متفرق مضامین

شہرِ لاہور کی خلفائے احمدیت سے فیضیابی (قسط سوم۔ آخری)

(محمد محمود خان۔ یوکے)

حضرت مرزا ناصر احمدصاحب

خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا لاہور سے تعلق اپنے نانا حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ مقیم اندرون موچی گیٹ کی وجہ سے بچپن سے ہی قائم تھا جو کہ 1930ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے کے بعد اور مضبوط ہو گیا۔

آپؒ نے 1930ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کی غرض سے داخلہ لیا اور احمدیہ ہوسٹل ڈیوس روڈ میں رہائش اختیار کی۔ 1934ء میں آپؒ نے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور واپس قادیان تشریف لے گئے۔ دوران تعلیم آپؒ نے احمدی طلباء کی ایک تنظیم قائم فرمائی جس کا منشور احمدیت کی تبلیغ تھا۔ اس تنظیم کا نام ’’عشرہ کاملہ‘‘رکھا تھا۔

جب حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی تو آپؓ نے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو اس کا صدر مقرر فرمایا۔ 15؍فروری 1942ء کو مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی سالانہ پکنک میں بحیثیت صدر مجلس خدام الاحمدیہ شرکت فرمائی۔ یہ پکنک دریائے راوی پر بارہ دری میں منعقد ہوئی۔

آپؒ نے فرمایا:

’’مختلف النوع زینتوں میں سے مضبوط و توانا اور چست جسم انسان کے لئے قابل فخر زینت ہے۔ایک مضبوط ہاتھ، ایک مضبوط ٹانگ، ایک مضبوط جسم، جسم کا بہترین زیور ہے جس سے تم اپنی حفاظت و ضروریات زندگی مہیا کرنے کے علاوہ خلق خدا کی خدمت بھی کر سکتے ہو۔‘‘

12؍جنوری 1944ء کو لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ یوم مصلح موعود منعقد ہوا۔ اس جلسے میں صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے شرکت فرمائی۔ اس جلسےکی خاص بات یہ تھی کہ اس میں آپؒ کو تلاوت قرآنِ کریم کرنے کا موقع ملا۔

1947ء میں جب قادیان سے قافلے پاکستان آنے شروع ہوئے تو صاحبزادہ مرزا ناصراحمد صاحبؒ 16؍نومبر 1947ء کو لاہور تشریف لائے اور رتن باغ میں قیام فرمایا۔ دسمبر 1947ء کو جب حضرت مصلح موعودؓ نے ٹی آئی کالج لاہور کے قیام کی منظوری فرمائی تو آپؒ کو بحیثیت پرنسپل تعلیم الا سلام کالج مقرر فرمایا۔

دسمبر 1947ء میں جلسہ سالانہ منعقد ہوا اس میں شرکت فرمائی اور انشورنس اور بینکنگ کے متعلق اسلامی نظریہ کے موضوع پر تقریر فرمائی۔ اسی طرح جون 1948ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرقان بٹالین بنانے کی منظوری فرمائی تو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدؒ کو اس کا صدر مقرر فرمایا۔

حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کی گرفتاری

1953ء کے فسادات کی وجہ سے حضرت مصلح موعودؓ سمیت تمام قابل ذکر احمدیوں کے گھروں کی تلاشیاں لی گئیں اور یہ کوشش کی گئی کہ اگر کسی احمدی کے گھر سے اپنی دفاعی ضروریات کے لیے رکھا گیاچاقو بھی برآمد ہو جائے تو اسے گرفتار کر لیا جائے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدصاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صا حبؒ کو اسی جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ اور آپ دونوں کو سزا سنا دی گئی۔ لیکن 2 ماہ بعد 28؍ مئی 1953ء کو رہا کر دیے گئے۔

اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ آپؒ نے فرمایا:

’’میں نے اس وقت دعا کی کہ اے میرے ربّ! میں ظلم کر کے یا کوئی گناہ کر کے اس کو ٹھڑی میں نہیں پہنچا۔ میں اس جگہ اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ جہاں تک میرا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ میں تیرے نام کو بلند کرنے والا تھا۔ میں اس جماعت میں شامل تھا جو تو نے اس لئے قائم کی ہے کہ نبی کریمﷺ کی محبت دلوں میں پیدا کی جائے۔ میرے رب مجھے یہاں آنے سے کوئی تکلیف نہیں، مجھے کوئی شکوہ نہیں، میں کوئی گلہ نہیں کرتا، میں خوش ہوں کہ تو نے مجھے قربانی کا ایک موقع دیاہے۔‘‘

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد سوم صفحہ 724)

اسی طرح 1962ء تا 1967ء متعدد بار حضورؒ لاہور تشریف لائے۔ ان میں سے اکثر دورے ذاتی نوعیت کے تھے۔ ان دورہ جات میں حضورؒ پام ویو میں رہائش پذیر رہے اور مجالس عرفان میں جماعت کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی رہی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ 8؍اکتوبر 1969ء کو لاہور تشریف لائے۔ 10؍اکتوبر کو دارالذکر میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔

(خطباتِ ناصر جلد دوم صفحہ 907)

آپؒ نے فرمایا:

1۔ اپنی قوت اور طاقت کے مطابق تدبیر کو انتہا تک پہنچا دو۔

2۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ ریاء کی بیماریوں کا علاج ہے۔

3۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا پورے فکر، غور اور تدبر کے ساتھ مطالعہ کریں۔

4۔ قرآن کریم کو شرف انسانی کے قائم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

5۔ خلافت ایک نعمت ہے اس کی قدر کریں۔

اس دورے کے دوران حضورؒ مجالس عرفان میں رونق افروز ہوتے رہے اور 12؍اکتوبر کو لجنہ اماء اللہ سے خطاب فرمایا۔

آپؒ فرماتے ہیں :

’’پس اسلام نے ہمیں جو بشارتیں دی ہیں ان پر ہمیں پختہ یقین ہے۔ اسلام نے بہر حال غالب آنا ہے اور کوئی بھی مخالف طاقت اسلام کی ترقی اور غلبہ کو ناکام نہیں بنا سکتی۔‘‘

4؍اپریل 1970ء کو حضورؒ دورہ مغربی افریقہ کی روانگی کے سلسلے میں لاہور تشریف لائے اور چودھری اسداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی کوٹھی پر قیام فرمایا۔ اسی طرح 8؍جون 1970ء کو کراچی سےلاہور تشریف لائے اور مختصر قیام فرمایا اور ربوہ واپس تشریف لے گئے۔

13؍جولائی 1973ء کو حضورؒ دورہ یورپ کی روانگی کے سلسلے میں لاہور تشریف لائے اور چودھری اسداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی کوٹھی پر قیام فرمایا۔ اسی طرح سفر سے واپسی پر 26؍ستمبر کو کراچی سےلاہور تشریف لائے اور مختصر قیام فرمایا اور ربوہ واپس تشریف لے گئے۔ لاہورکے بہت سے احباب حضورؒ کو الوداع کہنے کے لیے شیخوپورہ تک گئے۔

6 ؍مارچ 1974ء کو حضورؒ لاہور تشریف لائے۔ اور 8؍مارچ کو آپؒ نے دارالذکر میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔

آپؒ فرماتے ہیں :

’’ایک لمبے عرصہ کے بعد یہاں آیا ہوں اور اب میری نظر میں یہ مسجد بہت چھوٹی لگتی ہے۔ شاید اسے اور بڑھانے کی ضرورت پڑجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کی تعداد میں بھی اور جماعت کے اموال میں بھی اور جماعت کی کوششوں میں بھی پہلے سے کہیں زیادہ برکتیں ڈال رہا ہے۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذالک‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍مارچ1974ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد5صفحہ445)

