الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

تعلیم الاسلام کالج کے چند اساتذہ اور کارکنان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 و 17؍جنوری 2013ء میں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کا دو اقساط پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں تعلیم الاسلام کالج کے چند مرحوم اساتذہ اور کارکنان کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔ گزشتہ کالم میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کی حسین یادوں کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ چند دیگر احباب کا ذکرخیر درج ذیل ہے:

٭… حضرت مرزا ناصر احمدصاحبؒ کے بعد ٹی آئی کالج ربوہ کے دوسرے باقاعدہ پرنسپل حضرت قاضی محمد اسلم صاحب تھے۔ میاں صاحبؒ کے استاد بھی تھے اور جانشین بھی۔ سبحان اللہ کیا بے نفس اور عالم وجود تھے۔ پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی طرح منکسر، مطمئن اور سراپا عطا۔ بر صغیر ہند و پاکستان کے نامور ماہر تعلیم، فلسفی اورماہرِ نفسیات تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور کیمبرج یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل اور پنجاب کے ڈی پی آئی بھی رہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں فلسفہ و نفسیات کے پہلے صدر شعبہ مقرر ہوئے۔ وہاں سے ریٹائر ہوئے تو کراچی یونیورسٹی نے ان کی خدمات طلب کرلیں۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو اپنے امام کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے کمزور صحت کے باوجود تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے پرنسپل بن کر آگئے۔ آج اس نابغۂ روزگار شخص کا نام زبان پر آیا ہے تو ان کے علم اور ان کے حلم کی خوشبو چاروں طرف محسوس ہو رہی ہے۔

قاضی صاحب نے سرکاری ملازمت میں رہنے کے باوجود جماعت احمدیہ سے نہایت مضبوط اور فعّال تعلق قائم رکھا۔ قادیان کے ہرجلسہ سالانہ پر ان کی تقریر ہوتی اور موضوع زیادہ تر ہستیٔ باری تعالیٰ ہوتا تھا۔ ہر سال ایک نئے انداز سے اس موضوع پر روشنی ڈالتے۔ تعلیم الاسلام کالج کے سابق پرنسپل قبلہ چودھری محمد علی صاحب آپ ہی کے فیضانِ صحبت سے احمدی ہوئے تھے۔ اُن سے کسی نے پوچھا تھا آپ احمدی کیوں ہوئے تو اُن کا کہنا تھا قاضی محمد اسلم جیسا پڑھا لکھا اور روشن خیال آدمی کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ ہماری کم نظری ہے کہ ہمیں وہ باتیں نظر نہیں آتیں جو اِن کو نظر آگئی ہیں۔ یعنی قاضی صاحب کا وجود باجود ہی احمدیت کی صداقت کی ایک دلیل تھا۔ مگر اتنی علمی وجاہت کے باوجود اس شخص میں اتنی خاکساری تھی کہ دیکھنے میں وہ شخص ہر کہہ و مہ سے اس کی سطح پر اتر کر بات کرتا تھااور اس کی بات دلوں میں اترتی تھی۔

نامور ادیب جناب آفتاب احمد نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ایک بار برٹرنڈرسل کی کسی کتاب پر پاکستان ٹائمز میں ایک تبصرہ چھپا جس کے نیچے مبصّر کا نام صرف ایم اے لکھا ہوا تھا۔ پطرس بخاری اس وقت گورنمنٹ لاہور کے پرنسپل تھے۔ انہوں نے قاضی محمد اسلم صاحب سے عندالملاقات کہا کہ رسل کی کتاب پر آپ کا تبصرہ بہت عمدہ ہے۔ آپ نے کہا وہ تبصرہ تو میرے شاگردڈاکٹر محمد اجمل کا لکھا ہوا ہے۔ پطرس کہنے لگے اچھا، مَیں تو سمجھتا تھا کہ ہمارے ہاں آفتاب فلسفہ صرف آپ ہی ہیں۔ آپ نے فرمایا: جی آپ درست فرماتے ہیں مَیں ڈوبتا ہوا سورج ہوں اور اجمل چڑھتا ہوا سورج ہے۔ یہ استادانہ حوصلہ کسی کسی استاد میں ہوتا ہے کہ اپنے شاگردوں کو ایسا خراج تحسین ادا کرسکے۔

میَں کالج میں محترم قاضی صاحب کے ماتحت رہا ہوں۔ آپ اپنے رفقاء کو تعلیمی قابلیت بڑھانے کے لیے ترغیب دیتے رہتے تھے۔ آپ کی چٹیں سٹاف میں بہت مقبول ومرغوب تھیں۔ جب بھی کسی مسئلہ سے دو چار ہوتے فوراً متعلقہ مضمون کے استاد کو ایک چٹ بھیجتے کہ فلاں موضوع پر آپ کو ریسرچ کرنی چاہیے۔

