تعارف کتاب

’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘ (قسط دوم۔ آخری)

(فرخ سلطان محمود)

مکّہ معظمہ میں جن علماء سے فیض حاصل کیا اُن میں شیخ محمد صاحب بھی تھے۔ صحاح ستہ خوب آتی تھی۔ ابوداؤدمیں اعتکاف کے مسئلے میں حدیث پڑھی کہ صبح کی نماز پڑھ کر انسان معتکف میں بیٹھے۔ حاشیہ میں لکھا تھا کہ یہ حدیث بہت مشکل ہے کیونکہ 21 تاریخ کی صبح کو بیٹھیں تو ممکن ہے اکیسویں رات لیلۃالقدر ہو۔ اگر 20 کی عصر کو بیٹھیں تو رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔ مَیں نے عرض کیا: ذرا بھی اشکال نہیں، 20 کی صبح کو بیٹھے۔ انہوں نے کہا یہ تو اجماع کے خلاف ہے۔ مَیں نے کہا: امام احمدؒ کے نزدیک اجماع محض دعاوی ہیں۔ اس پر وہ بہت ہی تند ہوگئے اور جاکر مولوی رحمت اللہ صاحب سے سارا قصّہ بیان کیا۔ مَیں ظہر کے بعد مولوی صاحب کے ہاں پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ آج تمہارا اپنے شیخ سے مباحثہ ہوا؟ مَیں نے عرض کیا کہ تلمیذ اور استاد کا کوئی مباحثہ نہیں ہوسکتا، ہاں طالب علم اساتذہ سے کچھ پوچھا ہی کرتے ہیں۔ مَیں نے سارا واقعہ بیان کرکے کہا کہ اکیس کی صبح کی بجائے بیس کی صبح کو اعتکاف بیٹھے تو حدیثوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ فرمایا: یہ بات اجماع کے خلاف ہوجاتی ہے۔ مَیں نے کہا اس چھوٹی سی بات پر بھلا اجماع کیا ہوگا!۔ پھر ہم بیت اللہ پہنچے تو مَیں نے عرض کیا کہ اس کوٹھے کی طرف لوگ سجدہ کیوں کرتے ہیں ؟ فرمایا: حضرت محمدﷺ کا حکم ہے۔ مَیں نے کہا: انبیاء کا اجماعی قبلہ تو بیت المقدس ہے۔ پھر ایک شخص کے فرمان پر اجماع انبیاء بنی اسرائیل کو کیوں چھوڑتے ہیں ؟ آپ نے اتنے بڑے اجماع کو چھوڑ دیا، مَیں نے اگر جزوی مسئلے میں ایک حدیث کے معنی میں اختلاف کیا تو حرج کیا ہوا؟ کہنے لگے: ’دل دھڑکتا ہے‘۔ کچھ مدّت بعد حضرت شاہ عبدالغنی مجدّدیؒ مدینہ سے مکّہ تشریف لائے۔ حرم میں ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں مَیں نے اُن کی خدمت میں عرض کیا کہ اعتکاف کب بیٹھا جائے؟ بےتکلّف فرمایا کہ بیس کی صبح کو۔ جرأت کرکے پوچھا کہ مَیں نے سنا ہے کہ یہ اجماع کے خلاف ہے۔ اُن کے علم پر قربان جاؤں۔ بڑے عجیب لہجے میں فرمایا کہ جہالت بڑی بُری بلا ہے۔ حنفیوں میں فلاں فلاں، شافعیوں میں فلاں، حنابلہ میں فلاں، مالکیوں میں فلاں، کئی کئی آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ ہر فرقے میں 20 کے بھی قائل ہیں۔ مَیں اس علم اور تجربے کے قربان ہوگیا۔ ایک وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ بعدازاں مدینہ منوّرہ حاضر ہوکر حضرت شاہ صاحب سے بیعت ہوا اور کئی ماہ تک فیض حاصل کیا۔

