اختلافی مسائل

کیا نبی مروجہ علوم کے ابتدائی اسباق کسی استاد سے پڑھ سکتا ہے؟

(ابن قدسی)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچپن میں بعض مروجہ علوم کےچند ایک ابتدائی اسباق کچھ اساتذہ سے پڑھے۔ ان اساتذہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد گرامی نے پڑھانے کے لیے مقررکیا تھا۔ اس بات پر بعض غیر احمدی علماء اعتراض کرتے ہیں کہ نبی کسی انسان کا شاگرد نہیں ہوتا۔

حالانکہ قرآن وحدیث میں کسی جگہ یہ بات کسی اصول کے طور پر بیان نہیں ہوئی۔ اگر یہ لازم ہوتا کہ نبی کسی انسان کا شاگرد نہیں ہوتا تو اسے ایک معیار نبوت کے طور پر قرآن کریم میں بیان ہونا چاہیے تھا۔ قرآن کریم نے انبیاء کی پہچان اور ان کی صداقت کے کئی معیار بیان فرمائے ہیں لیکن کہیں یہ معیار بیان نہیں کیا۔ رسول کریمﷺ کو قرآن کریم نے اُمّی بیان فرمایا ہے۔ آپﷺ کو اُمّی قرار دینے کی کئی تشریحات کی جاتی ہیں لیکن معروف یہی ہے کہ آپﷺ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ اس لیے آپﷺ کا کوئی انسان استاد نہیں تھا۔ اگرہر نبی کے لیےاُمّی ہونا لازم تھا تو خاص رسول کریمﷺ کو اُمّی کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ قرآن کریم نے صرف رسول کریمﷺ کو امی کہا اور باقی انبیاء کو نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ خصوصیت آپﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ جیسے آپﷺ کوكَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا (سبا: 29)بیان فرمایا گیا یعنی تمام لوگوں کے لیےبشیر اور نذیر۔ اس کا مطلب ہے کہ دیگر انبیاء تمام لوگوں کے لیے نہیں تھے بلکہ وہ خاص لوگوں اور خاص علاقے کے لیے تھے۔ ہاں وہ نبی تھے۔ اسی طرح اگر ہر نبی کا اَن پڑھ ہونا ضروری ہوتا تو خاص رسول کریمﷺ کو اُمّی کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ ایک اصول کے طور پر بیان کر دینا ہی کافی ہوتا۔ آپﷺ کو خاص کرنا ہی بتاتا ہے کہ ہر نبی کے لیےاُمّی ہونا ضروری نہیں۔

قرآن کریم سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ایک نبی کسی دوسرے انسان سے علم کا حصول کر سکتا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ

قَالَ لَہٗ مُوۡسٰی ہَلۡ اَتَّبِعُکَ عَلٰۤی اَنۡ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدًا۔ (الكهف: 67)

مترجم تفسیر ابن کثیر اس آیت کا ترجمہ کچھ یوں کرتے ہیں:’’اس سے موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں آپ کی تابعداری کروں؟ کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔‘‘

مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ درخواست حضرت خضر علیہ السلام سے کی تھی۔ حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق یہ بحث تو موجود ہے کہ وہ نبی تھے یا محض ایک ولی لیکن وہ ایک انسان ہی تھے۔ ’’تفسیر ابن کثیر‘‘میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ

’’پس حضرت موسیٰ علیہ السلام ادب سے اور اس لیے کہ حضرت خضر علیہ السلام کو مہربان کر لیں ان سے سوال کرتے ہیں شاگرد کو اسی طرح ادب کے ساتھ اپنے استاد سے دریافت کرنا چاہیے۔ پوچھتے ہیں اگر اجازت ہوتو میں آپ کےساتھ رہوں آپ کی خدمت کرتا رہوں اور آپ سے علم حاصل کروں جس سے مجھے نفع پہنچے اور میرے عمل نیک ہوجائیں۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر از حافظ عماد الدین۔ ترجمہ: مولانا محمد جونا گڑھی

جلد 3صفحہ 325مکتبہ اسلامیہ )

تفسیر’’قرطبی‘‘ میں اسی آیت کریمہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’اس آیت میں دلیل ہے کہ شاگرد، استاد کے تابع ہوتا ہے اگرچہ مراتب مختلف ہوں، اس سے یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حضرت خضر علیہ السلام سے سیکھنے میں دلیل ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے افضل تھے، کبھی فاضل کو اس بات کا علم نہیں ہوتا جس کا مفضول کو علم ہوتا ہے، فضیلت اسے حاصل ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ فضیلت دیتا ہے۔‘‘

(مترجم تفسیر قرطبی از محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی، جلد ششم، صفحہ 18

ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور )

تفسیر ’’تبیا ن القرآن‘‘میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست میں ادب کی وجوہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’کیا میں حصول تعلیم کے لیے آپ کی اتباع کروں، اس قول میں اپنے لیے عدم علم کا اور اپنے استاذ کے لیے علم کا اعتراف ہے۔‘‘(صفحہ175)

پھر مزید لکھا کہ ’’حضرت موسیٰ نے کہا آیا میں آپ کی اتباع کروں کہ آپ مجھے تعلیم دیں۔ پہلے انہوں نے اپنی اتباع پیش کی اس کے بعد انہوں نے ان سے حصول تعلیم کو طلب کیا۔ گویا ادب کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے استاذ کی خدمت کرو پھر اس سے علم طلب کرو۔‘‘(صفحہ176)

