الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

’’درویشانِ احمدیت‘‘

مجلس انصاراللہ یوکے کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن جولائی اگست و ستمبر اکتوبر 2013ء میں خاکسار محمود احمد ملک کے قلم سے مکرم فضل الٰہی انوری صاحب کی مرتبہ کتاب ’’درویشان احمدیت‘‘کا تعارف شامل اشاعت ہے…

محترم فضل الٰہی انوری صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے B.Sc کرنے کے بعد جامعہ احمدیہ ربوہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ 1956ء میں آپ کو غانا بھجوایا گیا۔ 1960ء میں واپس آکر جامعہ احمدیہ ربوہ میں استاد مقرر ہوئے۔ 1964ء میں بطور مبلغ جرمنی بھجوائے گئے۔ 1968ء میں آپ کی تعیناتی نائیجیریا میں بطور امیر و مبلغ انچارج ہوئی۔ 1972ء میں امیر و مبلغ انچارج جرمنی مقرر ہوئے۔ 1977ء میں اسلام آباد (پاکستان) میں ایک سال کے لیے مربی سلسلہ کے طور پر اور 1979ء تا 1982ء بطور ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد (تعلیم القرآن) اور سیکرٹری حدیقۃالمبشرین خدمات بجالائے۔ 1982ء میں آپ مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا بھجوائے گئے۔ 1983ء میں دوبارہ نائیجیریا میں امیر و مبلغ انچارج مقرر ہوئے۔ 1986ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں بطور استاد دو سال تک خدمت کی توفیق پائی اور 1988ء میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد جرمنی میں مقیم رہے اور یہیں وفات پائی۔

محترم مولانا صاحب کو متعدد کتب تالیف کرنے کی توفیق ملی ہے۔ ’’درویشان احمدیت‘‘ کے نام سے متعدّد جلدوں پر مشتمل کتب کا ایک سلسلہ بھی آپ کے قلمی جہاد میں شامل ہے جس کی ہر جلد سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہے۔ جلد سوم (حفاظتِ سماوی) میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے متبعین کی معجزانہ حفاظت کے بہت سے واقعات پیش کیے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندوں کی حفاظت کے لیے قدرت کے عجیب و غریب کرشمے دکھاتا ہے۔ ان ایمان افروز واقعات میں سے ایک خوبصورت انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔

٭…سنّت اللہ یہ بھی ہے کہ خیرالماکرین خدا کبھی اپنے بندوں پر اپنی وحی نازل کرکے انہیں خبردار کرتا ہے جس طرح ایک بار جب آنحضرتﷺ کسی دعوت پر تشریف لے گئے تو دشمن نے منصوبہ بنایا کہ جب آپؐ اپنے مخصوص مقام پر تشریف فرما ہوں گے تو اوپر سے ایک پتھر گرا کر آپؐ کو ہلاک کردیا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپؐ کو بتادیا کہ یہاں بیٹھنا خطرناک ہے۔ چنانچہ آپؐ خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے گئے۔ کافی انتظار کے بعد جب لوگ آپؐ کے پاس گئے تو آپؐ نے وحی کے بارہ میں بتایا۔ اس پر تحقیق کی گئی تو سب کچھ درست نکلا۔

بےشک حضرت محمد رسول اللہﷺ کا خدا آج بھی اپنے پیاروں کی حفاظت کررہا ہے۔ چنانچہ ایک بار جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمے کے سلسلے میں گورداسپور میں تھے۔ جب آپؑ واپس قادیان تشریف لانے والے تھے تو آپؑ کو الہاماً بتایا گیا کہ ’’راستہ بٹالہ والا خطرناک ہے‘‘۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ قادیان سے ایک رتھ بٹالہ بھجوادیا گیا تھا، آپؑ نے فرمایا: ’’یکے لے آؤ‘‘۔ آپؑ کے خدام کو پروگرام کی اس اچانک تبدیلی کی کوئی وجہ معلوم نہ تھی تاہم حکم کی تعمیل میں فوراً تین یکوں کا انتظام کیا گیا جن پر آپؑ اور چند خدام سوار ہوکر کچے راستے سے قادیان کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں آپؑ نے اپنے الہام کے بارے میں لوگوں کو بتادیا۔ دوسری طرف رتھ پر بھی چند احباب سوار ہوکر براستہ بٹالہ قادیان روانہ ہوئے۔ جب یہ اصحاب نہر کے پُل پر پہنچے تو وہاں ایک میلہ لگا ہوا دیکھا۔ دراصل یہ ایک بناوٹی میلہ تھا اور اس کی آڑ میں میلے میں شامل مخالفین کا ارادہ تھا کہ جب حضورؑ کی رتھ نہر کے پُل پر پہنچے تو اچانک حملہ کرکے حضورؑ کو نہر میں پھینک دیا جائے۔ چنانچہ رتھ کے پہنچنے پر اُن مخالفین نے پُل کے دونوں طرف سے حملہ کردیا لیکن جب دیکھا کہ رتھ میں مرزا صاحب نہیں ہیں تو وہ پیچھے ہٹ گئے اور اپنے کیے پر معذرت کرنے لگے۔

