رمضان المبارک کی جاری وساری برکات (قسط اوّل)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان المبارک اپنی برکتوں اور رحمتوں کے جلومیں آیا اور گزر گیا۔ ہر ایک مسلمان اور مومن نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق روزے رکھے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کا قرب حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔ تلاوتِ قرآنِ کریم میں مشغول رہا۔ نماز با جماعت کی ادائیگی ہمت اور ایک عزم کے ساتھ کرتا رہا۔ حتی الوسع تہجد پڑھنے کی کوشش بھی کی، خدا سے مناجات کیں، دعائیں کیں، اور ذکرِ الٰہی کثرت کے ساتھ کرنے کی کوشش کی۔ غریبوں اور ناداروں بیواؤں، یتیم اور بے سہارا لوگوں کی مدد کی، ان کے دکھ سکھ کو بانٹا، ان کی حاجات کو پوری کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔ گالی گلوچ سے پرہیز کیا، فضول اور لغو باتوں سے کنارہ کیا، اور شیطان کو جکڑ کر رکھا اور تقویٰ جو کہ عین رمضان کا مقصد تھا کو حاصل کرنے کی بھر پور جدوجہد اور کوشش کی۔
اللہ تعالیٰ ہر ایک کا رمضان المبارک میں کیا ہوامجاہدہ قبول فرمائے۔ اور اس کے لیے دین و دنیا میں بھلائیوں کے سامان پیدا فرمائے، آمین۔ اگرچہ اس سال کا رمضان بھی مختلف تھا۔ کووِڈ 19کی وجہ سے مساجد میں اہتمام وغیرہ پوری طرح نہ ہو سکا۔ لیکن گھروں میں اس کا اہتمام کیا گیا اور رمضان کے مقاصد کو پورا کیا گیا۔
حضر ت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جمعہ فرمودہ 7؍مئی 2021ء میں احباب جماعت کو یہ تلقین بھی فرمائی کہ آج رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ اس کو صرف رمضان کاآخری جمعہ ہی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ جمعہ آئندہ کے لیے نئی راہیں متعین کرنے والا ہو۔ اور رمضان میں جو نیکیاں کرنے کی توفیق ملی ہے اُن پر قائم رہنا چاہیے بلکہ ترقی کرنی چاہیے۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ گذشتہ جمعہ میں مَیں نے درود شریف اور استغفار کی طرف توجہ دلائی تھی۔ وہ صرف رمضان تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ اس زمانے میں ہمیں بہت سے شیطانی اور دجالی حملوں کا سامنا ہے۔ ہمارے نوجوان بھی بعض اوقات اس سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ جتنی بےحیائی اور لغویات آج کل پائی جاتی ہیں شاید ہی کسی پہلے زمانے میں ہوں۔ یہ بے حیائی گھروں میں داخل ہوچکی ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہمارا خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہو اور ہماری عبادات معیاری ہوں۔ اپنے بچوں کو ایسے طور پر دین سے چمٹائیں کہ ان کا کوئی فعل، کوئی سوچ اللہ کی رضا کے خلاف نہ ہو۔
پس رمضان میں جو نیکیاں کمائی ہیں انہیں شیطان یعنی چور سے بچانے کے لیے اُن تمام نیکیوں کو مستقل طور پر جاری رکھیں جو رمضان میں کمائی ہیں۔
(خطبہ جمعہ کےمکمل متن کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل 21؍مئی2021ءصفحہ11تا16)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ ایک مرتبہ ممبر پر کھڑے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی پھر فرمایا:
اَلْاَعْمَالُ بِخَوَاتِیْمِھَا۔ اَلْاَعْمَالُ بِخَوَا تِیْمِہَا ثَلَاثًا
یعنی اعمال کا دارومدار ان کے انجام پر ہے اور اس بات کو آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔
(مجمع الزوائد کتاب القدرماخوذ از احادیث آنحضرتﷺ صفحہ 166)
رمضان المبارک کا پیغام اور اثرات
اب جب کہ رمضان المبارک اپنے اختتام کو پہنچ گیاہے اس کے مبارک اثرات ختم نہیں ہونے چاہیں۔ آیئے ایک بار پھر دیکھیں کہ رمضان کے آنے کی غرض وغائیت کیاتھی اور اس کے آنے کا کیامقصد اور فائدہ تھا۔ اور ہمیں رمضان کیا پیغام دے کر گیا ہے؟
رمضان کا پہلا پیغام