مدینہ میں ہمارے ایک دوست نے ایک عظیم الشان سرائے لوگوں کے آرام کے لیے بنانی تجویز کی اور بہت سا روپیہ اس پر خرچ کیا۔ وہاں کے قاضی نے سو پاؤنڈ اُن سے قرض مانگا۔ انہوں نے پیرومُرشد شاہ عبدالغنی صاحب سے مشورہ لیا۔ فرمایا: قاضی صاحب واپس نہ دیں گے۔ اس پر انہوں نے قرض دینے سے انکار کردیا۔ اگلے دن دارالقضا سے حکم نامہ آیا کہ سرائے کی جگہ ایک کوچہ نافذہ تھا اور نافذہ کوچہ کا بند کرنا حدیث سے منع ہے اس لیے سرائے کا بنانا بند کیا جائے۔ چونکہ اُن کے ہزاروں روپے خرچ ہوچکے تھے بہت گھبرائے۔ آخر ایک بزرگ نے صلاح دی کہ تم جدّہ جاکر انگریزی قونصل سے ملو۔ چنانچہ انہوں نے وہاں جاکر سارے حالات بیان کیے تو قونصل سے ایک چٹھی قاضی کے نام لکھ دی گئی۔ اس پر دارالقضا سے حکم آیا کہ معلوم ہوا ہے کہ کوچہ نافذہ کی آمدو رفت رُک چکی ہے لہٰذا اب وہ کوچہ نافذہ کے حکم میں نہیں رہا اس لیے سرائے بنانے کی اجازت ہے۔

مدینہ کے رہنے والوں کے اخلاق قابل افسوس تھے۔ ایک دفعہ کسی نے شاہ صاحب سے کہا کہ مَیں مدینہ منورہ ہجرت کرکے آیا ہوں لیکن یہاں کے لوگوں کے اخلاق سے تنگ آگیا ہوں۔ شاہ صاحب یہ سُن کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ہم بھی تو ہجرت کرکے آئے ہیں، تم نے اگر جوار نبی کریمﷺ کے لیے ہجرت کی ہے تو وہ موجود ہے اور اگر اس لیے کی ہے کہ ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ یہاں موجود ہیں تو یہ لوگ بےشک آج موجود نہیں ہیں، آپ یہاں سے چلے جائیں۔

بھیرہ واپس آکر مَیں نے ایک طبیب سے مشورہ کیا کہ مَیں یہاں طب کرنا چاہتا ہوں۔ اُس نے کہا کہ تم یہاں کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ مَیں تو مانگ کر لینے والا آدمی ہوں پھر بھی مجھے پانچ روپیہ سے زیادہ آمدنی نہیں۔ اور تم تو مانگوگے نہیں، دوا بھی مفت دوگے، پھر طبیبوں اور علماء کی مخالفت الگ سے ہوگی۔ اس پر مَیں نے توکلّاً علی اللہ ایک طالب علم سے دو قسم کے سُرمے بنوائے اور عصر کے وقت ایک شخص کی آنکھ کو غور سے دیکھ کر ایک قسم کا سُرمہ لگادیا۔ اُس کی دیکھادیکھی ایک اَور نے درخواست کی تو اُس کے بھی لگادیا۔ یہ ہمارا پہلا اشتہار تھا۔ ہمارے شہر میں آشوب کی بیماری بہت تھی۔ صبح بہت سے لوگ آئے اور سرمہ ہی طلب کیا۔ خداتعالیٰ ہی کے عجائبات ہیں کہ اس تدبیر نے بڑی کامیابی کا منہ دکھلایا۔

