بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر 17)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭… ’’طارق میگزین‘‘میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں جنوں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انٹرویو دینے والے نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا بظاہر یہ موقف بیان کیا ہے کہ جنات کا وجود موجود ہے، جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے موقف کے برعکس ہے۔ اس پر مخالفین اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے؟

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ’’طارق میگزین‘‘میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں جنوں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انٹرویو دینے والے نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا بظاہر یہ موقف بیان کیا ہے کہ جنات کا وجود موجود ہے، جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے موقف کے برعکس ہے۔ اس پر مخالفین اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 18؍مارچ 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: قرآن کریم اور حدیث میں جنّ کا لفظ کثرت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی مخفی رہنے والی چیز کے ہیں۔ جو خواہ اپنی بناوٹ کی وجہ سے مخفی ہو یا اپنی عادات کے طور پر مخفی ہو۔ اور یہ لفظ مختلف صیغوں اور مشتقات میں منتقل ہو کر بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ان سب معنوں میں مخفی اور پس پردہ رہنے کا مفہوم مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔

چنانچہ جنّ والے مادہ سے بننے والے مختلف الفاظ مثلاً جَنَّسایہ کرنے اور اندھیرے کا پردہ ڈالنے، جنین ماں کے پیٹ میں مخفی بچہ، جنون وہ مرض جو عقل کو ڈھانک دے، جنان سینہ کے اندر چھپا دل، جَنَّۃ باغ جس کے درختوں کے گھنے سائے زمین کو ڈھانپ دیں، مَجَنَّۃ ڈھال جس کے پیچھے لڑنے والا اپنے آپ کو چھپالے، جانٌّسانپ جو زمین میں چھپ کر رہتا ہو، جَنن قبر جو مردے کو اپنے اندر چھپا لے اور جُنَّۃاوڑھنی جو سر اور بدن کو ڈھانپ لے کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

پھر جنّ کا لفظ با پردہ عورتوں کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ نیز ایسے بڑے بڑے رؤسا اور اکابر لوگوں کےلیے بھی بولا جاتا ہے جو عوام الناس سے اختلاط نہیں رکھتے۔ نیز ایسی قوموں کے لوگوں کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے جو جغرافیائی اعتبارسے دور دراز کے علاقوں میں رہتے اور دنیا کے دوسرے حصوں سے کٹے ہوئے ہیں۔

اسی طرح تاریکی میں رہنے والے جانوروں اور بہت باریک کیڑوں مکوڑوں اور جراثیم کےلیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے حضورﷺ نے رات کو اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنے کا ارشاد فرمایا اور ہڈیوں سے استنجا سے منع فرمایا اور اسے جنّوں یعنی چیونٹیوں، دیمک اور دیگر جراثیم کی خوراک قرار دیا۔

علاوہ ازیں جنّ کا لفظ مخفی ارواح خبیثہ یعنی شیطان اور مخفی ارواح طیبہ یعنی ملائکہ کےلیےبھی استعمال ہوتا ہے۔ جیساکہ فرمایا

وَاَنَّامِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُوْنَ ذَالِكَ۔ (سورۃ الجن: 12)

جماعتی لٹریچر بالخصوص حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تحریر و تقاریر میں جنّ کا لفظ عموماً اسی مفہوم میں بیان ہوا ہے۔ اور اس سارے کلام میں عوام الناس کے ذہنوں میں پائے جانے والے جنّات کے بارے میں ہر ایسے تصوّر اورمفہوم کی نفی کی گئی ہےجو انسانوں پر قبضہ کرلیں، عورتوں کو چمٹ جائیں، لوگوں کو ستا ئیں یا ان کے قابو میں آجائیں اور انہیں ان کی من پسند کی چیزیں لا لا کر دیں۔ ایسے جن ّوہمی لوگوں کے دماغوں کی تخلیق ہے، جنہیں اسلامی تعلیم تسلیم نہیں کرتی۔ چنانچہ جنّات کے وجود کی بابت ایک سوال کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

’’اس پر ہمارا ایمان ہے مگر عرفان نہیں نیز جنّات کی ہمیں اپنی عبادت، معاشرت، تمدن اور سیاست وغیرہ امور میں ضرورت ہی کیا ہے۔ رسول اﷲﷺ نے کیا عمدہ فرمایا ہے۔

مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِا

نسانی عمر بہت تھوڑی ہے سفر بڑا کڑا اور لمبا ہے اس واسطے زادراہ لینے کی تیاری کرنی چاہئےان بیہودہ محض اور لغو کاموں میں پڑے رہنا مومن کی شان سے بعید ہے خدا کے ساتھ ہی صلح کرو اور اسی پر بھروسہ کرو اس سے بڑھ کر کوئی قادر نہیں۔ طاقتور نہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 403مطبوعہ 2016ء )

حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ ان تصوراتی جنّوں کا انکار کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

’’یہاں ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کا نام عبدالعلی تھا۔ اس کے باپ کو جنّات کے حاضر کرنے کا بڑا دعویٰ تھا۔ وہ میرے ساتھ اکثر رہا۔ لیکن کبھی بھی میرے سامنے تو وہ جنّات کو حاضر نہ کر سکا۔ ‘‘

(مرقات الیقین فی حیات نورالدین صفحہ249، مطبوعہ فروری 2002ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی مختلف تصانیف، خطبات اور خطابات میں جنّوں کے مسئلےکو مختلف پیرایوں میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہےاور قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ میں بیان تعلیمات کی روشنی میں اس قسم کے جنّوں کے وجود کا کلیۃً ردّ فرمایاجو عوام کے ذہنوں میں موجود ہے کہ وہ لوگوں کے سروں پر چڑھ جاتے ہیں یا بعض لوگوں کے قبضے میں آ جاتے ہیں جو پھر ان جنّوں سے اپنی حسب منشاء کام کرواتے ہیں۔ چنانچہ جنّوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں حضور نے لکھوایا:

’’میں جنّات کی ہستی کا قائل ہوں مگر اس امر کا قائل نہیں کہ وہ کسی کے سر پر چڑھتے ہیں یا میوہ لا کر دیتے ہیں۔ جیسے فرشتے کسی کے سرپر نہیں چڑھتے جنّات بھی نہیں۔ جس طرح فرشتے انسانوں سے ملاقات کرتے ہیں اسی طرح جنّات بھی ملاقات کرتے ہیں لیکن جس طرح ان کا وجود ان کو اجازت دیتا ہے۔ رسول کریمؐ کی تعلیم کی نسبت میں سمجھتا ہوں کہ انسان اور جنّ سب کےلئے ہے اور آپ پر ایمان لانا جنّا ت کے لئے بھی ضروری ہے۔ آپ کی وحی پر عمل کرنا بھی۔ مگر میرا یہی عقیدہ اس بات کا بھی باعث ہوا ہے کہ میں یہ اعتقاد بھی رکھوں کہ وہ نہ کسی کے سر پر چڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی میوہ لا کر دے سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ آنحضرتؐ پر ایمان لانےوالوں کا فرض تھا کہ وہ آپ کی مدد اور نصرت کریں۔ اگر جنّات میں طاقت ہوتی کہ انسان کی مدد کر سکتے یا نصرت کر سکتے تو کیوں وہ ابو جہل وغیرہ کے سر پر نہ چڑھے۔ ان کو کوئی قربانی بھی نہ کرنی پڑتی تھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنّ مٹھائی لاکر دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پر میں ایسے جنّوں کا قائل نہیں ہو سکتا جو زید و بکر کو تو مٹھائی لا لا کر کھلاتے ہیں۔ لیکن وہ شخص جس پر ایمان لانا ضروری اور فرض تھا اور بعض جنّ آپ پر ایمان بھی لائے تھے۔ تین تین دن تک فاقہ کرتا رہتا ہے اور اس کو روٹی بھی لا کر نہیں دیتے۔ اگر محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لانا ان کےلئے ضروری نہ ہوتا تو شبہ ہوتا کہ وہ ا نسان کو ضرر پہنچا سکتے ہیں یا نہیں لیکن اب یقینی ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ باقی رہا یہ کہ عورتوں کے سر پر جنّ چڑھتے ہیں یہ سب بیماریاں ہیں یا وہم ہیں یا سائنس کے نتائج ہوتے ہیں۔ جیسے فاسفورس رات کو چمکتی ہے یہ اکثر قبرستانوں میں دکھلائی دیتی ہے۔ کیونکہ ہڈیوں سے فاسفورس نکلتی ہے اور وہ چمکتی ہے اور عوام اس کو جنّوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ‘‘

(اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر 82 جلد 8۔ مورخہ 2؍مئی 1921ء صفحہ7)

