تعارف کتاب

القول الفصیح فی اثبات حقیقۃ مثیل المسیح (قسط چہارم)

(مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ)

تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

اشاعت

حضرت مسیح موعودؑ نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ایک خط مورخہ 20؍اپریل 1891ء کو تحریر فرمایا جس میں اس رسالہ کے شائع ہونے کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسالہ 1891ء کی پہلی سہ ماہی میں شائع ہو چکا تھا۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:

آپ صرف اس بات کے مستحق ہیں کہ مجھ سے تشخیص دعویٰ کرا دیں سو میں نے بذریعہ فتح اسلام و توضیح مرام اور نیز بذریعہ اس حصہ ازالہ اوہام کے جو قول فصیح میں شائع ہو چکا ہے اچھی طرح اپنا دعویٰ بیان کیا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ اور کوئی میرا دعویٰ نہیں۔

(خط مرقومہ 20؍اپریل 1891ء مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 327)

اسی طرح مولوی عبد المجید صاحب دہلوی نے اپنی کتاب بیان للناس میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ (دیکھیں بیان للناس صفحہ 81)۔ مولوی صاحب کی یہ کتاب اکتوبر 1891ء میں شائع ہوئی۔

رسالے کے صفحہ 17 زیر دفعہ 2 یہ صراحت موجودہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے مصارف منشی غلام قادر صاحب فصیح نے ادا کیے اور رسالےکو مفت تقسیم کروایا۔ نیز اس بات کا ذکر کرتے ہوئےایک مقام پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’حبّیفی اللہ مولوی غلام قادرصاحب فصیح جوان صالح خوش شکل اوراس عاجزکی بیعت میں داخل ہیں۔ باہمت اورہمدرداسلام ہیں ؔ۔ قول فصیح جومولوی عبدالکریم صاحب کی تالیف ہےاسی مردباہمت نےاپنےمصارف سےچھاپی اورمفت تقسیم کی۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 524)

رسالہ لکھنے کا مقصد

حضرت مولوی صاحبؓ نے رسالہ لکھنے کا مقصد خود بیان فرمایا ہے۔ رسالے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب توضیح مرام اور ازالہ اوہام سے دو اقتباس درج کیے گئے ہیں۔ توضیح مرام کے منتخب حصہ کو پڑھنے سے پتا لگ جائے کہ ’’دعویٰ کیا کیا گیا ہے اور اس پر داعی کے پاس کیا برہان ہے؟‘‘(صفحہ 15)۔ ازالہ اوہام سے منتخب حصہ ’’ہمارا مذہب‘‘شائع کرنے کا مقصدیہ ہےکہ ’’قوم سوء ظن سے بچ جائے۔ تکفیر و تفسیق کی زبان روکے رکھے۔ ‘‘(صفحہ 16)۔ حضرت مولوی صاحبؓ لکھتے ہیں:’’میں نے محض خیرخواہی اور نیک نیتی سے (والدین النصح) ارادہ کیا کہ تھوڑا انٹروڈکشن اپنی طرف سے لکھ کر ان حصص کو شائع کروں۔ ‘‘(صفحہ 17)

مندرجات

٭…4 دفعات

٭…مسدس احقاق حق از حضرت میر حامد شاہ صاحب

٭…مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا

٭…ہمارا مذہب

٭…حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ کا قصیدہ

٭…7کتب کا اشتہار مع افادیت

4 دفعات

دفعہ 1 (صفحہ 1 تا9):اس حصے کا بنیادی موضوع حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا منہاج نبوت پر تشریف لانا ہے۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ سب سے پہلے ضرورت زمانہ کے وقت مسیح کے نزول پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں:

’’تو نے وقت پر ہماری دستگیری کی۔ تو نے اس قدیم وعدہ کو جو تو نبیوں کی زبانی کرتا چلا آیا ہے پورا کیا…اسی لاتبدیل ولاتحویل قاعدہ کے مطابق ایک روحانی طبیب بھیجا۔ ‘‘

اس کے بعد حضرت مولوی صاحبؓ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا منہاج نبوت پر آنا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’وہ انوکھی طرح نہیں آیا۔ وہ اسی طرح پر آیا جس طرح رب العالمین مولا تیری غیر متغیر عادت جاری ہے۔ بےشک وہ آسمان سے اترا ہے۔ ‘‘

