ایڈیٹر کے نام خطوط

کیا ہمیں صرف نکاح کا معاہدہ ہی دُکھتا ہے؟

مکرمہ درِ ثمین احمد صاحبہ جرمنی سے تحریر کرتی ہیں:

چندروز سے ملکی وبین الاقوامی سوشل اور پرنٹ میڈیاکے تقریباًتمام پلیٹ فارمز پر پاکستانی نوبیل انعام یافتہ خاتون ملالہ یوسف زئی کا ایک جریدے کو دیے جانے والا انٹرویو لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ تعلیمی و سماجی راہنما ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے ’’مجھے اب بھی سمجھ نہیں آتا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں کسی شخص کا ساتھ چاہتے ہیں تو آپ کو شادی کے کاغذات (نکاح نامے) پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیوں یہ ساتھ صرف پارٹنرشپ پر مشتمل نہیں ہوسکتا؟ملالہ کا مزید کہنا تھا میں یونیورسٹی میں سوچتی تھی کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گی، اور نہ ہی بچے پیدا کروں گی صرف اپنا کام کروں گی۔ میں ہمیشہ اپنی فیملی کے ساتھ رہوں گی اور خوش رہوں گی۔ مجھے احساس نہیں تھا کہ آپ ہر وقت ایک شخص نہیں ہوتے جب آپ بڑھتے ہیں آپ میں بدلاؤ آتے ہیں۔‘‘ان کے خیالات جان کر جہاں افسوس ہوا وہاں میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ دنیا بھر میں شہرت یافتہ آکسفورڈ گریجویٹ اور بعض لوگوں کے نزدیک نوجوان نسل کی نمائندہ خاتون کی جانب سے اس قسم کےغیر ذمہ دارانہ خیالات کا اظہار اس بات کا غماز ہے کہ ہماری نوجوان نسل مغرب کے زیرِ اثر اپنے اقدار کو کس قدر تیزی سے پسِ پشت ڈالنے پر تیار ہو رہی ہے۔ عصر حاضر میں بالخصوص مغربی ممالک میں ایسی نسل تیار ہو رہی ہے جو سمجھتی ہے کہ مذہب کی تعلیمات،سماج کی روایات اور انسانی طبیعت آپس میں متصادم ہیں اور معاشرے میں قائم روایات اور پابندیوں کا کوئی جواز نہیں۔ نیز یہ کہ خوش و خرم رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خاندانی اور عائلی بندھنوں سے آزاد رہے۔

ملالہ جس معاشرے کو مثال بنا کر نکاح جیسے معاہدےسے ہچکچاہٹ کا اظہار کررہی ہیں اس میں تو ایک موبائل فون کنٹریکٹ لینے کے لیے بھی معاہدہ (agreement)سائن کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر آپ بغیر ایگری منٹ کے بھی اپنی پسند کا فون خرید رہے ہوں تب بھی اس کی خریداری کے لیے کاغذی کارروائی تو ضرور ضبط تحریر میں لائی جاتی ہے جو دراصل کمپنی کے ساتھ معاہدے کی ہی ایک شکل ہے۔ممکن نہیں کہ آپ سیلز مین سے بغیر کسی رسیدی دستاویز کے کوئی چیز گھر لے آئیں اور استعمال کرنا شروع کردیں۔اوربالفرض مان لیا جائے کہ آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کسی بھی قسم کے نقص یا نقصان کی صورت میں آپ گارنٹی کے دعوے کا حق کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ تومیں نے ایک موبائل کی مثال دی ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں جہاں ساری دنیا کی معیشت کا انحصار ہی ریکارڈ پر ہے دنیا کا کوئی کاروبار ہو،خرید و فروخت کے معاملات ہوں یا کرائے پر چیزوں کا حصول ہو،میعادی یا غیر میعادی،قانونی یامعاشرتی قدم قدم پر ہر ضروری معاملے میں ہمیں معاہدوں اور دستاویزات پر دستخط کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور یہ میں کسی مذہبی تناظر میں بات نہیں کررہی بلکہ عام روز مرہ کے معمولات کی بات کر رہی ہوں۔ ایک اور مثال دیتی ہوں آپ کسی ایسے ادارے میں جاتے ہیں جس کا آپ حصہ بننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی آپ کواندراج فارم کی شکل ایک بانڈ، ایگری منٹ،کانٹریکٹ سائن کرنا پڑتا ہے جس میں اس ادارے میں شمولیت کے قواعد و ضوابط درج ہوتے ہیں جن سےہر صورت میں متفق ہوئے بغیر آپ اس ادارے کا حصہ نہیں بن سکتے۔پھر یہ کہنا کہ اپنی ذاتی زندگی میں نکاح کا معاہدہ اب ایک فرسودہ خیال ہے کیونکہ اس کے بغیر بھی نظام زندگی چل سکتا ہے۔ہاں بظاہر تو چل سکتا ہے۔مگر یہ سوچنا انتہائی ضروری ہے کہ پھر دیگر غیراہم امورِ زندگی میں معاہدات کیوں اتنی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں؟وہاں صرف زبانی اقرار کو کیوں قبول نہیں کر لیا جاتا ؟

