متفرق مضامین

David Samuel Margoliouth (نمبر 7) 16؍دسمبر1916ء

(عمانوایل حارث)

انگریز مستشرق ڈیوڈ سیمویل مارگولیتھ(17؍اکتوبر 1858ء۔ 22؍مارچ 1940ء) ایک معروف شخصیت گزرے ہیں۔ وہ اپنے بھرپور علمی اور تحقیقی کیریئر کے دوران مختصر وقت کے لیے چرچ آف انگلینڈمیں ایک پادری بھی رہے۔ اس کے علاوہ انگلستان کی Oxford Universityکے شعبہ عربی میں بطورپروفیسر رہے۔ ان کا یہ عرصہ تدریس (1889ء تا 1937ء) قریباً 48سال پر محیط تھا۔ اس دوران پہلی مرتبہ 1916ءمیں انگلستان سے پروفیسر مارگولیتھ کو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی نے خاص طو رپر اس لیے مدعو کیا ہے کہ اس یونیورسٹی کے پروفیسروں کے سامنے اسلامی تاریخ کے متعلق لیکچر دیں۔

قادیان کی عالمگیر شہرت سے متاثر ہوکر مورخہ 16؍ دسمبر1916ء کو ایک بجے کے قریب پروفیسر صاحب قادیان میں واردہوئے اور بابو رحمت اللہ صاحب کے مکان پر اتارے گئے۔ تھوڑی دیر آرام کرنے اور چائے پینے کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ملاقات کے لیے قصبہ میں آئے اور حضورؓ نے ایک مختصر سی مجلس جس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ، حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ، حضرت چوہدری فتح محمد صاحبؓ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ، حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحبؓ، حضرت چوہدری غلام محمد صاحبؓ، حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ، حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ اور خواجہ غلام نبی صاحب بلانوی ایڈیٹر الفضل موجود تھے، شرف باریابی بخشا۔ اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحبؓ کی وساطت سے کہ جو ترجمانی کرتے تھے ایک مختصر مگر نہایت مفید گفتگو فرمائی۔ جو اخبار الفضل قادیان دارالامان کے مورخہ 19تا 22؍دسمبر 1916ءکے شمارے کے صفحہ 18 سے 20 پر شائع کی گئی، ذیل میں قارئین کرام کے فائدے کے لیے درج کی جاتی ہے۔

یہاں اس امر کا اظہار موجب ازدیاد ایمان اور دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جس وقت یہ گفتگو ہورہی تھی تب حضرت مصلح موعودؓ کی عمر محض 27 برس اور پروفیسر موصوف کی عمر حضوررضی اللہ عنہ سے دگنی سے بھی زیادہ تھی۔

آغاز میں حضورؓ نے فرمایا کہ ہم آپ کے یہاں تشریف لانے سے بہت خوش ہوئے ہیں۔ کیا آپ کو کچی سڑک کی وجہ سے کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟

پروفیسر صاحب: کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ آرام سے یہاں پہنچ گیا ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: آپ کی نسبت سنا ہے کہ آپ کو تاریخ سے خاص مذاق ہے۔ کیا آپ نے تاریخ کے متعلق کوئی ایسے اصول بھی مقرر کیے ہیں جو ہر ایک مورخ کو مد نظر رکھنے چاہئیں۔

پروفیسر صاحب: میں نے کوئی نئے اصول تو نہیں نکالے۔ ہمارے خیال میں مسلمان مورخین نے تاریخ نویسی کے لیے جو طریق اختیار کیا ہے وہ بہت محتاط اور صحیح ہے۔ ہمارا صرف یہ کام ہے کہ ہم ان کے خیالات اور واقعات کو انگریزی میں بیان کرتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: اسلامی زمانوں کی وہ تاریخی کتابیں جو عربی زبان میں ہیں۔ ان میں سے کس کو ترجیح دیتے ہیں۔

پروفیسر صاحب: تاریخ کے فلسفہ کے متعلق ابن خلدون کے مقدمہ کو سب پر ترجیح دیتا ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: تاریخ کے فلسفہ کی رو سے نہیں۔ عام تاریخی واقعات کی رو سے۔