اس کے بعد آپؓ قوم کےلیے دعا کرتے ہیں کہ اس موقع پر اپنے عاجز بندوں کو فتنوں اور امتحان میں پڑنے سے بچا۔ حضرت مولوی صاحبؓ اگلے چند صفحات میں زوردار الفاظ میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مثیل ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’کیا وہ اس خاکسار انسان کی طرح زندگی بسر نہیں کرتا جسے سنگ دل یہودیوں نے رد کیا؟ہاں ہاں ! کیا وہ بےایمان قسی القلب فریسی طبع آدمیوں کو جو ایمان کی زندگی سے محروم اپنے جسم کی قبروں میں مدفون ہیں بلاتا نہیں ہے کہ آؤ میرے پاس آؤ میں تمہیں زندہ کروں گا۔ ‘‘

مخالف مولویوں کے تکبر کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’یہ خشک مولوی عالم اسے کہتے ہیں جس نے عمر عزیز کے متعدد گرامی سال رفع یدین اور آمین بالجہر کے بے سود مباحثوں میں بسرکر گئے ہوں۔ ‘‘

پھر ان کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مہربان خدا!انہیں تو ہی سمجھا کہ کس طرح توا میوں کو عالموں کا استاد بنایا کرتا ہے…یہودی اور عیسائی اہل کتاب ہونے کے دعوے سے علم و فضل کے گھمنڈ سے خانہ بدوش آل عدنان، تیما کے صحراؤں میں آوارہ پھرنے والی جاہل ناخواندہ قوم کو کس حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے وہ الٰہی فیوض کے داروغے اور اس کے فضل کے خزانچی بنے ہوئے تھے…تو نے اے خدا وند خدا ان کا غرور توڑا۔ تو نے ان کے علموں کو خاک میں ملایا۔ تو نے دکھادیا کہ حقیقی علم و حکمت اور ہی شے ہے۔ وہ صرف انہیں کو ملتی ہے جن پر تیرا فضل ہو تا ہے۔ تو نے نبی امی کو عالم میں نمونہ کے طور پر کھڑا کیا …یہی وہ مبشر رسول ہے جس کی موسیٰ نے تمہیں خبر دی تھی…افسوس اس بدنصیب قوم نے اس کو نہ مانا۔ وہ اس سے پہلے اس خاکسار حلیم انسان کو بھی رد چکے تھے…وہ برابر انتظارمیں ہیں کہ کب آسمان سے چیل کی طرح منڈلاتا پر ڈھیلے چھوڑ کر اترتا ہوا مسیحا انہیں دکھائی دیتا ہےاور ظالموں سے ان کا انتقام لیتا ہے۔ وہ دو ہزار برس سے برابر تکتے ہیں۔ ان کی آنکھیں چتی ہو گئی ہیں۔ آنے والے آ گئے پر انہوں نے نہ ماننا تھا نہ مانا۔ یہ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اپنے غلط ذہنوں سے بشارات کے معانی کے فہم میں کجیاں کیں۔ انہوں نے بشارات کے ظاہر الفاظ پر اصرار کیا استعارات اور دقائق سے روگردانی کی …یہی حال ہماری قوم کا ہے۔ ‘‘

حضرت مولوی صاحبؓ آخر میں نہایت تضرع سے خدا کے حضور عرض کرتے ہیں:

’’سو میں اب کانپ کانپ کر بڑے خشوع و خضوع سے عرض کرتا ہوں ان کو ہلاک نہ کیجیو! یہ جاہل ہیں ! بے خبر ہیں! حکیم مولا! جلد ان کی خبر گیری کر قریب ہے کہ یہ غفلت میں ہلاک ہو جائیں۔ ‘‘

دفعہ 2(صفحہ 9 تا17):حضرت مولوی صاحبؓ زیر دفعہ ہذا کتب فتح اسلام و توضیح مرام و ازالہ اوہام میں تفصیلی دلائل بیان کرنے کی علت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابتدا میں:

