متفرق مضامینیادِ رفتگاں

چودھری محمد علی صاحب (قسط چہارم)

(‘ابن طاہر’)

چودھری محمد علی صاحب نے اپنے ایم ٹی اے انٹرویوز یا کسی اور یادداشت میں گورنمنٹ کالج لدھیانہ کے اپنے کسی مسلمان دوست کا ذکر نہیں کیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا اُس زمانے کا کم از کم ایک دوست لاہور میں موجود تھا۔ اس حوالے سے میجر (ر) شاہد احمد سعدی کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے کہ وہ ایک دفعہ چودھری محمد علی صاحب کے ہمراہ کسی کام سے لاہور گئے۔ جب اُس کام سے فارغ ہوئے تو چودھری صاحب نے فرمایا کہ کیوں نہ میں آپ کو اپنے ایک پرانے دوست سے ملوا لائوں جو ماڈل ٹائون میں رہائش پذیر ہیں۔ شاہدسعدی کو اس تجویز سے بھلا کیا اختلاف ہو سکتا تھا چنانچہ کچھ ہی دیر میں دونوں ان کے گھر پہنچ گئے۔

شاہد سعدی کہتے ہیں: ’’مجھے افسوس ہے کہ اس وقت مجھے ان کا نام بھول چکا ہے مگر وہ گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں چودھری صاحب کے کلاس فیلو تھے۔ عمر رسیدہ تھے اور ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید ہوچکے تھے لیکن ذہنی طور پر حاضر تھے اور بڑی اچھی گفتگو کرنے والے تھے۔ جب دو پرانے دوست ملتے ہیں تو پرانی یادیں دہرائی جاتی ہیں اور مشترک دوستوں کا ذکر ہوتا ہے۔ یہی کچھ اس مجلس میں ہوا تاہم چونکہ میرے لیے وہ ساری شخصیات اجنبی تھیں اور ماحول غیرمانوس تھا اس لیے مجھے اس گفتگو میں سے کچھ بھی یاد نہیں ماسواا س کے کہ گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں ہزار سے زیادہ طالب علم تھے لیکن مسلمان طلباءکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ ہندو اور ان کے بعد سکھ اکثریت میں تھے جو مسلمان طلباءکو اکثر یہ طعنہ دیا کرتے تھے کہ اُن کا پڑھائی لکھائی سے کیا تعلق، انہیں تو جاکر واہی بیجی کرنی چاہیے۔ اس موقع پر چودھری صاحب کے دوست نے انہیں یاد دلایا کہ مسلمان طلباء چودھری محمد علی صاحب کا نام لے کر جواباً کہا کرتے تھے کہ وہ بھی تو مسلمان ہے۔ یہ جواب مسکت ثابت ہوتا اور ہندو سکھ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔‘‘

گورنمنٹ کالج لاہور اور قبولِ احمدیت

چودھری محمد علی صاحب نے 1940ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے فلاسفی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا۔ ان دنوں پروفیسر قاضی محمد اسلم صدرِ شعبہ تھے۔ چودھری صاحب ان سے بےحد متاثر ہوئے اور ان کے قبولِ احمدیت میں بڑا دخل قاضی صاحب کا اپنا نمونہ تھا۔

اُس زمانے میں جی ڈی سوندھی گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے۔ …وہ ایک بلندپایہ استاد اور اعلیٰ درجے کے منتظم تھے اور کالج کے اندرونی معاملات میں مکمل طور پر خودمختار۔ انہوں نے نیوہوسٹل بیل چوری ہونے پر ابتداءً چودھری محمد علی صاحب پر شک کیا لیکن ان کی گفتگو سن کر جی ڈی سوندھی کے تمام شکوک رفع ہوگئے۔

قاضی محمد اسلم کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کے واحد استاد جن کا چودھری محمد علی صاحب نے اپنی گفتگو میں ذکر کیا ہے مولوی کریم بخش تھے جو اردو پڑھاتے تھے۔ وہ اپنے قدامت پسندانہ خیالات کی وجہ سے پورے کالج میں پہچانے جاتے تھے لیکن پھر بھی ایک استاد کے طور پر ہر شخص ان کی عزت کرتا تھا۔