بھیرہ میں اپنے والد صاحب کے ارشاد پر مَیں اُن کے وسیع مکان میں بیٹھ کر مطب کرنے لگا۔ اُن کی وفات کے بعد میرے ایک بھائی نے، جن کے مجھ پر بڑے بڑے احسانات ہیں، مجھے فرمایا کہ یہ مکان میرے روپیہ سے لیا گیا تھا تم اس قدر مجھے لکھ دو۔ مَیں تو اُن پر اپنا سب جان و مال قربان کرنے کو تیار تھا۔ انشراح قلب سے اُن کے حسب منشا لکھ دیا اور طالب علموں سے دوائیں اٹھواکر ایک مسجد کے حجرے میں منتقل ہوگیا۔ روپیہ اُس وقت میرے پاس بالکل نہ تھا۔ ایک دو روز بعد والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس تحریر کا یہ منشا نہ تھا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ۔ انہوں نے ایک اَور معاملہ بیان بھی کیا مگر مَیں تو مکان چھوڑ ہی چکا تھا۔ وہاں ٹاؤن کمیٹی کی سرکاری زمین تھی مَیں نے ایک مستری دوست کو اُس پر مکان بنانے کو کہا جس کے لیے ایک ہندو سے روپیہ لیا۔ مکان بننا شروع ہوا تو تحصیل دار نے کہلا بھیجا کہ سرکاری زمین پر تو کوئی مکان نہیں بناسکتا اور ویسے بھی بِلامنظوریٔ نقشہ مکان بن ہی نہیں سکتا۔ کمیٹی نے ادب کی وجہ سے آپ کو کچھ نہیں کہا لیکن ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ کردی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بنابنایا مکان گرادیا جائے گا۔ میرے دوست مستری نے بھی یہی کہا۔ لیکن میرا دل انشراح صدر سے یہی کہتا تھا کہ مکان ضرور بنے گا اس لیے مَیں نے اُس سے کہا کہ اپنا کام جاری رکھو۔ کچھ دن بعد انگریز ڈپٹی کمشنر وہاں آئے تو مَیں بھی وہاں چلاگیا۔ مجھے کہنے لگے کہ تم جانتے ہو کہ یہ سرکاری زمین ہے۔ مَیں نے کہا کہ ہاں، مگر سارا شہر ہی سرکاری زمین ہے۔ اگر سرکار کو چھاؤنی بنانی پڑے تو کیا شہر کے لوگ انکار کرسکتے ہیں ؟ کہا:نہیں کرسکتے۔ پھر پوچھا کہ آپ کا مکان کتنی زمین پر بن سکتا ہے؟ مَیں نے کہا کہ ایک طرف سڑک ہے اور دوسری طرف شارع عام ہے۔ ان کے درمیان جتنی زمین ہے اس میں بن سکتا ہے۔ تب اُن کے حکم سے اُسی وقت میخیں گاڑ دی گئیں۔ تحصیل دار صاحب نے میرے پاس آکر کہا کہ یہ تو سکھاشاہی فیصلہ ہوا ہے کیونکہ صاحب کو خود بھی سرکاری زمین دینے کا اختیار نہیں۔ پھر ڈپٹی کمشنر کہنے لگے کہ سڑک کے ساتھ بدرَو ہے اس کے سبب آپ کو تکلیف ہوگی۔ مَیں نے کہا: انگریز بہت عقل مند ہوتے ہیں، آپ ہی کوئی تدبیر بتائیں۔ کہنے لگے کہ سرکار کی طرف سے مکان کا پشتہ کمیٹی بنادے گی۔ تحصیل دار مجھ سے کہنے لگا کہ یہ ایک ہزار روپیہ اَور ہم پر جرمانہ ہوا۔ مَیں نے کہا کہ تم ان باتوں کو کیا سمجھ سکتے ہو!