اس ضمن میں جب ہم قرآنِ کریم پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی افادیت میں اللہ تعالیٰ نے
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن
کے الفاظ فرمائے ہیں۔ یعنی روزوں سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ تقویٰ کہتے ہیں شیلڈ کو جو کہ حفاظت کے کام آتی ہے۔ گویا کہ روزے ڈھال بن جاتے ہیں۔ اس سے خدا کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ تو کیا رمضان کے بعد ہم تقویٰ کی شیلڈ اتار کر پھینک دیں گے؟ ہرگز نہیں۔ رمضان میں تو انسان تقویٰ اختیار کرتا ہی ہے یعنی برائیوں سے بچتا اور خدا کے نزدیک ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ رمضان کے بعد اس کا کتنا اثر ہم پر باقی رہتا ہے۔ کیا ہم میں تقویٰ موجود ہے اور پہلے سے بڑھ کر ہے۔ رمضان نے ہمیں مزید کتنا تقویٰ عطا کیا ہے۔ اس تقویٰ کی جھلک ہمارے اعمال میں اب زیادہ نظر آنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود امام الزماں علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’پس ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے؟ اس کا معیار قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان رکھا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہاتِ دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کا خود متکفل ہو جا تا ہے جیسے کہ فرمایا۔
وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ……(الطلاق 3-4)
جو شخص خد ا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کانکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسی روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں۔ یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔ مثلاً ایک دوکا ندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغ گوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا۔ اس لئے وہ دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتاہے۔ لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اسے ایسے موقع سے بچا لیتا ہے جو خلافِ حق پر مجبور کرنے والے ہوں۔ یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اسے چھوڑ دیا اورجب رحمان نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا(ملفوظات جلد 1 صفحہ 12)خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے، ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے، ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہئے جس سے ہماری فلاح ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں۔ وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے جو تقویٰ کرے گا وہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا(ملفوظات جلد 1 صفحہ 37) اس لئے ضرور ہے کہ سب سے پہلے اپنے دل اور دماغ سے کام لیں اور نفوس کا تزکیہ کریں، راستبازی اور تقویٰ سے خدا تعالیٰ سے امداد اور فتح چاہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک اٹل قانون اور مستحکم اصول ہے اور اگر مسلمان صرف قیل و قال اور باتوں سے مقابلہ میں کامیابی اور فتح پانا چاہیں تو یہ ممکن نہیں اللہ تعالیٰ لاف و گزاف اور لفظوں کو نہیں چاہتا وہ تو حقیقی تقویٰ کو چاہتا اورسچی طہارت کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ فرمایا:
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ…‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ61)
رمضان کا دوسرا پیغام
رمضان المبارک کے ضمن میں ہی اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے اِنِّیْ قَرِیْبمیں اپنے مومن بندے کے بالکل قریب ہو جاتا ہوں۔ اس کی دعائیں سنتا ہوں۔ اس کی دعائیں قبول کرتا ہوں۔ اس کی دعاؤں اور مناجات کا جواب دیتا ہوں۔ اور یہی اس کے قرب کی ایک علامت اور نشانی ہے۔