چودھری محمد علی صاحب کے گورنمنٹ کالج کے دوستوں میں سے پی این ایس بیدی اور شبیر خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ پی این ایس بیدی کا تعلق ایک معزز سکھ گھرانے سے تھا اور اختلافِ عقائد کے باوجود وہ دوستوں کا دوست تھا۔ بیدی کے برعکس شبیر چودھری محمد علی صاحب کے کلاس فیلو اور قاضی محمد اسلم کے شاگرد تھے۔ وجیہ شخصیت کے مالک تھے اور بات سے بات نکالنے کا ہنر خوب جانتے تھے۔ جماعت سے تعلق نہ ہونے کے باوجود چودھری محمد علی صاحب سے ہمیشہ مخلصانہ تعلق رکھا اور ہر حال میں ان کا ساتھ دیا۔

یہ ساری داستان آپ چودھری محمد علی صاحب کے اپنے الفاظ میں پڑھ رہے ہیں:

’’میرا اپنا ارادہ تو انگریزی میں آنرز کرنے کا تھا لیکن اُن حالات کی وجہ سے جو پہلے بیان ہو چکے ہیں میری یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ میں سمجھتا ہوں اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ میں نے گورنمنٹ کالج، لاہور میں ایم اے فلاسفی میں داخلہ لے لیا۔ یہاں مجھے جن اساتذہ سے براہِ راست اکتسابِ فیض کا موقع ملا ان میں قاضی محمد اسلم سرفہرست ہیں جو اُس زمانہ میں صدرِ شعبہ بھی تھے۔ قاضی صاحب بادی النظر میں تو اس دور کے باقی اساتذہ کی طرح بڑے سمارٹ اور خوش لباس تھے لیکن ان میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جو انہیں باقی اساتذہ سے ممتاز کرتی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ان سے بے انتہا متاثر ہوا۔ مجھے قاضی صاحب میں ایک مثالی استاد بلکہ مثالی انسان کی جھلک تو ابتدا ہی سے نظر آتی تھی لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ احمدی ہیں تو میں شعوری طور پر ان کے قریب ہوتا گیا۔ آج میں یہ بات علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ میری قبولِ احمدیت میں جتنا کردار قاضی صاحب کی شخصیت نے ادا کیا ہے اتنا کسی اور شخص کا نہیں ہے۔ وہ انسان نہیں فرشتہ تھے۔ ان کے ساتھ احمدیت پر میری گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ یوں تو ان کی بہت سی باتیں قابلِ بیان ہیں لیکن یہاں میں صرف ایک دو واقعات پر اکتفا کروں گا۔

مجھے جلسہ سالانہ قادیان میں پہلی بار 1939ء میں شمولیت کا موقع ملا۔ میں کسی کو بتائے بغیر وہاں گیا تھا اور جلسہ دیکھ اور سن کر واپس آگیا۔ دراصل میں دیکھنا چاہتا تھا کہ قاضی محمد اسلم جس جماعت سے تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں وہ کیسی ہے اور اس کا مجموعی طرزِعمل کیا ہے۔ میں نے قادیان میں کئی نئی چیزیں مشاہدہ کیں۔ لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم میں نے عملاً پہلی بار دیکھا تھا لیکن اتنا منظّم اور اتنا پُرامن، میرے لیے یہ بالکل انہونی سی بات تھی۔

