یادِ رفتگاں

احمدیت کے ایک بطل جلیل محترم چودھری حمیداللہ صاحب مرحوم (قسط اول)

(‘ابو صبیر‘)

گذشتہ چند سالوں سے خاکسار کو مکرم ومحترم چودھری حمید اللہ صاحب مرحوم کے قریب رہ کر خدمت کرنے کا موقع ملا۔ الحمدللہ کہ ایک ایسے بزرگ کی صحبت نصیب ہوئی جس کی شخصیت کے ڈھلنے، سنورنے اور تراشے جانے میں چار خلفائے کرام کی راہ نمائی اور برکت شامل تھی۔ آپ کوچار خلفاء کی برکتوں اور شفقتوں کو جذب کرنے کی توفیق ملی، یہ ایک ایسا اعزاز تھا جس کا تذکرہ کرتے ہوئے محترم چودھری صاحب خود بھی آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ ان برکتوں اور شفقتوں کا اظہار دفتر میں بھی اور باہر بھی نہ صرف واقعات سنانے کے رنگ میں ہوتا بلکہ عملی رنگ میں بھی ہوتا۔

جہاں محترم چودھری صاحب مرحوم کے ساتھ رہ کر کام کرنے کی ٹریننگ ہوئی وہیں روحانی لحاظ سے بھی آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ آپ کی شخصیت میں پائی جانے والی بزرگی خلفائے کرام کے روحانی فیض کا عکس تھا جو آپ کی ذات میں جھلکتا اور آپ کے وجود سے چھلکتا تھا۔ یہ وہ برکتیں ہیں جو خلافت احمدیہ سے وابستہ ہیں۔ یہ وہ روحانی تپش ہے جس کے بارے میں قرآن کی زبان میں یوں کہیں کہ جو جس قدر

’’تَصْطَلُوْنَ‘‘

کر سکے اسی قدر بلند روحانی مقام پا سکتا ہے۔

دو پہلو جو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے وہ عبادت الٰہی اور خلافت سے وفا اور محبت تھی۔

عبادت الٰہی

ہر نماز سنوار کر ادا کرتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دفتر کے کسی کام کی وجہ سے نماز عجلت میں ادا کی ہو یا جمع کی ہو۔ نمازیں جمع کرنا بالکل بھی پسند نہیں تھا بلکہ سختی سے اس بات پر عملدرآمد کرواتے تھے کہ ہر نماز اپنے وقت پر علیحدہ علیحدہ ادا کی جائے۔ ان چندسالوں میں جو خاکسار کو ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا گنتی کے چند ایسے مواقع ہیں جب نماز جمع کی ہو۔ اور یہ مواقع بھی وہ تھے کہ کسی انتہائی اہم کام یا میٹنگ کے دیر سے ختم ہونے کے بعد یا پھر بارش کی وجہ سے کیونکہ عام طور پر لوگوں میں معمولی عذرات کی بنا پر نماز جمع کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے اس لیے بعض اوقات مسکراتے ہوئے خاکسار کومخاطب کر کے کہتے کہ تم مولوی ہو مولویوں کے پاس تو نمازیں جمع کرنے کے کافی فتوے ہوتے ہیں۔

فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی ادائیگی ہر انسان کا اپنے رب سے ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ کیونکہ محترم چودھری صاحب کے گھر آنا جانا بھی تھا اس لیے خاکسار کا مشاہدہ ہے کہ عام نوافل کے علاوہ نماز اشراق، نماز چاشت اور اسی طرح مغرب و عشاء کے بعد بھی نوافل ادا کرتے تھے۔

خاکسار کو یاد ہے کہ ایک دن ایک صاحب نے چھٹی والے دن صبح دس گیارہ بجے کےقریب محترم چودھری صاحب کو ایک کام کے سلسلہ میں فون کیا تومحترم چودھری صاحب نے فون نہ اٹھایا۔ گارڈ سے رابطہ کیا تو اس نے ان صاحب کو بتایا کہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ گارڈ کی بات سے ان صاحب کی تسلی نہ ہوئی اس پر انہوں نے خاکسار کو فون کیا کہ شاید مجھے معلوم ہو کہ محترم چودھری صاحب کدھر ہیں کیونکہ گارڈ کہہ رہا ہے کہ محترم چودھری صاحب نماز پڑھ رہے ہیں لیکن یہ تو کسی نماز کا وقت نہیں تو غالباً اس کو علم نہیں۔ اس پر خاکسار نے ان صاحب کو بتایا کہ گارڈ نے درست بتایا ہے محترم چودھری صاحب چھٹی والے دن اس وقت عموماًنوافل ادا کرتے ہیں۔