پروفیسر صاحب: مسکویہ کو میں دوسرے مورخوں پر ترجیح دیتا ہوں۔ (Miskawayh)غالباً

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: ہمارے سلسلہ کادعویٰ ہے کہ ہم اس اسلام کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو دیا گیا تھا۔ اس کی حقیقی اور اصلی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور ہمار ےخیال میں تاریخ جن باتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے اس سے بڑھ کر صاف اور واضح طو رپر ہم پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ جو کچھ ہم پیش کرتے ہی وہ مشاہدہ کے رو سے ہے۔ اور مورخین کے نزدیک کسی واقعہ کے متعلق قطعی دلیل مشاہدہ ہی ہوتی ہے۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہو اس کو مسلّم نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن جو بات مشاہدہ میں آجائے۔ اس کا انکار کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا مثلاً کسی تاریخ کی کتاب میں لکھا ہو کہ فلاں جگہ کوئی شہر تھا۔ کوئی شخص وہاں جاکر دیکھ لے کہ واقعہ میں وہاں شہر ہے۔ یا اگر شہر نہیں تو کھنڈرات موجود ہیں۔ یا اسی طرح پر لکھا ہو کہ فلاں جگہ پہاڑی ہے اور کوئی شخص اسی جگہ پہاڑی کو مشاہدہ کرلے۔ تو پھر اسے تاریخ یا جغرافیہ کے اس بیان کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہ جائےگا۔ لیکن جس بات کا کوئی مشاہدہ نہ کرسکے اسے اس وقت تک قطعی طور پر درست اور صحیح نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ اس کے معلوم ہونے کے ذرائع نہایت معتبر اور قابل اعتبار نہ ہوں۔

اس بات کو مدنظر رکھ کر اسلام کے متعلق اوّل تو یہ دیکھا جائے کہ وہ کس طرح اور کن ذرائع سے ہم تک پہنچا ہے اور آیا وہ ذرائع معتبر ہیں یا نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ اسلام جو کچھ کہتا اور بتاتا ہے اس کو تجربہ اور مشاہدہ میں لاکر دیکھیں کہ آیا وہ ایسا ہے بھی یا نہیں جیسا کہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے بانی حضرت رسول کریمﷺ خدا تعالیٰ سے خاص تعلق رکھتے تھے اور اسلامی تاریخ ایسے واقعات بیان کرتی ہے جو اس دعویٰ کی تائید میں ہیں۔ اب اگر کوئی شخص اسلام پر عمل کرکے خداتعالیٰ تک پہنچ جائے تو اس کو یقین ہوجائےگا کہ بانی اسلام کے متعلق بھی جو کچھ بتایا جاتا تھا وہ درست تھا وہ ہرگز مفتری نہ تھے خواہ اس کا بانی کوئی ہی ہو۔ رسول کریمﷺ ہوں ابوبکرؓ عمرؓ ہوں یا عثمانؓ و علیؓ ہوں۔ اور چونکہ زمانہ کے کرٹکس اسلام کو مختلف آدمیوں کے ہاتھوں سے تکمیل کو پہنچا ہوا صرف اس قیاس کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ یہ انسان کا بنایا ہوا مذہب ہے۔ اور ایک انسان ایسی تعلیم کہاں دے سکتا ہے اس لیے جب مشاہدہ سے یہ ثابت ہوجائے کہ اسلام اپنے اندر فوق العادت طاقت رکھتا ہے تو وہ خیال خود باطل ہوجاتا ہے اور ماننا پڑتا ہے کہ تاریخ اسلام جو کچھ بتاتی ہے وہ درست ہے۔ کیونکہ جب آج اس تعلیم پر علم کرنے سے کوئی شخص خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے تو پھر وہ شخص کیوں خدا تعالیٰ تک نہ پہنچا ہوا ہوگا جس نے یہ تعلیم دنیا تک پہنچائی۔

اس مشاہدہ سے یقینی طور پر ثابت ہوگا کہ اس انسان کا خدا تعالیٰ سے ضرور بہت بڑا تعلق تھا اور کوئی مورخ اس کو غلط نہیں کہہ سکتا لیکن باوجود اس مشاہدہ کے اگر پھر بھی کوئی کہے کہ یہ غلط ہے تو سوائے اس کے کہ عقلمند اور دانا انسان اس کے کہنے پر ہنس دیں اور کیا کرسکتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے تو تجربہ اور مشاہدہ سے دیکھ لیا ہے کہ اس تعلیم پر عمل کرنے سے آج بھی وہی نتیجہ نکلا ہے جس کا اسلام نے پہلے دن دعویٰ کیا تھا۔