جس شخص کو رمضان میں 29یا 30دن مسلسل اور متواتر دعائیں کرنے کی عادت پڑ جائےتو رمضان کے بعد دعا کی عادت ختم نہیں ہو جانی چاہیے بلکہ اس کو مستقل عادت بنا لینا چاہیے۔
’’انسان کی فطرت ایسی ہے کہ اگر کوئی سائل یا حاجت مند بار بار اس کے پاس آتا رہے تو وہ بیزار ہو جاتا ہے حتیٰ کہ تنگ ہو کر یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ بھائی تو نے تو میرا ناک میں دم کر دیا ہے اور مانگنے چلے آئے…..لیکن خدا تعالیٰ کی یہ ایک عجیب صفت ہے کہ ساری عمر دن رات اس سے مانگے جاؤ مگر وہ مانگنے سے ناراض نہیں ہوتا۔ ایک فقیر نہیں لاکھوں کروڑوں فقیر دن رات کے ہر وقت اور ہر لحظہ میں اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ مگر اس کی آنکھ پر میل نہیں آتا نہ وہ اکتاتا ہے نہ تنگ ہوتا ہے نہ بیزار۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’الصبور‘‘ہے۔ یعنی سائلوں سے تنگ نہ آنے والا اور نہ ان سے اکتانے والا بلکہ ہر پیچھے پڑنے والے کی بار بار کی پکار کو سہنے والا عالی حوصلہ خدا وند۔ یہ اس کا حوصلہ اور صبر ہے کہ نہ آزردہ ہوتا ہے نہ برا کہتا ہے نہ جھڑکتا ہے نہ ان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچاتا ہے اور سوال کرنے میں بندہ جو بے احتیاطیاں اور زیادتیاں کرتا ہے اسے برداشت کرتا چلا جاتا ہے اور ان پر صبر کرتا ہے بلکہ جتنا کوئی مانگے اتنا ہی اس سے خوش ہوتا ہے۔ پس یہ بھی صبور کے ایک معانی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو یہ نمونہ صبر اور عالی حوصلگی کا دکھا سکے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ ‘‘
(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ، جلد اوّل صفحہ 254)
پس رمضان کے گزرنے کے ساتھ ہم سب کو دعاؤں میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔ احباب کے فائدے کے لیے حضرت مسیحِ موعودؑ کی ایک دعا لکھتا ہوں:
’’اے رب العالمین ! ترے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا۔ تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور ترے بے غائیت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں خالص اپنی محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما، اور مجھ سے ایسے عمل کرا جس سے تو راضی ہو جائے میں ترے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ ترا غضب مجھ پر وارد ہو، رحم فرما، رحم فرما، رحم فرما اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم ترے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین ثمّ آمین۔ ‘‘
(مکتوبات احمد جلد 5 مکتب نمبر4صفحہ5)
رمضان کا تیسرا پیغام
رمضان المبارک میں عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ مساجد نمازیوں سے بھرنے لگتی ہیں۔ وہ اپنے ہر قسم کے کا موں کا حرج کر کے بھی مسجد میں نماز باجماعت کی ادائیگی کے لیے پہنچتے ہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر نماز با جماعت فرض قراردی ہے اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز باجماعت کا ثواب 27گنا سے بھی زیادہ بیان ہوا ہے۔ اس لیے ایک مومن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ رمضان المبارک میں نماز با جماعت ادا کرے اور بہت حد تک اس میں اسے کامیابی بھی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس وقت ایسا ممکن نہ تھا مگر حالات بدلنے پر ہم سب کی توجہ اور رخ نماز باجماعت کے لیے مسجد کی طرف ہی کرنا ہے۔ ان شاء اللہ
کیونکہ آنحضرتﷺ کی ایک حدیث ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
اَحَبُّ الْبِلَادِ اِلَی اللّٰہِ مَسَاجِدُ ہَا وَاَبْغَضُ الْبِلَادِ اِلَی اللّٰہِ اَسْوَاقُھَا (صحیح مسلم ، کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ)
کہ شہروں میں سب سے محبوب جگہ اللہ تعالیٰ کو اس کی مساجد ہیں اور شہروں میں سب سے ناپسندیدہ جگہیں خدا تعالیٰ کے حضور میں اس کے بازار ہیں۔