محترم چودھری صاحب کی یہ عبادات اور دعائیں صرف اپنی ذات تک محدود نہیں تھیں بلکہ اپنے ماتحتوں کو بھی اس طرف خصوصی توجہ کرنےکی تلقین کرتے تھے۔ ہر سال کے آغاز پر یکم جنوری کو لازمی پوچھتے کہ نیا سال شروع ہوا ہے رات کو نوافل ادا کیے یا نہیں اور کیا دعا مانگی۔ یہ تربیت کا ایک طریق تھا جو آپ اختیار کرتے تھے۔

خلافت سے وفا اور محبت

عبادات کے بعد جو چیز محترم چودھری صاحب کی ذات میں نمایاں نظر آتی ہے اور جس چیز کا آپ نے سبق دیا وہ خلافت سے کامل وفاداری، اطاعت اور محبت کا تھا۔ خلافت ثانیہ سے خلافت خامسہ تک اپنے واقعات سناتے اور اکثر آبدیدہ ہو جاتے کہ یہ سب خدا کا فضل ہے اور خلافتوں کی شفقت ہے، ایں سعادت بزور بازو نیست۔

ہمیشہ یہی تلقین کرتے کہ خلافت کے ساتھ ایک ذاتی تعلق ہونا چاہیے، خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اور خلیفہ وقت سے ملاقات نہ بھی ہوئی ہو تو پھربھی خطوط کے ذریعے تعلق استوار رکھنا چاہیے اور خلیفۂ وقت سے غائبانہ تعلق ہونا چاہیے۔ اکثر پوچھتے کہ حضور انور کو دعا کے لیے خط لکھتے ہو؟خاکسار اثبات میں جواب دیتا تو اطمینان کا اظہار کرتے اور کہتے جب ملاقات نہ بھی ہو تو بھی انہیں معلوم ہو کہ تم ادھر ہوتے ہو (یعنی کس جگہ خدمت کی توفیق پارہے ہو)اور تم کون ہو۔

محترم چودھری صاحب خود بھی ہر معاملے میں راہ نمائی کے لیے حضور انور کی خدمت میں لکھتے اور حضور انور کا جو بھی ارشاد موصول ہوتا اس پر نہ صرف خود فوری تعمیل کرتے بلکہ اگر کسی اور شعبہ سے متعلقہ ہوتا تو فوری تعمیل کرواتے۔ ایسے کئی مواقع آئے جب دفتری اوقات ختم ہونے کے بعد حضور انور کا ارشاد موصول ہوا یا اگلے دن چھٹی تھی لیکن محترم چودھری صاحب نے ہمیشہ حضور انور کے ارشادات مبارکہ کی فوری تعمیل کروائی۔ آپ کی طبیعت یہ پسند ہی نہیں کرتی تھی کہ خلیفہ وقت کے حکم کی تعمیل میں تاخیر ہو۔ خلیفہ وقت کے ارشادات کی فوری تعمیل آپ کی ذات کا خاصہ تھا۔

جیسا کہ حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍فروری 2021ء میں محترم چودھری صاحب کے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرتے ہوئے جامعہ جونیئر و سینئر سیکشن کے انضمام کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ خیال تھا کہ شاید چند دن لگیں گے لیکن فوراً عملدرآمد کرتے ہوئے تعمیل کی رپورٹ چوبیس گھنٹے میں ارسال کی۔