پروفیسر صاحب: اس بات سے مجھے بھی اتفاق ہے کہ مشاہدہ اگر واقعہ کی صداقت پرشاہد ہو تو اس کی صداقت میں شک نہیں رہ جاتا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اس بات سے اتفاق ظاہر کیا ہے۔ مگر یورپین ممالک کے لوگوں نے اس طرف توجہ نہیں کی اور وہ اسی پر جمے ہوئے ہیں کہ اسلام اور بانی اسلام کے حالات جوتاریخی طو رپر ان تک پہنچے ہیں ان کو غلط ثابت کریں۔ حالانکہ کوئی تاریخی رائے قطعی نہیں ہوسکتی۔ اسی زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ کے متعلق آج خبر آتی ہے فلاں بات یوں ہوئی لیکن کچھ عرصہ بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ خبر غلط تھی اور ایک ذریعہ سے اور خبر ملتی ہے اور دوسرے سے اور۔ پس جب زمانہ حال کی اخبار کے حالات میں اس قدر اختلاف ہے تو زمانہ ماضی کی اخبار میں کیوں نہ ہو اور جب اس قدر اختلاف ہے تو تاریخی واقعہ کو قطعی اور یقینی نہیں کہا جاسکتا۔ تاریخی شہادت میں کوئی نہ کوئی پہلو شک و شبہ کا باقی رہتا ہے۔ اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں تاریخی بات ضرور یونہی ہوئی ہے۔ لیکن جو بات تاریخ میں مذکور ہو اور آج بھی کسی طرح اس کا مشاہدہ ہوجائے تو پھر اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا۔

دیکھئے اسلام نے دعویٰ کیا ہے کہ رسول کریمﷺ کا خدا تعالیٰ سے تعلق تھا، آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سےخاص نصرت اور تائید حاصل تھی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا کے لیے رسول ہوکر آئے تھے۔ اب ایک شخص ہے جو تاریخی شہادت پر مختلف طور پر جرح کرکے اس بات کی تصدیق نہیں کرتا لیکن ایک اور شخص ہے جس نے اسلام کی تعلیم پر چل کر ان سب باتوں کو حاصل کیا ہے وہ شہادت دیتا ہے کہ جو کچھ فلاں تاریخ میں لکھاتھا وہ بالکل درست ہے۔ کیونکہ اس کو غلط صرف قیاس سے کہا جاسکتا تھا اور میں نے مشاہدہ سے اس کو درست پایا ہے ان دونوں میں سے کس کی شہادت قابل اعتبار ہوگی اگر کوئی شخص باوجود مشاہدہ کے اس تاریخی شہادت کو بعض اور تاریخی روایات کی بنایا بعض سوالات کی بناپر غلط قرار دیتا ہے تو وہ شخص جس نے مشاہدہ کیا ہے اس سے یہ بات دریافت کرنے کا حق رکھتا ہے کہ جب ہم نے اسلام پر عمل کرکے اب بھی وہی باتیں حاصل کرلی ہیں تو پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ تاریخ میں جو باتیں بیان ہوئی تھیں وہ غلط تھیں۔