٭…یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ بعض اوقات دشمن پر خوف نازل کرکے اُسے اُس کے بدارادوں سے باز رکھتا ہے۔ مثلاً جب آنحضرتﷺ کو ابوجہل کے پاس کسی غریب شخص کا قرض واپس دلوانے کے لیے جانا پڑا تو اُس نے بلاچون و چرا وہ قرض ادا کردیا اور جب قریش نے اُسے طعنہ دیا کہ تم محمدؐ سے ڈر گئے تو وہ کہنے لگا کہ مَیں نے محمدؐ کے ساتھ ایک بدمست اونٹ کھڑا دیکھا اور مجھے خوف تھا کہ مَیں نے ذرا بھی پس و پیش کی تو وہ مجھ پر حملہ کردے گا۔

اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ گجرات سے ایک ہندو کسی بارات کے ساتھ قادیان آیا۔ وہ علم توجہ کا بڑا ماہر تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو مرزا صاحب سے بھی ملتے چلیں۔ اس کا منشا یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے حضرت مسیح موعودؑ پر اپنی توجہ کا اثر ڈال کر آپؑ سے بھری مجلس میں کوئی بیہودہ حرکت کرائے۔ جب وہ مسجد میں حضورؑ سے ملا تو اُس نے اپنے علم سے آپؑ پر اپنا اثر ڈالنا شروع کیا مگر تھوڑی دیر کے بعد یکلخت کانپ اٹھا، مگر سنبھل کر بیٹھ گیا اور پھر اپنا کام شروع کردیا۔ مگر پھر اُس کے بدن میں ایک سخت لرزہ آیا اور اُس کی زبان سے بھی کچھ خوف کی آواز نکلی۔ مگر وہ سنبھل گیا۔ خدا کا مامور اپنے گردو پیش سے بے پرواہ محو گفتگو تھا کہ اچانک اس ہندو نے ایک چیخ ماری اور مسجد سے نکل بھاگا اور بغیر جوتا پہنے بھاگتا چلا گیا۔ لوگ پیچھے دوڑے اور اُس کے ہوش ٹھکانے آنے پر وجہ معلوم کی۔ وہ کہنے لگا کہ مَیں علم توجہ کا بڑا ماہر ہوں اور اس ارادہ سے آیا تھا کہ مرزا صاحب سے کوئی لغو حرکت کرادوں لیکن جب مَیں نے توجہ ڈالی تودیکھا کہ میرے سامنے کچھ فاصلے پر ایک شیر بیٹھا ہے۔ مَیں اُسے دیکھ کر کانپ گیا۔ لیکن پھر اپنے جی کو ملامت کی کہ یہ میرا وہم ہے اور پھر توجہ ڈالنی شروع کی۔ دیکھا کہ وہی شیر قریب آگیا ہے اس پر میرے بدن پر سخت لرزہ آیا مگر مَیں پھر سنبھل گیا اور جی میں اپنے آپ کو بہت ملامت کی کہ یونہی میرے دل میں وہم سے خوف پیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ پھر توجہ ڈالنی شروع کی اور پورا زور لگایا تو ناگہاں دیکھا کہ وہی شیر میرے اوپر حملہ آور ہوا ہے۔ تب مَیں نے بے خود ہوکر چیخ ماری اور بھاگ اٹھا۔ یہ ہندو بعد میں حضرت مسیح موعودؑ کا بہت معتقد ہوگیا تھا اور جب تک زندہ رہا، آپؑ سے خط و کتابت بھی کرتا رہا۔ ایک بار ایک احمدی دوست نے اُس سے سوال کیا کہ اُس نے یہ نتیجہ کیسے نکالا کہ حضرت مرزا صاحب ایک خدا رسیدہ انسان ہیں اور یہ کیوں نہ سمجھا کہ آپؑ بھی مسمریزم کے بہت بڑے ماہر ہیں۔ اُس نے جواب دیا کہ مسمریزم کے لیے توجہ کا ہونا ضروری ہے جو کامل سکون اور کامل خاموشی کو چاہتا ہے مگر مرزا صاحب تو اپنے اصحاب سے باتوں میں مشغول تھے یعنی اُن کی قوّت ارادی کا اس میں دخل نہیں بلکہ کوئی آسمانی طاقت ہے جو اُن کی حفاظت کر رہی ہے۔