چنانچہ چند سال ہوئے حضور انورنے ازراہ شفقت مکرم قریشی صاحب کا تبادلہ صدر انجمن احمدیہ میں فرمایا اور ان کی جگہ اس وقت مکرم اسامہ صاحب کو تحریک جدید کے ایک صیغہ کا افسر مقرر فرمایا۔ حضور انور کا یہ خط ہفتہ والے دن مغرب کے وقت بذریعہ ای میل موصول ہوا۔ آخری ہفتہ تھا، چھٹی کا دن تھا، شام کو دفتر آئے تو پوچھنے لگے کہ کوئی ای میل ہے تو لے آؤ۔ خاکسار نے یہ خط پرنٹ کیا اور پیش کیا تو فرمانے لگے کہ فوراً دونوں احباب سے رابطہ کرو اور ابھی دفتر بلا لو۔ چنانچہ خاکسار نے دونوں صاحبان سے رابطہ کیا، اور دفتر بلایا۔ مکرم اسامہ صاحب غالباً لاہور سے واپس آ رہے تھے، وہ سیدھا دفتر آئے۔ دفتر آنے پر محترم چودھری صاحب نے مکرم قریشی صاحب کو فوری چارج ہینڈ اوور کرنے اور اسامہ صاحب کو چارج حاصل کرنے کی ہدایت کی۔ چنانچہ اس تمام process کی خود دفتر میں رہ کر نگرانی کی جس پر چند گھنٹے صرف ہوئے۔ رات دس بجے کے قریب جب چارج ہینڈ اوور کرنے کا معاملہ مکمل ہوا تو فرمانے لگے کہ اب حضور انور کی خدمت میں ارشاد کی تعمیل کا خط لکھو۔ چنانچہ وہ خط دستخط کرنے کے بعد گھر تشریف لے کر گئے۔

اسی طرح عملی اور فوری اطاعت کا ایک نمونہ تب سامنے آیا جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شعبہ متخصصینکو جامعہ احمدیہ منتقل کرنے کا ارشاد فرمایا۔ حضور انور کا ارشاد ملتے ہی آپ نے نائب نگران صاحب متخصصینکو اپنے پاس بلایا اور بتایا کہ حضور انور کا یہ ارشاد موصول ہوا ہے آپ، تمام متخصصین کو لے کر پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ کو جاکر رپورٹ کریں اور شام تک شعبہ کی تمام inventory کی فہرست تیار کر کے منتقل کروائیں۔ چنانچہ یہ تمام کام شام تک مکمل کروایا اور حضور انور کی خدمت میں تعمیلِ ارشاد کی رپورٹ ارسال کی۔

گذشتہ سال حضور انور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں پاکستان اور دنیا کے حالات کے پیش نظر دعا، استغفار اور صدقات کی طرف توجہ دلائی۔ خاکسار نے حضورِ انور کے خطبہ کے کچھ دیر بعد فون کیا کہ حضور کے ارشادکی تعمیل میں تحریکِ جدید کی طرف سے بکرے صدقہ کروا دیے جائیں تو فرمانے لگے کہ تمہارے فون سے پہلے ہی دارالضیافت کہہ چکا ہوں بس اب تم اپ ڈیٹ لے لو کہ کب تک ہو جائیں گے۔

ہر ہفتہ حضور انور کے خطبہ جمعہ کا انگریزی خلاصہ تیار کر کے ممالک کو سرکولیٹ کیا جاتاہے۔ خلاصہ تیار ہونے کے بعد انتہائی احتیاط اور باریک بینی کے ساتھ خلاصے میں سےخود گزرتے اور فرماتے کہ خلیفة المسیح کے الفاظ ہیں دھیان اور احتیاط کے ساتھ خود بھی چیک کیا کرو، نہ ہی ترجمہ غلط ہونا چاہیے اور نہ ہی کوئی مفہوم غلط ہو۔ ایک دفعہ دیگر مصروفیت کی وجہ سے خطبہ جمعہ کا خلاصہ دیر سے چیک کروایا تو پیش کرنے پر پوچھنے لگے کہ دیر کیوں ہو گئی ہے؟ عرض کیا آپ باقی ڈاک دیکھ رہے تھے اس لیے یہ اب پیش کیاہے۔ فرمانے لگے کہ آئندہ کے لیے یاد رکھو کہ جب خلاصہ تیار ہو جائے تو مجھے بتا دیا کرو اور خواہ کوئی ڈاک ہو سب چھوڑ کر پہلے خلاصہ خطبہ جمعہ چیک کریں گے باقی سب کام بعد میں۔

اسی طرح حضور انورنے 2018ء میں ایک مربی سلسلہ کی شادی کے موقع پر محترم چودھری صاحب کو اپنا نمائندہ مقرر فرمایا۔ شادی کی تقریب کراچی میں منعقد ہونا تھی۔ اس وقت آپ کی عمر اور صحت ایسی تھی کہ آپ سفر سے پرہیز کرتے تھے۔ تاہم حضور انور کا ارشاد موصول ہوا تو بغیر کسی عذر کے کراچی کا سفراختیار کیا۔