مجھ کو ایک بیوہ کا پتہ لگا جس کو مختلف اسباب سے مَیں پسند کرتا تھا۔ مَیں نے اُس کے یہاں نکاح کی تحریک کی۔ وہ عورت تو راضی ہوگئی مگر بیواؤں کا نکاح نہ کرنے کے رواج کا اُس نے عذر کیا۔ پھر کہا کہ آپ نکاح کرلیں، کچھ دنوں کے بعد میرے ولی راضی ہوجائیں گے۔ مَیں نے اُن ولیوں کو اس خیال پر کہ وہ بیوہ کے نکاح کو روکتے ہیں معزول سمجھا اور اس نکاح میں جرأت کرلی۔ قبل اس کے کہ وہ ہمارے گھر میں آئے، مَیں نے حضرت نبی کریمﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپؐ کا چہرہ زرد ہے، زمین پر لیٹے ہیں اور ڈاڑھی منڈی ہوئی ہے۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ نکاح سنّت کے خلاف واقع ہوا ہے۔ چنانچہ مَیں نے میاں نذیرحسین دہلوی اور شیخ محمد حسین بٹالوی کو خطوط لکھے کہ بیوہ بالغ ہے، ولی مانع ہے۔ ایک کا جواب آیا کہ ایسے ولی معزول ہوجاتے ہیں اور بیوہ اپنے اختیار سے نکاح کرسکتی ہےکیونکہ حدیث لَانِکَاح اِلّا بِوَلِی میں کلام ہے۔ میرے تو مطلب کے مطابق تھا۔ مَیں بڑا خوش ہوکر اٹھا۔ پھاٹک تک پہنچا تو ایک شخص حدیث کی کتاب لایا کہ یہ حدیث سمجھادو الا ثمُ ما حاکَ فِی صدرِک ولَو افتاک المفتون۔ (یعنی گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے چاہے فتوی دینے والوں نے تجھے (اس کی حلّت کا) فتوی دیا ہو۔ )

حدیث دیکھتے ہی میرا بدن بالکل سُن ہوگیا اور مَیں نے یہ سمجھا کہ خداتعالیٰ نے مجھ کو آگاہ کیا ہے کہ ان مفتیوں کے فتووں کی طرف توجہ نہ کرو۔ اُس کو تو یہ کہا کہ تم جاؤ پھر بتادیں گے۔ اور پھاٹک بند کرکے دالان میں آیا۔ میرے دل میں خیال آتا تھا کہ اوّل تو حدیث میں کلام ہے دوسرے مفتی نے فتویٰ دے دیا ہے۔ بہرحال دالان میں آتے ہی مجھ پر نوم غیرطبعی (اونگھ) طاری ہوگئی۔ مَیں لیٹ گیا تو مَیں نے حضرت نبی کریمﷺ کو دیکھا۔ اس وقت آپؐ کی عمر پچیس برس کے قریب معلوم ہوتی تھی۔ گویا وہ عمر جب آپؐ کی شادی ہوئی ہوگی۔ بائیں جانب سے آپؐ کی ڈاڑھی خشخشی تھی اور داہنی طرف بال بہت بڑے تھے۔ مَیں نے سوچا کہ بال دونوں طرف کے برابر ہوتے تو بہت خوبصورت ہوتے۔ پھر معاً میرے دل میں آیا کہ چونکہ اس حدیث کے متعلق تجھ کو تأمل ہے اس لیے یہ فرق ہے۔ تب مَیں نے اسی وقت دل میں کہا کہ اگر سارا جہان بھی اس کو ضعیف کہے گا تب بھی اس حدیث کو صحیح سمجھوں گا۔ یہ خیال کرتے ہی مَیں نے دیکھا کہ دونوں طرف ڈاڑھی برابر ہوگئی اور آپؐ ہنس پڑے اور مجھ سے کہا کہ کیا تُو کشمیر دیکھنا چاہتا ہے؟ مَیں نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ!۔ آپؐ چل پڑے اور مَیں پیچھے پیچھے تھا۔ بانہال کے رستے سے ہم کشمیر گئے۔ یہ بھیرہ چھوڑنے اور کشمیر جانے کی تحریک تھی۔