٭…حضرت راجہ عطا محمد صاحبؓ کشمیر کے اوّلین صحابہ میں سے تھے جو اپنی اعلیٰ علمی و انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر ریاست میں وزیر بھی رہے۔ آپؓ اُن چند صحابہؓ میں سے تھے جنہیں حضورؑ نے اپنے نام پر بیعت لینے کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔ آپؓ نے 14؍اپریل 1904ء کو وفات پائی۔

آپؓ جب پہلی بار قادیان حاضر ہوئے تو آپؓ کی آنکھوں میں موتیابند کی تکلیف تھی۔ حضورؑ نے آپؓ کو لاہور جاکر علاج کروانے کا مشورہ دیا اور فرمایا: آپ کی آنکھیں انشاءاللہ بالکل اچھی ہوجائیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

آنکھیں اچھی ہونےکے بعد آپؓ دوبارہ قادیان آئے اور پھر کچھ عرصے بعد کشمیر روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک رئیس خان محمد حسین خان کے ہاں مقیم ہوئے تو وہاں کے ملّاؤں نے پہلے ہی احمدیوں کے خلاف قتل کا فتویٰ دے رکھا تھا۔ ملّاؤں نے رئیس کو اپنے ساتھ ملاکر آپؓ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ آپؓ کو اس منصوبے کی کچھ خبر نہ تھی لیکن رات خواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے آکر فرمایا کہ ’’راجہ صاحب! آپ کے قتل کا منصوبہ کیا گیا ہے، آپ اسی وقت اٹھ کر یہاں سے چلے جائیں۔ ‘‘ چنانچہ آپؓ نے اپنے ساتھیوں کو جگایا اور خاموشی سے روانہ ہوگئے۔ صبح نماز کے بعد دیکھا کہ رئیس کا وزیر گھوڑا دوڑائے آرہا ہے اور کھانا بھی ساتھ لایا ہے۔ اُس نے آپؓ کو جان کی سلامتی کی مبارکباد دی اور ملّاؤں کی شرارت کا سارا قصہ سنایا اور تعجب سے پوچھا کہ آپؓ کو اس منصوبے کا کیسے علم ہوا۔ آپؓ نے سارا واقعہ سنایا۔ چنانچہ بعد میں خان محمد حسین نے بھی اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی مانگی اور آئندہ جب بھی آپؓ اُس کے پاس ٹھہرے تو اُس نے آپؓ کی عزت و مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

٭…حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ کو رؤیائے صالحہ اور کشوف کی بِنا پر قبول احمدیت کی سعادت عطا ہوئی تو علاقے کے علماء کو سخت دھچکا لگا اور آپؓ کے خلاف قتل کی سازش ہونے لگی۔ ایک رئیس ’خواجہ فتح جو‘ کو اُکسایا گیا کہ وہ ایک مباحثے میں بلاکر دھوکے سے آپؓ کو قتل کروادے۔ رئیس نے آپؓ کے ماموں زاد بھائی اکرم خان کو ساتھ ملایا اور ایک بڑی رقم اُس کے ہاتھ پولیس کو بھجوائی تاکہ وہ اس معاملے سے دُور رہے۔ اکرم خان جب پولیس کو رقم دے کر واپس آرہا تھا تو راستے میں رات گزارنے کے لیے اپنی بیٹی کے ہاں ٹھہرا۔ لیکن صبح اُس کے بیدار نہ ہونے پر دروازہ توڑا گیا تو وہ نیم عریاں حالت میں مُردہ پایا گیا۔