پس خدا تعالیٰ نے جو نماز با جماعت کی مساجد میں ادائیگی کی توفیق ارزاں دی وہ جاری رہنی چاہیے اور کوشش کرکے مساجد کو آباد رکھنا چاہیے، مغربی معاشرے میں خصوصاً امریکہ اور یورپ جیسے ماحول میں جہاں انسان ہر وقت مشین کی طرح کام کر رہا ہے۔ اسے خدا تعالیٰ کے لیے ضرور وقت نکالنا چاہیے۔ کیونکہ نماز با جماعت انسان کے اعمال اور اخلاق پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ اور بچوں کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لیے انہیں مساجد میں لے کر جانے کی ضرورت ہے تا کہ انہیں خدا کی محبت نصیب ہو۔ اور معاشرے میں دوسرے لوگوں سے مل کر ان کی تربیت ہو۔
ہفتہ اور اتوار کو بچوں کو اسکولوں سے چھٹی ہوتی ہے والدین کو چاہیے کہ انہیں نماز ِ فجر کے لیے جگائیں اور مسجد لے کر جائیں۔ اسی طرح شام کی نمازوں کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ اور اگر واقعۃً آپ مسجد سے بہت دور ہیں اور آنا ممکن نہیں تو گھر ہی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نماز با جماعت کا اہتمام کریں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے کہ جو خدا کے گھروں کو آباد کرے گا خدا اس کے گھر کو آباد رکھے گا۔
رمضان المبارک کا چوتھا پیغام
رمضان المبارک کا قرآنِ کریم کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس مبارک مہینے میں قرآ نِ کریم کا نزول شروع ہوا تھا۔ چنانچہ مسلمان اس مبارک مہینہ میں کثرت کے ساتھ تلاوت کرتے اور خدا تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی مقصد تلاوت کا ہے۔ اس لیے رمضان المبارک کے بعد بھی دوستوں، احباب اور مردو خواتین کو قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے رہنا چاہیے، کیونکہ’’جو لوگ قرآنِ کریم کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ ‘‘اور عزت دینے کے معانی یہی ہیں کہ قرآنِ کریم کو سوچ سمجھ کر پڑھا جائے اور اس کے احکامات کو عملی طور پر اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔
قرآنِ کریم کو چھوڑ کر کوئی کامیابی نہیں
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :
’’کس قدر ظلم ہے کہ اسلام کے اصولوں کو چھوڑ کر قرآن کو چھوڑ کر جس نے ایک وحشی دنیا کو انسان اور انسان سے با خدا انسان بنایا۔ ایک دنیا پرست قوم کی پیروی کی جائے جو لوگ اسلام کی بہتری اور زندگی مغربی دنیا کو قبلہ بنا کر چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں۔ قرآنِ کریم کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔ اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں لوگ لگے ہوئے ہیں۔ صحابہ کا نمونہ اپنے سامنے رکھو، دیکھو انہوں نے جب پیغمبرِ خداﷺ کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہوگئے…. رسول کریمﷺ کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا۔ وہ قرآنِ کریم اور رسول کریمﷺ سے محبت کرتے تھے اور ان ہی کی اطاعت اور پیروی میں دن رات کوشاں تھے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 157)
قرآن کی عظمت
تاریخ میں ایک بہت بڑی خاتون ’’ملکہ وکٹوریہ‘‘ گزری ہیں۔ یہ دنیا کے پانچویں حصے پر حکمران تھی۔ ایک دن اس نے اپنے وزیر اعظم لارڈ ملبورن سے پوچھا: ’’آپ نے تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ آپ کو اس تاریخ عالم میں سب سے حیرت انگیز بات کون سی نظر آئی؟ ‘‘
وزیر اعظم نے جواب دیا: ’’اسلام کا عروج‘‘
اس پر ملکہ نے پھر سوال کیا: ’’کیا آپ نے اس کے اسباب پر بھی غور کیا ہے؟ ‘‘