قبلہ قاضی صاحب اپنے شاگردوں کی نظر میں کتنے مقبول و محترم تھے اس کا ایک نظارہ ہم نے اُس وقت دیکھا جب سرگودھا کے کمشنر شیخ محمد حسین بزم اردو کے افتتاح کے لیے کالج میں آئے۔ وہ گورنمنٹ کالج میں قاضی صاحب کے شاگرد رہے تھے۔ کالج میں داخل ہوتے ہی اپنی گاڑی سے اُتر گئے کہ مَیں اپنے استاد کے سامنے گاڑی میں بیٹھ کر نہیں جاسکتا۔ خاصی دُور تک پیدل چل کرگئے اور قاضی صاحب کے قدموں میں جھک کر انہیں سلام کیا اور ان سے تھپکی لی۔ ایسی محبتیں ہر استاد کو نصیب نہیں ہوتیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا صاحب بھی جو ہمارے تمام پرنسپلوں کے ساتھ بے تکلّف تھے، لیکن قاضی صاحب کے سامنے لیے دیے رہتے تھے کہ میرے استاد ہیں۔ وزیرکوٹ میں ان کو کھانے پر بلایا تو اتنا اہتمام کیا کہ باید و شاید۔ سرگودھا کے تمام امرا ءاور علما کو بھی اپنے استاد کی دعوت میں مدعو کیا۔

قبلہ قاضی صاحب کا اسوہ یہ تھا کہ اپنے شاگردوں اور دوستوں کی جائز مدد اور سفارش کے لیے ہر دَم تیار رہتے۔ لوگ اپنے کام کے سلسلہ میں لاہور آکر آپ کو تکلیف دیتے تو جائز کام کے لیے سفارشی خط ضرور دیتے تھے بلکہ جانے کا موقع ہوتا تو خود جا کر کام کرواتے تھے۔ اکثر سرکاری افسر، کیا وزیر کیا سیکرٹری، آپ کے شاگرد تھے۔

قاضی صاحب کی زندگی نہایت سادہ تھی جس میں کسی قسم کا کوئی طمطراق نہیں تھا۔ لباس بھی سادہ مگر صاف ستھرا۔ ہم نے اکثر کیمبرج کا بلیزر (Blazer) پہنے دیکھا۔ فرماتے تھے اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جوانی یاد آتی رہتی ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہر رنگ کی پتلون کے ساتھ پہنا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس سوٹ بھی ایک آدھ ہی تھا اور شیروانی بھی ایک ہی تھی۔ البتہ ٹوپی ضرور اوڑھتے تھے۔ ہم نے ان کے سیکرٹری ایجوکیشن ہونے کے زمانے کی ایک تصویر دیکھی تھی۔ وزیر کے ساتھ کیبنٹ میٹنگ میں بیٹھے تھے اور ایک سادہ سی بشرٹ زیب تن تھی۔ باقی افسران قسما قسم کے لباسوں میں تھے۔ آپ نہایت اطمینان سے اپنے سادہ لباس پر مطمئن بیٹھے تھے۔

کھانے پینے کی عادات بھی سادہ تھیں۔ ربوہ میں تو ہاسٹل میں پکے ہوئے کھانے پر اکتفا کرتے تھے۔ گھر میں بھی کھانا سادہ سالن اور روٹی ہوتا۔ دعوتوں میں اوّل تو جاتے نہیں تھے مگر جانا ناگزیر ہوتا توصرف ایک کھانے میں ہاتھ ڈالتے۔ ڈاکٹر کی ہدایات پر پورا عمل کرتے اور دوا لینے میں خاص احتیاط کرتے۔ آخری عمر میں پلنگ پر لیٹے پڑھتے یا لکھتے رہتے تھے۔ اِن کے یونیورسٹی کے زمانے کا ایک سٹینو اِن کا مرید تھا۔ وہ ان سے ڈکٹیشن لینے آجاتا تھا اور ان کے مضامین ٹائپ کردیتا تھا۔ اخباروں میں چھپنے والے مسائلِ حاضرہ پر ان کی گہری نظر تھی۔ کوئی بات ان کے مسلک کے خلاف ہوتی تو فوراً جواب دیتے یا کسی رفیق کار کو جواب دینے کو کہتے۔ حضرت اقدسؑ کی بہت سی کتابوں کا ترجمہ انگریزی میں کرنے کی توفیق پائی اور دیگر علما کے تراجم پر نظرثانی کا موقع انہیں ملا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ ان کے شاگرد تھے اور ہمیشہ اسی احترام سے پیش آتے جو کسی استاد کا حق ہوتا ہے مگر ہم نے قاضی صاحب کو حضرت صاحب کا پورااحترام ملحوظ رکھتے پایا۔ سر جھکا کر نہایت ادب سے حضوؒ ر کے ارشادات سنتے اور ہمہ تن تعمیل پر مستعد ہوجاتے۔ ایسے نابغۂ روزگار کبھی کبھی ہی پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا تو ان دنوں میرے پاؤں کی ہڈی کا فریکچر ہوگیا تھا۔ مَیں بیساکھی کے سہارے ان کے جنازے میں شامل ہوا۔ ان کے صاحبزادے ایمبیسیڈر منصور کہنے لگے آپ نے بہت تکلیف کی۔ میں نے کہا قاضی صاحب سے محبت کا تعلق ایسا ہے کہ اگر خدانخواستہ سٹریچر پر بھی آنا پڑتاتو مَیں حاضر ہوتا۔