اسی طرح فضائل القرآن کے نام پر طبع ہونے والے اپنے ایک خطاب میں حضورؓ جنّوں کے بارے میں ایک اور پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنّ غیر از انسان وجود ہیں جو رسول کریمﷺ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت سلیمانؑ پر ایمان لائے تھے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان معنوں کو قرآن کریم تسلیم کرتا ہے۔ اگر یہ ایک استعارہ ہے تو یقیناً قرآن کریم نے اس کو اپنی کسی دوسری آیت میں حل کیا ہوگا اور استعارہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قرآن کریم کی دو آیتیں باہم ٹکرا جائیں گی اور اس طرح قرآن میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔ پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس کو استعارہ تسلیم نہ کرنے سے قرآن میں اختلاف پیدا ہوتا ہے یا استعارہ تسلیم کر کے۔ جو لوگ استعارہ نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہی لفظ ہے جیسے شیطان کا لفظ آتاہے۔ جس طرح شیطان سے مراد ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے علیحدہ ہےاسی طرح جنّ بھی ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے الگ ہے حالانکہ

وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِيْنِهِمْ

میں مفسرین بالاتفاق لکھتے ہیں کہ اس جگہ شیاطین سے مراد یہودی اور ان کے بڑے بڑے سردار ہیں۔ پس اگر انسان شیطان بن سکتا ہے تو انسان جنّ کیوں نہیں بن سکتا؟

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَكَذَالِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِيْنَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا (الانعام: 113)

یعنی ہم نے ہر نبی کے دشمن بنائے ہیں شیطان آدمیوں میں سے بھی اور جنّوں میں سے بھی جو لوگوں کو مخالفت پر اکساتے اور انہیں نبی اور اس کی جماعت کے خلاف برانگیختہ کرتے رہتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ انسان بھی شیطان ہوتے ہیں۔ پس اگر شیاطین الانس ہو سکتے ہیں تو جنّ الانس کیوں نہیں ہو سکتے۔ یعنی جس طرح انسانوں میں سے شیطان کہلانے والے پیدا ہو سکتے ہیں اسی طرح ان میں سے جنّ کہلانے والے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ پس قرآن سے ہی پتہ لگ گیا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں ہی جنّ نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰؑ اور رسول کریمﷺ پر بھی جنّ ایمان لائے تھے۔ ‘‘

(فضائل القرآن نمبر6صفحہ 387تا388)

اسی طرح تفسیر کبیر میں جنّوں کے بارے میں سیرحاصل بحث فرمانے کے بعد اس بحث کا خلاصہ تحریر فرماتے ہوئے حضورؓ فرماتے ہیں:

’’خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم میں جنّ کئی معنوں میں استعمال ہواہے۔ (۱)جنّ وہ تمام مخفی مخلوق جو غیر مرئی شیطان کی قسم سے ہے یہ مخلوق اسی طرح بدی کی تحریک کرتی ہے جس طرح ملائکہ نیک تحریکات کرتے ہیں۔ ہاں یہ فرق ہے کہ ملائکہ کی تحریک وسیع ہوتی ہے اوران کی تحریک محدود ہوتی ہے۔ یعنی ان کو زور انہی پر حاصل ہوتا ہے جوخود اپنی مرضی سے بدخیالات کی طرف جھک جائیں۔ انہیں شیاطین بھی کہتے ہیں۔ (۲)جنّ سے مراد قرآن کریم میں Cave Menبھی ہے۔ یعنی انسان کے قابل الہام ہونے سے پہلے جو بشر زیر زمین رہاکرتے تھے اورکسی نظام کے پابند نہ تھے۔ ہاں آئندہ کےلیے قرآن کریم نے یہ اصطلاح قراردے لی کہ جولوگ اطاعت کامادہ رکھتے ہیں ان کانام انسان رکھا اورجو لوگ ناری طبیعت کے ہیں اوراطاعت سے گریز کرتے ہیں ان کانام جنّ رکھا۔ (۳)شمالی علاقوں کے وہ لوگ یعنی یورپ وغیرہ کے جو ایشیا کے لوگوں سے میل ملاپ نہ رکھتے تھے اورجن کےلیے آخر زمانہ میں حیرت انگیز دنیوی ترقی اورمذہب سے بغاوت مقدرتھی۔ ان کاذکر سورۂ رحمٰن میں کیا ہے۔ (۴)غیر مذہب کے لوگوں کو اوراجنبیوں کو جنہیں بعض اقوام جیسے ہندو اوریہودکوئی نئی مخلوق سمجھتے تھے۔ ان کو عام محاورہ کے طورپر جنّ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جیسے حضرت سلیمانؑ کے جنّ یارسو ل کریمﷺ پرایمان لانے والے لوگ۔

