متفرق

فیشن پرستی کی وبا سے بچ کر رہو (تحریر: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’… اپنے موجودہ نوٹ میں مَیں فیشن پرستی کے رجحان کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دراصل بے پردگی اور فیشن پرستی کا باہمی رشتہ ایک طرح سے دو بہنوں والا رشتہ ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا اثر دوسرے پر بہت گہرا پڑتا ہے۔ بےپردگی آخر کار عورتوں کو بالعموم فیشن پرستی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور دوسری طرف فیشن پرستی کا رجحان آہستہ آہستہ بے پردگی کی طرف کھینچ لاتا ہے۔ پس ہماری جماعت کی عورتوں اور لڑکیوں کو چاہیے کہ ان دونوں خرابیوں سے بچ کر رہیں۔ یعنی وہ اسلامی پردہ کی پابندی اختیار کریں اور فیشن پرستی کی وبا سے بھی بچ کر رہیں ورنہ وہ کبھی بھی سچی احمدی اور سچی مسلمان نہیں سمجھی جا سکتیں۔ اسلام سادہ زندگی پر زور دیتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہمیشہ سادہ زندگی پر زور دیا کرتے تھے۔ میرے کانوں میں ہمیشہ حضور کے یہ الفاظ گونجتے ہیں کہ مجھے سادہ لوگ بہت پسند ہیں جو دنیا میں سادگی کی زندگی گزارتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل الرسل اور خاتم النبیین کے قدموں پر دنیا کی دولت ڈال دی اور عرب کا بے تاج بادشاہ بنا دیا مگر آپؐ نے اس ارفع مقام کے باوجود ایسی سادہ زندگی گزاری کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ موٹے پٹھے کی چٹائی پر اس بے تکلفی سے لیٹ جایا کرتے تھے کہ اس کے نشان آپ کے جسم پر ظاہر ہونے لگتے تھے۔ ایک دفعہ ایک عورت اپنی کوئی حاجت پیش کرنے کے لیے آپ کے سامنے آئی اور آپ کے رعب کی وجہ سے تھر تھر کانپنے لگی اور اس کے منہ سے بات نہیں نکلتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نظارہ دیکھا تو بے چین ہو کر اس کی طرف لپکے اور بڑی محبت سے فرمایا۔ ’’ مائی ڈرو نہیں ڈرو نہیں۔ میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ تمہاری طرح کا ہی ایک انسان ہوں۔ جسے عرب کی ایک ماں نے جنا تھا ‘‘۔

پس زندگی میں سادگی اختیار کرنا اسلام اور احمدیت کی خاص تعلیمات میں داخل ہے اور وہی لوگ سچے مومن اور سچے احمدی سمجھے جا سکتے ہیں جو دولت اور ثروت کے ہوتے ہوئے بھی سادہ زندگی گزاریں اور اپنے غریب بہن اور بھائیوں کے ساتھ مل کر اس طرح گھل مل کر رہیں کہ گویا وہ ایک خاندان کا حصہ ہیں۔ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ صحیح رنگ کی زینت جسے بدن اور کپڑوں کی صفائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اسلام میں منع نہیں بلکہ اس کا حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن لوگ نہا کر اور اپنے بدنوں کو صاف کر کے مسجد میں آئیں اور دھلے ہوئے صاف کپڑے پہنیں اور اگر وسعت ہو تو خوشبو بھی لگائیں۔ اور میں اس بات کو بھی مانتا ہوں کہ عورتوں کو خاص طور پر صفائی اور زینت کی اجازت بلکہ ہدایت دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے خاوندوں کے لئے ظاہری لحاظ سے بھی کشش اور راحت کا موجب بن سکیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی عورت ایک دفعہ ایسی حالت میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئی کہ اس کی حالت بہت خستہ تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے اور کپڑے میلے کچیلے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا۔ ’’ بہن تم نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟ ‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’ یا رسول اللہ!میں کس کے لئے زینت کروں۔ میرا خاوند دن میں روزہ رکھتا ہے اور رات تہجد کی نماز میں کھڑا ہو کر گزار دیتا ہے۔ ‘‘ آپؐ نے فوراً اس کے خاوند کو بلایا اور اس پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا۔ ’’ کیا تم اپنی بیوی کا حق چھین کر خدا کو دینا چاہتے ہو؟ سنو کہ خدا ایسے لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ بندوں کا حق بندوں کو اور خدا کا حق خدا کو دو اور بیوی کا حق بیوی کو دو ‘‘۔

پس اسلام ایک بڑا ہی پیارا اور متوازن مذہب ہے۔ جس نے نہ صرف خدا تعالیٰ کے بلکہ خاوند کے اور دوسرے رشتہ داروں کے اور ہمسایوں کے اور دوستوں کے بلکہ دشمنوں تک کے حقوق مقرر کر رکھے ہیں۔ اور ان حقوق میں تصرف کرنا خدا تعالیٰ کی خوشی کا موجب نہیں بلکہ اس کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے۔ لیکن اسلام نے جہاں واجبی حد تک زینت کی اجازت دی ہے وہاں مناسب حد بندیوں کے ساتھ اسے کنٹرول بھی کیا ہے۔ اور ہماری جماعت کا فرض ہے کہ پوری پوری دیانتداری کے ساتھ ان پابندیوں کو ملحوظ رکھیں۔ یہ پابندیاں مختصر طور پر چند فقروں میں بیان کی جا سکتی ہیں:

(اوّل) کوئی ایسی زینت اختیار نہ کی جائے جو سادہ زندگی کے اصول کے خلاف ہو اور جس میں عورت اپنے جسم اور اپنے لباس کو زینتوں کے ذریعہ اتنا کشش دار کر دے کہ غیر محرم شرفااور نیک لوگوں کی آنکھیں اس کی طرف اعتراض کی نظر سے اٹھیں۔

(دوم)زینت کے معاملہ میں ایسا انہماک نہ اختیار کیا جائے کہ گویا وہی زندگی کی غرض و غایت ہے بلکہ سادہ زندگی اختیار کی جائے۔

(سوم)جب کوئی پردہ دار عورت کسی مجبوری کی وجہ سے خریدو فروخت کی غرض سے بازار میں جائے یا گھر سے باہر آئے تو لپ سٹک اور چہرہ کے پائوڈر وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔ اور باہر آتے ہوئے پردہ کا پورا پورا انتظام رکھا جائے۔

(چہارم) برقعہ یا لباس کے اوپر اوڑھنے کی چادر بالکل سادہ ہو جس کا رنگ نہ تو شوخ اور بھڑکیلا ہو اور نہ اس پر کوئی بیل بوٹے یا نقش و نگار کا کام کیا ہوا ہو۔ کیونکہ برقعہ کی غرض زینت کو چھپانا ہے نہ کہ خود برقعہ کو زینت کا ذریعہ بنانا۔

(پنجم)نوجوان لڑکیاں جو سکولوں اور کالجوں میں پڑھتی ہیں ان کے لئے خاص طور پر ضروری ہے کہ ہر قسم کی ناواجب زینت سے بچ کر سادگی اختیار کریں۔ بے شک اپنے جسم اور کپڑوں کو صاف رکھیں مگر اپنے چہروں اور لباسوں کو ہر گز مصنوعی طریقہ پر کشش کا ذریعہ نہ بنائیں۔‘‘

(مضامین بشیر جلد چہارم، صفحہ 380 تا 382)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button