اسی طرح ابھی ماہ جنوری 2021ء میں بھی حضور انور نے آپ کو ایک شادی پر اپنا نمائندہ مقرر فرمایا۔ اس شادی کی تقریب لاہور میں منعقد ہونا تھی اور آپ کی طبیعت میں کافی ضعف آگیا ہوا تھا لیکن جیسے ہی حضور انور کا ارشاد موصول ہوا بھرپور جذبہ سے فرمانے لگے حضور انورکا ارشاد ہے جانا تو ہے اور مجھے فرمایا کہ تم امیر صاحب لاہور سے رابطہ کر کے سب انتظامات کرو۔

اس طرح کے کئی واقعات ہیں کہ حضور انور کے ہر ارشاد پر مکمل دلجمعی کے ساتھ فوری اطاعت کرتے اور عمل پیرا ہوتے تھے۔ ایک لمحے میں حضور انور کا ارشاد موصول ہوتااور دوسرے لمحے اس پر عملدرآمد بھی شروع ہوچکا ہوتا۔ اور یوں آپ نے اپنے عملی نمونہ سے ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح کی کامل وحقیقی اطاعت کا درس دیا۔

خلیفہ وقت کی خدمت میں لکھتے وقت انتہائی احتیاط اور دعا سے کام لیتے۔ اس احتیاط کی ایک مثال یہ ہے کہ ابھی چند ماہ قبل ایک خط حضور انور کی خدمت میں بھجوایا جو تقریباً نو دس ماہ آپ کے پاس ٹیبل پر پڑا رہا اور اس عرصے میں سوچ بچار کے ساتھ دعا جاری رہی۔ اب جب چند ماہ قبل وہ خط حضور انور کی خدمت میں بھیجا اور حضور انور نے ازراہ شفقت سفارشات منظور بھی فرمائیں توایک دن شام کے وقت لوکل سفر کے دوران خاکسار کو مسکرا کر مخاطب کر کے کہنے لگے تمہاری پریشانی دور ہو گئی ہے ناں، خط چلا گیا ہے۔ ساتھ ہی کہنے لگے ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور وہ اسی وقت کرنا چاہیےاور خاص طور پر خلیفہ وقت کی خدمت میں تو انتہائی احتیاط اور دعا کے ساتھ کوئی بھی چیز پیش کرنی چاہیے کیونکہ خلیفہ وقت نے اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو تمہاری رپورٹ اور خط پر کرنا ہے۔ اس لیے کبھی بھی عجلت نہیں کرنی چاہیے۔

خلافت کے دربار کے احترام کا جہاں ایک یہ رنگ تھا وہاں ایک مستقل رنگ یہ بھی تھا جس کی مستقل تلقین کی ہوئی تھی کہ حضور انور کی خدمت میں ارسال کرنے کے لیے جو بھی خط ڈرافٹ کرو وہ مختصر او ر جامع ہونا چاہیے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بہت کم ہوتا کہ خط دوسرے صفحہ پر جاتا۔ فرماتے کہ جو معلومات ہے وہ precisely اور اتنی واضح لکھو کہ خلیفہ وقت ایک نظر میں سب معاملہ سمجھ جائیں اور انہیں دوسرا صفحہ پلٹنے کی بھی تکلیف نہ کرنی پڑے۔

ان اصولوں پر ڈرافٹنگ ہوتی۔ بعض دفعہ خط تیار کرکے لے جاتا اور دوسرے صفحہ پر گیا ہوتا تو پڑھ کر کہتے اچھا ٹھیک ہے چلو اب اس کو ایک صفحے پر لے کر آؤ۔ خلافت کے مقام اورمرتبے کا اس قدر احساس تھا۔ اوراس احساس کو صرف اپنے تک ہی محدودنہیں رکھا بلکہ ساتھ کام کرنے والوں کو بھی سکھاتےتھے۔

جماعتی اموال کی حفاظت اور درد

جماعتی اموال کی مکمل حفاظت کرتے اور بار بار نصیحت کرتے کہ جماعت کا ایک روپیہ بھی کبھی غلط خرچ نہیں ہونا چاہیے اور ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔ مختلف شعبہ جات کے بلز اور چیک دستخط ہونے کے لیے آتے۔ ایک ایک اندراج اور رقم خود چیک کرتے اور پھر دستخط کرتے۔ خاکسار نے خود بھی اپنے دفتر کی ڈاک چیک کروانی ہوتی تھی، سب سے زیادہ مشکل حصہ بلز چیک کروانے کا محسوس ہوتا تھاکیونکہ سب سے زیادہ scrutiny ڈاک کے اسی حصےکی ہوتی تھی۔

