حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (3) (قسط اوّل)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (فرمودہ 28؍دسمبر1930ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)

ہر خوبی اور ہر وصف میں یکتا کتاب

صدقہ و خیرات اور مرد و عورت کے تعلقات کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم

تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ عَبَسَکی حسبِ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی۔

عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۔ اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ۔ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی ۔ اَوۡ یَذَّکَّرُ فَتَنۡفَعَہُ الذِّکۡرٰی ۔ اَمَّا مَنِ اسۡتَغۡنٰی۔ فَاَنۡتَ لَہٗ تَصَدّٰی ۔ وَ مَا عَلَیۡکَ اَلَّا یَزَّکّٰی ۔ وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی ۔ وَ ہُوَ یَخۡشٰی ۔ فَاَنۡتَ عَنۡہُ تَلَہّٰی ۔ کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ۔ فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ۔ فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ۔ مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ۔ بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ۔ کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ۔(عَبَسَ:2-17)

اس کے بعد فرمایا:

مجھے کھانسی تو پہلے ہی سے تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جلسہ کے پچھلے دو دن کام کی توفیق عطا فرما دی۔ اس وقت بھی آواز اونچی نہیں نکلتی لیکن امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جب حلق میں گرمی پیدا ہو گئی تو آواز بلند ہو جائیگی اور سب احباب تک پہنچنی شروع ہو جائیگی۔ دوست گھبرائیں نہیں بلکہ اطمینان سے بیٹھے رہیں۔

ایک دوست کے چند سوالات کے جوابات

پیشتر اس کے کہ میں آج کا مضمون شروع کروں میں ایک دوست کے چند سوالات کے جواب دینا چاہتا ہوں جو میری کل کی تقریر کے متعلق ہیں۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ اس تقریر سے پیدا ہوئے ہیں۔ سوال تو ایسے ہیں کہ بجائے خود لمبی تقریر چاہتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جس مضمون کو میں اس موقع پر بیان کرنے کا ارادہ کر کے آیا ہوں اسے نظر انداز کر دوں اور ان سوالات کا اور ان کے علاوہ دوسرے سوالوں کا تفصیلی جواب دینا شروع کر دوں۔ اگر میں ایسا کروں تو میری مثال اس ہر دلعزیز کی سی ہو جائیگی جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ دریا کے کنارے بیٹھا رہتا تھا اور جو لوگ اسے دریا سے پار اتارنے کے لئے کہتے انہیں پار لے جاتا۔ ایک دفعہ وہ ایک شخص کو اٹھا کر لے جا رہا تھا اور ابھی دریا کے نصف میں ہی پہنچا تھا کہ ایک اور شخص نے اسے آواز دی کہ مجھے بہت ضروری کام ہے مجھے جلدی لے جائو۔ اس نے پہلے شخص کو اسی جگہ دریا میں کھڑا کیا اور دوسرے کو لینے کے لئے واپس آ گیا۔ جب اسے لے کر گیا تو ایک تیسرے نے کہا کہ مجھے بہت جلدی جانا ہے مجھے لے چلو۔ اس پر دوسرے کو بھی پانی میں کھڑا کر کے واپس آ گیا اور تیسرے کو لے کر چلا۔ ان میں سے تیرنا کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ اچانک پانی کا ایک ریلا آیا تو پہلے نے کہا۔ میاں ہردلعزیز مجھے بچانا۔ یہ سن کر اس نے جس شخص کو اٹھایا ہوا تھا اسے پانی میں کھڑا کر کے پہلے کو بچانے کیلئے لپکا۔ اس تک ابھی پہنچا نہ تھا کہ تینوں ڈوب گئے۔

پس یہ طریق اختیار کرنا کہ مقررہ لیکچر سے ہٹ کر ہرقسم کے سوالات کا جواب دینا شروع کر دیا جائے اپنے کام کو نقصان پہنچانا ہے۔ گو ممکن ہے اس طرح ہر دلعزیزی تو حاصل ہو جائے لیکن فائدہ کسی کو نہیں پہنچے گا۔ پس میں اس وقت سوالات کا مفصل جواب نہیں دے سکتا۔ البتہ مختصر طور پر چند باتیں بیان کر دیتا ہوں۔