میرے نزدیک دوزخ میں جانے والے جن جنّات کاذکر آتا ہے ان سے مراد یاتووہی ناری طبیعت والے لوگ ہیں جواطاعت سے باہر رہتے ہیں۔ اورکسی مذہب یاتعلیم کو قبول نہیں کرتے۔ اور انسان دوزخیوں سے مراد وہ کفار ہیں جو کسی نہ کسی مذہب سے اپنے آپ کو وابستہ کرتے ہیں۔ یاپھر اقوام شمال مغرب کو جنّ قرار دیا ہے۔ اورجنوبی دنیا اورمشرق کے لوگوں کو انس قراردیا ہے۔ جیساکہ عرف عام میں یہ لوگ ان ناموں سے مشہور تھے…۔

یہ تعلیق ختم کرنے سے پہلے میں یہ بھی بتادینا چاہتاہوں کہ کئی پرانے بزرگ کم سے کم اس خیال میں میرے ساتھ شریک ہیں کہ وہ جنّ کوئی نہیں ہوتے جو انسانوں سے آکر ملیں اوراس پر سوا ر ہوجائیں اوران سے مختلف کام لیں …اگر کہا جائے کہ بعض بزرگوں نے جنّات کا ذکر کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روحانی نظارے ہیں۔ اورعالم مثال میں ایسی باتیں نظر آجاتی ہیں۔ انہوں نے کشف سے بعض امور دیکھے اور چونکہ عوام میں جنّات کا عقیدہ تھا اورقرآن کریم میں بھی لفظ جنّ کااستعمال ہواہے انہوں نے ان مثالی وجودوں کو اصلی وجود سمجھ لیا۔

میرااپنا ذاتی تجر بہ اس بارہ میں یہ ہے کہ کئی مختلف وقتوں میں لوگوں نے مجھے ایسے خطوط لکھے ہیں کہ جنّات ان کے گھر میں آتے اورفساد کرتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اپنے خرچ پر ا س مکان کا تجربہ کرناچاہالیکن ہمیشہ ہی یاتویہ جواب ملا کہ اب ان کی آمد بندہوگئی ہے۔ یایہ کہ آپ کے خط آنے یا آپ کاآدمی آنے کی برکت سے وہ بھاگ گئے ہیں۔ میرااپنا خیال ہے کہ جوکچھ ان لوگوں نے دیکھا ایک اعصابی کرشمہ تھا۔ میرے خط یا پیغامبرسے چونکہ انہیں تسلی ہوئی وہ حالت بدل گئی۔

اگر اس تفسیر کے پڑھنے والوں میں سے کسی صاحب کو اس مخلوق کاتجربہ ہو۔ اوروہ مجھےلکھیں تومیں اپنے خرچ پر اب بھی تجربہ کرانے کوتیارہوں۔ ورنہ جوکچھ میں متعدد قرآنی دلائل سے سمجھا ہوں یہی ہے کہ عوام الناس میں جو جنّ مشہور ہیں اورجن کی نسبت کہا جاتاہے کہ وہ انسانوں سے تعلق رکھتے اوران کو چیزیں لاکردیتے ہیں۔ یہ محض خیال اوروہم ہے۔ یامداریوں کے تماشے ہیں جن کے اندرونی بھید کے نہ جاننے کی وجہ سے لوگوں نے ان کو جنّات کی طرف منسوب کردیاہے۔ اس علم کا بھی میں نے مطالعہ کیا ہے۔ اوربہت سی باتیں ان ہتھکنڈے کرنے والوں کی جانتاہوں۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 69تا70)

علاوہ ازیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی مجالس عرفان اور مجالس سوال و جواب میں جنّوں کے متعلق ہونے والے سوالات کے جواب میں ہمیشہ یہی موقف بیان فرمایا کہ قرآن و حدیث میں ایسے جنّوں کا کہیں ذکر نہیں ملتا جو مولویوں کے دماغوں کے جنّ ہیں اور جو ان کے کہنے پر راتوں رات کسی شخص کو اٹھا کر ان کے سامنے حاضر کر دیں۔ چنانچہ حضورؒ اپنی معرکہ آراء تصنیف’’الہام، عقل، علم اور سچائی‘‘میں فرماتے ہیں:

’’اب ہم سائنسی تناظر میں از منۂ قدیم کے قصّے کہانیوں میں مذکور جنّ کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں …جنّ کا لفظ کسی پوشیدہ، غیر مرئی، الگ تھلگ اور دور کی چیز پر دلالت کرتا ہے۔ اس میں گہرے اور گھنے سائے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے جَنَّۃٌ کے لفظ کو (جو اسی مادہ سے نکلا ہے) جنت کیلئے استعمال کیا ہے جو ایسے گھنے باغات پر مشتمل ہے جن کے سائے بہت ہی گہرے ہیں۔ جنّ کے لفظ کا اطلاق سانپوں پر بھی ہوتا ہے جو فطرتاً پوشیدہ اور چھپ کر رہنا پسند کرتے ہیں جس کیلئے وہ الگ تھلگ بلوں اور چٹانوں میں موجود سوراخوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جنّ کا لفظ با پردہ عورتوں کےلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایسے سرداروں اور بڑے لوگوں کیلئے بھی جو عوام سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح دوردراز اور دشوارگزار پہاڑی علاقوں میں بسنے والے لوگوں پر بھی جنّ کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ المختصر عام انسانی نگاہ سے اوجھل اور پوشیدہ ہر چیز پر جنّ کا لفظ اطلاق پاتا ہے۔

جنّ کے لفظ کا مذکورہ بالا مفہوم آنحضرتﷺ کی اس حدیث کے عین مطابق ہے جس میں آپﷺ نے لوگوں کو خشک گوبر اور ہڈیوں سے استنجا کرنے سے اس لئے منع فرمایا ہے کہ یہ جنّوں کی خوراک ہے۔ جس طرح آج کل صفائی کیلئے ٹائلٹ پیپر استعمال کئے جاتے ہیں اسی طرح پرانے زمانہ میں لوگ صفائی کیلئے مٹی کے خشک ڈھیلے، پتھر یا قریب پڑی کوئی اور خشک چیز استعمال کیا کرتے تھے۔ پس ہم بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے اس حدیث میں جس جنّ کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد کوئی غیر مرئی مخلوق ہی ہے جس کا گزارہ ہڈیوں اور فضلہ وغیرہ پر ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت دنیا میں بیکٹیریا اور وائرس کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اور کوئی شخص اس قسم کی غیر مرئی اور خوردبینی مخلوق کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس مخلوق کی طرف آنحضرتﷺ نے اشارہ فرمایا ہے، عربی زبان میں اس کیلئے جنّ سے بہتر اور کوئی لفظ نہیں ہے۔ ‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ 311تا312)

اس سوال پر کہ جنّات کے متعلق اسلام کا کیا تصور ہے، قرآن میں یا حدیث میں سے اس کا کیا ثبوت ملتا ہے یا آنحضرتﷺ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے جس سے ثابت ہو کے جنّات کا بھی وجود ہے یا جس طرح آج کل کے لوگوں میں تصورات ہیں کہ جن چمٹ جاتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ حضورؒ نے فرمایا:

’’میں تو جنّوں پہ بہت بول چکا ہوں۔ جنّ تو ایسی بلا ہے کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی۔ جس مجلس میں جاؤ، جس ملک میں جاؤ جنّ ضرور آ جاتے ہیں۔ یعنی جنّ کا سوال آ جاتا ہے۔ بہت دفعہ بتا چکا ہوں، خدام الاحمدیہ کے اجتماعوں میں بھی جنّ آیا کرتا تھا۔ انصار اللہ میں بھی اس نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ ابھی بھی جہاں کراچی جاؤ وہاں سوال ہو جاتا ہے۔ پنڈی جاؤ وہاں سوال ہو جاتا ہے۔ انگلستان میں یورپ میں ہر جگہ پاکستانیوں کو جنّ کے ساتھ بڑی دلچسپی ہے۔