٭… جب ہم کالج میں داخل ہوئے توکالج کے وائس پرنسپل قبلہ پروفیسر اخوند عبد القادر صاحب تھے۔ انگریزی کے آدمی تھے انگریزوں کی طرح انگریزی بولتے تھے مگر سر پر طرہ والی پگڑی پہنتے تھے اور اچکن یا شیروانی میں ملبوس رہتے۔ بہت رعب داب والی شخصیت تھی۔ ہم نے تو ان سے پڑھا نہیں البتہ ایک دوبار ان کی انگریزی سننے کے شوق میں ان کی کلاس میں جا بیٹھے۔ دیکھا کہ ان کی کلاس میں ایک اجنبی شخص موجود ہے تو پوچھا آپ کیسے آئے ہیں ؟ ہم نے کہا آپ کی انگریزی کی دھوم سنی ہے اسے سننے کے لالچ میں آگئے ہیں۔ فرمایا اچھا بیٹھو بیٹھو۔ ہم بیٹھے ان کو انگریزی بولتے دیکھتے رہے۔ طالب علموں پر ان کا بہت رُعب تھا کوئی ان کے سامنے دَم نہیں مارتا تھا۔ لچھے دار انگریزی۔ مشکل موٹے موٹے الفاظ۔ ریٹائر ہونے کے بعد کالج میں کبھی نہیں آئے نہ ہی یہ پتہ چلا کہ کہاں فوت ہوئے اور کہاں دفن ہیں۔

٭… تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہوئے تو سب سے پہلا تعلق قبلہ پروفیسر محبوب عالم خالد صاحب سے استوار ہوا۔ پرنسپل صاحب نے ہمارے داخلہ فارم پر اپنے دستخط ثبت فرما کر ارشاد فرمایا خالد صاحب کے پاس چلے جائیں۔ خالد صاحب تو ہماری ہی گلی کے مکین تھے اور پرنسپل صاحب کی طرح ہمارے ابّا کے دوست اور ہمجولی بھی تھے۔ خالد صاحب نے بھی داخلے کے فارم پر ایک نشان لگاکر فرمایا جنید صاحب کے پاس لے جائیں۔ جنید صاحب کیا باغ وبہار شخصیت تھے، منہ میں پان کی پیک بھری رہتی تھی۔ ہمارا فارم دیکھا اوررسالہ ’’المنار‘‘کی فائل تھمادی۔ پھر ہمیں پتہ بھی نہ چلا اور فیس بھی جمع ہو گئی۔ رول نمبر بھی مل گیا۔

قبلہ خالد صاحب سے ہماری روستائی المنار کے سلسلہ میں تھی، کچھ اس لیے بھی کہ ہم نے اردو کا مضمون رکھا تھا۔ پرنسپل صاحب ہم پر مہربان تھے اور اپنے عمو صاحب (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ، جن کے دفتر میں مَیں کارکن تھا) کی ملاقات کے لیے جب لاہور سے ربوہ تشریف لاتے تو ہر بار یہی فرماتے تھے آپ کی جگہ یہ نہیں، کالج ہے۔ اب ہم تھے اور کالج تھا۔ اسی کالج نے ہمیں علم کا نور دیا اور پھر اسی کالج سے وابستگی نے ہمیں مٹی سے اٹھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔

قبلہ شیخ محبوب عالم خالد کے انتقال کی خبر ملی تو یوں محسوس ہوا کہ ہم ننگی دھوپ میں کھڑے رہ گئے ہیں۔ استاد اپنے شاگردوں کے لیے گھنے سایہ کی مانند ہوتا ہے جو انہیں لاعلمی کی کڑی دھوپ سے امان میں لاتا ہے۔ خالد صاحب کا اُٹھ جانا ایک فرد کا اٹھ جانا نہیں اخلاص و وفا اور جاں نثاری کے ایک پورے عہد کا اٹھ جانا ہے۔ سلسلہ کے پرانے جاں نثاروں میں وہ اپنی سادگی، محبت، محنت اور ہمہ وقت خدمت گزاری کی وجہ سے ممتاز تھے۔ اُن جیسے اَور بھی بہت ہوں گے مگر بقول حالی ’عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تُو مگر کہاں !‘

ہمارا اُن سے ہمسائیگی کا تعلق بھی تھا۔ وہ اس تعلق کا لحاظ بھی رکھتے تھے۔ کہیں راستے میں ہمیں ننگے سر پھرتا دیکھ لیتے تو ٹوکتے اور کہتے میاں میرے ہمسائے میں رہتے ہو اپنے سرکا خیال رکھا کرو۔ ایک بار ہم نے شوخی میں کہہ دیاکہ سر! ہم تو آپ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ مسکراکر کہنے لگے مگر مَیں تمہارے سر کی بات کر رہا تھا۔ ہم نے کہا جناب ہم بھی اپنے ہی سر کی بات کر رہے ہیں۔ فرمانے لگے باتوں میں تمہارے ساتھ کون پورا اترے مگر مَیں حق ہمسایہ کا فائدہ اٹھاتا ہوں۔

٭… استاذی المحترم صوفی بشارت الرحمٰن! نیک، پاک صاف ستھرا بے ریاوجود تھا۔ عربی ان کا تخصص تھا مگر تربیت ان کا فرض! کالج کا پراکٹوریل نظام ان کے دم قدم سے قائم تھا۔ ہاسٹل میں بھی ٹیوٹر تھے۔ طلبہ سے انتہا کے اخلاص و وفا کی توقع رکھتے کیونکہ خود ان دونوں میں انتہا کے مقام پر تھے۔ نمازی، دعا گو، مخلص، ہمدرد۔ تقویٰ کے جس مقام پر فائز تھے اپنے طالب علموں کو بھی اسی مرتبہ تک لے جانا چاہتے تھے اسی لیے ہم جیسے کمزور طالب علم ان سے بہت بدکتے تھے۔ شرارتی طلبہ یا نظام کی ذرا سی بھی خلاف ورزی کرنے والے ان کی گرفت سے بچ نہیں سکتے تھے۔ کڑا جرمانہ کرتے اور پرنسپل صاحب دریادلی سے وہ جرمانہ معاف کر دیا کرتے تھے۔

صوفی صاحب کالج سے ریٹائر ہوئے تو گویا ان کی زندگی تھم سی گئی۔ نظارت تعلیم میں کام کیا مگر انتظامی نوعیت کے کام اُن کو راس نہیں آتے تھے۔ بہشتی مقبرہ کے محکمہ میں رہے پھر جامعہ میں متعین ہوئے۔ کچھ ان کی عمر بھر کی الرجی کی تکلیف غلبہ کر آئی تھی۔ اواخر عمر میں تو سانس لینا بھی دشوار ہو گیا تھا۔ اسی عالَم میں وہ نفس مطمئنہ اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گیا۔

٭… مولانا ارجمند خاں صاحب ہمارے دینیات کے استاد تھے۔ ہمارے ابا کے بھی مدرسہ احمدیہ میں استاد رہے تھے اس لیے ہم کوئی اونچ نیچ کرتے تو سرزنش فرماتے ’خو! تمہارا باپ بھی میرا شاگرد ہے اُس کے بھی کان کھینچوں گا‘۔ کیا مہربان وجود تھا، بات اس خوبی سے کرتے کہ سیدھی دل میں اترتی تھی۔ عمر بھر پنجاب میں رہ کر پڑھایا مگر ان کا پشتو لہجہ ان کے ساتھ مخصوص تھا۔ دینیات کو دینیات سمجھ کر پڑھاتے اور اپنے مضمون کے تقدّس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کلاس کی فضا کو بھی پاکیزہ رکھتے۔ ہمارے ایک تمباکو نوش دوست کبھی بغیر کُلّی کیے کلاس میں آجاتے تو فوراً فرماتے: مَیں وضو کر کے آسکتا ہوں تم کُلّی کر کے نہیں آسکتے!۔ ہمارا یہ بے بدل استاد کینیڈا کی سرزمین میں آسودۂ خاک ہے۔