وہاں جس انداز میں حضرت مسیح موعوؑد کا پاک کلام پیش کیا گیا

از نورِ پاک قرآں صبحِ صفا دمیدہ

بر غُنچہ ہائے دِلہا بادِ صبا وزیدہ

ایں روشنی و لمعاں شمس الضحیٰ ندارد

ایں دلبری و خوبی کس در قمر ندیدہ

مجھے اس خوبصورت انداز سے نظم پڑھنے والا کوئی شخص آج تک دوبارہ نظر نہیں آیا۔ بظاہر وہ کوئی پٹھان تھا جس نے یہ نظم پڑھی تھی۔ اس کے بعد حضرت صاحبؓ کی تقریر ہوئی۔ یہ تقریر خلافت پر تھی۔ تقریر کیا تھی، فصاحت و بلاغت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ایک دریا تھا جو زور و شور سے بہتا چلا جا رہا تھا۔ حضورؓ اسلام پر بات کررہے تھے لیکن کسی کٹھ ملا کی طرح صرف گھسی پٹی روایات کی بنیاد پر نہیں بلکہ بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق اس کی تشریح فرما رہے تھے۔ حضورؓ کا اندازِ بیان دل کو متاثر کررہا تھا اور لوگ حد درجہ انہماک سے یہ تقریر سن رہے تھے۔ یہ کوئی سیاسی تقریر نہ تھی جس میں اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے حکومت کے خلاف عوامی جذبات بھڑکائے جاتے ہیں نہ یہ تقریر خودستائشی کے جذبہ سے کی جا رہی تھی۔ یہ ایک ایسی تقریر تھی جو کم از کم میں نے پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ اس تقریر نے اگر میری کایا نہیں بھی پلٹی تو میرے ذہن کے کئی بند دریچے ضرو رکھول دیے۔ سامعین بڑے انہماک سے یہ تقریر سن رہے تھے اور بعض لوگ دنیا وما فیہا سے بے خبر موم بتیوں کی روشنی میں اس تقریر کے نوٹس لے رہے تھے۔ اس تقریر کا مجھ پربہت گہرا اثر ہوا۔ اگرچہ مجھے یہ علم تو نہیں تھا کہ احمدی کیسے ہوا جاتا ہے لیکن میں یہ ماحول دیکھنے کے بعد دل سے احمدیت قبول کرچکا تھا۔

اس جلسے کے بعد کی بات ہے۔ مجھے نفسیات کے حوالے سے ایک پیپر لکھنا تھا۔ پیپر سیکس پر تھا اور اس کا موضوع تھا Marriage and Moralsیا Sex in Islamیا شاید اس سے کچھ ملتا جلتا۔ قاضی صاحب کو پتا چلا تو انہوں نے مجھے کہا کہ میں یہ پیپر کسی اور کو دے دوں لیکن میں تُلا ہوا تھاکہ میں ہی لکھوں گا۔ مجھے اس کام سے روکنے کے لیے قاضی صاحب نے ایک بڑا عجیب طریقہ اپنایا۔ کچھ کتابیں مثلاً Westermarckکی تو بڑی گِھسی پٹی تھیں۔ کالج میں کچھ کتابیں نئی آئی ہوئی تھیں۔ ایک کتاب The Revolt of Modern Youthنئی تو نہ تھی لیکن ہمارے پاس نئی نئی آئی تھی۔ یہ کتاب امریکہ کی چھپی ہوئی تھی اور Judge Ben B. Lindsey نے وہاں کی یُوتھ پر 1924ء میں لکھی تھی۔ آپ اسے پڑھیں تو انسان خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ ہمارے نوجوان آج بھی اس کیفیت سے بہت دور ہیں جس پر امریکی نوجوان 1920ء کے عشرہ میں پہنچ چکے تھے۔ قاضی صاحب نے لائبریرین سے کہہ دیا کہ یہ کتابیں مجھے جاری نہ کی جائیں۔ اس زمانہ میں رواج تھا کہ کتابوں کی دکان پر جاکرجو کتاب پڑھنا چاہو پڑھ لو۔ میں راما کرشناکی دکان پر چلا گیا۔ کتابیں وہاں تھیں۔ میں بیٹھ کر پڑھتا رہا۔ نوٹس لیتا رہا۔ بہرحال میں نے پیپر پڑھا۔ وہ ایک احمدی کا پیپر تھا۔ اب اگلے دن جب میرا اور قاضی صاحب کا آمنا سامنا ہوا تو قاضی صاحب نے مجھ سے ایسے بات شروع کردی جیسے ایک احمدی دوسرے احمدی سے کرتاہے۔ وہ کچھ دیر اسی لب و لہجے میں بات کرتے رہے لیکن انہیں اچانک احساس ہوا کہ وہ مجھے احمدی سمجھ کر بات کر رہے ہیں چنانچہ انہوں نے معذرت کی اور جلدی جلدی بات ختم کر کے وہاں سے رخصت ہوگئے۔

