینیڈا کی اہم عمارات بشمول پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے لگائے گئے ہیں۔ محکمہ ڈاک نے اپنا قانون (کہ کسی شخص کے اعزاز میں اُس کی وفات کے دس سال بعد ہی کوئی ٹکٹ طبع ہوسکتا ہے) تبدیل کرکے 1981ء میں ٹیری فاکس کے اعزاز میں ٹکٹ جاری کیا۔ برطانوی راک اسٹار راڈ اسٹیوارٹ کا نغمہ “Never Give Up on a Dream” ٹیری فاکس کے لیے ہی گایا گیاتھا۔

5؍اپریل 2004ء کو کینیڈین عوام نے بذریعہ ووٹ، ٹیری فاکس کو بیسویں صدی کا ’’سب سے عظیم ترین کینیڈین‘‘ قرار دیا۔

2008ءمیں کینیڈا کی حکومت نے ٹیری فاکس کو “National Historic Person of Canada” قرار دیا۔

1981ء سے، ہر سال پورے کینیڈا میں ٹیری فاکس کی یاد میں، میراتھن ریسز ہوتی ہیں، تمام اسکولوں میں بچے دوڑ لگاتے ہیں اور کینسر ریسرچ کے لیے فنڈز اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ کینیڈا کے ساتھ ساتھ دُنیا کے ساٹھ ممالک میں بھی یہ دوڑیں ہوتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ٹیری فاکس نے، مصنوعی ٹانگ کے ساتھ ناگفتہ بہ حالت میں، موت کے دروازے پر کھڑے ہوکر، درد، تکلیف، کھانسی اورکئی لوگوں کی تنقید کے باوجود صرف آنے والی نسلوں کے لیے 5373کلومیٹر کی دوڑ لگائی۔ کیا ہم نے اپنی پوری صحت مندزندگی میں، تمام تر سہولتوں کے باوجود، انسانیت کی خدمت کے لیے ایک قدم بھی اُٹھایا ہے؟

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button