٭…مولانا غلام احمد بدوملہی دینیات کے استاد تھے۔ عالمِ بے بدل اور حاضر جواب مقرر۔ جوانی میں میدان مناظرہ کے شہسوار تھے۔ سب طلبا کے رول نمبر انہیں یاد رہتے۔ بلکہ وہ کالج سے باہر ملتے تو رول نمبر کے حساب سے لڑکوں کو بلاتے۔ ان کی کلاس میں پراکسی بھلا کون بولتا؟ کوئی شرارت سے سوال کرتا تو ایسا مسکت جواب دیتے کہ وہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا۔ گیمبیا اور ماریشس میں مبلغ بھی رہے۔ غالباً گیمبیا کے گورنر جنرل ایف ایم سنگھاٹے کو حضرت اقدس مسیح موعوؑ د کے کپڑوں سے برکت پانے کا مشورہ آپ ہی نے دیا تھا۔

مولانا کالج کے سٹاف کو سال میں ایک بار دم پخت گوشت پکا کر کھلاتے تھے۔ اس کے لیے گوشت خود اہتمام سے چُن کر کٹوا کر لاتے۔ مرچ مصالحے، گھی ہر چیز خالص مہیا کی جاتی۔ ہلکی آنچ پر گوشت پکتا اور پھر مولانا سگھڑ بی بی کی طرح کھانا نکالتے اور ایک پلیٹ میں ایک بوٹی ہر ایک کو دیتے جاتے۔ جو لوگ زیادہ کی فرمائش کرتے مولانا فرماتے ایک ہضم کر لو تو دوسری بھی دے دوں گا۔ مگر ایک بوٹی کھانے کے بعد اتنی سیری ہو جاتی تھی کہ دوسری کی خواہش ہی باقی نہیں رہتی تھی۔ بس لوگ ہونٹ چاٹتے رہ جاتے۔

٭…محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جامعہ احمدیہ اور جامعۃالمبشرین کے پرنسپل کے طور پر سبکدوش ہونے کے بعد کالج میں تشریف لائے تھے۔ ایسے اعلیٰ مرتبے کے اداروں کے مقابلے میں کالج میں دینیات کی پروفیسری کوئی دنیاوی منفعت کے لیے نہیں تھی محض اس بات کا ثبوت دینے کو تھی کہ ایک واقف زندگی کو کسی بھی کام پر مقرر کیا جا سکتا ہے اور کوئی کام بھی اس کے مرتبے کے منافی نہیں۔ حضرت مولانا اپنے رفقاء کے ساتھ نہایت محبت اور پیار سے پیش آتے۔ ان میں کوئی تفاخر نہیں تھا۔ کئی مرتبہ ربوہ سے لاہور کے ریل کے سفر میں ان کے ہمرکاب ہونے کا موقعہ ملا۔ سفر و حضر میں اپنے ماحول کو بشاشت سے خوش گوار بنائے رکھتے۔

مولانا سلسلہ کے جید علما میں سے تھے۔ ان کا رسالہ ’’الفرقان‘‘ مُلک کے علمی حلقوں میں بڑا وقیع جانا جاتا تھا۔ ہمارے ایک غیرازجماعت دوست کو بہائی مسئلہ پر اپنا ایم اے کا مقالہ لکھنا تھا۔ اسے علامہ علاؤالدین صدیقی صدر شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی نے کہا کہ وہ ربوہ جاکر مولانا صاحب سے استمداد کرے۔ وہ صاحب (جو بعد کو اسلامیات کے سینئر پروفیسر ہوئے) ربوہ آئے۔ مولانا نے نہ صرف اُن کی تواضع فرمائی بلکہ رسالہ الفرقان کا وہ نمبر بھی انہیں ہدیۃً دے دیا جو آپ نے بڑی محنت سے شائع کیا تھا اور فرمایا اگر اس کے بعد بھی کسی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ وہ صاحب عمر بھر مولانا کے احسان کو نہیں بھولے۔

٭… ملک محمد عبد اللہ صاحب بھی کالج کے سٹاف پر رہے۔ بڑے محنتی استاد تھے۔ اپنی اولاد کو بھی ایم اے تک تعلیم دلائی۔ انہوں نے اپنی خود نوشت بھی قلمبند کی تھی۔

٭… عربی میں ایم اے کی کلاسیں شروع ہوئیں تو ملک مبارک احمد صاحب جامعہ سے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر تشریف لانے لگے۔ وہ کالج کے واحد وزیٹنگ پروفیسر تھے۔ سارے مُلک میں اُن جیسا عربی کا عالم اَور کوئی نہیں تھا۔