مسلمان محکوم ہو سکتا ہے یا نہیں؟

سائل کا ایک سوال یہ ہے کہ مسلم کو کسی کا محکوم نہیں ہونا چاہئے۔ اگر احمدی حقیقی مسلمان ہیں تو معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی مسلمان بھی آزاد نہیں۔ یہ صورت حالات کیوں ہے؟

اس سوال کے پہلے حصہ کا جواب تو یہ ہے کہ مسلم کے سوا کوئی محکوم ہوتا ہی نہیں۔ مسلم کے معنی ہی فرمانبردار کے ہیں۔ پس مسلم محکوم ہوتا ہے مگر اصول کا۔ مسلم محکوم ہوتا ہے مگر راستی کا۔ مسلم محکوم ہوتا ہے مگر حق کا۔ پس جب ہم کسی مسلم کی محکومی کو دیکھیں گے تو یہ معلوم کریں گے کہ اس کی محکومی اسلام کے مطابق ہے یا خلاف۔ اگر اس کی محکومی خلاف اسلام ہو تو ہم کہیں گے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن اگر اسلام کے مطابق ہو تو ہم کہیں گے کہ سچا مومن یہی ہے۔ پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی غیر مسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے اصول کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ انگریزوں کے ماتحت احمدیوں کا رہنا بھی خلاف شریعت ہے۔ لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ غیرمسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے خلاف نہیں تو ماننا پڑے گا کہ احمدیوں کا انگریزی حکومت کے ماتحت رہنا بھی خلاف شریعت نہیں بلکہ ماتحت رہنا اسلام کے عین مطابق ہے۔

قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس مذہب کا ہی نام نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے بلکہ ہر نبی جو مذہب بھی لایا وہ اسلام ہی تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے۔

اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَـٰلَمِيْنَ(البقرۃ:132)

یعنی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا

اَسْلِمْ

مسلمان ہو جائو۔ تو انہوں نے کہا

اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَـٰلَمِيْنَ میَں تو رَبِّ الْعَـٰلَمِيْنَ

کے لئے پہلے ہی اسلام لا چکا ہوں۔ غرض پہلے تمام انبیاء جو دین لائے وہ بھی اسلام ہی تھا۔ ان ہی انبیاء میں سے ایک نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ماتحت اس کی حکومت میں رہے۔ حالانکہ فرعون کا نام اب گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ پھر ان ہی انبیاء میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے جو رومی حکومت کے ماتحت رہے جو مشرک تھی۔ پس جب ان انبیاءؑ کے اسلام کو غیر مسلموں کے ماتحت رہنے سے کوئی نقصان نہ پہنچتا تھا تو ہم جن کے ماتحت رہتے ہیں وہ تو اہل کتاب ہیں جو ان لوگوں سے اقرب ہیں۔ رومی کسی شریعت کے پابند نہ تھے اور نہ فرعون کے پاس کوئی شریعت تھی۔ اب اگر ان کی اور ہماری محکومیت میں کوئی فرق ہے تو یہ کہ ہم کم محکوم ہیں اور وہ زیادہ محکوم تھے۔ اگر اس محکومیت سے ان کے اسلام میں فرق نہ آیا تو پھر ہمارے اسلام میں بھی فرق نہیں آ سکتا۔ اسلام میں کہیں یہ حکم نہیں کہ کسی مسلمان کو کسی غیرمسلم حکومت کے ماتحت نہیں رہنا چاہئے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 13 سال تک مکہ میں مشرکوں کے قوانین کے ماتحت رہے۔

باقی رہا یہ کہنا کہ احمدی اگر حقیقی مسلمان ہیں تو گویا ایک مسلمان بھی دنیا میں آزاد نہیں ہے۔ میں اس کا بھی قائل نہیں ہوں۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ مومن کسی کا غلام نہیں ہوتا۔ بھلا اس شخص کو کون غلام کہہ سکتا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ دنیا کی ساری حکومتیں اور بادشاہتیں بھی اسلام کے خلاف کچھ منوائیں گی تو میں نہیں مانوں گا، وہ غلام کس طرح کہلا سکتا ہے۔ اور جو شخص یہ کہے کہ میں بڑی سے بڑی طاقت کی اسلام کے خلاف بات مان لوں گا وہ احمدی نہیں۔ پس کوئی احمدی غلام نہیں بلکہ ہراحمدی آزاد ہے۔