پروفیسر صاحب: بے شک مشاہدہ جس بات کی تائید کرے اسے رد نہیں کیا جاسکتا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: مختلف مذاہب کی اپنی اپنی تاریخی کتب ہیں اور وہ اپنی تاریخوں کی نسبت دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سچی ہیں اور دوسرے مذاہب کی روایات کو جھوٹا قرار دیتے ہیں تا ان کا مذہب سچا ہو۔ اس اختلاف کا فیصلہ کرنے کی آسان راہ یہ ہے کہ مشاہدہ کی تائید کے ساتھ اس اختلاف کو دور کیا جاوے۔ ورنہ روایتا ًیہ اختلاف کبھی دور نہیں ہوسکتا۔ پس یورپ کے لوگ جہاں تاریخ کی چھان بین کرکے کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اگر اس کے ساتھ مشاہدہ کے ساتھ فیصلہ کرنے کی طرف بھی توجہ کریں تو ہم اسلام کی طرف سے اسلام کا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارے پیشوا نے تحقیق کا یہ رستہ کھول دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہر مذہب والے تاریخی طور پر کچھ دعاوی کرتے ہیں مثلاً مسیحی کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ سے فلاں فلاں نشان ظاہر ہوئے۔ اس لیے وہ سچے ہیں۔ لیکن دوسرے مذاہب والے کہتے ہیں کہ نہیں۔ یہ غلط ہے کہ حضرت مسیحؑ سے کوئی ایسے نشان ظاہر ہوئے۔ اسی طرح ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے فلاں فلاں نشان دکھلائے۔ مگر دیگر مذاہب والے کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ اسی طرح مسلمان بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے ذریعہ فلاں فلاں نشان ظاہر ہوئے لیکن دوسرے ان کے ماننے سے انکار کرتے ہیں اب اس بات کا کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا کہ کونسے مذہب کے نشانات واقعہ میں رونما ہوئے۔ کیونکہ ہر ایک مذہب والا تاریخی طور پر اپنے اپنے نشانات کو پیش کرتا ہے لیکن جس مذہب کے نشانات کا اب بھی مشاہدہ ہوسکے۔ ان کو ضرور سچا تسلیم کیا جائے گا۔ پس ہم آج بھی اس بات کے لیے تیار ہیں کہ وہی نشان اور خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید کے منظر جو آنحضرتﷺ کے وقت ظہور پذیر ہوئے۔ اور جن کو مخالفین اسلام اس وقت امپاسبل (Impossible)اور ناممکن کہتے ہیں ان کو دکھا سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس دعویٰ کو پورا کرکے بھی دکھا دیا ہے اب بھی اگر اس قسم کی تحقیقات کے متعلق ایک مجلس ہو۔ جس میں ہر ایک مذہب والے شامل ہوں تو ہم بھی شامل ہوں گے۔

اس مجلس میں ہر مذہب والے اپنے اپنے امتیازی نشانات جو روایتا ًپہنچتے ہیں ان کا اس زمانہ میں مشاہدہ سے ثبوت دیں۔ جس مذہب والے مشاہدہ کی بنا پر ان کو سچا ثابت کر سکیں، ان کا دعویٰ اور تاریخ صحیح تسلیم کی جائے۔ اور جو نہ ثابت کر سکیں ان کا دعویٰ قابل التفات نہ سمجھا جائےگا۔ اس مجلس میں اگر ہم مشاہدہ کی رو سے دکھادیں اور ثابت کر دیں کہ وہی نشانات جو آنحضرتﷺ پر ظاہرہوئے وہی اب بھی ہوسکتے ہیں۔

(اس موقع پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نشان منہ مانگانہیں ہوا کرتا۔ میری مراد اس قسم کے معجزات کے ظہور سے یہ نہیں کہ مخالف جو معجزہ چاہےبتادےاور وہی ظاہرہوجائے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ جب تمام مذاہب یا کوئی بڑا مذہب خصوصاً مسیحیت اس طرح فیصلہ کرنے پر آمادہ ہو تو علاوہ ان نشانات کے جو حضرت مسیح موعودؑ نےدکھائے اور جو مشاہدہ کا رنگ رکھتے ہیں اور جن میں سے بعض ابھی پورے ہونے والے ہیں خدا تعالیٰ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں مذکورمعجزات میں سے کسی معجزہ کی مانند معجزہ اسلام کی صداقت کے لیے دکھاسکتا ہے اور اگر ایسا مقابلہ ہو تو یقیناً یقیناً دکھلائےگا۔ تا دشمنان اسلام پر ایسی حجت قائم ہو کہ جس سے اسلام کے غلبہ کے لیے راہ کھل جائے۔ )

تو پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا اسلام کو سچا مذہب اور آنحضرتﷺ کو سچارسول نہ مان لے کیونکہ آنحضرتﷺ کے خادم اور غلام جو کام کرسکتےہیں وہ آقا اور سردار محمد مصطفیٰﷺ نے کیوں نہ کیا ہوگا۔ ضرورکیاہے۔