اسی سال 18؍جولائی 1974ء کو لاہور ہائی کورٹ میں صمدانی ٹربیونل میں 29؍مئی 1974ء کے ربوہ ریلوے اسٹیشن کے واقعہ کے بارے میں اپنا بیان قلم بند کروانے کے لیے لاہور تشریف لائے۔ حضورؒ کا یہ بیان سات گھنٹے تک جاری رہا۔

1975ء تا 1978ء کے دوران حضورؒ تین بار لاہور تشریف لائے۔ ان تمام دورہ جات کا مقصد مختلف ممالک کے دورہ جات تھے۔ آپ بذریعہ لاہور ایئر پورٹ کراچی روانہ ہوتے۔ اور ہر بار جاتے اور آتے وقت محترم چودھری حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کے گھر قیام فرماتے۔ ہر بار جماعت کے احباب نے حضورؒ کا والہانہ استقبال کیا۔

1980ء میں حضورؒ نے تین براعظموں کے تیرہ ممالک کا دورہ فرمایا۔ یہ دورہ 4 ماہ تک جاری رہا۔ اس دورے کے دوران آپؒ نے مسجدبشارت سپین کا سنگِ بنیاد بھی رکھا تھا۔ اس دورے پر روانگی کے لیے 26؍جون 1980ء کو صبح 9بجے محترم چودھری حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی کوٹھی پر تشریف لائے اور وہاں سے گیارہ بجے لاہور ایئر پورٹ روانہ ہو گئے۔ دورے سے واپسی پر 26؍ اکتوبر کی شام آپؒ کی واپسی ہوئی۔ لاہور ایئر پورٹ پر لاہور کے مقامی احباب کے علاوہ مختلف شہروں کے لوگ بھی استقبال کے لیے جمع تھے۔

حضورؒ نے دورہ مغرب 1980ء کے دوران 19؍اکتوبر کو مسجد بشارت سپین کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس تاریخی واقعے کے حوالے سے جماعت احمدیہ لاہور نے ہلٹن ہوٹل لاہور میں 29؍جنوری 1981ء کو ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا۔ اس استقبالیہ میں شرکت کے لیے حضورؒ آخری بار لاہور تشریف لائے۔ اسی دورے کے دوران30؍جنوری 1981ء کو حضورؒ نے دارالذکر میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں

ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ

کی لطیف تفسیر بیان فرمائی۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب

خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا لاہور سے تعلق اپنی والدہ محترمہ کی بیماری کے ایام میں قائم ہواجو کہ بعد ازاں آپ کی لاہور میں تعلیم اور شادی کی وجہ سے مزید مضبوط ہو گیا۔

1944ءمیں حضورؒ اپنی والدہ محترمہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ کی تیمارداری کے لیے ہر ہفتہ کے آخر میں لاہور تشریف لاتے رہے۔ اسی سال بغرضِ تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اس دوران آپؒ کا قیام گورنمنٹ، نیو ہوسٹل رتن باغ اور دارالحمد میں رہا۔

26؍دسمبر1944ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے پہلے روز پنجاب احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا صدر دفتر لاہور میں قائم کیا گیا۔ 25؍فروری 1946ء کو اس تنظیم کے زیر اہتمام حضرت فضلِ عمرؓ نے لاہور میں ایک یادگار لیکچرا سلام کا اقتصادی نظام کے موضوع پر دیا۔ 18؍دسمبر 1948ء کو لاہور میں منعقدہ ایسوسی ایشن کے اجلاس میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کو اس کا صدر منتخب کیا گیا۔ آپ کے دور میں احمدیہ انٹر کالجیئٹ ایسوسی ایشن بڑی فعال رہی۔ آپؒ کے دَور میں مختلف موضوعات پر بڑی اہم تقاریر کا اہتمام کیا گیا۔ 1970ء کے دَور میں اس کا نام تبدیل کر کے احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن رکھ دیا گیا۔