ایک اورچھوٹی سی مثال دینا چاہوں گی۔زید نے بکر سے کچھ رقم ادھار صرف اعتبار کی بنیاد پر لی مگر کچھ عرصے بعد زید کی نیت خراب ہوگئی یا خدانخواستہ اس کی وفات ہو گئی اور اب کیونکہ بکر کے پاس کوئی تحریری ثبوت اور گواہ موجود ہی نہیں تو وہ کسی قسم کی مؤثرقانونی چارہ جوئی کا حق نہیں رکھتا۔اس کے برعکس اگر گواہان کی موجودگی میں دستاویز کی شکل میں اس کے پاس کوئی ثبوت موجود ہوتا تو معاملہ برعکس ہوتا۔ یہ تو ایک معاشی معاہدے کی مثال ہے۔ اسلامی نکاح یا مغربی معاشرے میں ہونے والی شادی کی رجسٹریشن سے مرادوہ تحریری معاہدہ ہے جس پر ازدواجی رشتے میں بندھنے والے دو انسان اپنےدستخط ثبت کرتے ہیں تا کہ وہ اپنی شادی کو قانونی حیثیت دلواسکیں۔ جس کی رو سے وہ اس مقدس رشتہ سے متعلق تمام حقوق اور فرائض کے پابند ٹھہرتے ہیں۔ اسی لیے صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ دوسرے معاشروں اور مذاہب میں بھی نکاح کی کسی نہ کسی صورت کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔اس کا مقصد محض پابندی ہی نہیں بلکہ فریقین، خواتین و مرد دونوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ تحریری ثبوت کی عدم موجودگی میں کوئی بھی فریق نہ صرف دھوکہ دہی اور بداعتمادی کا شکار ہو سکتا ہے بلکہ اس کے لیے معاشرے میں اپنا اور اپنے گھر والوں کا مقام حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

شادی مرد اورعورت کے درمیان معاہدہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نکاح کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’نکاح جو ایک بنیادی حکم ہے یہ صرف معاشرہ اور نسل کو چلانے کے لئے نہیں بلکہ بہت ساری برائیوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور ایک نیک نسل چلانے کے لئے ہے۔ پس نئے جوڑوں کواس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ شادیاں جو کسی مذہب کو ماننے والوں میں اور خاص طور پر اسلام کو ماننے والوں میں ہوتی ہیں، ایک مسلمان کے گھر میں جو شادی ہے یہ صرف دنیاوی سکون کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کی جائے، اس پر عمل کیا جائے اور آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہوئے نیک نسل پیدا ہونے کا آغاز کیا جائے‘‘۔

نیز فرمایا:’’پس اس بات کو ہمیشہ ہمارے ہر احمدی جوڑے کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اگر سامنے کوئی مقصد ہو گا تو پھر نئے بننے والے جوڑے کاہر قدم جو زندگی میں اٹھے گا، وہ اس سوچ کے ساتھ اٹھے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل کرنے والا ہوں اور کرنے والی ہوں اور جب انسان اللہ تعالیٰ کےحکم پر عمل کرنے والا ہوتو پھر اس کی سوچ کا ہر پہلو اس طرف جانے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کےحصول کا ہو۔ پس اس سے پھر آپس کے تعلقات مزید بہتر ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال انسان رکھتا ہے۔ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتا ہے۔ ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھتا ہے اور اس طرح یہ ایک جو Bond ہے، آپس کا ایک جو معاہدہ ہے وہ دنیاوی معاہدہ نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کےحصول کا معاہدہ بن جاتا ہے اور پھر آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں بھی نیک صالح نسلیں ہوتی ہیں اور یہی ایک احمدی مسلمان کا شادی کا مقصد ہونا چاہئے‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8جون2012ء)

شادی یا نکاح یا رجسٹریشن اس سوشل کانٹریکٹ کا نام ہے جس میں آپ اپنےشراکت دار (پارٹنر) پر مکمل اعتماد ظاہر کرتے ہوئے برضاو رغبت بقیہ زندگی کے سفر میں اس کے ہمراہ ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں فریقین کو وہ تمام حقوق و فرائض برضا و رغبت نبھانے پڑتے ہیں جن کی محض پارٹنر شپ متحمل نہیں ہوسکتی۔ مثلاً انسان پر بعض اوقات مالی طور پر مشکل وقت بھی آجاتا ہےجس سے نکلنے کے لیے انسان اپنے اوپر موجود بوجھوں کواتار پھینکنے کا سوچتا ہے۔ کوئی مہنگی گاڑی بیچ کر سستی گاڑی لے لیتا ہے، کوئی زیور بیچ کر معاملات سیدھے کرنے کی کوشش کرتا ہے و علی ہذاالقیاس۔ اگر مرد یا عورت نکاح کے معاہدے کے بغیر پارٹنرشپ میں زندگی گزار رہے ہوں تو وقتی مصیبت سے بچنے کے لیے اپنے عمر بھرکے پارٹنراور بچوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کرنے کے لیے شاید چند لمحے درکار ہوں اور پھر عمر بھر کا پچھتاوا اس کا منتظر رہے۔ لیکن نکاح کی صورت میں یا چلیے کہہ لیجیے کہ ’کانٹریکٹ‘ موجود ہونے کی صورت میں شاید ہی کوئی انسان ہو گا جو مالی مشکل سے نجات کے لیے اپنے جیون ساتھی یا بچوں کو چھوڑنے کا سوچے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button