٭…حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے تحریک شدھی کا مقابلہ کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر آگرہ تشریف لے گئے تو قریبی گاؤں میں مسلمانوں نے آریوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا لیکن مسلمان علماء وہاں نہ آئے تو مسلمانوں کی درخواست پر آپؓ نے بحث کی اور آریہ پنڈتوں کو لاجواب کردیا۔ اس پر آریوں نے ایک خفیہ میٹنگ بلائی کہ آپؓ کی موجودگی میں تو ہم کسی مسلمان کو شدھ نہیں کرسکیں گے اس لیے آپؓ کو راستے سے ہٹادیا جائے۔ چنانچہ ایک ٹھاکر بھوپ سنگھ کو یہ لالچ دے کر آپٖؓ کے قتل پر آمادہ کیا گیا کہ اُس کا دو ہزار روپیہ کا قرض معاف کردیا جائے گا۔ اس سازش کی خبر آپؓ کو ایک ایسے رئیس نے پہنچادی جس کی بیٹی کا آپؓ نے کچھ عرصہ پہلے علاج کیا تھا اور وہ ممنونِ احسان تھا۔ جب بھوپ سنگھ نے آکر آپؓ کو ناچ کی ایک محفل میں آنے کی دعوت دی تو آپؓ نے فرمایا کہ مَیں تو دوسروں کو بھی اس کام سے روکتا ہوں اس لئے خود کیسے آسکتا ہوں۔ پھر پتہ چلا کہ رات کو محفل میں آگے بیٹھنے پر بھوپ سنگھ کی کچھ نوجوانوں سے لڑائی ہوگئی۔ لوگوں نے وہاں تو بیچ بچاؤ کروادیا لیکن اگلے روز جب بھوپ سنگھ لوہار کی دکان پر بیٹھا تھا تو تین نوجوان وہاں پہنچے اور لاٹھیاں مار مار کر بھوپ سنگھ کا کام تمام کردیا۔

حضرت مولوی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ملکانہ میں قیام کے دوران ایک دفعہ نواب بقاء اللہ خان صاحب نے مجھے بلایا کہ میرے ماموں مولوی ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ مَیں نے جاکر اُن سے بات کی تو وفات عیسیٰ کے عقلی دلائل پر وہ خاموش ہوگئے لیکن نواب صاحب نے طیش میں آکر کہا کہ مَیں قادیانی مولوی کو قتل کردوں گا۔ چنانچہ وہ اندر سے بندوق لے آئے جسے میرے دوستوں نے چھین لیا۔ اس پر وہ تلوار کے ساتھ حملہ آور ہوئے۔ لڑکوں نے وہ تلوار بھی چھین لی۔ یہ نواب صاحب اکثر حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں بھی دیا کرتے تھے۔ بعد میں ایک ہندو نے، جس کے ساتھ اُن کی پرانی دشمنی چلی آرہی تھی، اس نے خود ہی اپنی ٹانگ میں گولی مارکر شور مچادیا کہ نواب صاحب نے اُن کو گولی ماردی ہے۔ اس پر مقدمہ چلا اور نواب صاحب کو بہت مالی نقصان اٹھانا پڑا اور چار سال کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔

حضرت مولوی صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ بھدرواہ کشمیر میں کسی نے مجھے بتایا کہ ایک پٹھان عبدالرحمٰن خان نے میرے قتل کی ذمہ داری لی ہے۔ مَیں نے کہا کہ اگر میری موت مجھے بھدرواہ لے کر آئی ہے تو مجھے کیا انکار ہوسکتا ہے لیکن اب یہ احسان کرو کہ اُس پٹھان کی نشاندہی بھی کردو۔ چنانچہ اُس نے مجھے اشارے سے عبدالرحمٰن خان کو دکھادیا اور مَیں دعا کرتا ہوا چل پڑا۔ اچانک پیچھے مُڑ کر دیکھا تو عبدالرحمٰن پٹھان بھی آرہا تھا۔ مَیں وہیں کھڑا ہوگیا۔ جب وہ میرے پاس پہنچا تو مَیں نے اُس کی طبیعت پوچھی اور کہا: آپ کا اسم شریف عبدالرحمٰن خان ہے؟ اُس نے حیرت سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا؟ مَیں نے کہا کہ آپ جیسا میرا ایک دوست کرنل عبدالرحمٰن خان ہے اس لئے محبت سے مَیں نے آپ کو اُسی نام کا سمجھا۔ وہ کہنے لگا کہ مَیں تو آپ کا مخالف ہوں۔ مَیں نے کہا کہ لیکن میرے دل میں تو آپ کی محبت جوش مار رہی ہے۔ اسی طرح باتیں کرتے ہوئے مَیں نے اُسے آنحضورﷺ کی حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں پیشگوئیاں بھی بتائیں تو وہ حیران ہوکر پوچھنے لگا کہ کیا آپ رسول پاکؐ کو مانتے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ رسول پاکؐ کو منوانے کے لئے ہی تو مرزا صاحب آئے ہیں۔ کچھ مزید باتوں کے بعد وہ کہنے لگا کہ مَیں نے ابھی بیعت تو نہیں کی لیکن مَیں اب غیراحمدی بھی نہیں رہا۔ پھر وہ بولا کہ مغرب کے وقت ایک دوست کے ساتھ میرے ڈیرہ پر آئے گا۔ چنانچہ وہ آیا اور رات دو بجے تک گفتگو جاری رہی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے چار افراد کی بیعت پر منتج ہوئی۔ اور پھر ایک قلیل عرصے میں بھدرواہ کے 35 افراد نے بیعت کرلی جن میں پڑھے لکھے نوجوان زیادہ تھے۔