٭… جناب محمد لطیف صاحب حساب کے ایم اے تھے مگر کالج میں انگریزی پڑھانے پر مامور تھے۔ پھر جماعت کی طرف سے افریقہ گئے اور واپس آکر جلد ہی فوت ہوگئے۔

٭… ہمارے فارسی کے استاد قبلہ چوہدری عطاء اللہ صاحب نہایت خاموش طبع اور متین صورت آدمی تھے۔ سٹاف روم میں بھی کسی سے کوئی سروکار نہ رکھتے۔ کوئی چھیڑ چھاڑ بھی کرتا تو ایک میٹھی مسکراہٹ سے اُس کی باتیں سن لیتے اور چپ رہتے۔ اچھے خاصے زمیندار تھے۔ کالج کی تنخواہ کے علاوہ بھی زمین سے خاصی آمدنی تھی مگرسٹاف روم میں چائے پینا یا پلانا ان کی سنت کے خلاف تھا۔ اگر کبھی پرنسپل صاحب نے بھی مطالبہ کردیا تو فرماتے تھے گھر پر آجائیں پلا دوں گا۔ ایف اے اور بی اے میں ہمیں یاد نہیں کہ آپ نے کبھی کلاس میں بھی سر اٹھا کر کسی طالب علم سے بات کی ہو یا کسی کو ٹوکا ہو۔

٭… پروفیسر محمد شریف خالد۔ واقف زندگی تھے۔ کسی زمانہ میں وکیل الدیوان بھی رہے۔ سیدھے سادے جاٹ! پرائیویٹ طور پر ایم اے انگریزی کر لیا تو کالج کے سٹاف پر آگئے مگر انگریزی نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ وہی جاٹوں والی سادگی، لباس میں بھی پڑھانے میں بھی اور رکھ رکھاؤ برتاؤ میں بھی۔ کالج کے واحد استاد تھے جو کلاس کا کبھی ناغہ نہ کرتے۔ لڑکوں میں بہت مقبول تھے۔ زیادہ تر طالب علم انہیں چاچا شریف خالد کہتے تھے اور اُن کا برتاؤ بھی طلبا سے بڑا ہمدردانہ اور چاچانہ تھا۔ کالج سے فارغ ہوکر اپنی بھینس کے لیے چارہ خود کاٹ کر لاتے اور گھر پر اُنہیں دیکھ کر ذرا اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کالج کے پروفیسر ہیں۔ اندر باہر سے ایک تھے کھرے اور صاف گو۔ کالج سے سبکدوشی کے بعد لمبی عمر پائی اور ربوہ میں ہی پیوند خاک ہوئے۔

٭… میاں عطا ء الرحمٰن! آدمی نہیں فرشتہ تھے۔ لباس میں وضع داری ان کی خصوصیت تھی، ہمیشہ اچکن شلوار قمیص پہنتے اور ٹوپی اوڑھتے ہاتھ میں چھڑی رکھتے یا گرمیوں میں چھتری۔ کالج پہنچتے ہی چائے کا پانی ہیٹر پر رکھ دیتے چائے بن جاتی تو اطمینان سے بیٹھ کر اس کی چسکیاں لگاتے۔ اُن کے طلبا کو یہی کہتے سنا کہ فزکس پڑھنی ہو تو میاں عطا ء الرحمٰن صاحب سے پڑھو، علم کو پانی کر دیتے ہیں۔ طبیعت کے دھیمے تھے مگر ایک بار ہم نے انہیں غصہ میں بھی دیکھا۔ کسی لڑکے کو آپ نے اتنے غصّے سے کمرے سے نکل جانے کو کہا کہ ہم جو پڑوس میں نصیرخاں صاحب کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے حیران رہ گئے۔ وہ طالب علم باہر نکل کر رونے لگا۔ ذرا سی دیر کے بعد میاں صاحب کمرے سے باہر آئے اور اس سے معافی مانگنے لگے کہ بیٹا! اساتذہ کے خلاف نازیبا باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ اس نے کسی دوسرے استاد کے بارے میں کوئی بات کی تھی۔ میاں صاحب صبح کالج آتے اور شام تک جب تک پریکٹیکل وغیرہ ختم نہ ہو جاتے کالج میں رہتے۔

٭… فزکس کے کارکن غلام حیدر صاحب بھی کالج کے مخلص خدمت گزار تھے کالج کی تعمیر کے کام میں وہ بہت مستعدی سے حضرت میاں صاحب کے ساتھ کام کرتے رہے۔

