تعارف کتاب

’’ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی‘‘

تعارف

نومبر1902ء میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب اور مولوی عبد اللہ چکڑالوی صاحب کے مابین مباحثہ ہوا۔ مولوی عبد اللہ چکڑالوی اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے تھے اور حجیتِ حدیث کے منکر تھے جبکہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب حدیث کو قرآن پر بھی قاضی ٹھہراتے تھے۔ یوں دونوں فریق افراط و تفریط کا شکار تھے۔ یہ کتاب روحانی خزائن جلد 19 کے صفحہ 206تا216پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے مباحثہ پر محاکمہ کرتے ہوئے فرمایاکہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لیے تین چیزیں ہیں اول قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے، دوم سنت جو آپﷺ کی فعلی روش ہے اور تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے۔

(ماخوذ از ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد 19صفحہ209تا210)

مضامین کا خلاصہ

ابتدا میں حضورؑ فرماتے ہیں کہ فریقین کی تحریرات سے معلوم ہوا کہ مولوی عبد اللہ صاحب احادیث نبویہ کو محض ردی کی طرح خیال کرتے ہیں جبکہ مولوی محمد حسین صاحب کے نزدیک اگر احادیث ایسی ہی ردی اور ناقابل اعتبار ہیں تو اس سے اکثر حصے عبادت اور مسائل فقہ کے باطل ہو جائیں گے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے یہ دلیل پیش کی کہ اگر قرآن کو ہی کافی سمجھا جائے تو پھر اس پر کیا دلیل ہے کہ فجر کی دو رکعات فرض اور مغرب کی تین اور باقی تین نمازیں چار چار ہیں۔ مولوی عبد اللہ صاحب اس اعتراض کا شافی جواب نہ دے سکے اور مجبوراً انہیں ایک نئی نماز بنانی پڑی جس کا جمیع اسلام کے فرقوں میں نام و نشان نہ تھا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فریقین کے دعاوی و دلائل منقول کرنے کے بعد فرمایا اصل بات یہ ہے کہ ہر دو فریق میں سے ایک فریق نے افراط کی راہ اختیار کر رکھی ہے اور دوسرے نے تفریط کی۔ فریق اوّل مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب اگرچہ اس بات میں سچ پر ہیں کہ احادیث نبویہ مرفوعہ متصلہ ایسی چیز نہیں ہیں کہ ان کو ردّی اور لغو سمجھا جائے مگر وہ احادیث کے مرتبہ کو اس بلندی پر چڑھاتے ہیں جس سے قرآن شریف کی ہتک لاز م آتی ہے اور حدیث کے بیان کو کلام اللہ کے بیان پر ہر ایک حالت میں مقدم سمجھتے ہیں۔ جبکہ اللہ جلشانہ فرماتاہے:

فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَ اللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ یُؤۡمِنُوۡنَ۔ (الجاثیۃ: 7)

فرمایا اس آیت میں حدیث کے لفظ کی تنکیر(نکرہ ہونا جو معرفہ کی ضد ہے) جو فائدہ عموم کا دیتی ہے صاف بتا رہی ہے کہ جو حدیث قرآن کے معارض اور مخالف پڑے اس کو رد کردو۔ پھر اس حدیث کے لفظ میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ ایسا زمانہ اس امت پر آنے والا ہے کہ جب بعض افراد اس امت کے قرآن شریف کو چھوڑ کر ایسی حدیثوں پر بھی عمل کریں گے جو قرآن کے معارض اور مخالف ہوں۔

فریق دوم مولوی عبد اللہ صاحب نے تفریط کی راہ پر قدم مارا اور سرے سے احادیث کا انکار ہی کردیا اور یوں ایک طرح سے قرآن شریف کا انکار کردیا کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (اٰل عمران: 32)

پس جب خدا تعالیٰ کی محبت آنحضرتﷺ کی اتباع سے وابستہ ہے اور آپﷺ کے عملی نمونوں کے دریافت کے لیے حدیث بھی ایک ذریعہ ہے۔ پس جو احادیث کو چھوڑتا ہے وہ طریق اتباع کو بھی چھوڑتا ہے۔

مولوی عبد اللہ صاحب کا یہ قول کہ تمام حدیثیں محض شکوک اور ظنون کا ذخیرہ ہیں، یہ قلت تدبر کی وجہ سے ہے۔ محدثین نے ایک غلط اور نا مکمل تقسیم بیان کی ہے جس سے بہت سے لوگوں کو دھوکا لگا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں ایک تو کتاب اللہ ہے اور دوسرے حدیث، اور حدیث کتاب اللہ پر قاضی ہے۔ ایسی تقریر سے تو ہر شخص کو دھوکا لگے گا کہ جبکہ حدیثیں سو ڈیڑھ سو سال آپﷺ کے بعد جمع کی گئی ہیں اور انسانی ہاتھوں کے مَس سے خالی نہیں ہیں تو بایں ہمہ وہ ظنی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔(النجم:29)

پس ایسے لوگوں کے ہاتھ سے قرآن بھی گیا اور احادیث بھی، جو ظنی ہیں۔

فرمایا صراط مستقیم جس کو ظاہر کرنے کے لیے میں نے اس مضمون کو لکھا ہے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لیے تین چیزیں ہیں (1) قرآن شریف جو کلام اللہ ہے اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے۔ دوسری سنت۔ ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے۔ سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرتﷺ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی۔ تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے یعنی وہ آثار جو قصوں کے رنگ میں آنحضرتﷺ سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعہ سے جمع کیے گئے ہیں۔

فرمایا اس میں شک نہیں کہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متقی اور پرہیز گار تھے انہوں نے جہاں تک ان کی طاقت میں تھا حدیثوں کی تنقید کی۔ اس لیے یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ ان حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیاہے اور اس قدر تحقیق کی گئی ہے کہ جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔

پھر فرمایا تا ہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بے خبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے…کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنت کے ذریعہ سے ان میں پیدا ہو گیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ا ن کو سکھا دئے تھے۔ تاہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نور علی نور ہو گیا اور حدیثیں قرآن اور سنت کے لیے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں۔

فرمایاہماری جماعت کایہ فرض ہونا چاہیے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو توخواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو ا س پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں۔ اور اگر احادیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صور ت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادے پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلہ کے، اپنے خدادا د اجتہاد سے کام لیں۔

احادیث کی بابت رؤیا

فرمایامجھے رؤیا میں دکھایا گیاہے کہ ایک درخت باردار اور نہایت لطیف اور خوبصورت اور پھلوں سے لدا ہو اہے اور کچھ جماعت تکلف اور زور سے ایک بوٹی کو اس پر چڑھانا چاہتی ہے…وہ بوٹی افتیمون کی مانند ہے اور جیسے وہ بوٹی اس درخت پر چڑھتی ہے اسکے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے…تب میرا دل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پگھل گیا اور میں نے ایک شخص کو جو ایک نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا پوچھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بوٹی کیاہے…تب اس نے جواب میں مجھے یہ کہا کہ یہ درخت قرآن خداکا کلام ہے اور یہ بوٹی وہ احادیث اوراقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائی جاتی ہیں اور ان کی کثرت نے اس درخت کو دبا لیاہے اور اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں تب میری آنکھ کھل گئی۔

عقیدہ بابت احادیث و ختم نبوت

پھر فرمایا ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اسے چاہیے …نہ تو ایسے طور سے بکلی حدیثوں کو اپنا قبلہ و کعبہ قرار دیں جس سے قرآن متروک اور مہجور کی طرح ہو جائے اور نہ ایسے طور سے ان حدیثوں کو معطل اور لغو قرار دیدیں جن سے احادیث نبویہ بکلی ضائع ہوجائیں۔ ایسا ہی چاہیے کہ نہ تو ختم نبوت آنحضرتﷺ کا انکار کریں اور نہ ختم نبوت کے یہ معنی سمجھ لیں جس سے اس امت پر مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کا دروازہ بند ہو جائے۔ اور یاد رہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحب شریعت ہو یا بلا واسطہ متابعت آنحضرتﷺ وحی پا سکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوی سے نعمت وحی حاصل کرنے کے لیے قیامت تک دروازے کھلے ہیں …اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضورﷺ خاتم الانبیاء ہیں اس جگہ یہ اشارہ بھی فرمایا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رو سے ان صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جنکی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جا تی ہے اور وحی الٰہی اور شرف مکالمات کا ان کو بخشا جاتا ہے۔

جیساکہ وہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔(الاحزاب:41)

یعنی آنحضورﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے۔ سو اس آیت میں آپﷺ کے جسمانی باپ ہونے کی نفی کی گئی ہے اور ساتھ ہی لکنکا لفظ جو عربی زبان میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدارک ما فات کے لیے، جس کے یہ معنی ہیں کہ آپﷺ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمال نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتاہوگا اور اسی طرح پر و ہ آپﷺ کا بیٹا اور آپﷺ کا وارث ہوگا۔

غرض اس آیت میں ایک طور سے آپﷺ کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا۔ تا وہ اعتراض جس کا ذکر

اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ(الکوثر:4)

میں ہے، دور کیا جائے۔ یوں اگر روحانی وارث کی بھی نفی کردی جائے تو اس سے نعوذ باللہ آنحضرتﷺ دونوں طور سے ابتر ٹھہرتے ہیں، نہ جسمانی طور پر کوئی فرزند نہ روحانی طور پر کوئی فرزند اور معترض سچا ٹھہرتا ہے جو آنحضرتﷺ کا نام ابتر رکھتا ہے۔ (نعوذ باللہ)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امتی قرار دے کر آسمان سے اتارنے والوں کا ظلم

فرمایاافسوس حضرت عیسیٰ پر ایک طور سے یہ لوگ ظلم کرتے ہیں اول بغیر تصفیہ اعتراض لعنت (یہودیوں کا یہ اعتراض کہ لعنتی کاٹھ پر مارا جاتا ہے) کے ان کے جسم کو آسمان پر چڑھاتے ہیں جس سے اصل اعتراض یہودیوں کا ان کے سر پر قائم رہتا ہے، دوسرے کہتے ہیں کہ قرآن میں ان کی موت کا کہیں ذکر نہیں گویا ان کی خدائی کے لیے ایک وجہ پیدا کرتے ہیں۔ تیسری نامرادی کی حالت میں آسمان کی طرف ان کو کھینچتے ہیں۔ جس نبی کے ابھی بارہ حواری بھی زمین پر موجود نہیں اور کار تبلیغ بھی نا تمام ہے اس کو آسمان کی طرف کھینچنا اس کے لیے ایک دوزخ ہے کیونکہ روح اس کی تکمیل تبلیغ کو چاہتی ہے اور اس کو بر خلاف مرضی اس کی، آسمان پر بٹھایا جاتا ہے۔ میں اپنے نفس کی نسبت دیکھتا ہوں کہ بغیر تکمیل اپنے کام کے اگر میں زندہ آسمان پر بٹھایا جاؤں اور ساتویں آسمان تک پہنچایا جاؤں تو میں اس میں خوش نہیں ہوں کیونکہ جب میر اکام ناقص رہا تو مجھے کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ ایسا ہی ا ن کو بھی آسمان پر جانے سے کوئی خوشی نہیں۔ مخفی طور پر ایک ہجرت تھی جس کو نادانوں نے آسمان قرار دے دیا۔ خدا ہدایت کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button