قاضی محمد اسلم بہت بڑے عالم تھے۔ جس طرح علّامہ اقبال اور سید سلیمان ندوی کو مدراس یونیورسٹی میں لیکچرز کے لیے بلایا گیا تھا اسی طرح قاضی محمد اسلم کو بھی مدعو کیا گیا اور انہوں نے 1943ء میں Rise of Islam کے موضوع پر وہاں تین لیکچرز دیے۔ گوباقی دونوں اصحاب کے لیکچرز کتابی صورت میں شائع ہوکر خاص و عام میں شہرت پاچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے قاضی محمد اسلم کے لیکچرز ابھی تک کتابی صورت میں شائع نہیں ہوسکے۔

میں نے ایک بار حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو لاہور میں ایک مجلسِ عرفان میں فرائڈ پر تنقید کرتے ہوئے سنا تھا۔ اسے حماقت کہیے یا جرأتِ رندانہ، میں نے کہہ دیا کہ فرائڈ کی ساری باتیں غلط نہ تھیں۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا: کون کہتا ہے کہ اس کی سب باتیں غلط تھیں اور پھر اس کے نظریات کے صحتمندانہ پہلوئوں کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا۔ میں حضورؓ کے علم و فضل سے بہت متاثر ہوا اور میں نے قاضی محمد اسلم کے سامنے بھی اس کا ذکر کیا۔ انہیں تو ان باتوں کا یقینا ًپہلے ہی سے ادراک تھا۔ جب وہ مدراس لیکچرز کے لیے تیاری کررہے تھے تو وہ کچھ پریشان تھے اور محسوس کررہے تھے کہ جس فورم پر جاکر انہیں خطاب کرنا ہے وہ شاید اس کے لیے پورے طور پر تیار نہیں ہیں۔ میں نے ان کی پریشانی بھانپتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ حضورؓ سے کیوں راہ نمائی حاصل نہیں کرتے۔ وہ حضورؓ سے ملے اور جب واپس آئے تو خوشی سے ان کے پائوں زمین پر ٹک نہیں رہے تھے۔ حضورؓ نے ان کے لیکچرز کے لیے مفصل نوٹس لکھوائے تھے جو قاضی صاحب کے بہت کام آئے۔ اب بتائیے ایک ایسا شخص جو میٹرک بھی پاس نہ ہو اور جس کا بچپن بیماریوں میں گذرا ہو خدا کے خاص فضل کے بغیر ایسے کارنامے کس طرح سرانجام دے سکتا ہے جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں۔ یہ صرف اور صرف حضرت مصلح موعودؓ کی شان تھی اور یہ سب کچھ بیس فروری والی پیشگوئی کے عین مطابق تھا۔

مدراس لیکچرز کا ذکر ہوا تو ایک لطیفہ یاد آگیا ہے۔ حیدرآباد دکن میں سیٹھ عبداللہ الہ دین نے کچھ معززین کی دعوت کر رکھی تھی۔ میں بھی اس میں موجود تھا۔ ایک صاحب میرے پاس بیٹھے تھے۔ کہنے لگے مجھے اسلامی فلسفے کی کوئی اچھی سی کتاب تو بتائیں۔ میں نے علامہ اقبال کے خطباتِ مدراس یعنیThe Reconstruction of Religious Thought in Islam کا نام لے دیا۔ ہنس پڑے اور کہنے لگےوہ تو احمدیوں کی کتاب ہے۔ شاید ان کی بات اس حد تک ٹھیک ہو کہ علامہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی صحبت میں رہے تھے اور ممکن ہے اس کتاب میں آپ کے خیالات کا بھی کچھ عکس نظر آتا ہو۔