عیسائیوں کو کیوں حکومت ملی؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی حکومتیں چھن گئیں۔ لیکن عیسائی بھی حضرت مسیح ؑ کی کتاب کے خلاف عمل کرتے ہیں پھر ان کو کیوں حکومتیں ملی ہوئی ہیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سزا اسی کو دی جاتی ہے جو خزانہ کا محافظ ہو کر غفلت اور سستی کرتا ہے۔ عیسائی روحانی خزانہ کے محافظ نہ تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد عیسائی اس خزانہ کی محافظت سے برخاست کر دیئے گئے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کی وجہ سے یہ محافظت مسلمانوں کے سپرد ہو چکی تھی۔ اب وہ غفلت کریں تو ان کو سزا دی جائیگی عیسائیوں کو نہیں۔

مسیح موعود کی بعثت سے مسلمانوں کو کیا طاقت حاصل ہوئی؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے برے افعال کے نتیجہ میں مسلمانوں سے حکومت اور شوکت چھن گئی تو مسیح موعود نے آکر مسلمانوں کو کیا شوکت دی۔ ان کے دعویٰ پر چالیس سال کے قریب گذر چکے ہیں مگر انہوں نے کوئی حکومت نہ دلائی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت اس لئے نہ ملی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کئی اَور انبیاء کے زمانہ میں بھی حکومت نہیں ملی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تین سو سال تک ان کے ماننے والوں میں حکومت نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شرعی نبی ہوتے ہیں اور ایک غیر شرعی۔ شرعی نبی نے چونکہ شریعت کے احکام پر جو اسے دیئے جاتے ہیں عمل کرانا ہوتا ہے اس لئے اس کی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ حکومت دے دیتا ہے۔ اور غیر شرعی نبی نے چونکہ کسی ایسے حکم پر عمل نہیں کرانا ہوتا جس پر پہلے عمل نہ ہو چکا ہو اس لئے اس کے زمانہ میں خداتعالیٰ قلوب کی فتح رکھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہی فتح عطا کی ہے۔

علیؓ اور خالدؓ کے مثیل

چوتھا سوال یہ کیا گیا ہے کہ چالیس پچاس سال کے عرصہ میں احمدیت کیوں ایک بھی علیؓ یا خالدؓ پیدا نہ کر سکی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ احمدیہ جماعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کی مثیل ہے۔ اور یہ وہی کام کرنے آئی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے کیا۔ اس لئے اس میں خالدؓ اورعلیؓ کی مثال تلاش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ شرعی نبی کے ماننے والے تھے۔ شریعت کے مغز کو جاری کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے۔ اور اس کے لئے نفس کی قربانی کی ضرورت تھی جس میں جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو گئی ہے۔ پس ہم سے اگر کوئی مطالبہ ہو سکتا ہے تو یہ کہ چالیس سال میں کتنے پطرس پیدا کئے؟ اس کے جواب میں ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ پطرس کیا ان سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں پیدا ہوئے۔ پطرس تو جب پکڑا گیا اس نے صاف کہہ دیا کہ میں مسیح کو جانتا بھی نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک ماننے والا جب پکڑا گیا تو اس نے پتھروں کی بوچھاڑ کے نیچے جان دے دی لیکن ایمان ہاتھ سے نہ دیا۔ پھر ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں سے ایسے لوگ پیش کر سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیحؑ کی طرح قربانیاں کیں۔ جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے صداقت نہ چھوڑی اور صلیب پر چڑھنا گوارا کر لیا۔ اسی طرح ہماری جماعت کے پانچ آدمیوں نے کابل میں صداقت کیلئے اپنی جان قربان کر دی۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں جیسے افراد پیدا نہیں کئے بلکہ ایسے افراد پیدا کئے جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام جیسی قربانی کے نظارے دکھائے۔

٭…٭جاری ہے ٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button