بچت کے لیے تاکید کی ہوئی تھی کہ دفتر کی main چیزوں کی خریداری خود کیا کرو۔ اور ہر دفعہ لاہور یا دیگر بڑے شہروں میں خریداری کے لیےجاتے ہوئے نصیحت کرتے کہ پہلے دکانیں گھوم کر ریٹ اور چیز کا جائزہ لینا اور پھر چیز خریدنے کا فیصلہ کرنا۔ اور یہ بھی ہدایت کرتے کہ چیز کےsource تک جاؤ، یعنی کونسی چیز کہاں سے بن کر آ رہی ہے اس کا پتہ کروایا جائے تاکہ کم سے کم جماعتی مال خرچ ہو اور اچھی سے اچھی چیز میسر آ سکے۔

اسی عادت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جماعتی اموال میں سے ایک روپیہ بھی کبھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتے تھے نہ ایسا کوئی حق سمجھتے تھے۔ مثلاً اپنے کاغذات لگانے کے لیے فائل کی ضرورت پڑ جاتی تھی تو دفتر کی فائل کبھی استعمال نہیں کی بلکہ اپنے ذاتی استعمال کے لیے ذاتی خرچ سےعلیحدہ فائلز منگوا کر رکھی ہوتی تھیں جنہیں ذاتی ضرورت کے لیے استعمال کرتے۔

حضور انورکی ہدایت پر بیرونی جامعات کے شاہدین ربوہ تشریف لاتے ہیں تو تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرتے ہیں۔ کلاسز اور قیام و طعام کا انتظام گیسٹ ہاؤسز تحریک جدید میں ہی ہوتا ہے۔ چند سال ہوئے کہ ایک گروپ آیا ہوا تھا۔ ان کے لیے جمعہ والے دن صبح ناشتہ میں حلوہ پوری پیش کرنے کا پروگرام طے پایا۔ محترم چودھری صاحب سے کہا کہ آپ کو بھی صبح ناشتہ بھجوا دیں گے فرمانے لگے نمبر ایک تو بھجوانانہیں پتہ نہیں اہلیہ صاحبہ کھانا پسند کریں یا نہیں دوسرا یہ کہ اگر بھجواؤ گے تو قیمتاً بھجوانا فری بالکل بھی نہیں۔ اور پھر یوں ہی ہوا کہ ناشتہ ان کے گھر بھجوایا گیا تو اگلے دن صبح آتے ہی سب سے پہلے رقم خزانہ میں جمع کروائی۔

جماعتی اموال کے بارے میں احتیاط کی ایک اَور مثال یہ ہے کہ آپ کے گھر میں جنریٹر نہیں تھا اس لیے بعض اوقات بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہونے پر دفتر کے مین جنریٹر سے بجلی استعمال ہوتی تھی، یہ بھی کبھی فری میں استعمال نہیں کی بلکہ اس کا بھی حساب رکھا ہوا تھا اور ہر ماہ کی یکم تاریخ کو خزانہ میں رقم جمع کرواتے تھے۔

ہر کسی کے ساتھ حساب کھرا رکھتے۔ دفتر میں اپنے ٹیبل پر ایک چھوٹا سا غلہ رکھا ہوا تھا جس میں سکے رکھتے تھے۔ ہم نے اگر فوراً کوئی چیز خرید کر لادی تو ایک روپیہ تک واپس کرتے، پاکستان کی کرنسی کی جو حالت ہے اس میں سکوں کی تو کوئی ویلیو نہیں لیکن محترم چودھری صاحب کبھی بھی کسی کےایک روپے کے بھی مقروض نہیں رہتے تھے۔ کبھی محترم چودھری صاحب سے عرض کرنی کہ چھوڑیں اتنے پیسوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو مسکرا کر جواب دیتے کہ نہیں بھائی حساب صاف رکھتے ہیں کیا معلوم قیامت والےدن کوئی اپنا حساب لے کر سامنے کھڑا ہو جائے۔

