کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

نیکی یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے پاک تعلقات قائم کئے جاویں

گناہوں کا چھوڑنا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے …… اگر کوئی کہے کہ مَیں چوری نہیں کرتا، زنانہیں کرتا، خون نہیں کرتا اورفسق و فجور نہیں کرتا تو کوئی خوبی کی بات نہیں اور نہ خدا پر یہ احسان ہے کیونکہ اگر وہ ان باتوں کا مرتکب نہیں ہوتا تو ان کے بدنتائج سے بھی وہی بچا ہواہے۔ کسی کو اس سے کیا؟ اگر چوری کرتا، گرفتار ہوتا، سزا پاتا۔ اس قسم کی نیکی کونیکی نہیں کہا کرتے۔

ایک شخص کا ذکرہے کہ ایک کے ہاں مہمان گیا۔ بے چارے میزبان نے بہت تواضع کی تو مہمان آگے سے کہنے لگا کہ حضرت آپ کا کوئی احسان مجھ پر نہیں ہے۔ احسان تو میرا آپ پر ہے کہ آپ اتنی دفعہ باہر آتے جاتے ہیں اور کھانا وغیرہ تیار کروانے اور لانے میں دیر لگتی ہے۔ مَیں پیچھے اکیلا بااختیار ہوتاہوں چاہوں تو گھر کو آگ لگادوں یا آپ کا اَور نقصان کر چھوڑوں۔ تو اس میں آپ کاکس قدر نقصان ہو سکتاہے۔ تو یہ میرا اختیار ہے کہ مَیں کچھ نہیں کرتا۔ ایسا خیال ایک بدآدمی کا ہوتاہے کہ وہ بدی سے بچ کر خداتعالیٰ پر احسان کرتاہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک ان تمام بدیوں سے بچناکوئی نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے پاک تعلقات قائم کئے جاویں اور اس کی محبت ِذاتی رگ وریشہ میں سرایت کر جاوے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتاہے

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآءِذِی الۡقُرۡبٰی(النحل:91)۔

خداتعالیٰ کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کرکے اس کی فرمانبرداری کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور اُسے پہچانو اور اس پر ترقی کرنا چاہو تو درجہ ا حسان کا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کرلینا کہ گویا اس کو دیکھ رہاہے اور جن لوگوں نے تم سے سلوک نہیں کیا ان سے سلوک کرنا۔ اوراگر اس سے بڑھ کر سلوک چاہو تو ایک اَور درجہ نیکی کا یہ ہے کہ خدا کی محبت طبعی محبت سے کرو، نہ بہشت کی طمع، نہ دوزخ کاخوف ہو۔ بلکہ اگر فرض کیا جاوے کہ نہ بہشت ہے نہ دوزخ ہے تب بھی جوشِ محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔ ایسی محبت جب خداتعالیٰ سے ہو تو اس میں ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی فتور واقع نہیں ہوتا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 460۔ ایڈیشن2003ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button