جنّ کا لفظ قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف رنگ میں آیا ہے۔ مختصراً جنّ سے مراد عربی زبان میں مخفی چیزیں ہیں۔ یعنی عربی میں جنّ لفظ ان چیزوں پر اطلاق پاتا ہے جوکسی پہلو سے بھی مخفی ہوں۔ اور سانپ کو بھی اسی لیے جنّ یا جانّکہا جاتا ہے اور عورتوں کو بھی جنّ کہا جاتا ہے جو پردہ دار ہوں۔ بڑے لوگ جو عوام الناس سے الگ رہیں، چھپ کے رہیں ان کو بھی جنّ کہا جاتا ہے۔ پہاڑی قومیں جو عموماً Plainمیں بسنے والے لوگوں سے، عام زمین پہ بسنے والے لوگوں سے بے تعلق رہتی ہیں، مخفی رہتی ہیں ان کو بھی جنّ کہا جاتا ہے۔ غاروں کے بسنے والے لوگوں کو بھی جنّ کہا جاتا ہے۔ Hardy، جفاکش اس کےلیے بھی جنّ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ Bacteriaکے لیےبھی جنّ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول کریمﷺ نے ہڈی سے استنجاکرنے سے منع فرمایا کہ یہ جن کی خوراک ہے۔ اس زمانہ میں تو Bacteriaکا کوئی تصور نہیں تھا نہ یہ پتہ تھا کہ کسی چیز کی خوراک ہے۔ مگر بعد کے زمانوں میں تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ واقعی ہڈی کے ساتھ Bacteriaچمٹے ہوتے ہیں اور وہ مضر ہیں اور اس سے استنجانہیں کرنا چاہیے۔ تو جنّ کا ایک معنی تو ہے مخفی۔ ان معنوں میں جنّ کے سارے معنی ہیں۔ ایک اور معنی ہے آگ سے پیدا ہوا ہوا۔ جس میں ناری صفات پائی جاتی ہوں، جس میں بغاوت کی روح پائی جاتی ہو۔ تو ہر وہ قوم جو آتشیں مزاج رکھتی ہو، جو Volatile ہو، غصہ جلدی آتا ہو اور لڑاکا اور فسادی، بغاوت کرنے والی ان سب کو جن کہا جاتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ کےجو غلام بنائے گئے تھے جنّ وہ ایسی قومیں تھیں جن پر فتح ہوئی اور ان میں جفاکشی بھی ساتھ تھی اور بغاوت کا مادہ بھی تھا۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے ان کو زنجیروں میں جکڑا گیا تھا اوران سے Forced Labour لی جاتی تھی۔ اگر وہ اس قسم کے جنّ ہوں جیسے مولویوں کے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں وہ زنجیروں میں تو نہیں جکڑے جاسکتے۔ صاف پتہ چل گیا کہ وہ جنّ جو ہیں وہ کوئی مادی مخلوق ہے۔ چنانچہ بڑے لوگوں اور Capitalist Systemکےلیے بھی قرآن کریم نے جنّ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چوٹی کے لوگ خواہ وہ Capitalistہوں خواہ وہ عوامی حکومتوں کے نمائندے ہوں، ان کو سورة الرحمٰن میں اللہ تعالیٰ مخاطب کرکے فرماتاہے

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ (الرحمٰن: 34)

معشر الجن اے جنّوں میں سے چوٹی کے لوگو والانس اور اےعوام الناس میں سے چوٹی کے لوگو۔ یہ مراد ہے وہاں پہ۔ تو جنّ کا لفظ ان ساری جگہوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے، بڑا وسیع لفظ ہے۔ آنحضرتﷺ سے بھی پہاڑی علاقے کے کچھ لوگ، جفاکش قوموں کے نمائندے ملنے کےلیے آئے اور آپ نے ان کے ساتھ، وہ چاہتے تھے کہ علیحدہ گفتگو ہو۔ چنانچہ حضور اکرمﷺ نے باہر ان سے وقت مقرر کیا جہاں ڈیرا ڈالا تھا، وہاں ان سے ملنے گئے اور گفتگو ہوئی۔ قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے اور سورت جنّ میں اس کا ذکر آتا ہے۔ اور اس کے بعدوہ ایمان بھی لے آئے۔ اور ساتھ ہی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بعد میں جب صحابہ وہاں گئے تو دیکھا کہ وہاں ان کے چولہوں کے نشان تھے جہاں کھانا پکایا جاتا تھا۔ تو جنّوں کی خوراک اگر وہ جنّ تھے جو مولوی سمجھتے ہیں تو وہ تو آگ پہ کھانا نہیں پکایا کرتے ان کی تو خوراک ہی اور چیزیں ہیں وہ توآتشیں مادہ ہے یا ہوائی سا وجود ہے۔ تو صاف پتہ چلا کہ جو جنّ رسول اکرمﷺ سے ملنے آئے تھے وہ انسانوں میں سے تھے۔ پھر انبیاء کا تصور وہاں پایا جاتا ہے وہ کہتے ہیں ہم لوگ بڑے جاہل ہوتے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ خدا اب کبھی کسی نبی کو نہیں بھیجے گا۔ لیکن دیکھ لو پھر نبی آگیا۔ تو انبیاء تو انسانوں کےلیے آتے ہیں۔ قرآن کریم میں رسول کریمﷺ کو ہمیشہ انسانوں کو مخاطب کرکے پیغام پہنچانے کےلیے فرمایا ہے، جنوں کو مخاطب کر کے کہیں نہیں فرمایا۔ تو اس لیے وہ جو ایمان لائے ذکر کرتے ہیں کہ ہم نبیوں کا انکار کر گئے تھے کہ آئندہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ انسانوں میں سے کچھ لوگ تھے۔ تو قرآن کریم نے ان معنوں میں، ان سے ملتے جلتے معنوں میں جو میں نے بیان کیے ہیں کئی جگہ جنوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن ایسے جنّ کا ذکر نہیں کیا جو مولوی صاحب کو لوگوں کے مرغے چرا کے لا کے دے۔ یا آپ کی خواہش ہو کہ فلاں آدمی کو پکڑ کے لے آئے تو جن رات و رات پکڑ کے لے آئے۔ ایسا کوئی ذکر قرآن کریم میں نہیں ملتا یا رسول کریمﷺ کی زندگی میں بھی نہیں ملتا۔