’’آپؑ نےارادہ کیا کہ چند سطروں میں اس دعویٰ کا اعلان کیا جاوےاور اخبارات میں بلا بینات اور دلائل قائم کرنے کے اس دعویٰ کے متعلق اشتہارات دئے جائیں مگر جلد کھل گیا کہ ناعاقبت اندیش قوم اس دعوے کو انوکھا دعویٰ سمجھ کر انکارو کفر کے مہلک گڑھے میں منہ کے بل گر جائے گی…بناء علیہ جبلی رحم نے جو اس برگزیدہ قوم کا خاصہ طبعی ہوتا ہے تقاضا کیا کہ مفصلاً واضح دلائل سے اس دعویٰ کو ثابت کر کے قوم کو دکھا دیا جائے تاکہ کسی طرح انکارو اصرار کی مجال نہ رہے۔ چنانچہ اس غرض کے پورا کرنے کے لئے تین بڑے بڑے رسالے مرتب ہو گئے۔ ‘‘(صفحہ 9تا10)

پھر علماء کی مشکل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’وہ اس مثیل کے دعوے کے قبول کرنے کو اپنی کسر شان خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے اس اپنے حامی کے مقابل پر خم ٹھونکنا شروع کر دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہماری قوم فخر کرتی کہ ان کی دین کی تائید ونصرت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک خاص بندہ بھیجا ہے انہوں نے اس کی تردیداور انکار پر کمریں کسنا شروع کر دیں ہیں۔ یہ غل غپاڑ حق تھا تونصاریٰ کا تھا جن کے اصول مسلمہ کی سرے سے جڑھ ہی اکھڑ گئی ہے وہ چلائیں، تردیدیں کریں ان کا حق ہے‘‘(صفحہ 11 تا12)

حضرت مولوی صاحبؓ اس کے بعد مذکورہ بالا تینوں رسالوں کا خلاصہ مضمون درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان میں مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے مسلمات سے وفات مسیحؑ ثابت کی گئی ہے نیز نزول مسیحؑ کی احادیث کا تفصیلی حل ازالہ اوہام میں فرمایا ہے۔ اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی گذشتہ زندگی کو آپؑ کی صداقت کی دلیل میں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مبارک ہیں وہ لوگ جنہوں نے نہایت عجز و فروتنی سے اس بلند قدر گرامی منزلت منزل من السلام کے آگے گردنیں رکھ دی ہیں۔ انہوں نے اس صادق اور مسلم مصدوق کے منہ سے جب سنا کہ وہ اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کے مکالمہ وحی اور الہام کے شرف سے مشرف کہتا ہے، آمنَّاکہا اور پکار اٹھے اور شدت وجد سے پکار اٹھے کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا کیونکہ وہ سالہائے دراز سے متواتر سنتے دیکھتے چلے آئے تھے کہ یہ شخص کیسا راست باز ہے۔ انہوں نے تجربہ کر لیا تھا کہ اس کی ساری عمر دینی خدمات میں بسر ہوئی ہے۔ اس نے اسلام کی صداقت کے اثبات کے مقابلہ میں بڑے بڑے اعدائے ملت آریہ، برہمو، عیسائی کو کیسا پامال کیا ہے۔ اس کے انفاس مسیحائی کی بو جہاں جہاں پہنچی ہے وہاں وہاں تک مذہب حق کے دشمن مرتے گئے ہیں ‘‘(صفحہ 13 تا14)

اس کے بعد حضرت مولوی صاحبؓ نے رسالہ لکھنے کا مقصد بیان کیا ہے جو پہلے درج کیا جا چکا ہے۔

دفعہ3(صفحہ 17 تا33):اس حصے میں حضرت مولوی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا دعویٰ کوئی انوکھا دعویٰ نہیں ہے۔ انبیاءکی طرح ان کے تابعین کی مخالفت، ان پر اعتراضات ان کی سچائی کی دلیل ہوتے ہیں۔ آپ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے شعر

من نیستم رسول و نیاوردہ ام کتاب

ہاں ملہم استم از زخداوند منذرم

سے استنباط کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپؑ کا دعویٰ نئی کتاب لانے کا نہیں ہے ہاں صرف وحی و الہام کا دعویٰ ہے۔ آپؓ مزید فرماتے ہیں:

’’پھر کیا الہامات و مکاشفات اور مکالمات الٰہیہ کا دعویٰ کوئی انوکھا دعویٰ ہے؟ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس فیض و فضل کا باب کبھی بھی بند ہوا نہ ہو گا۔ یہ ہمارے آقا ہمارے مولا حضرت ہادی کامل فرد اکمل محمد مصطفیٰﷺ کی بابرکت نبوت کا بڑی بھاری ثبوت ہے‘‘(صفحہ 19)

یہ اسلام کی دیگر مذاہب پر فضیلت ہے۔ اس کے بعد حضرت مولوی صاحبؓ وحی و الہام کے بارے میں اس غلط فہمی کا رد کرتے ہیں کہ وہ دل کا جوش ہوتا ہے جو دل پر پڑتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ کتنے بڑے بڑے حکماء گزرے ہیں مگر ان کا کلام الٰہیات کے باب میں نہایت کمزور واقع ہوا ہے۔ مگر اس نبی امیﷺ کے قلب اطہر پر قرآن کریم کا نزول ہوا جو ہر قسم کی تعلیمات کا جامع ہے۔ پس خدا تعالیٰ متکلم ہے اس کی کوئی صفت معطل نہیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ امام ابن قیم رحمہ اللہ کےفرقہ معطلہ کے رد میں چند اشعار مع ترجمہ درج کرکے لکھتے ہیں:

’’کیا ایسے قوت میں جبکہ نصاریٰ، آریوں اور برہموؤں کی طرح اسلام کو چشک بے برکت چشمہ بنایا گیا تھا! اور حقانی صداقتوں اور الٰہی مذہب کے لئے کوئی بھی ما بہ الامتیاز نہ رہا تھا! کیا ایسے وقت میں ضرور نہ تھا کہ ایک پاک برگزیدہ شخص آتا جو اپنی رفتار وگفتار سے اسلام کے افضل المذاہب ہونے کا ثبوت دیتا؟اس زمانہ کے وحی و الہام کے منکروں یا مدعیان کاذب کو اصل حقیقت سے آگاہ کرتا؟بڑا ضروری تھا بے شک ضروری تھا۔ والحمد للّٰہ علی ذالک۔ (صفحہ 23)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا دعویٰ مثیل مسیحؑ ہونے کا ہے اور یہ کوئی انوکھا دعویٰ نہیں۔ اس دعویٰ سے عیسائیوں کو اضطراب ہو سکتا ہے کیونکہ وہ مسیح کو خدا مانتے ہیں اور اس کا مثیل ممکن نہیں مگر نبی کے مثیل ہونے میں کیا دقت ہے؟اس کے ثبوت میں ابن عربی کے 4 حوالہ جات درج کیے ہیں جس میں انہوں نے صراحت سے بیان کیا ہےکہ انبیاء کے مثیل آتے رہتے ہیں اور خداتعالیٰ انہیں خود تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ ایک ضروری حصہ بطور مثال درج کیا جاتا ہے۔ ابن عربی فتوحات مکیہ میں فرماتے ہیں:

لأن ھذا الوَلی لا یأتی بِشَرع جَدید وانما یاتی بِفَہم جَدید فی الکتابِ العَزیزِ لَم یَکُن غَیرُہ یَعرِف أنّ ھذا المَعنی فی ذالِکَ الحَرفِ المَتلُوِّ۔

یعنی یہ ولی کوئی نئی شریعت نہیں لاتا بلکہ نئی سمجھ لاتا ہے اور قرآن کریم میں اس کو ایسا نیا فہم عطا ہوتا ہے جو دوسرے شخص کو ان آیات کے متعلق ہرگز میسر نہیں ہوتا۔