1954ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں میں بنی نوع انسان کی مدد کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے 15؍اکتوبر کو ربوہ سے 100 خدام کا ایک قافلہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی قیادت میں لاہور بھیجا۔ اس گروپ میں 25معمار بھی شامل تھے۔ ربوہ سے آئے ہوئے ان خدام نے لاہور کے خدام کے ساتھ مل کر بہت محنت سے کام کیا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا:

’’ربوہ کے خدام تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگ بہت محنت سے کام کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ آئندہ اور زیادہ جذبہ اور جوش کے ساتھ کام کریں گےاور جس قدر کہ انسانی طور پر ممکن ہے آپ مخلوق خدا کی بھلائی میں پوری طرح کوشاں رہیں گے۔ خدا آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔‘‘

(الفضل19؍اکتوبر1954ء)

اسی طرح آپؓ نے فرمایا کہ

’’دراصل میں ان علاقوں میں جا کر دیکھنا چاہتا تھا کہ کام کے متعلق جو رپورٹس پہنچ رہی ہیں ان میں مبالغہ تو نہیں کیا گیا۔ سو مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی معتدبہ کام ہو چکا ہے اور فی الواقع جو کام بھی ہوا ہے وہ مفید اور اچھا ہے۔‘‘

(الفضل 9؍نومبر1954ء)

ریلوے برٹ انسٹی ٹیوٹ مغلپورہ میں خدام الاحمدیہ لاہور کے تحت 1964ء میں ورزشی مقابلہ جات منعقد ہوئے۔ آپؒ نے بحیثیت نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ اس پروگرام میں شرکت کی۔ آپؒ نے اس موقع پر اپنی کتاب ورزش کے زینے کا تعارف کروایا۔

1966ءتا 1969ء آپؒ بحیثیت صدر مجلس خدام الاحمدیہ متعدد بار لاہو ر تشریف لائے اور خدام کے پروگراموں میں شرکت کی۔

1970ء کے الیکشن کے لیے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدصاحبؒ متعدد بار لاہور تشریف لائے اور عمومی طور پر آپ کا قیام ماڈل ٹاؤن میں اپنے عزیز مرزا نسیم احمد صاحب کے گھر ہوتا تھا۔

9؍اپریل1982ء کو حضرت صاحبزادہ صاحبؒ لاہور تشریف لائے اور کوٹھی مکرم چودھری حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور میں ایک مجلس علم و عرفان میں شرکت فرمائی۔

منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد آپؒ نے سب سے پہلا سفر یورپ کا اختیار فرمایا جس میں آپؒ نے مسجد بشارت سپین کا افتتاح بھی فرمایا۔ 28؍جولائی کو سفر یورپ کے لیے لاہور صبح 8 بجے تشریف لائے اور احباب جماعت سے خطاب فرمایا۔ امیر صاحب کی رہائش پر جانے سے قبل حضرت میاں عبدالرحیم صاحب درد مرحوم کی اہلیہ سارہ صاحبہ کی رہائش گاہ واقع میکلوڈ روڈ پر اُن کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔

دورہ یورپ سے واپسی پر آپؒ 12؍اکتوبر کی شام لاہور تشریف لائے اور بریگیڈیئر وقیع الزمان صاحب کی کوٹھی واقع لاہور چھاؤنی میں قیام فرمایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو چونکہ تبلیغ کا جنون کی حد تک شوق تھا اس لیے آپؒ نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد پاکستان کے بہت سے شہروں میں مجالس عرفان اور محافل سوال و جواب کا ایک سلسلہ شروع کیا۔

اسی سلسلہ میں حضور اقدس13؍جنوری 1983ء کو لاہور تشریف لائے اور کوٹھی چودھری حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور میں قیام فرمایا۔

14؍جنوری کو دار الذکر میں حضورؒ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ حضورؒ نے فرمایا:

’’اللہ کا بھی ایک رنگ ہے اور اللہ سے بہتر اور کس کا رنگ ہو سکتا ہے۔

اس مختصر سی آیت میں تمام نصیحتوں کا نچوڑ بیان فرما دیا گیا ہے۔ تما م دنیا کی کتابوں کی نصیحتیں اکٹھی کر لیں اور قرآن میں بیان فرمودہ نصیحتوں کی تشریحات کرتے چلے جائیں، اس آیت کےمرکزی نقطہ کے دائرہ سے وہ نصیحتیں باہر نہیں جا سکتیں۔ فرمایا اللہ کی صفات کو اختیار کرو اور ویسا بننے کی کوشش کرو۔ نصیحت کا یہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس سے آگے تمام نصیحتیں بھی پھوٹتی ہیں…‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍جنوری 1983ء

مطبوعہ خطبات طاہر جلد2صفحہ19)

15؍جنوری کو حضورؒ کے اعزاز میں مسجد بشارت سپین کی خوشی میں ہلٹن ہوٹل میں ایک دعوتِ استقبالیہ دیا گیا۔ اس تقریب میں 800سے زائد احباب نے شرکت کی۔ محترم چودھری حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے سپاسنامہ پیش کیا جس کے بعد حضورؒ نے خطاب فرمایا۔ خطاب کے بعد حضورؒ نے احباب کے سوالوں کے جواب دیے۔

اس دورے کے دوران حضورؒ نے بہت سی تاریخی مجالس عرفان منعقد فرمائیں جن میں بہت سے غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوتے رہے۔ 19؍جنوری کو آپؒ شام 4 بجے واپس ربوہ روانہ ہو گئے۔

اسی سال مورخہ 22؍ اگست کو بغرض دورہ مشرق بعید و آسٹریلیا لاہور تشریف لائے اور 14؍اکتوبر کو واپسی پر دوبارہ لاہور تشریف لائے اور دارالذکر میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا:

’’مجھے ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ انشاء اللہ بہت جلد فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ہونے والے ہیں اور مشرقِ بعید میں خدا تعالیٰ نے نئی فتح کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ ایسے دلوں میں انقلاب برپا ہو رہا ہے کہ سننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں …اس لئے میں نے سوچا کہ اس فتح نے تو آنا ہی آنا ہے۔ اب یہ خدا کی تقدیر ہے جو لکھی گئی ہے۔کوئی نہیں جو اس تقدیر کو بدل سکے۔ آپ ان لوگوں کو محبت اور پیار کے ساتھ وصول کرنے کی تیاری کریں، اپنے دل صاف کریں، اپنے اخلاق اور اطوار درست کریں، اپنے خیالات کو پاکیزہ کریں، اپنے اعتقادات کی حفاظت کریں، آپ پر بہت بڑی ذمہ داری پڑنے والی ہے، آپ اِن کے میزبان بننے والے ہیں اس لئے بدیوں کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط کریں تا کہ جب ان نئی قوموں سے آپ کا وسیع طور پر تعلق قائم ہو تو ان بدیوں کو رد کرنے والے ہوں …۔

پس میں آپ کو بھی یہی پیغام دیتا ہوں کہ اپنے سینوں کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید سے بھر دیں۔ یہی تسبیح اور تحمید ہے جو ہمارے کام آئے گی۔ ورنہ اس کے بغیر یہ فتح اور نصرت ہمارے ہاتھوں سے ضائع ہو سکتی ہے…

اس جذبے کے ساتھ دوست جب اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کریں گے اور استغفار کریں گے اور رب کریم کے ساتھ پیار اور محبت کا تعلق جوڑیں گے تو پھر دیکھیں گے کہ انشاء اللہ وہ فتح و نصرت جس کے آثار میں دیکھ کر آیا ہوں وہ کس شان کے ساتھ آتی ہے…۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ14؍اکتوبر 1983ء

مطبوعہ خطبات طاہرجلد2صفحہ518تا530)