ریاست جمّوں میں پہنچ کر مَیں نے ایسا باموقع ایک سرکاری بالاخانہ کرایہ پر لیا جہاں سے مجھ کو دربار آنے جانےمیں سہولت ہو۔ اس کا مہتمم بہت ضعیف العمر تھا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ شخص بدعہد ہے، آپ سال کے لیے اس سے اسٹامپ لکھالیں۔ چنانچہ مَیں نے اسٹامپ لکھالیا۔ دوسرے تیسرے دن وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ جو کرایہ آپ دیتے ہیں اُس سے دوگنا کرایہ دوسرا آدمی دیتا ہے۔ مَیں نے کہا کہ تم تو ہم کو تحریر دے چکے ہو۔ اُس نے کہا کہ مَیں اپنی تحریر کا کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ مَیں نے کہا اچھا ہم ہی دوگنا کرایہ دیں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر آیا کہ وہ آدمی چوگنا کرایہ دیتا ہے۔ مَیں نے کہا، بہت اچھا ہم چوگنا کرایہ دے دیں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد آیا کہ وہ بارہ گُنا کرایہ دیتا ہے۔ مَیں نے اُس کی پیرانہ سالی، افسری اور بدعہدی کو خیال کیا تو مجھے اس شہر سے نفرت ہوگئی۔ مَیں نے اپنے آدمی سے کہا کہ ابھی سب اسباب باندھو اور یہاں سے چلو۔ چنانچہ تمام اسباب نیچے اُتار لیا گیا۔ ایسے میں فتح نام ایک رئیس گزرے اور مجھے کہا کہ آپ تو ابھی آئے ہیں، جاتے کہاں ہیں ؟ مَیں نے سختی سے جواب دیا کہ تم لوگ بدعہد ہو، بدعہدوں میں رہنا مجھے پسند نہیں۔ وہ اس بھید کو سمجھ گئے اور اپنے آدمیوں سے کہا کہ سب اسباب اٹھاکر ہمارے مکان میں لے جاؤ۔ مَیں نے کہا کہ مجھے اس شہر میں رہنا پسند ہی نہیں۔ لیکن انہوں نے ایک نہ مانی اور سب اسباب اپنے مکان پر بھجوادیا۔ مَیں نے کہا یہاں فلاں دو درباری میرے ساتھ خاص طور پر بغض رکھتے ہیں اور مناسب نہیں کہ آپ میرے سبب اُن سے مخالفت پیدا کریں۔ وہ کہنے لگے کہ ہم کچھ پروا نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ مجھ کو اپنے گھر لے گئے اور دس برس اپنے مکان میں رکھا۔ مجھ کو، میرے طالب علموں یا میرے مہمانوں کو اس دس برس میں کوئی بھی شکایت کا موقع نہ ملا۔ مَیں اب تک ان کے وسعتِ حوصلہ پر حیران ہوں اور مجھ کو افسوس ہوتا ہے کہ مَیں اتنا ذی حوصلہ نہیں۔ اور یہ بات صرف اُن میں ہی نہیں بلکہ گھر کے ہر فرد میں تھی۔

جمّوں میں میاں لعل دین ایک ممتاز رئیس تھے جن کو مجھ سے مذہبی رنج تھا۔ ایک بار اُن کی لڑکی بیمار ہوئی، اطباء کے علاج سے مریضہ کی حالت بگڑ گئی تو مجھے بلایا۔ اُس وقت مجھے طب جدید نے فائدہ دیا جس سے وہاں حاضر طبیب ناواقف تھے۔ چنانچہ تشخیص کارگر ہوگئی اور انہوں نے باوجود کدورت مجھ کو ایک بو مع زین دیا اور خلعت بھی دیا۔