٭…حضرت حاجی محمد الدین صاحب تہالویؓ کو 1903ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے سفر جہلم کے دوران بیعت کی سعادت عطا ہوئی۔ جب آپؓ بیعت کے بعد واپس لوٹے تو آپؓ کی اپنے علاقہ میں شدید مخالفت ہوئی اور قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ آخر ایک دن قریبی دیہات سے لوگ اکٹھے ہوکر آپؓ کو قتل کرنے آگئے۔ آپؓ نے اُن سے کہا کہ اگر مارنا ہی چاہتے ہو تو پہلے مجھے دو نفل پڑھ کر دعا کرنے دو۔ پھر آپؓ قریبی مسجد میں چلے گئے اور دعا میں ایسے مشغول ہوئے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا۔ باہر لوگ سمجھنے لگے کہ آپؓ ڈر گئے ہیں۔ جب کافی دیر کے بعد آپؓ باہر نکلے تو ایک گھوڑسوار آتا دکھائی دیا۔ اس نے للکار کر کہا کہ اِس شخص کو کوئی ہاتھ تک نہ لگائے۔ وہ شخص اتنا بارعب معلوم ہوتا تھا کہ مجمع یہ سنتے ہی منتشر ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی جان بچالی۔

٭…حضرت مولوی غلام حسین ایازؔ صاحب تحریک جدید کے تحت بیرونِ ملک بھجوائے جانے والے پہلے وفد میں شامل تھے۔ آپ بہت متقی، پرہیزگار اور صاحب رؤیا و کشوف تھے۔ آپ 1903ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری کے بعد مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کرکے زندگی وقف کردی۔ 1935ء میں آپ کو سنگاپور بھیجا گیا جہاں آپ 1950ء تک مقیم رہے۔ شدید مخالفت کے باعث وہاں بارہا آپ پر قاتلانہ حملے ہوئے اور شدید زخمی بھی کیا گیا۔ 1941ء میں سنگاپور کی جامع مسجد میں ایک ہندوستانی مولوی عبدالعلیم صدیقی کا لیکچر تھا۔ آپ بھی وہ لیکچر سننے چند دوستوں کے ساتھ تشریف لے گئے۔ مولوی صدیقی نے جب احمدیہ عقائد کے بارے میں غلط بیانی شروع کی تو آپ جرأت سے کھڑے ہوگئے اور اپنے بیگ سے قرآن کریم نکال کر مولوی صدیقی کو چیلنج کیا۔ مولوی صدیقی پہلے ہی مجمع کو مشتعل کرچکا تھا۔ اُس نے اعلان کیا کہ یہ شخص کافر و مرتد ہے اور اس کی سزا قتل ہے۔ چنانچہ بعض لوگ آپ کو مارتے اور گھسیٹتے ہوئے مسجد کی سیڑھیوں تک لائے اور چودہ فٹ بلندی سے نیچے گرا دیا۔ آپ سر کے بل گرے اور لڑھکتے ہوئے سڑک پر جاگرے اور بیہوش ہوگئے۔ آپ کے سر کی ہڈی اور بازو کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔ رات کا وقت تھا۔ اجنبی ملک اور اجنبی باشندے تھے۔ دیگر احمدی دوستوں کو بھی مارا پیٹا گیا اور وہ اپنی جان بچاکر موقع سے بھاگ گئے۔ بظاہر محترم ایازؔ صاحب کی موت یقینی تھی۔ اسی اثناء میں ایک احمدی فوجی افسر کرنل تقی الدین صاحب اپنی فوجی جیپ میں وہاں سے گزرے اور انسانی ہمدردی کے تحت کسی کو سڑک پر گرا دیکھ کر جیپ روکی تو حیران رہ گئے کہ یہ تو محترم ایازؔ صاحب ہی تھے۔ چنانچہ آپ کو ہسپتال پہنچایا جہاں لمبا عرصہ آپ زیرعلاج رہے۔