پھر لکھا کہ ’’یہ تمام آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ تلمیذ اور متعلم پر واجب ہے کہ استاذ کے سامنے انتہائی ادب اور احترام کا اظہار کرے اور اگر استاذ کو یہ اندازہ ہو کہ متعلم پر تشدید اور سختی کرنا اس کے حق میں مفید ہوگا تو وہ ضرور اس کے اوپر تشدید اور سختی کرے ورنہ ہوسکتا ہے کہ تشدید نہ کرنے کی وجہ سے متعلم غرور اور تکبر میں مبتلا ہوجائے اور یہ اس کے حق میں مضر ہے۔‘‘

(تبیان القرآن از علامہ غلام رسول سعیدی جلد7

ناشر فریدبک سٹال 38اردو بازار لاہور صفحہ 177)

حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَأَلْفَى ذَالِكَ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُحِبُّ الْإِنْسَ فَنَزَلُوْا وَأَرْسَلُوا إِلَى أَهْلِيْهِمْ فَنَزَلُوْا مَعَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ بِهَا أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْهُمْ وَشَبَّ الْغُلَامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ وَأَنْفَسَهُمْ وَأَعْجَبَهُمْ حِيْنَ شَبَّ فَلَمَّا أَدْرَكَ زَوَّجُوهُ امْرَأَةً مِنْهُمْ

(صحیح بخاری حدیث نمبر 3364، کتاب انبیاء علیہم السلام کے بیان میں باب: سورۃ الصافات میں جو لفظ یَزِفُوْن وارد ہوا ہے، اس کے معنی ہیں دوڑ کر چلے۔ )

حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ نبیﷺ نے فرمایا: اس قبیلے نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ کو الفت پسند پایا۔ اس لیے انہوں نے اپنے اہل وعیال بلا کر وہاں رہائش اختیار کر لی حتیٰ کہ وہاں ان لوگوں کے کئی گھر آباد ہو گئے اور لڑکا یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی جوان ہوگیا اور انہوں نے ان لوگوں (قبیلہ جرہم ) سے عربی زبان بھی سیکھ لی۔‘‘

(صحیح بخاری (اردو)تالیف: محمد بن اسماعیل بخاری،

ترجمہ: حافظ عبد الستار الحماد، جلد نمبر 3صفحہ نمبر 539دارالسلام)

حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قبیلہ جرہم سے عربی زبان سیکھی۔ جن سے آپ علیہ السلام نے زبان سیکھی وہ انسان ہی تھے اور آپ علیہ السلام کو زبان سکھانے کے لحاظ سے استاد ہی تھے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اہل مصر سے ابتدائی علوم حاصل کرنے کے متعلق لکھا ہے کہ ’’موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کلام اور کام میں قوت والا تھا‘‘(اعمال باب 7آیت 22)

سموئیل نبی لکھنا جانتے تھے۔ جن سے لکھنا، پڑھنا سیکھا جاتا ہے وہ استاد ہی ہوتا ہے۔ لکھا ہے کہ ’’پھر سموئیل نے لوگوں کو حکومت کا طرز بتایا اور اسے کتاب میں لکھ کر خدا وند کے حضور رکھ دیا۔‘‘(سموئیل1، باب 10آیت25)

حضرت دانیال کے بارے میں ذکرملتا ہے کہ انہوں نے کسدیوں کے علوم اوران کی زبان کی تعلیم حاصل کی۔ (دانیال باب 1)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہے کہ ’’اور وہ ناصرؔہ میں آیا جہاں اس نے پرورش پائی تھی اور اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادت خانے میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا۔ اور یسعیاہ نبی کی کتاب اس کو دی گئی اور کتاب کھول کر اس نے وہ مقام نکالا جہاں یہ لکھا تھا …‘‘ (لوقا باب 4آیت 16تا17)

عیسائی مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یقیناً عبرانی زبان کسی استاد سے پڑھی ہوگی وگرنہ یسعیاہ نبی کی کتاب پڑھ نہیں سکتے تھے۔

اس سے ثابت ہوا کہ نبی مروجہ اور رسمی علوم کاحصول بظاہر کسی استاد سے کرسکتا ہے لیکن ہر نبی علم دین اور اسرار دین خدا تعالیٰ سے ہی حاصل کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’سوآنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا ہے سواس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اورحدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوگا۔ سومَیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نےکسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہےیاکسی مفسّریامحدّث کی شاگردی اختیار کی ہے۔ پس یہی مہدویت ہے جو نبوتِ محمدیہؐ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرارِدین بلاواسطہ میرےپر کھولے گئے۔‘‘

( ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14صفحہ394)

مہدی نام رکھے جانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے مقام مہدویت کی وضاحت ان الفاظ میں بیان فرمائی کہ

’’مہدویت سے مراد وہ بے انتہا معارفِ الہٰیہ اور علوم حکمیہ اور علمی برکات ہیں جو آنحضرتﷺ کو بغیر واسطہ کسی انسان کے علم دین کے متعلق سکھلائے گئے۔‘‘

( ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14صفحہ396)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام امام مہدی تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم دین کے متعلق بے انتہا معارفِ الٰہیہ، علوم حکمیہ اور علمی برکات بغیر واسطہ کسی انسان کے سکھلائےاور اس کا بہترین ثبوت علم و معرفت سے پُر حضورؑ کی کتب ہیں جو آپؑ نےدنیا کی ہدایت کے لیے تحریر فرمائیں۔

(مرسلہ: ابن قدسی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button