ایک بار وہاں شدید ہیضہ پھیلا تو راجہ موتی سنگھ جی کو میرے طبّی مشورے کی ضرورت پڑی۔ پھر اُن کے ساتھ گہرا تعلق پیدا ہوگیا اور جو رقم بطور شکریہ انہوں نے مجھ کو دی وہ سالہاسال برابر دیتے رہے۔ مہاراج کے ساتھ اُن کے تعلقات میں کسی قدر کدورت تھی۔ مہاراج کے ہاں ایک شاہزادہ کی شادی تھی۔ راجہ صاحب نے مجھ سے اس شادی اور کدورت کا ذکر کیا۔ مَیں نے صلاح دی کہ ضرور شادی میں چلیں۔ چنانچہ وہ شادی میں شریک ہوئے اور دونوں میں مصالحت ہوگئی۔ مَیں بھی ساتھ تھا۔ پہلی ہی منزل میں ایک ہاتھی پر سوار تھا جس پر ایک عماری تھی جس میں دو آدمیوں کے بافراغت بیٹھنے کی جگہ تھی لیکن اس میں ایک اسپرنگ کے صدمے سے مجھ کو بہت تکلیف ہوئی۔ پھر دوسری منزل میں تو مَیں سفر کے قابل نہ رہا۔ رات دس بجے مَیں نے ایک ڈاکٹر کو بلایا اور کہا کہ آپ اس کچے ورم کو چیر دیں۔ اُس نے عذر کیا کہ مَیں اوزار بند کرچکا ہوں۔ جب مَیں نے سختی سے کہا اور چاقو نکال کر دیا کہ اسی سے چیر دو تو اُس نے کہا کلوروفارم نہیں ہے۔ مَیں نے کہا اُس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس پر اُس کے دل میں طیش پیدا ہوا اور اُس نے بڑی سختی سے شگاف دیا۔ میرے کہنے پر زخم کے دونوں کنارے خوب دباکر لہو نکال دیا اور زخم سی دیا۔ اُس سے جس قدر سختی ہوسکی، کی۔ مجھے قدرتی کلوروفارم یہ ملی کہ غشی طاری ہوگئی۔ صبح کو ڈاکٹر بغیر معائنہ کیے سفر پر چل دیا۔ مَیں نے آئینہ میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ زخم خدا تعالیٰ کے فضل سے مِل گیا ہے۔ پھر اپنے قویٰ کے گھمنڈ پر مَیں ایک گھوڑی پر سوار ہوگیا۔ اگرچہ بڑی احتیاط کی لیکن چار میل پہنچ کر مجھ میں یہ طاقت نہ رہی کہ مَیں سواری پر رہ سکوں۔ چنانچہ مَیں اُتر گیا۔ باریک سی شرک کی بُو مجھ میں یہ تھی کہ آخر مہتممانِ کیمپ یہاں سے گزریں گے، وہ ضرور ہمدردی کریں گے۔ تھوڑی دیر میں ولی عہد صاحب آئے اور پوچھا کہ کیوں اُتر پڑے؟ مَیں نے کہا طبیعت اچھی نہیں، سواری نہیں کرسکتا۔ وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ اچھا کیمپ میں آؤ وہاں بندوبست ہوجائے گا۔ مَیں نے کہا کہ ایک بُت تو ٹوٹ گیا۔ لیکن نفس امّارہ نے پھر بھی یہ سمجھا کہ اس کے دوسرے بھائی آئیں گے۔ پھر وہ بھی آئے اور بڑی ہمدردی سے کھڑے ہوگئے۔ مَیں نے حالت بتائی تو وہ بھی یہ کہہ کر گھوڑا دوڑا کر چل دیے کہ آپ کیمپ میں پہنچیں۔ پھر تیسرے بھائی آئے اور وہ بھی بدستور دریافت کرکے یہی کہنے لگے کہ دوچار میل کے فاصلے پر کیمپ ہے۔ وہاں سب بندوبست ہوجائے گا۔ پھر سب سے پیچھے کیمپ کے مہتمم صاحب آئے اور انہوں نے بھی سابق رؤسا کی طرح کام لیا۔ اب مَیں لَا اِلٰہَ اِلَّااللہ کی طرف متوجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو دوسرے پر اُمید رکھتا ہے بڑی غلطی کرتا ہے۔ اتنے میں دیوان لچھمن داس (جو اُن دنوں فوجی افسر تھے)گزرے۔ مجھے دیکھا تو معاً اُتر پڑے اور حال پوچھا۔ مَیں نے کہا کہ میرے ایک پھنسی ہے اس لیے مَیں سوار نہیں ہوسکتا، آپ تشریف لے چلیں۔ انہوں نے کہا کہ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہاں اس حالت میں چھوڑ کر ہم آگے چلے جائیں۔ غرضیکہ وہ میرے پاس ہی بیٹھ گئے۔ اتنے میں اُن کی پالکی آئی تو انہوں نے اپنے آدمی کو علیحدہ لے جاکر کچھ حکم دیا اور خود گھوڑے پر سوار ہوکر چلے گئے۔ اُن کا آدمی پالکی میرے پاس لایا اور کہا کہ یہ پالکی جمّوں واپس ہونے تک آپ کے ساتھ رہے گی۔ مَیں نے اس کو خداتعالیٰ کا فضل سمجھا اور سوار ہوگیا۔ اس میں خوب آرام کا بستر بچھا ہوا تھا۔ مَیں اس میں لیٹ گیا اور شکریہ میں قرآن شریف کی تلاوت شروع کی۔ وہ ایک مہینے کا سفر تھا۔ مَیں، الحمدللہ، جلد ہی اچھا ہوگیا اور مَیں نے پالکی کو رخصت کرنا چاہا لیکن پالکی برداروں نے کہا کہ ہم تو دیوان جی کے حکم کے مطابق جمّوں تک آپ کی خدمت میں رہیں گے۔ مَیں نے اس ایک مہینے میں چودہ پارے یاد کرلیے۔ جمّوں پہنچ کر مَیں نے پالکی برداروں کو انعام دینا چاہا تو انہوں نے کہا کہ دیوان جی نے ہدایت کی تھی کہ مجھ سے کچھ نہ لیں۔ مَیں نے کہا کہ اُنہیں بتانے کی ضرورت نہیں تم رکھ لو۔ لیکن انہوں نے نہ لیا۔