دفعہ 4(صفحہ 33 تا48):اس حصے میں پیشگوئی کی فلاسفی بیان کی گئی ہے۔ ’’پیشگوئی ایک ایسی سائنس ہے جس کی اصطلاحیں استعارات و کنا یات ہوتی ہیں۔ ‘‘(صفحہ 33) عالم مثال ایک عجیب دنیا ہے۔ کبھی مادیات کی تعبیر کیفیت ہوتی ہے جیسے دودھ کی پینے کی تعبیر علم سے کی گئی۔ کبھی مادی چیزیں دکھائی جاتی ہیں مگر ان کی تعبیر کو اس سے ادنیٰ مشابہت بھی نہیں ہوتی جیسے حضرت یوسفؑ کا رؤیا کہ 11 ستارے اور چاند سورج سجدہ کرتے دیکھے۔ اس کی ایک اور مثال ابن عربی کی خواب کہ انہوں نے ستاروں سے جماع کیا پھر حروف سے جماع کیا۔ اس کی تعبیر کی گئی کہ آپ پر آسمانی علوم و اسرار کھولے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کی صداقتوں کے اثبات فطرت انسانی میں عالم خواب رکھ دیا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ خواب دیکھنے والا ولی یا نبی اس کی حقیقت بھی فوری معلوم کر لے۔ کتب سماویہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئیاں تمثیلات میں ہی کی جاتی ہیں۔ جیسے یسعیاہ نبی کی پیشگوئی مندرجہ یسعیاہ باب26آیت 19؛باب 60آیت 16، 20؛ باب11 آیت6تا8۔ حضرت اقدس رسول اللہﷺ نے بھی مشابہت تامہ کی وجہ سے ابن مریم کہا اور حرف تشبیہ استعمال نہیں فرمایا۔ یعنی آنے والا شخص ابن مریم سے ایسی مشابہت رکھے گا کہ گویا وہی ہو گا۔ اگر غور کیا جائے تو حضرت مسیحؑ کی دوبارہ آمد کے قائل ایک طرح کے تناسخ کے قائل ہیں۔ خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت کہ وہ ایک شخص کو اتنی مدت کسی کام کے لیےمحفوظ کر لے۔ کیا وہ اس خاصیت اور قابلیت کا کوئی شخص پیدا نہیں کر سکتا؟یہ کہنا کہ سلف میں سے کوئی اس طرف نہیں گیا ایک بڑا مغالطہ ہے۔ دنیوی قانون میں عادت اللہ اس طرح پر واقع ہوئی کہ تحقیقات و ایجادات تدریجا ًہوتی ہیں۔ لاکھوں فلسفی اور عقلاء گزرے مگر انجن کی اختراع جس کا مقدر تھی اسی نے کی۔ اسی طرح روحانی دنیا میں قرآن کریم خزائن سے بھرا ہے وہ زمانےکی ضرورت کے ماتحت سامنے آتے رہتے ہیں۔ اگر قرآن کریم کے تمام معارف وہی ہیں جو گذشہ علماء نے نکال لیے ہیں تو پھر معاذ اللہ قرآن بے ضرورت ہوا۔ حضرت مولوی صاحبؓ لکھتے ہیں:

’’سوچنا چاہئے کہ جس امر کی ضرورت ہی کسی زمانہ میں واقع نہیں ہوئی، کوئی معاملہ بحث ہی کے نیچے نہیں آیا اس پر رائے زنی کیا ہوتی؟قول فیصل کیا دیا جاتا؟اللہ تعالیٰ نے ابن مریم یا بلفظ دیگر مثیل مسیح کا وجود اس زمانہ کے لئے ضروری اور مقدر کر رکھا تھا اور کسی زمانہ میں اس کا فیصلہ کیونکر ہو سکتا تھا؟‘‘(صفحہ 45)

آخر میں حضرت مولوی صاحبؓ بحوالہ ابن عربی حضرت بایزید بسطامی کے الفاظ میں نصیحت کرتے ہیں کہ جب تم اہل اللہ سے ملو تو ان سےاپنے حق میں دعا کرواؤ کیونکہ وہ مستجاب الدعوات ہوتے ہیں اور جو ان کی ثابت کردہ باتوں کی مخالفت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے نور ایمان چھین لیتا ہے۔

مسدس احقاق حق

یہ مسدس حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کی مرقومہ ہے۔ رسالہ کے صفحہ 49تا68پر شائع شدہ ہے: اس کا بنیادی موضوع وفات مسیحؑ اور صداقت حضرت مسیح موعودؑ ہے۔ منتخب اشعار ذیل میں لکھے جاتے ہیں:

عیسیٰ مسیح رسول کو حق نے اٹھا لیا

دنیا سے ان کا قطع تعلق کرا لیا

دشمن کے ہاتھوں مرنے سے ان کو بچا لیا

عزت کی موت دے کے انہیں خود بلا لیا

پنجہ میں دامنوں کے بھلا یوں پھنسے کوئی

ممکن ہے کب کہ جان سلامت رکھے کوئی

فارس کی اصل سے وہ معلم تب آئے گا

تعلیم دینداری کی وہ ساتھ لائے گا

گر آسمان پر بھی وہ ایمان پائے گا

لوگوں کو اس کا نور وہ لا کر دکھائے گا

اس وقت دور ہوں گی یہودیوں کی خصلتیں

اتریں گی آسمان سے ایمانی رحمتیں

مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا

یہ وہ حصہ ہے جس کا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنےخط مندرجہ بالا میں ذکر فرمایا ہے۔ اس حصے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی دو کتب کے مختصر اقتباس شائع ہوئے ہیں:

1…توضیح مرام روحانی خزائن جلد3صفحہ 51تا57: یہ اقتباس ’’مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا‘‘کے عنوان سے شروع ہوتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:

’’مسلمانوں اور عیسائیوں کاکسی قدر اختلاف کے ساتھ یہ خیال ہے کہ ’’حضرت مسیح بن مریم اسی عنصری وجود سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور پھر وہ کسی زمانہ میں آسمان سے اتریں گے‘‘میں اس خیال کا غلط ہونا اپنے اسی رسالہ میں لکھ چکا ہوں اور نیز یہ بھی بیان کر چکا ہوں کہ اس نزول سے مراد درحقیقت مسیح بن مریم کا نزول نہیں۔ بلکہ استعارہ کے طور پر ایک مثیل مسیح کے آنے کی خبر دی گئی ہے جس کا مصداق حسب اعلام و الہام الٰہی یہی عاجز ہے۔ ‘‘

(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 51)

2…ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحات 169 تا185:اس اقتباس میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ہمارامذہب کا عنوان باندھا ہے۔ فرماتے ہیں:

ہمارےمذہب کاخلاصہ اورلب لباب یہ ہےکہ لاالٰہ الّاللّٰہ محمدرسول اللّٰہ… ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شُعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتااور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتاجو احکا مؔ فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو… ہمار ااس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا…ہمیں جو کچھ ملتاہے ظلّی اور طفیلی طور پر ملتا ہے… یہ عاجز ایک خاص پیشگوئی کے مطابق جو خدائے تعالیٰ کی مقدس کتابوں میں پائی جاتی ہے مسیح موعود کے نام پر آیا ہے۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 169تا180)

یہی وہ عقیدہ و مذہب ہےجس کی طرف حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنے مکتوب مندرجہ بالا میں ذکر فرمایا ہے۔

میر حامد شاہ صاحب کا قصیدہ

اس حصے میں حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ کا 44اشعار پر مشتمل قصیدہ شائع ہوا۔ اس قصیدے کے چند اشعار ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

ہم نشینوں اب بھلا تکرار کیا

حق کے بھیجے سے ہے یہ اصرار کیا

مظہرِِ عیسیٰؑ جہاں میں آگئے

کھل گیا ہے مخزنِ اسرار کیا!

حلیہ ماثور سے آئے ہیں وہ

آنکھیں کھولو دیکھو اخبار کیا؟

دوستو انصاف اس جا شرط ہے

کہہ گئے ہیں احمدِ مختار کیا!

سرخ رنگ اور گندمی رنگت میں فرق

کر گئے ہیں سید ابرار کیا!

بال گھنگھرالے اور لٹکے ہوئے

فرق دونوں میں ہے، اب تکرار کیا؟

7 نئی چھپنے والی کتب کا اشتہار مع افادیت

اس آخری حصے میں نئی شائع ہونے والی مندرجہ ذیل کتب کا ذکر کیا گیا ہے۔ مختصر طور پر کتاب کا موضوع اور افادیت، قیمت و صفحات بھی درج کیے ہیں۔

1…نماز اور اس کی حقیقت

2…ہادئ کامل

3…تفسیر فیروزی

4…فضائل اسلام

5…تین لیکچر

6…تصدیق براہین احمدیہ

7…ارمغان چشتی

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button