٭… پروفیسر حبیب اللہ خاں ! حضرت مولانا ذوالفقار علی خاں گوہر کے صاحبزادے اور مولانا عبدالمالک خاں صاحب کے بھائی تھے۔ کیمسٹری کا آدمی ہونے کے باوصف نہایت ادب دوست اور ادب پرور آدمی تھے۔ سائنسی موضوعات پر اُن کی کتابیں اردو سائنس بورڈ نے چھاپیں اور انہیں انعام بھی دیے۔ آپ کی آواز بھی اپنے ابا کی طرح پاٹ دارتھی۔ محنت کا یہ عالم تھا کہ کالج میں پڑھاتے پھر پریکٹیکل کرواتے، کالج کے کنٹرولر امتحانات تھے۔ امتحانات کے لیے پرچوں کی تیاری، چھپوائی اور بروقت تقسیم اور نتائج مرتب کرنے کی ذمہ داری بڑا اہم کام تھا جس میں ان کے ساتھ صرف ایک کارکن ناصر احمد صدیقی تھے۔ پھر آپ کتابیں بھی لکھتے تھے۔

٭… فزکس میں مسعود احمد عاطف تھے۔ مولانا عبدالرحیم درد کے داماد۔ کالج میں بس اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ پڑھایا، پریکٹیکل کروائے اور واپس گھر۔ کالج کی کسی زائد از نصاب سرگرمی میں ا نہیں مصروف نہیں پایا۔ اپنا گھر بنوانے کی انہیں لَو لگی ہوئی تھی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت خوب کی۔

٭… نصیر احمد بشیر زوآلوجی ایم ایس سی میں گولڈ میڈل لے کر آئے تھے۔ لمبے چوڑے وجیہ آدمی تھے۔ ربوہ کے احمدنگر کی سمت کے آخری کونے پر ایک کوٹھی میں رہتے تھے۔ وہاں سے کالا گاؤن زیب تن کرکے اپنے چھوٹے سے ٹیرئیر کتے کی زنجیر پکڑ کر نکلتے اور کالج تشریف لاتے۔ ان سے قبل کالج کو بیالوجی کا کوئی استاد میسر نہیں تھا۔ ڈاکٹر حمید احمد خاں جیسے ذہین طلبا ہی کام چلا لیتے تھے۔ نصیر احمد بشیر دو سال کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے امریکہ چلے گئے۔ پھر کوئی بیس برس بعد میڈیکل کالج فیصل آباد میں اُن سے ملاقات ہوئی جہاں وہ فزیالوجی کے پروفیسر تھے۔ وہاں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا مگر جلد ہی دست اجل نے انہیں اچک لیا۔

٭… پروفیسر نصیر احمد خاں ! ذہانت فطانت اور وجاہت۔ اللہ تعالیٰ نے تینوں چیزیں انہیں بدرجۂ اتم عطا کی تھیں۔ علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ کالج کی زائد از نصاب سرگرمیوں کی جان تھے۔ یونین کو یونین بنا دیا۔ باسکٹ بال کا کھیل شروع کیا تو ربوہ کو باسکٹ بال کا قومی مرکز بنا دیا۔ فزکس کے شعبہ میں ایم ایس سی کی کلاسز شروع کرنے کا سہرا پرنسپل صاحب کے بعدانہی کے سر ہے۔ سائنس میں کسی کالج کو یونیورسٹی کے مقابلہ پر لا کھڑا کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ نتائج دیکھ کر یونیورسٹی والوں نے بھی اعتراف کیا کہ ربوہ کالج کا معیار ہم سے کہیں بہتر ہے۔ پھر آپ صرف سائنسدان ہی نہیں تھے نہایت اچھے شاعر بھی تھے۔ مجموعہ کلام ’’رود چناب‘‘ چھپا ہوا ہے۔ ہمارے ساتھ بے تکلف بھی تھے اور محبت کا سلوک بھی روا رکھتے تھے۔ یہ جوان رعنا، دل کی بیماری کے ہاتھوں اچانک رخصت ہو گیا مگر اس کی یادیں دل میں کروٹیں لیتی ہیں۔