حضرت مرزا مسرور احمد صاحب

خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

یوں تو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قبل از خلافت متعدد بار لاہور تشریف لائے۔ لیکن اکثر آپ کے دورہ جات ذاتی نوعیت کے ہی تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات پر 19؍اپریل2003ء کوحضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی لاہور تشریف لائے۔ لاہور کے چند احباب کو ہی اس کا علم تھا اور آپ کو حفاظت کے ساتھ لاہور سے رخصت کیا گیا۔ اس وقت کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ پاک وجود جماعت کے اگلے امام منتخب ہونے والے ہیں۔

حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب سے منصبِ خلافت پر فائز ہوئے ہیں جماعت احمدیہ لاہور کو مختلف مواقع پر خلافت کی بےانتہا محبت اور برکتیں سمیٹنے کا موقع ملا۔

منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد گو آپ ظاہری طور پر ابھی تک حالات کی وجہ سے لاہور تشریف نہیں لاسکے لیکن خاکسار ایک بات یہاں بیان کرنا چاہتا ہے کہ دنیا بھر کے تمام احمدی احباب یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خلافت سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن ہم اس بات کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ خلیفۂ وقت اپنی جماعت سے کتنی محبت کرتےہیں اور دن رات ہمارے لیے دعائیںکرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ ہدایت فرمائی کہ مرکزی عہدیداران نمائندہ خلیفۃ المسیح کے طور پر پاکستان کی جماعتوں کا دورہ کریں۔ چنانچہ اس ارشاد کی تعمیل میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مختلف نمائندگان نے لاہور کے احمدی گھر انوں کےدورے کیے اور وہاں جا کر حضرت خلیفۃ المسیح کے سلام کا تحفہ پہنچا یا نیز گھر میں بچوں کو چاکلیٹس تقسیم کیں۔

اس سلسلے میں خاکسار کے گھر میں بھی نمائندہ حضرت خلیفۃ المسیح تشریف لائے اور حضور انور کا پیغام پہنچایا۔ خاکسار کو یہ بھی سعادت نصیب ہوئی کہ اس گروپ کے ساتھ بہت سے گھروں کا دورہ کیا۔

جماعت احمدیہ لاہور خلافت کے ہر حکم پر عمل کرتے ہوئے آگے ہی آگے ترقی کی منازل طے کرتی چلی جا رہی ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت لاہور پچھلے کئی سالوں سےمالی قربانی میں آگے ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جماعت لاہور کو جانی قربانی کے میدان میں بھی ایک بے مثال قربانی پیش کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔خاکسار 28؍مئی 2010ء کے سانحہ لاہور کا ذکر کر رہا ہے اور اس واقعہ کا چشم دید گواہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی تاریخ میں اتنی بڑی اجتماعی قربانی کے لیے لاہور کو منتخب کیا۔ اس دن 86جاں نثاروں نے اپنی جانیں اسلام احمدیت کے لیے قربان کیں۔ خدا تعالیٰ نے شہادت کے لیے ایسا گلدستہ بنایا جن میں بزرگ بھی شامل تھے نوجوان بھی شامل تھے امیر بھی غریب بھی غرض ہر طبقہ کے احباب شامل تھے۔ اس موقع پر بھی خلافت احمدیہ ہی جماعت کی ڈھارس بنی اور خلافت ہی کے ذریعہ اس مشکل وقت میں جماعت کو حوصلہ ملا۔ اور جماعت پھر اسی طرح خلافت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کامیابی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ الحمدللہ!

اس واقعہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ذاتی طور پرجماعت کی ڈھارس بندھانے کے لیے تمام شہداءکے گھروں میں ٹیلی فون کیا اور گھر کے ہر فرد سے فرداً فرداً بات کی۔ خاکسار بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل تھا کہ جن سے حضور انور نے شفقت فرمائی اور بات کی اور خاکسار کے شہید والد کی تعزیت کی۔ اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دستخط کے ساتھ تمام شہداء کے لواحقین کو تعزیتی خطوط لکھے۔

آخر پر خاکسار دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلافت کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،خلافت کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رہےاور ہمار ی نسلیں بھی خلافت سے وابستہ رہیں آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button