٭…محترم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کی تبلیغ اور دعاؤں سے سیرالیون کے ایک پیراماؤنٹ چیف مسٹر بائیو (Bayo) مسلمان ہوگئے تو اُن کی ریاست کے پانچ صد افراد نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ ان افراد کی تربیت کے لئے مجھے لندن سے وہاں پہنچنے کا ارشاد ملا۔ چنانچہ مَیں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ پیراماؤنٹ چیف پہلے عیسائی تھے۔ اچانک وہ ایک مزمن بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ جب حضرت مولوی صاحب نے انہیں اسلام کا پیغام پہنچایا تو انہوں نے آپ کا اپنے ہیڈ پادری سے سرعام مناظرہ کرادیا جس میں عیسائیوں کو شکست ہوئی۔ اس پر چیف نے حضرت مولوی صاحب سے کہا کہ وہ اور اُن کی ریاست کے کئی لوگ اسلام قبول کرلیں گے بشرطیکہ آپ اُن کی صحتیابی کا ذمہ لے لیں۔ حضرت مولوی صاحب نے یہ شرط منظور کرلی اور مقامی جماعت کے ساتھ مل کر دعاؤں میں مصروف ہوگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت اقدس میں بھی دعا کے لئے لکھ دیا۔ چند ہی روز میں خدا تعالیٰ نے معمولی دواؤں کے ذریعہ چیف بائیو کو شفا عطا فرمائی۔ جب اُن کی صحت کافی سنبھل گئی تو انہوں نے خود ہی اسلام قبول کرنے کی خواہش کی۔ حضرت مولانا موصوف نے اس شرط پر اُن کی خواہش ماننے پر رضامندی ظاہر کی کہ وہ شراب ترک کردیں گے اور چار سے زائد بیویاں بھی چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے ان شرائط کو بخوشی تسلیم کرلیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے اُن کی بیعت منظور فرماتے ہوئے اُن کا اسلامی نام صلاح الدین رکھا۔ اُن کی ایک بیوی عیسائی تھی جسے چیف صاحب کے مسلمان ہونے کا شدید افسوس تھا۔ اُس نے میرے ایک طالبعلم کو لالچ دے کر ایک انتہائی زہریلی بوٹی میرے کھانے میں ڈلوادی۔ چونکہ میرا کھانا طالبعلم پکاتے تھے اس لئے اُس لڑکے کے لئے یہ کام آسان تھا۔ لیکن اُسے ایسا کرتے ہوئے ایک دوسرے لڑکے نے دیکھ لیا اور مجھے خبر کردی۔ چنانچہ مَیں نے اُس طالبعلم کو فارغ کرکے اُس کے علاقہ میں بھیج دیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُس طالبعلم کو خاص طور پر نوازا جس نے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے مجھے اس سازش سے خبردار کیا تھا۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ترقی کرتے کرتے ہائی سکول کا ہیڈماسٹر مقرر کیا گیا۔

٭… محترم مولوی عبدالوہاب احمد صاحب شاہد 1974ء کے فسادات کے دوران ساہیوال میں متعین تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ یہ عاجز حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؒ نے فرمایا کہ آپ کے نائب امیر ضلع کہتے ہیں کہ اپنے مربی سلسلہ کو سمجھائیں کہ وہ احتیاط کیا کریں۔ یہ اپنے آپ کو بڑے بڑے خطرات میں ڈال دیتے ہیں، کیا کرتے ہیں آپ؟ عاجز نے عرض کی: حضور! جہاں اکّا دکّا احمدی گھروں کو جلوس والے گھیرے میں لے لیتے ہیں وہاں اُن کی تسلّی کے لئے پہنچتا ہوں اور اُن کی حفاظت کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ سن کر حضورؒ نے دعا دی اور فرمایا:

وَاللہ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسْ۔

اللہ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کا محافظ ہو، میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

بعد میں ایک دفعہ جب احمدیوں پر حملے کی خبر پاکر مَیں ’حویلی لکھا‘ پہنچا تو بس پر سے اُترتے ہی مجھے ایک جلوس نے گھیر لیا اور آوازیں آنے لگیں کہ اس کی تکّابوٹی کردو جنت تمہاری ہے۔ مَیں اپنا یہ آخری وقت جان کر کلمۂ شہادت اور درودشریف کا ورد کرنے لگا۔ اُدھر جنت کے امیدواروں نے سنگ باری شروع کردی۔ عین اُس وقت میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ اے اللہ! تیرے سوا میرا کون ہے، آج موت کے منہ سے نکال کر اپنے قادر اور محیی ہونے کا نشان دکھا۔ یہ الفاظ ابھی میری زبان پر آئے ہی تھے کہ ایک جھٹکے کے ساتھ کسی غیرمرئی چیز نے مجھے اٹھاکر ایک تانگے پر پھینک دیا۔ مجھے اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ تانگہ اُس وقت کہاں سے اور کیسے نمودار ہوا تھا۔ لیکن میرے بیٹھتے ہی وہ سرپٹ دوڑتا اور جلوس کو چیرتا ہوا چلتا چلا گیا۔ اُدھر ہر طرف چیخ چنگھاڑ ہونے لگی۔ مجھے لگا کہ میری وہ موت جو جیالوں کے لئے جنت کے دروازے کھولنے کا اعلان کرچکی تھی اب گھوڑے کے سموں تلے کچلی جارہی ہے۔ تانگہ بان نے آن کی آن میں مجھے مکرم میاں محمد جہانگیر خان وٹو صاحب (والد میاں منظور احمد وٹو صاحب) کے گھر پہنچا دیا۔ مَیں نے تانگہ بان کو پیسے دینا چاہے تو اُس نے لینے سے انکار کیا۔ مَیں نے اُس کا نام و پتہ پوچھا تو کہنے لگا کہ میرا کوئی نام و پتہ نہیں، جو کام میرے سپرد تھا وہ مَیں نے کردیا ہے۔ بعد میں وہ کبھی بھی نظر نہیں آیا۔ وہاں پہنچ کر مجھے اطمینان ہوا کہ جن دوستوں کو بچانے کی کوشش کرنے مَیں حویلی لکھا گیا تھا وہ اپنی فیملیوں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔

مکرم مولانا عبدالوہاب احمد صاحب شاہد مزید بیان کرتے ہیں کہ جنوری 1991ء میں خاکسار محترم سید احمد علی شاہ صاحب (ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد مقامی) کے ہمراہ سندھ کی چند جماعتوں کے سالانہ جلسوں میں بطور مرکزی نمائندہ شریک تھا۔ مسن باڈہ (لاڑکانہ) میں ہم 9 جنوری کو پہنچے جہاں جلسے کا پروگرام نماز مغرب و عشاء کے بعد تھا۔ مگر عشاء کی نماز سے فارغ ہوتے ہی یکدم شور پڑ گیا کہ ڈاکو آگئے ہیں۔ اس پر مسجد کے سارے دروازے بند کردیے گئے صرف مستورات کے حصہ میں ایک عقبی دروازہ کھلا رکھا گیا تاکہ احباب اس میں سے نکل کر محفوظ جگہوں میں چلے جائیں۔

اُس دَور میں یہ مسلح ڈاکو لُوٹنے کی بجائے لوگوں کو یرغمال بناکر اپنے ساتھ لے جاتے اور پھر بھاری تاوان وصول کرکے چھوڑتے۔ چنانچہ ہر کوئی اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا۔ مَیں نے بھی سوچا کہ نکل کر کسی محفوظ جگہ پر چلا جاؤں مگر جب مَیں نے مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ وہ اپنی پگڑی محراب میں رکھ کر پچھلی صف میں سر پر مفلر باندھے نماز میں مصروف ہیں تو میری توجہ بھی اللہ تعالیٰ کے پاک کلام

وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اَمِنَا

کی طرف مبذول ہوئی اور مَیں نے بھی دل میں یقین کرلیا کہ باہر جانے سے نہیں بلکہ خدا کے گھر کے اندر رہتے ہوئے ہی ہماری حفاظت ہوگی چنانچہ مَیں نے بھی نماز پڑھنی شروع کردی۔