میں کچھ دیر پہلے گورنمنٹ کالج، لاہور اور قاضی محمد اسلم کا ذکر کررہا تھا۔ یہ کہانی پروفیسر مولوی کریم بخش کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی جو میرے ہی نہیں پورے گورنمنٹ کالج کے محترم تھے۔ میں کہوں گا ان کی شخصیت سے محبت چھلکتی اور اپنی جانب متوجہ کرتی تھی۔ نیک آدمی تھے لیکن ہماری جماعت کے بڑے مخالف تھے۔ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو چیلنج دے رکھا تھاکہ ان کے ساتھ عربی میں تفسیرنویسی کا مقابلہ کیا جائے۔ حضورؓ نے یہ چیلنج قبول نہیں کیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ میں نے تو عربی دانی کا کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا۔ میرا دعویٰ تو صرف تفسیر کا ہے، اس میں آپ میرا مقابلہ کر لیں۔ حضورؓ ذاتی طور پر بھی ان کو جانتے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ بھی ان کے شاگرد تھے۔ ایک بار انہوں نے آپ کو آپ کے اندازے سے کم نمبر دیے۔ آپ نے ڈکشنری نکال لی اور کہا مولوی صاحب! آپ نے میرے نمبر کاٹ لیے ہیں لیکن ڈکشنری میں تو یہ لکھا ہے۔ مولوی صاحب نے جواب دیا ڈکشنری میں تو اور بھی بہت کچھ لکھا ہوتا ہے۔

’’تم بازاری آدمی ہو‘‘مولوی کریم بخش کا تکیۂ کلام تھا جسے وہ اپنی گفتگو میں بے دریغ استعمال کرتے تھے اور تو اور لیکچر دیتے ہوئے بھی اپنا تکیۂ کلام دہرانے سے اجتناب نہ کرتے۔ ایک دفعہ ان کے اسی تکیہ کلام کی وجہ سے ان کی جواب طلبی بھی ہوگئی۔ سارے کالج میں یہ بات پھیل گئی لیکن کسی نے اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا نہ کوئی دنگافساد ہوا بلکہ ہر آدمی صورت حال سے لطف اندوز ہورہا تھا۔

بیدی میرا ایک دوست تھا۔ اس کا ذکر آگے چل کر بار بار آئے گا۔ اگر شیطان نیک ہو سکتا ہو تو میں کہوں گا کہ بیدی شیطان تھا۔ وہ نیک تھا لیکن بہت شریر اور انتہائی نچلّا۔ اس زمانے میں اردو یا ہندی یا پنجابی پچاس نمبر کی ہوتی تھی لیکن یہ نمبر ڈویژن کے لیے شمار نہیں کیے جاتے تھے چنانچہ لڑکے اس مضمون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔ بیدی نے اُردو کے پرچہ میں لکھا:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

خاکسار کی ناچیز رائے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک مسجد ہونی چاہیے تاکہ مسلمان طلباء باجماعت نماز ادا کرسکیں۔

والسلام

مولوی کریم بخش نے اسے پچاس میں سے انچاس نمبر دے دیے۔ رؤف شیخ جو بعد میں حکومت پاکستان کے فنانس سیکرٹری رہے اپنے زمانے کے بڑے پھنّےخاں طلباء میں سے تھے۔ راوی کے اردو کے ایڈیٹر تھے او ران کی اردو تھی بھی بہت اچھی۔ انہیں مولوی صاحب نے محض پاس مارکس دے رکھے تھے۔ چنانچہ پرنسپل کے پاس شکایت ہوگئی۔ شکایت اس طرح ہوئی کہ بیدی نے خود اپنا پرچہ رئوف شیخ کو دکھا دیا۔ وہ یہ پرچہ لے کر بھاگ اٹھے اور دونوں پرچے پرنسپل کے سامنے رکھتے ہوئے کہا: سر! ان دونوں پرچوں کا مقابلہ تو کریں۔ ا نہوں نے دیکھا۔ مولوی صاحب کو بلوایا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ دونوں پرچے انہوں نے ہی مارک کئے ہیں؟ کہنے لگے: ہاں، میں نے ہی مارک کیے ہیں۔ جب ان سے نمبروں میں نظر آنے والے بظاہر تفاوت کی وضاحت چاہی گئی تو انہوں نے کہا: ہم شرافت کے نمبر بھی دیتے ہیں اور لیاقت کے نمبر بھی دیتے ہیں۔ بیدی کو ہم نے شرافت کے نمبر دیے ہیں اور رئوف کو اس کی لیاقت کے۔ اب آپ ہی بتائیے ایسے آدمی سے کون لڑ سکتا ہے؟