اس کے بعد دیوان لچھمن داس نے میرے ساتھ اس قدر نیکیاں کیں کہ اُن کے بیان کرنے کے لیے بڑے وقت کی ضرورت ہے۔ ایک دفعہ وہ وزیراعظم ہوگئے۔ اُن کو پشتو بولنے کا بڑا شوق تھا اور ہمیشہ اپنی اردل میں پشتو بولنے والے ہی رکھتے تھے۔ وزیراعظم ہوکر انہوں نے اپنے یہاں ایسے پشتو بولنے والوں کو مقرر کیا جو کوئی دوسری زبان نہیں جانتے تھے اور حکم دیا کہ پرائیویٹ ملاقات کے لیے کوئی ہمارے ہاں نہ آئے۔ ایک روز شیخ فتح محمد صاحب نے مجھے بتایا کہ اُن کے پشتون لوگ ٹھوکریں مارمار کر لوگوں کو نکال دیتے ہیں اور بڑے بڑے لوگ وہاں جاکر ذلیل ہوچکے ہیں۔ اُس وقت رات دس بجے تھے۔ مَیں نے کہا مَیں دیوان جی کو ابھی خط لکھتا ہوں۔ شیخ صاحب نے مجھے روکا لیکن مَیں نے اُسی وقت خط لکھا کہ یہاں کے لوگ ملاقاتوں کے عادی ہیں، مَیں نے سنا ہے کہ آپ نے خطرناک پہرہ بٹھایا ہے۔ مہربانی کرکے ایک وسیع کمرہ جس میں ایرانی قالین بچھا ہوا ہو، ملاقات کے لیے مقرر فرمائیں کہ لوگ وہاں جاکر بیٹھ سکیں۔ باقی جب آپ کا جی چاہے اُس کمرے میں آئیں اور جس سے چاہیں ملاقات کریں، جس سے چاہیں نہ کریں، مگر پشتونوں سے دھکّے دلوانا آپ کی شان کے خلاف ہے۔ یہ خط ڈاک والے نے اُسی وقت اُن تک پہنچایا۔ ابھی ہم وہاں بیٹھے تھے کہ اُن کا حقیقی بہنوئی جو اُن کا پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھا، لالٹین لیے آیا کہ دیوان صاحب نے خط پڑھ کر آپ کو بلایا ہے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ اس وقت نہ جاؤ۔ لیکن مَیں چلاگیا۔ دیوان صاحب نے فرمایا کہ پہرہ مَیں نے موقوف کردیا ہے اور فلاں کمرے میں قالین بچھاکر اُسے شرفاء کی ملاقات کے لیے مخصوص کردیا ہے۔ مَیں نے اُن کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے کہا کہ ریاست میں اس طرح صفائی سے کہنے والا انسان بھی ضروری ہے اور اس لیے مَیں آپ کی بڑی قدر کرتا ہوں۔ اب مَیں کسی کو نہ روکوں گا اور آپ تو جس وقت چاہیں بِلاتکلّف تشریف لائیں۔