انتھک محنت، حسن انتظام اور نگرانی

ہر معاملے، ہر کام کی نگرانی خود کرتے تھے اور نگرانی بھی صرف دفتر میں بیٹھ کر نہیں بلکہ موقع پر جا کر خود دیکھ کر کرتے۔ عمر کے آخری حصے میں جب لوکل سفر کرنا بھی مشکل تھا تب بھی تحریک جدید اور دفتر جلسہ سالانہ کی تمام تعمیرات کی سائٹس خود وزٹ کرتے اور اگر کوئی ہدایت ہوتی تو وہ موقع پر دیتے۔

کاموں کو فوری اور بروقت بجا لانے کی عادت تھی لیکن کبھی بھی جلد بازی نہیں کرتے تھے۔ بسا اوقات کوئی خط حضور انور کی خدمت میں بھجوانا ہوتا تو تیار کروا کر اپنے پاس ٹیبل پر رکھ لیتے تھے اور کہتے کہ اب اس کے بارے میں مزید سوچوں گا، دعا کروں گا پھر دستخط کر کے تمہیں دوں گا۔ خلیفہ وقت کی خدمت میں لکھتے وقت جس احتیاط اور دعا سے کام لیتے وہ خاکسار اوپر بیان کر آیا ہے۔

خدمت دین کا جذبہ بھی انتہاکو پہنچا ہوا تھا۔ اسی جذبے کے ماتحت شام کے وقت بھی ڈاک دیکھتے تھے۔ پہلے تو باقاعدہ شام کے وقت بھی دفتر آتے تھے تاہم کچھ عرصے سے شام کے وقت ڈاک گھر لے آنے کی ہدایت کی ہوئی تھی۔

ہر حالت میں چاہے سفر میں ہوں یا بیمار ہی کیوں نہ ہوں آپ کو دفتر کے کام کی فکر رہتی اور اس کی بجا آوری یقینی بناتے۔ اس کی ایک مثال دسمبر 2016ء میں دفاتر تحریک جدید پر ہونے والے ریڈکی ہے۔ تقریباً12بجے دوپہر کے وقت یہ ریڈ ہوئی اور ایک ہنگامی صورت حال بن گئی۔ مختلف دفاتر سے رابطہ اورسب سے بڑھ کر حضور انور کی خدمت میں تفصیلی رپورٹ بھجوانے کے لیے تیار کی جانے لگی۔ ان سب کاموں میں شام کا وقت ہو گیا اور جب حضور انور کی خدمت میں رپورٹ چلی گئی تو فرمانے لگے کہ معمول کی ڈاک لے آؤ۔ گذشتہ چند گھنٹوں میں جو صورت حال تھی دفتر میں کسی کا بھی دھیان معمول کی ڈاک کی طرف نہیں گیا تھا۔ اس پر عرض کیا کہ اب ڈاک فائل میں لگائی جا رہی ہے تو فرمانے لگے کہ یہ ہنگامی کام تو ہوتے رہتے ہیں اور کسی وقت بھی آ سکتے ہیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم معمول کے کام بھول جائیں اور وہ ہونے رہ جائیں۔ چنانچہ ڈاک پیش ہوئی اور چیک کرنے کے بعدہی گھر تشریف لے کر گئے۔

اسی طرح کا ایک واقعہ جلسہ سالانہ یوکے 2016ء کا ہے۔ یوکے کا یہ آخری جلسہ تھا جس پرآپ تشریف لے گئے۔ غالباً جمعہ کے روز آپ کی واپسی ہوئی۔ اگلے روز آخری ہفتہ کا دن تھا اور آخری ہفتہ کے دن جماعتی دفاتر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ سفر کی تھکان بھی تھی لیکن اس سب کے باوجود صبح دفتر تشریف لے آئے اور نہ صرف معمول کی ڈاک ملاحظہ کی بلکہ حضور انور سے جو منظوریاں حاصل کی تھیں ان کے بارے میں پہلے بریف کیا اور پھر متعلقہ شعبہ جات کوکارروائی کرنے کے حوالے سے خطوط لکھوائے۔ یہ سب کام کرنے کے بعد ظہر کی نماز ادا کرکے گھر گئے۔