ایک بار انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پاس شکایت کردی کہ قاضی محمد اسلم میرے پاس آکرچائے بھی پی جاتے ہیں اور تبلیغ بھی کرجاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں اگر کسی اور کے خلاف شکایت ہوتی تو وہ اپنا دکھڑا رونے کے لیے آتے بھی قاضی صاحب ہی کے پاس تھے۔

مولوی کریم بخش کو آسودۂ خاک ہوئے نہ جانے کتنے برس ہو چکے ہوں گے لیکن آج بھی میں انہیں یاد کر کے آزردہ ہوجاتا ہوں۔ وہ ہمارے سخت خلاف تھے لیکن مجھے پھر بھی ان سے محبت ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ نیک دل انسان تھے۔ قدرے وہمی تھے چنانچہ ہندوئوں سے مصافحہ کے بعد ہاتھ دھوتے تھے۔ ان کے ہندو شاگردوں کو بھی اس بات کا علم تھا مگر وہ پھر بھی ان سے پیار کرتے تھے۔ مولوی کریم بخش نے مقابلے کا ایک امتحان بھی پاس کیا تھا اور سنتے ہیں ان کا تقرر بھی کسی عہدے پر ہوگیا تھا مگر ان کے انگریز افسر نے اپنی بیوی سے تعارف کرایا تو وہ اپنی جگہ کھڑے رہے، اس سے ہاتھ نہیں ملایا۔ کہنے لگے: میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا اور اگلے ہی دن مستعفی ہوکر گھر واپس آگئے۔

مجھے یاد ہے ایک بار پروفیسر اشفاق علی خان گورنمنٹ کالج لاہور کے پرانے اساتذہ کے بارے میں ریڈیو پر گفتگو کررہے تھے۔ مولوی کریم بخش کا ذکر آیا تو فرطِ جذبات سے رو پڑے۔ اُن کے دوستوں کے دل میں ان کے لیے بڑی عزت تھی۔