٭… مولوی محمد دین صاحب اسلامیات کے پروفیسر تھے۔ بزرگ آدمی تھے اور اپنے مضمون میں سند۔ اُن کے بعد عثمان صدیقی آئے۔ ہماری ہی گلی کے مکین۔ واحد پروفیسر تھے جو ٹخنوں سے اونچی شلوار پہنتے تھے اور جرابوں کے بغیر جوتے۔ اٹلی میں مبلغ بھی رہے تھے۔ واپس آنے کے بعد گھٹیالیاں کالج میں اور جامعہ نصرت میں بھی پڑھایا۔ پھر کالج کے سٹاف پر آگئے۔ ہر وقت زیر لب دعائیں کرتے رہنا ان کا شیوہ تھا۔ کئی بار پاس سے گزر گئے اور دیکھا تک نہیں۔ ہم نے شکوہ کیا تو فرمایا اچھا میں اپنے خیالات میں مگن تھا۔ کالج میں بھی ان کا یہی عالم تھا۔ نیک خُو تھے اور دیندار۔

٭… پروفیسر محمد ابراہیم ناصر کسی زمانہ میں ہنگری میں مبلغ رہے۔ آپ کے سپرد کالج کے نصابیات کا شعبہ تھا اور شاید امتحانات کا کام بھی کچھ عرصہ تک کیا۔ اچکن پہن کر کالج آتے تھے کلاس میں جاتے تو چاکوں کا پورا ڈبہ ختم کر کے لَوٹتے۔ ہاتھ اور اچکن دونوں چاک سے لتھڑے ہوتے۔

٭… پروفیسر رحمت علی مسلم گورنمنٹ کالج سرگودھا سے ریٹائر ہوئے تو ہمارے کالج میں آگئے۔ پھر جامعہ میں پڑھاتے رہے۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے ایم اے تھے اور خوب عالم آدمی تھے۔

٭… عزیز دوست عبد الرشید غنی باغ و بہار آدمی تھے۔ کالج میں ڈیمانسٹریٹر تھے پھر پشاور یونیورسٹی سے حساب کے مضمون میں ایم ایس سی کر کے کالج کے سٹاف پر آگئے۔ فرمایا کرتے تھے میں یونیورسٹی بھر میں سوم تھا۔ دوست کہتے تین ہی لڑکے ہوں گے۔ منہ پھیر کر فرماتے ہاں تین ہی تھے۔ حساب پڑھاتے اور ہاکی یا فٹ بال کھلاتے تھے۔ حالانکہ خود دونوں میں سے کوئی کھیل بھی نہیں کھیل سکتے تھے۔ ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ میں بڑے مستعد رہے۔ کالج کے وائس پرنسپل ہو کر ریٹائر ہوئے۔

٭… چودھری فضل داد کالج کے پی ٹی تھے۔ پھر لائبریرین ہو گئے۔ لائبریری میں بیٹھے اپنی موٹے موٹے شیشوں والی عینک سے لوگوں کو گھورتے رہتے اور کبھی کبھار نعرہ بلند فرماتے خاموش۔ حالانکہ پہلے ہی سناٹا ہوتا۔ کسی زمانے میں اچھے کھلاڑی تھے۔ پرنسپل صاحب کے ساتھیوں میں سے تھے اس لیے کوئی ان سے اونچ نیچ نہیں کر سکتا تھا۔

دفتر میں جنید ہاشمی تھے حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکمل کے صاحبزادے۔ وہ نائب ناظر مال مقرر ہوئے تو قریشی محمد عبد اللہ صاحب آئے جو انجمن میں جا کر آڈیٹر کے طور ریٹائر ہوئے۔ پھر چودھری محمد احمد بوبک تھے، ہوسٹل والے حسن دین صاحب اور میجر بشیر، دریا والے سردار ملاح، پرنسپل کے گھر کی چوکیداری کرنے والے گُل خاں۔ پرنسپل کے خدمت گذار لعل دین صدیقی کا مرحوم بھائی محمد علی۔ بیالوجی کے مددگار عبد الستار اور شریف۔ شریف نام کے ایک کارکن کیمسٹری میں بھی تھے، بیلدار سوہنی اور ماشکی چراغ ! اور ڈسپنسری والے ڈاکٹر سراج الدین اور لئیق! یہ سب کالج کے مخلص خدمت گزار تھے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

اور اب رہ گیا شادیؔ!بھلا شادی کے اوصاف کو بھی کاغذ میں پابند کیا جا سکتا ہے؟ کالج کے ساتھ لازم و ملزوم اور ہر ایک کا چاہنے والا۔ اُس کی خواہش تھی کہ مرنے کے بعد کالج ہی کی چار دیواری میں دفن ہو مگر اُس کی موت کہیں کسی گاؤں میں ہوئی اور اس کے لواحقین نے کالج والوں کو اطلاع تک نہیں دی۔ شادیؔ ہر طالب علم کو یاد ہے بھلا وہ بھی مر سکتا ہے؟

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button