لارڈ ملبورن نے کہا: ’’میری سمجھ میں تو ایک بات آتی ہے کہ ان کے پیغمبرﷺ نے انہیں ہدایت کے لئے ایک کتاب دی تھی۔ (قرآن مجید) جب تک وہ اس پر عمل پیرا رہے، ترقی کی تمام راہیں ان پر کھلی رہیں۔ پھر جب انہوں نے قرآن کی تعلیم کو چھوڑ دیا تو زوال کا شکار ہو گئے…اب بھی کسی زمانے میں تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور مسلمانوں نے ایک قوم کی حیثیت سے پھر قرآن مجید کو پکڑا اور مضبوطی سے اس کو تھام کر رکھا اور اپنی انفرادی اور قومی زندگی اس کے مطابق بنا لی تو پھر ہم تو کیا ساری دنیا ان کے زیر نگیں آجائے گی۔ ‘‘
(مختصر پُر اثر حصہ دوم صفحہ 196تا197)
نوٹ: لارڈ ملبورن کا عہد 1835ء تا 1841ء ہے۔ ملکہ وکٹوریہ 24؍مئی 1837ء کو تخت نشین ہوئیں۔
(زوال برطانیہ از حضرت چوہدری عبدالرحمن شاکر مرحوم)
رمضان کا پانچواں پیغام
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے رمضان المبارک کے بارے میں فرمایا:
’’رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کاذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نادار نہیں رہتا۔ ‘‘
(جامع الصغیر ماخوذ از احادیث آنحضرتﷺ صفحہ 109)
اس مبارک مہینے میں لوگوں نے کثرت سے ذکرِ الٰہی کیا اور ذکرِ الٰہی کی ایک عادت پڑ گئی تھی اس عادت کو جاری رکھنا چاہیے۔ کیونکہ احادیث میں بھی ذکرِ الٰہی کی بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا وہ گھر جن میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جن میں خداتعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ ‘‘
(مسلم کتاب الصلوٰۃ استجاب صلاۃ النافلۃ فی بینۃ)
بخاری کتاب الدعوات میں یہ روایت بھی آتی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
’’ذکرِ الٰہی کرنے والے اور ذکرِ الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ یعنی جو ذکرِ الٰہی کرتا ہے وہ زندہ ہے اور جو نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔ ‘‘
ایک بزرگ کا قصہ
کتابوں میں باقاعدگی اورالتزام سے ذکر کرنے والے ایک بزرگ کا قصہ لکھا ہے کہ انہیں اپنے زمانے کے ایک بہت بڑے بزرگ سے ملاقات کرنے کا اشتیاق پیدا ہوا اور وہ اس بزرگ شخصیت کے شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ سفر کر کے وہ رات کے وقت ایسی جگہ پہنچے جہاں سے اس ربانی بزر گ کی جائے رہائش زیادہ دور نہیں تھی۔ ان صاحب نے سوچا کہ رات کو مزید سفر کرنا اور دیر سے جا کر اس بزرگ کے معمولات میں مخل ہونا مناسب نہیں لہٰذا انہوں نے ایک مسجد میں ہی رات گزاری۔ رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ ممتاز شخصیت جس کی ملاقات کی خاطر انہوں نے اتنا لمبا اور کٹھن سفر کیا تھا اس رات وفات پا گئے ہیں۔ صبح بیدار ہونے پر انہیں بے حد قلق ہوا کہ منزل کے عین قریب پہنچ کر وہ ملاقات کی سعادت سے محروم رہ گئے۔ انہیں اس اضطراب میں دیکھ کر ایک نمازی نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بڑے دکھ سے بیان کیا کہ اس ربانی شخصیت کی ملاقات کی نیت سے سفر پر نکلے تھے لیکن انہیں ان کی وفات کی خبر بذریعہ خواب ملی ہے۔ وہ نمازی انہیں تسلّی دیتے ہوئے بولا کہ وہ ہر گز ملال نہ کریں وہ اس بزرگ شخصیت سے تھوڑی دیر پہلے مل کر آیا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ سلامت ہیں۔ یہ صاحب عجیب کشمکش کی حالت میں فوراً ان کے پاس حاضر ہوگئے اور ان سے اپنی خواب کا ذکر کیا خواب سن کر اس بزرگ شخصیت نے کہا کہ ایک لحاظ سے تو آپ کا خواب درست ہے۔ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مقررہ ذکرِ الٰہی کیا کرتا ہوں لیکن گذشتہ رات میں دوسری مصروفیات کی وجہ سے معمول کا ذکر کیے بغیرہی سو گیا۔ توگویا میں اس رات کو روحانی طور پرمر گیا تھا کیونکہ ذکر سے محروم شخص کی مثال مردہ کی سی ہے۔
پس رمضان میں جو ذکر الٰہی کی عادت پڑی، اسے قائم رکھنا چاہیے۔ کچھ اذکار اور دعائیں احباب کے فائدہ کے لیے لکھ دیتا ہوں۔
1۔ سورة الفاتحہ
2۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔
3۔ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہِ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ۔