مولوی کریم بخش کے ذکر نے مجھے میاں عبدالحئی کی یاد دلادی ہے جو اُن دنوں پنجاب کے وزیرِ تعلیم تھے۔ اس زمانہ میں تو تھانیدار بڑی چیز ہوتی تھی، وہ تو خیر سے وزیر تعلیم تھے۔ ان کا ایک بیٹا جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا بہت شریر تھا۔ ایک روز جب مولوی کریم بخش ابھی کلاس میں نہ پہنچے تھے میاں عبدالحئی کا یہ بیٹا کھڑا ہوکر ان کی نقل اتارنے لگا۔ اوپر سے مولوی صاحب آگئے اور انہوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ کسی نے پرنسپل کو شکایت کردی۔ اب یہ یقینی بات ہے کہ مولوی صاحب نے اس لڑکے کی شکایت نہیں کی۔ گورنمنٹ کالج کا ماحول ہی نہیں تھاکہ استاد پرنسپل کے پاس جا کر کسی شاگرد کی شکایت کرے۔ ویسے بھی میں سمجھتا ہوں وہ استاد ہو ہی نہیں سکتا جو اپنے شاگرد کی شکایت لگائے۔ اگر اس کے دل میں اپنے شاگرد کے لیے اتنی محبت اور ادب بھی نہیں تو وہ اسے سکھا کیا رہا ہے؟ بہرحال اس لڑکے کی پیشی ہو گئی۔ اس نے مان لیا کہ اس نے مولوی صاحب کی نقل اتاری ہے۔ پرنسپل نے اسے کہا: دیکھو! تم انٹرمیڈیٹ کا امتحان تو دے لو لیکن بی اے کے لیے یہاں نہ آنا۔ میں تمہیں داخلہ نہیں دوں گا۔ ذرا سوچیں کہ ایک غیرمسلم پرنسپل ایک مسلمان استاد کی عزت کی بحالی کے لیے اس قسم کا فیصلہ کررہا ہے۔ جب انٹرمیڈیٹ کا نتیجہ آیا تو اس لڑکے کی یونیورسٹی میں کوئی پوزیشن آگئی اور وہ بی اے میں داخل ہونے کے لیے کالج پہنچ گیا۔ کمیٹی نے اسے داخل کر لیاحالانکہ اس سے پہلے پرنسپل کی طرف سے نوٹیفائی ہو چکا تھا کہ اسے داخلہ نہیں دیا جائے گا۔ ان دنوں کمیٹی کے انٹرویو کے بعد پرنسپل کا انٹرویو بھی ہوتا تھا۔ جب یہ موقع آیا تو پرنسپل نے کہا: سوری۔ میں تمہیں داخلہ نہیں دے سکتا۔ میں نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں تمہیں بی اے میں یہاں داخلہ نہیں دوں گا۔ جب میاں عبد الحئی کو اطلاع ہوئی کہ ان کے بیٹے کو گورنمنٹ کالج میں داخلے سے انکار کردیا گیا ہے تو انہوں نے پرنسپل کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ نہ صرف وہ خود بلکہ ان کے والد بھی اس کالج میں پڑھتے رہے ہیں لہٰذا اس بچے کو کوئی اور سزا بیشک دے دی جائے لیکن اسے گورنمنٹ کالج میں داخلے سے محروم نہ رکھا جائے۔ پرنسپل نے معذرت کی تو میاں عبد الحئی نے ایک اور خط لکھ دیا جس میں انہوں نے پرنسپل سے ذاتی طور پر درخواست کی تھی کہ ازراہِ مہربانی معاملہ پر دوبارہ غور فرمایا جائے۔ پرنسپل آئی ای ایس یعنی انڈین ایجوکیشن سروس کے آدمی تھے۔ انہوں نے اپنا استعفیٰ لکھ کر گورنر کو بھیج دیا۔ اگلے روز میاں عبدالحئی کو پنجاب اسمبلی کے فلور پر معافی مانگنا پڑی کہ وہ اس معاملہ میں دخل اندازی کر کے غلطی کے مرتکب ہوئے تھے۔

میں نے گورنمنٹ کالج، لدھیانہ میں کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور جیتا تھا۔ گورنمنٹ کالج، لاہور میں آنے کے بعد بھی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ میری دلچسپی قائم رہی۔ ہم کمیونسٹ پارٹی کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ بی پی ایل بیدی، سونت سنگھ جوش، منشی احمد دین، ٹکارام سخن…یہ سب لوگ ہمارے گروپ میں شامل تھے۔ میرا خیال ہے یہ سب لوگ خالص اور کھرے کمیونسٹ تھے یعنی کمیونزم میں پورا یقین رکھتے تھے اور ان کی شخصیت میں دوہرا پن نہیں تھا۔ سنگل ٹریک ضرور تھے۔ ان کی وفاداری ملک کے ساتھ نہ تھی بلکہ وہ روس سے ہدایات لیتے تھے اور روس سے ہی پارٹی لائن آتی تھی۔ ابھی میری احمدیت لوگوں سے چھپی ہوئی تھی اور کمیونسٹ پارٹی کی میٹنگز نیو ہوسٹل میں ہوتی تھیں۔ مظہرعلی خاں جو نواب مظفرخاں کے بیٹے اور میرے کالج فیلو تھے وہ ایم اے کرکے دوبارہ وہاں داخل ہوچکے تھے اور ان میٹنگز کی صدارت وہی کیا کرتے تھے۔ ان ہی دنوں روس نے فِن لینڈ پر حملہ کیا اور اس کا جواز یہ پیش کیا کہ روس کا کوئی شہر فِن لینڈ کی توپوں کی زد میں ہے۔ میں نے ایک میٹنگ میں کہہ دیا کہ اگر روس ایک کمزور ملک ہوتا اور فن لینڈ مقابلتاً طاقتور ہوتا تو آج صورت حال بالکل مختلف ہوتی اور فن لینڈ نے روس پر حملہ کیا ہوتا۔ اس پر بڑی لے دے ہوئی اور ہماری آپس میں بہت چخ چخ بھی ہوئی۔ صفدرمیربھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ ہمارا ایک رسالہ View Pointکے نام سے چھپتا تھا اور ساری دنیا میں جاتا تھا۔ انگریزی میں چھپتا تھا لہٰذا ہندوستان میں اس کی رِیڈرشپ بہت محدود تھی اور عام لوگوں کو اس کا پتا نہیں تھا۔