(مجلس سوال وجواب مورخہ29؍دسمبر 1984ء)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی جنّوں کے متعلق نہایت عمدہ مضامین تحریر فرمائے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ آپؓ لکھتے ہیں:

’’جنّ کے لفظ سے بہت سی چیزیں مراد ہو سکتی ہیں لیکن بہر حال یہ بالکل درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسے جنّ بھی پائے جاتے ہیں جو یا تو لوگوں کےلئے خود کھلونا بنتے ہیں یا لوگوں کو قابو میں لا کر انہیں اپنا کھلونا بناتے ہیں یا بعض انسانوں کے دوست بن کر انہیں اچھی اچھی چیزیں لا کر دیتے ہیں اور بعض کے دشمن بن کر تنگ کرتے ہیں یا بعض لوگوں کے سر پر سوار ہو کر جنون اور بیماری میں مبتلا کر دیتے ہیں اور بعض کے لئے صحت اور خوشحالی کا رستہ کھول دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کمزور دماغ لوگوں کے توہمات ہیں جن کی اسلام میں کوئی سند نہیں ملتی اور سچے مسلمانوں کو اس قسم کے توہمات سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ہاں لغوی معنے کے لحاظ سے ( نہ کہ اصطلاحی طور پر) فرشتے بھی مخفی مخلوق ہونے کی وجہ سے جنّ کہلا سکتے ہیں اور یہ بات اسلامی تعلیم سے ثابت ہے کہ فرشتے مومنوں کے علم میں اضافہ کرنے اور ان کی قوتِ عملیہ کو ترقی دینے اور انہیں کافروں کے مقابلہ پر غالب کرنے میں بڑا ہاتھ رکھتے ہیں جیسا کہ بدر کے میدان میں ہوا۔ جب کہ تین سو تیرہ(313) بے سر و سامان مسلمانوں نے ایک ہزار سازو سامان سے آراستہ جنگجو کفار کو خدائی حکم کے ماتحت دیکھتے دیکھتے خا ک میں ملا دیاتھا۔ (صحیح بخاری) پس اگر سوال کرنے والے دوست کو مخفی روحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا شوق ہے تو وہ کھلونا بننے والے یا کھلونا بنانے والے جنّوں کا خیال چھوڑ دیں اور فرشتوں کی دوستی کی طرف توجہ دیں جن کا تعلق خدا کے فضل سے انسان کی کایا پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔ ‘‘

(مطبوعہ الفضل 13؍جون 1950ء)

اسی طرح حیات قدسی میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کےبارے میں بعض اس قسم کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں:

’’جہاں تک کسی کے آسیب زدہ ہونے کا سوال ہے، میرا نظریّہ یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی ہسٹیریا کی بیماری ہے۔ جس میں بیمار شخص اپنے غیر شعوری یعنی سب کانشنس خیال کے تحت اپنے آپ کو بیمار یا کسی غیر مرئی روح سے متاثر خیال کرتا ہے اور اس تاثر میں اس شخص کی سابقہ زندگی کے حالات اور اس کی خواہشات اور اس کے خطرات غیر شعوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں یہ بھی ایک قسم کی بیماری ہے مگر یہ احساسِ بیماری ہے حقیقی بیماری نہیں۔ اسلام ملائکہ اور جنّات کے وجود کا تو قائل ہے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نظامِ عالم کو چلاتے اور لوگوں کے دلوں میں نیکی کی تحریک کرتے اور بدیوں کے خلاف احساس پیدا کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں اور نہ اس کا کوئی شرعی ثبوت ملتا ہے کہ جنّات لوگوں کو چمٹ کر اور ان کے دل و دماغ پر سوار ہو کر لوگوں سے مختلف قسم کی حرکات کرواتے ہیں۔ یہ نظریہ اسلام کی تعلیم اور انسان کی آزادیٔ ضمیر کے سراسر خلاف ہے۔ اس کے علاوہ اسلام نے جنّات کا مفہوم ایسا وسیع بیان کیا ہے کہ اس میں بعض خاص مخفی ارواح کے علاوہ نہ نظر آنے والے حشرات اور جراثیم بھی شامل ہیں۔ چنانچہ حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو ورنہ ان میں جنات داخل ہو جائیں گے۔ اس سے یہی مراد ہے کہ بیماریوں کے جراثیم سے اپنی خور و نوش کی چیزوں کو محفوظ رکھو۔