پروفیسر صاحب: کیا کتاب دلائل النبوۃ میں جو معجزے درج ہیں۔ ان کو آپ مانتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: ہم ان معجزات کو مانتے ہیں جو قرآن کریم اور صحیح احادیث میں آئے ہیں۔ باقی اس قسم کی کتابیں جو عام لوگوں کے خوش کرنے کے لیے قصہ کے طور پر لکھی گئی ہیں ان کو نہیں مانتے۔ اور اس قسم کی کتابوں سے کوئی مذہب خالی نہیں ہے۔ جن میں اپنے نبی کو بڑھانے کے لیے بعض لوگ بغیر تحقیق سنی سنائی باتیں مبالغہ آمیز پیرایہ میں لکھ دیتے ہیں۔ ہم ایسی کتابوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ مگر ان کو تسلیم نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے نبی کریمﷺ نے نشان دکھلائے ہی نہیں۔ ضرور دکھلائے ہیں۔ لیکن وہی جو قرآن شریف اور صحیح احادیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور انہی کی نسبت ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پھر بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح ہم دوسرے مذاہب والوں کو بھی کہیں گے کہ جن نشانات کا ان کی الہامی کتابیں دعویٰ کرتی ہیں انہی کا مشاہدات سے ثبوت دیں۔

پروفیسر صاحب: آپ کی رائے میں شق القمر کا معجزہ جو قرآن میں آیا ہے۔ درست ہے یا نہیں؟

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: کیوں درست نہیں۔ جب قرآن کریم میں آگیاہے تو پھر ہمارے لیے اس کے درست ہونے میں کیا شک و شبہ ہوسکتا ہے۔

پروفیسر صاحب: کیا آج کل پھر یہ معجزہ ہوسکتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: جس رنگ میں قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اس طرح ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم نے جو کچھ اس کے متعلق بتایا ہے وہ اس سے بالکل الگ ہے جو عام طورپر مشہور ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ شق القمر ساعت کی علامت ہے۔ اب اس کے وہی معنی کیے جائیں گے جن کی رو سے ساعت کی علامت ٹھہرے اور وہ یہ ہیں کہ قمر عرب کی مملکت کا نشان تھا۔ رسول اللہﷺ کو کشفی رنگ میں دکھایا گیا کہ قمر دو ٹکڑے ہوگیا ہے اور یہ کشف دوسروں کو بھی دکھایاگیا۔ اس قسم کا کشف جو دوسروں کو بھی دکھائی دے۔ اس زمانہ میں بھی ہوا ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ رسول کریمﷺ کو اس کشف میں دکھایاگیا ہے کہ چاند پھٹ گیاہے۔ جس سے یہ مراد تھی کہ عرب کی حکومت تباہ ہوجائیگی۔ اس قسم کے کشف کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ اب بھی کھلا ہے۔

اس بات کا ثبوت کہ قمر سے مراد عرب کی حکومت تھی اس مشہور واقعہ سے ملتا ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے خیبر پر حملہ کیا۔ تو وہاں کے سردار کی لڑکی صفیہ نے رؤیا دیکھا کہ چاند میری گود میں آگیا ہے۔ اس نے جب یہ رؤیا اپنے باپ کو سنائی تو اس نے اسے تھپڑ مارا کہ کیا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ یہ خواب اس کی اس رنگ میں پوری ہوئی کہ جب خیبر فتح ہوا تو ان کا نکاح آنحضرتﷺ سے ہوا۔ غرض چاند اہل عرب کی حکومت کا نشان تھا۔ اور اس کے پھٹنے میں اس وقت کے انتظام حکومت کی تباہی کی پیش گوئی تھی۔

پروفیسر صاحب: قرآن کے بے مثل ہونے کا جو معجزہ ہے۔ کیا وہ دوبارہ دکھایا جاسکتاہے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: اِس زمانہ میں کم از کم بیس دفعہ تو دکھایا جاچکا ہے۔ ہمارے امام حضرت مرزا صاحبؑ نے کئی ایک کتابیں عربی زبان میں لکھیں۔ تیس ہزار روپیہ تک کا انعام رکھا۔ اور تمام دنیا کے لوگوں کو چیلنج دیا کہ ان کے مقابلہ پر لکھیں۔ لیکن کوئی مقابلہ نہ کرسکا۔ آپ نے نہ کسی عربی مدرسہ سے پڑھا نہ آپ کبھی عرب میں گئے نہ آپ نے کسی مشہور، معروف استاد سے تعلیم حاصل کی۔ لیکن باوجود اس کے آپ نے تمام دنیا کے عربی دانوں کو چیلنج دیا لیکن کسی نے قبول نہ کیا۔ یہ ثبوت تھا اس بات کا کہ آنحضرتﷺ پر جو یہ اعتراض کیا جاتاتھا کہ آپ جب کچھ پڑھے ہوئے نہیں تھے تو پھر قرآن کس طرح بنا لیا۔ قرآن کریم کسی انجمن نے مل کر بنایاہے۔ وہ اعتراض غلط تھا۔ اب بھی ایک شخص نے جو ایک لحاظ سے اُمی ہی تھا بے مثل کتب لکھ کر ثابت کردیا کہ آقاکاکام ضرور افضل تھا۔