4۔ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍخَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔
5۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ۔ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔
6۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔
7۔ درود شریف کا کثرت سے ورد کرنا کہ یہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے۔
8۔ اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِہِمْ وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِہِمْ
یہ چند دعائیں اور اذکار لکھے ہیں جنہیں انسان پڑھتا رہے تو اس کے لیے مفید ہیں۔ احادیث نبویہ میں اور اذکار بھی ہیں۔ روایات میں ایک اور اہم بات ذکرِ الٰہی کے متعلق ملتی ہے اور وہ یہ ہے کہ
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور انہیں ذکر کی مجالس کی تلاش رہتی ہے۔ جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو تو وہا ں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ ساری فضا ان کے سائیہ برکت سے مخمور ہو جاتی ہے۔ جب لوگ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے۔ حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ کہاں سے آئے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں۔ ہم تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح کر رہے تھے، تیری بڑائی بیان کر رہے تھے، تیری عبادت میں مصروف تھے اور تیری حمد میں رطب اللسان تھے اور تجھ سے دعائیں مانگ رہے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں اس پر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے۔ کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں۔ اے میرے ربّ انہوں نے تیری جنت دیکھی تو نہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے، ان کی کیا کیفیت ہو گی اگر وہ میری جنت کو دیکھ لیں۔ پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری پناہ چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے وہ کس چیز سے میری پناہ چاہتے ہیں؟ فرشتے اس پر کہتے ہیں تیری آگ سے وہ پناہ چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں دیکھی تو نہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے، ان کا کیا حال ہوتا اگر وہ میری آگ کو دیکھ لیں؟ پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری بخشش طلب کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں نے انہیں بخش دیا اور انہیں وہ سب کچھ دیا جو انہوں نے مجھ سے مانگا اور میں نے ان کو پناہ دی جس سے انہوں نے میری پناہ طلب کی اس پر فرشتے کہتے ہیں اے ہمارے ربّ ان میں فلاں غلط کار شخص بھی تھا وہ وہاں سے گزر ا اور ان کو ذکر کرتے ہوئے دیکھ کر تماش بین کے طور پر ان میں بیٹھ گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اس کو بھی بخش دیا۔ کیونکہ
ہُمُ الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی بِہِمْ جَلِیْسُھُمْ
یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بد بخت نہیں رہتا۔
(مسلم کتاب الذکر باب فضل مجالس الذکر ماخوذ از حدیقۃ الصالحین صفحہ 127تا128)
پس ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے فیض کا ذریعہ بنیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کس کے پاس بیٹھنا (دینی لحاظ سے) بہتر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ایسے شخص کے پاس بیٹھنا مفید ہے جس کو دیکھنے کی وجہ سے ہمیں خدا یاد آوے۔ جس کی باتوں سے تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جس کے عمل کودیکھ کر تمہیں آخرت کا خیال آ ئے(اور اپنے انجام کو بہتر بنانے کے لیے تم کوشش کرنے لگو)۔
(حدیقۃ الصالحین صفحہ 130)
(جاری ہے)