ہر کام کو انتہائی باریک بینی اور احتیاط کے ساتھ کرنے کی عادت تھی خواہ وہ کام پہلے کتنی بار ہی کیوں نہ کیا ہو۔ دفتر کے کاموں میں کئی خطوط ایسے ہوتے تھے جن کی مختلف اوقات میں دوبارہ ضرورت پڑتی یا پھر کورنگ (covering)لیٹر ہوتے اور ان پر صرف تاریخ یا سنہ یا شاید کوئی ایک لفظ تبدیل ہونا ہوتا لیکن پھر بھی ہر بار خط کے مندرجات مکمل طور پر پڑھتے اور پڑھے بغیر کبھی بھی کسی چیز پر دستخط نہ کرتےتھے۔ جیسا کہ خاکسار پہلے بھی ذکر کر آیا ہے کہ جو چیک اور بلز بھی آپ کے پاس آتے ان کے تمام مندرجات کی پڑتال خود بھی کرتے اور حساب اور رقم وغیرہ درست ہونے کے بعد ہی چیک یا بل پر دستخط کرتے۔ اگر کسی دفتر کےبل کی کسی رقم پر تسلی نہیں ہوتی خواہ اس چیزکی قیمت ایک دو روپے ہی زائد لگ رہی ہوتی تو اس بل یا چیک پرتب تک دستخط نہ کرتے جب تک متعلقہ دفتر سے وضاحت لے کر تسلی نہ کرلیتے۔ اکثر نصیحت کرتے تھے کہ خصوصاً جماعتی مالی معاملات میں کبھی بھی آنکھیں بند کر کے کوئی فیصلہ یا دستخط نہ کرو بلکہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ خود پڑتال کرو۔ اس موضوع پر یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ جہاں دیگر تمام افسران و بزرگان کی احتیاط کی حدیں ختم ہوتیں وہاں سے محترم چودھری صاحب کی شروع ہوتیں۔

باریک بینی اور احتیاط کے ساتھ کام کرنے کی عادت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران ایک نظارت کی طرف سے ہر سال روحانی خزائن کی ایک جلد مطالعہ کے لیے مقرر کی جاتی تھی اور دوران سال اس کا پرچہ بھی ہوتا تھا۔ کیونکہ نظام جماعت کی طرف سے یہ initiative لیا گیا تھا اس لیے اس کی پابندی میں پہلے حرف بحرف پوری جلد کا مطالعہ کرتے (گو کہ زندگی میں پہلے بھی مطالعہ کر چکے تھے) اس کے بعد ہر سوال کا جواب خود کتاب میں سے تلاش کر کے لکھتے اور ہر بار پرچہ کے لیے یہی طریق اختیار کرتے۔

مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑ کی نصیحت

مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی بیان کرتا چلوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب اور آپؑ کے کلام کے ساتھ بے پناہ پیار اور لگاؤ تھا۔ لوگوں کو مختلف مواقع پر اور پروگرامز میں اگر ایک تلقین ہے جو آپ لازمی کرتے تو وہ مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑ ہے۔ اس کی ترغیب دلانے کے لیے ہی آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی 34 ایسی کتب کی ایک فہرست بنائی ہوئی تھی جن کے صفحات 100 یا اس سے کم ہیں۔ اور یہ فہرست تقسیم کرواتے کہ کم صفحات والی کتب سے بھی اگر انسان مطالعہ شروع کرے تو 34 ایسی کتب ہیں جن کا مطالعہ قلیل عرصہ میں مکمل کیا جا سکتا ہے اور پھر ضخیم کتب کا مطالعہ شروع کیا جا سکتا ہے۔

دفتر کے کاموں کے ساتھ بھی بار بار مطالعہ کی تلقین کرتے اور فرماتے کہ دفتر کے کاموں میں پڑ کر مطالعہ نہ چھوڑ دینا، ہر وقت حضرت مسیح موعودؑ کی کوئی نہ کوئی کتاب تمہارے زیر مطالعہ رہنی چاہیے۔ بعض دفعہ امتحان بھی لے لیتے اور پوچھتے کہ کونسی کتاب پڑھ رہے ہو اور کل کتنے صفحات پڑھ لیے ہیں۔ بتانے پر پوچھتے اچھا بتاؤ ان صفحات میں کیا پڑھا۔ یہ سب طریق تھے نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھانے کے بلکہ اس طرف توجہ دلانے کے بھی کہ پڑھنے کے بعد مضمون کا ادراک بھی ہونا چاہیے کہ حضورؑ نے کیا فرمایا ہے۔

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button