ڈاکوؤں نے مسجد کے دروازے بند دیکھے تو ایک دروازہ توڑ دیا اور اندر آگئے۔ ہم دونوں اُس وقت سجدے کی حالت میں تھے۔ دو ڈاکوؤں نے ہمیں ساتھ لے جانے کے لیے گھسیٹنا چاہا، مگر ہم نے دیکھا کہ جتنا زور وہ ہمیں سجدے سے اٹھانے میں لگا رہے تھے اُس سے کئی گُنا زیادہ زور کے ساتھ کوئی غیبی طاقت ہمیں سجدہ گاہ سے چمٹائے رکھ رہی تھی۔ جب کافی کھینچاتانی کے باوجود وہ ڈاکو ہمیں اٹھا کر لے جا نہ سکے تو ناکام ہوکر مسجد سے باہر نکل گئے اور باہر سے صدر جماعت مسن باڈہ کے بیٹے عزیزم فرحت اللہ کو پکڑلیا اور پھر فائرنگ کرتے ہوئے اُسے ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں روپوش ہوگئے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے فرحت اللہ کو بھی ڈاکوؤں کے چنگل سے آزاد کرانے کے سامان پیدا فرمادیے۔

٭…مکرم ٹھیکیدار غلام رسول صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر ہمارا تبلیغی گروپ مکیریاں ضلع ہوشیارپور پہنچا تو ایک دن ہمارے امیر وفد سید محمد حسین شاہ صاحب نے ہمیں موضع بھنگالہ رائے جانے کے لئے کہا۔ چنانچہ ہم دو افراد روانہ ہوگئے۔ بھنگالہ رائے کے قریب پہنچ کر ہمیں کسی نے بتایا کہ ’’کل اسی جگہ تمہارے امیر کو لوگوں نے مارا ہے اور اُن کے منہ پر گند ملا ہے…۔ ‘‘ یہ بات سُن کر ہم واپس آنے کی بجائے سیدھے وہاں کے رئیس جو رائے صاحب کہلاتے تھے، اُن کی کوٹھی پر پہنچ گئے۔

رئیس سامنے ہی اپنی کرسی پر بیٹھا تھا۔ ہم نے اندر داخل ہوتے ہی السلام علیکم کہا جس کا اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ ہم نے کہا کہ ہم کوئی سوال کرنے نہیں آئے، ایک پیغام لے کر آئے ہیں اور اگر دو منٹ ہماری بات سن لیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ ہماری اتنی سی بات پر اُس نے غصے سے ہمیں نکل جانے کو کہا اور پھر ایک نوکر کو آواز دی کہ اِن کو دھکے دے کر یہاں سے نکال دو۔ اُس کا نوکر ابھی ہم سے کوٹھی سے نکل جانے کے لیے بات کرہی رہا تھاکہ رائے صاحب نے نوکر کو گالی دے کر کہا کہ اگر یہ نہیں نکلتے تو اِن پر شکاری کتے چھوڑ دو۔ نوکر جو اپنے مالک کے تیور دیکھ چکا تھا، وہ اندر گیا اور خونخوار کتوں کو چھوڑ دیا۔ کتے ہماری طرف لپکے لیکن حملہ کرنے کی بجائے ہمارے قریب آکر کھڑے ہوگئے اور پھر انہوں نے ہماری طرف دیکھا تک نہیں۔ تب مَیں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہمارا کام ہوگیا ہے، اب ہم واپس چلتے ہیں۔

شام کو مرکز پہنچے اور سارے دن کی رپورٹ دی۔ پھر ہم نے اپنے امیر وفد محترم شاہ صاحب سے پوچھا کہ سُنا ہے کہ آپ کو لوگوں نے کل وہاں مارا بھی ہے لیکن آپ نے پھر آج صبح ہمیں وہاں بھیج دیا۔ اس پر شاہ صاحب نے جواب دیا: مَیں نے اسی لئے تو آپ کو وہاں بھیجا تھا کہ آپ بھی اتنے بڑے ثواب سے محروم نہ رہیں۔

چونکہ ہماری رپورٹیں قادیان بھی پہنچ رہی تھیں اس لیے جب ہم وقف کا عرصہ پورا کرکے واپس قادیان آئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے خاص طور پر قصر خلافت میں بلاکر یہ واقعہ زبانی سنا اور خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ عطا فرمایا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button