گورنمنٹ کالج، لاہور میں اپنی طالب علمی کے دوران کالج ٹائم کے بعد میں بہت مصروف وقت گزارتا تھا۔ مجھے مشاہیر کے لیکچرز سننے کا شوق تھا چنانچہ میں نے بریڈلا ہال میں ڈاکٹر کے ایم اشرف کا ایک لیکچر بھی سنا۔ وہ کمیونسٹ تھے۔ جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا اس ہال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی یہاں خطاب کیا ہے۔

اب تک یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ میں نے گورنمنٹ کالج، لاہور کے زمانۂ طالب علمی کے دوران احمدیت قبول کی تھی۔ اگرچہ میں دل سے تو 1939ء سے احمدی ہوچکا تھا لیکن میں نے باقاعدہ بیعت 1941ء میں کی۔ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دستی بیعت کی تھی اور بیعت کے وقت کوئی تیسرا آدمی موجود نہ تھا۔ میں نے عرض کی: حضورؓ !اگر میرے گھر والوں کو میری قبولِ احمدیت کا پتا چل گیا تو میرا تعلیمی سلسلہ ختم ہو جائے گا لہٰذا اگر مناسب سمجھا جائے تو اس کا اعلان نہ کیا جائے۔ حضورؓ نے فرمایا: ہم تو اس طرح کے اعلانات کرتے ہی نہیں ہیں چنانچہ میں مطمئن ہوگیا۔

یہاں شاید اس وضاحت کی ضرورت ہو کہ چودھری صاحب نے اپنے انٹرویوز میں گورنمنٹ لاہور کے زمانےکی کچھ اور باتیں بھی بیان کررکھی ہیں مثلاً نیو ہوسٹل میں بکثرت شلغم پکائے جانے پر طلباءکا ردعمل اور پرنسپل جی ڈی سوندھی کو اس بات کی اطلاع ہوجانا؛ ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ، ہریش چندرکتھپالیہ کی طرف سے پرنسپل کو چودھری محمد علی صاحب کی ایک مزعومہ بدتمیزی کی شکایت پہنچنا اور نیو ہوسٹل بیل (New Hostel Bell)کے متعلق چودھری محمد علی صاحب کا ’’راوی‘‘ میں ایک مضمون کا چھپنا، اُس کے بعد اتفاقاً اس گھنٹی کا چوری ہوجانا اور شک کی بنیاد پر پرنسپل کی طرف سے چودھری محمد علی صاحب کی جواب طلبی ہونا تاہم ان سب باتوں کی تفصیل راقم چودھری صاحب کے بارہ میں اپنے مضمون میں پہلے ہی بیان کرچکا ہے لہٰذا یہاں پر ان کا ذکر حذف کرتے ہوئے میں چودھری صاحب ہی کی زبانی وہ حالات قارئین کے علم میں لانا چاہتا ہوں جن کا موصوف کو بیعت کے بعد سامنا کرنا پڑا۔ (جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button