بہرحال جنات کا وجود تو ثابت ہے اور خدا تعالیٰ کے نظام میں حقیقت تو ضرور ہے مگر کھیل نہیں۔ اس لئے میں اس بات کو نہیں مانتا خواہ اس کے خلاف بظاہر غلط فہمی پیدا کرنے والی اور دھوکا دینے والی باتیں موجود ہوں کہ کوئی جنّات ایسے بھی ہیں جو انسانوں کو اپنے کھیل تماشے کا نشانہ بناتے ہیں لہٰذا میرے نزدیک جو چیز آسیب کہلاتی ہے وہ ہسٹیریا کی بیماری ہے۔ اور جو چیز آسیب کے تعلق میں معمول کہلاتی ہے وہ خود نام نہاد آسیب زدہ شخص کا اپنے ہی وجودکا دوسرا پہلو ہے جو غیر شعوری طور پر آسیب زدہ شخص کی زبان سے بول رہا ہوتا ہے اور چونکہ آسیب زدہ شخص لازماً کمزور دل کا مالک ہوتا ہے۔ اس لئے جب کوئی زیادہ مضبوط دل کا انسان یا زیادہ روحانی اس پر اپنی توجہ ڈالتا ہے تو وہ اپنی قلبی اور دماغی یا روحانی طاقت کے ذریعہ آسیب کے طلسم کو توڑ دیتا ہے۔ مادی لوگ تو محض قلبی توجہ سے یہ تغیر پیدا کرتے ہیں لیکن روحانی لوگوں کے عمل میں روح کی توجہ اور دعا کا اثر بھی شامل ہوتا ہے اور توجہ کا علم بہرحال حق ہے۔

(حیات قدسی مصنفہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ صفحہ 617تا618)

باقی طارق میگزین میں شائع ہونے والے انٹرویو میں بیان باتیں ایک سنے ہوئے واقعہ پر مبنی ہیں، جس میں سننے والے کو بھی غلطی لگ سکتی ہے، کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضورؒ نے یہ کہیں بیان نہیں فرمایا کہ آپ نے کسی جنّ کو بلیڈ لگاتے ہوئے دیکھا تھا بلکہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگلی صبح دیکھا تو بلیڈ لگا کے رکھا ہوا تھا۔ پھر حضورؒ نے اس سلسلہ میں اس رات کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی کشفی نظارہ ہو۔ کیونکہ حضورؒ کا اپنی تحریرات اور دیگر مجالس عرفان میں جنّات کے بارے میں بیان موقف اس قسم کے جنّات کےوجود کے خلاف ہے۔

پس جن ّکے لفظ سے بہت سی چیزیں مراد ہو سکتی ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسے جنّ بھی پائے جاتے ہیں جو لوگوں کےلیے کھلونا بنتےہوں یا لوگوں کو قابو میں لا کر انہیں اپنا کھلونا بناتے ہوں۔ یا وہ کچھ لوگوں کے دوست بن کر انہیں میوے اور مٹھائیاں لا کر دیتے ہوں اور بعض کے دشمن بن کران کے سروں پر چڑھ کر اور انہیں چمٹ کر انہیں تنگ کرتے ہوں۔ اس قسم کے خیالات مولویوں کی ایجادات ہیں جو کمزور دماغ اور وہمی خیال لوگوں کو اپنے ہتھکنڈوں سے شکار کر کے ان سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ اسلام میں اس قسم کے جنّات کی کوئی سند نہیں ملتی اور سچے مسلمانوں کو اس قسم کے توہمات سے پرہیز کرنا چاہیے۔

اگر ایسے کوئی جنّ ہوتے تو ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ وہ وجود باجود تھے جن کی ان جنّات کو لازماً مدد اور آپ کے دشمنوں کے سروں پر چڑ ھ کر انہیں تباہ و برباد کرنے کی سعی کرنی چاہیے تھی، خصوصاً جبکہ قرآن و حدیث میں آپﷺ پر ایک قسم کے جنوّں کے ایمان لانے کا ذکربھی موجود ہے۔ پس عملاً ایسا نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ ان تصوراتی جنّوں کا اس دنیا میں کوئی وجود نہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button