…٭…٭…٭…٭…٭…

محترم قارئین!کتاب کا ابتدائی نصف یہاں اختتام کو پہنچتا ہے۔ بعدازاں حضورؓ کی زندگی کے اُس بابرکت دَور کا بیان ہے جب سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آپؓ کا رابطہ استوار ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں آپؓ کے ایمان و اخلاص میں ایسی بےانتہا برکت عطا ہوتی ہے کہ گویا سونے کی یہ ڈلی کندن بن جاتی ہے۔ توکّل علی اللہ، تعلق باللہ، محبتِ قرآن اور عشق رسولﷺ میں سر تا پا غرقاب اس بابرکت وجود کی زندگی کے اس دَور میں آپؓ کی پاکیزہ ادائیں نئی شان سے جلوہ افروز ہوئیں۔ امام الزمانؑ کی شناخت کے بعد جس بےمثال اطاعت اور فدائیت کا اظہار آپؓ نے فرمایا اُس پر حضور علیہ السلام نے بے ساختہ فرمایا: ’’ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔ ‘‘

ہم جانتے ہیں کہ پُرامن مسکن کی تلاش اور صاحبِ عرفان سے فیض پانے کی خواہش میں قریہ قریہ پھرنے والا یہ بےنفس وجود جب اپنے آقا علیہ السلام کی بستی میں پہنچا تو مہدیٔ موعود کے قدموں میں ایسا سکونِ قلب پایا کہ اپنے محبوب کے اشارۂ ابرو کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے کر اُسی در پر دھونی رما بیٹھا اور پھر وہاں سے اُٹھنے کا نام نہ لیا۔ حضرت اقدسؑ نے آپؓ کی سعید فطرت پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے برملا اس کا اظہار یوں فرمایا کہ

چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے

ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقیں بودے

(کیا ہی اچھا ہو اگر اُمّت کا ہر فرد نورالدین بن جائے۔ ایسا ہونا ممکن ہے اگر ہر دل یقین کے نورسے پُرہوجائے۔ )

پیارے قارئین! کتاب کے بقیہ حصے کے مضامین کا تعارف کبھی آئندہ پیش کیا جائے گا (ان شاءاللہ)تاہم مذکورہ بالا شعر میں حضورعلیہ السلام کی ارشاد فرمودہ بےقرار تمنّا کی حکمت جاننے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے ’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ خدا کرے کہ ہمارا قدم بھی سیّدنا حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کا نقش قدم بن جائے۔ آمین

یہ بےمثال سوانح حیات احمدیہ کتب خانوں کے علاوہ ویب سائٹ ’’الاسلام ڈاٹ آرگ‘‘ (alislam.org) پر بھی دستیاب ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button