حضرت مرزا صاحبؑ پر کفر کے فتوے دینے والے اب بھی ہندوستان میں موجود ہیں وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ آپ نے کسی عربی مدرسہ میں نہیں پڑھا، پھر آپ کبھی عرب نہیں گئے۔ آپ کی مادری زبان عربی نہ تھی لیکن باوجود اس کے آپ نے عربوں اور تمام دنیا کے عربی دانوں کو چیلنج دیا لیکن کسی کو قبول کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ المنار کا ایڈیٹرمقابلہ پر تو کچھ نہ لکھ سکا ہاں یہ لکھ دیا کہ آپ کی کتب میں بہت سے غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن جب اسے جواب دیا گیا اور چیلنج کیا گیا تو پھر ایسا نادم اور شرمندہ ہوا کہ کچھ بول نہ سکا۔ اور مقابلہ سے دل چرا گیا۔

پروفیسر صاحب: اگر کوئی اس چیلنج کو منظور کرے تو فیصلہ کون کرے گا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: حضرت مرزا صاحبؑ نے اس کا بھی فیصلہ کردیا ہوا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جو چیلنج منظور کرے وہی جج بھی مقرر کرے (بشرطیکہ وہ جج اس کے مریدین وغیرہ میں سے نہ ہوں ) البتہ وہ جج فیصلہ کرتے وقت یہ قسم کھائیں کہ اگر ہم جھوٹا فیصلہ کریں تو ایک سال کے اندر اندر ہم پر خدا کا عذاب نازل ہوپھر اگر ایک سال تک ان پر کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہو جو خاص شان او رہیبت رکھتا ہو، تو انعام سپرد کردیا جائےگا۔

پروفیسر صاحب: یہ تو بہت وسیع حوصلہ دکھایاگیا ہے۔ آپ سے گفتگو کرکے مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اورمیں آپ کا شکرگزار ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ: چلتی دفعہ ہمارا ایک پیغام ہےجسے ہم اس امید پر دیتے ہیں کہ آپ اسے اپنے حلقہ میں پہنچا دیں، اور وہ یہ کہ دنیا میں سختی اور درشتی سے کبھی کام نہیں چلاکرتے۔ اگر کسی بات کے متعلق باہمی میل جول اور محبت سے فیصلہ کیا جائے تو بہت مفید ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر یوروپین محبت سے اسلامی مسائل کے متعلق تحقیقات کریں تو اس سے انہیں فائدہ بھی ہواور آپس میں محبت بھی بڑھے۔

پروفیسر صاحب: میں کوشش کروں گا کہ اپنے حلقہ میں یہ پیغام پہنچا دوں۔

حضرت خلیفۃ المسیحؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی چند عربی کتابیں اعجاز احمدی، لجۃ النور، سیرت الابدال دیں۔ جن کا پروفیسر صاحب نے شکریہ ادا کیا۔ اور چونکہ پروفیسر صاحب کو شام کی گاڑی پر واپس لاہور جانا تھا اس لیے اس مختصر سی گفتگو کے بعد حضرت خلیفۃ المسیحؓ سے رخصت ہوگئے۔ اور مقبرہ بہشتی، منارۃ المسیح، لائبریری حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اور دارالعلوم کی عمارات کو دیکھنے کے بعد روانہ ہوگئے۔

شاید اسی ملاقات کا اثر تھا کہ قریباً 8سال بعد جب انگلستان میں ویمبلےنمائش کے انعقاد کے موقع پر انتظامیہ نے مدعوین کی فہرست مرتب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھی تشریف لانے کی درخواست پیش کی تو اس موقع پر نہایت خلوص اور محبت سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو مدعو کرنے والوں میں پروفیسر مارگولیتھ کا نام بھی شامل تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button