متفرق مضامین

احمدیت کے تین بنیادی عقائد

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ۔ (الصف:10)

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے دین (کے ہر شعبہ) پر کلیۃََ غالب کر دے خواہ مشرک برا منائیں۔

احمدیت کیا ہے؟

عقائد احمد یت سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے احمدیت کا تعارف حاصل کرنا ضروری ہے جو اپنی ذات میں ایک مفصل اور مستقل مضمون ہے۔ مختصر الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ

٭…احمدیت کسی نئے مذہب کا نام نہیں بلکہ اسلام ہی کی تجدید کا دوسرا نام احمدیت ہے۔ احمدیت نام ہے حقیقی اسلام کا۔ احمدیت وہ مصفیٰ آئینہ ہے جس میں اسلام کی حقیقی اور حسین تصویر نظر آتی ہے۔ احمدیت اس اسلام کی علمبردار جماعت ہے جو ہمارے محبوب آقا، محبوبِ کبریا محمد مصطفیٰﷺ کا لایا ہوا کامل و مکمل دین اور کل جہان کے لیے ازلی ابدی پیغامِ ہدایت ہے۔ احمدیت اس دَور آخرین میں اسی سچے اور حقیقی اسلام کی ترجمان جماعت ہے۔

٭…احمدیت نام ہے اس پیغام کا کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا، ہمارارسول ایک زندہ رسول، ہماری کتاب ایک زندہ کتاب اور ہمارا دین ایک زندہ دین ہے۔ اس زندگی کا ثبوت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں احیائے اسلام اور اس کی سربلندی کی خاطر جس امام مہدی اور مسیحِ موعودؑ کے آنے کا وعدہ دیا تھا، وہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہو گیا ہے۔ آنے والا آیا اور اس نے قادیان کی مقدس بستی سے ظہور فرمایا۔ وہ آیا اور نہایت پر شوکت آسمانی اور زمینی نشانوں کے ساتھ آیا اور اعلان فرمایا:

قوم کے لوگو! ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب

وادیٔ ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار

عقائدِ احمدیت

جہاں تک احمدیت کے عقائد کا تعلق ہے بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بہتر اور کون بیان کر سکتا ہے۔ آ ئیے سب سے پہلے ہم آپ کی ہی مقدس تحریرات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ بطور نمونہ دو حوالہ جات پیش کرتا ہوں۔ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:

٭…’’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ،

ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں، جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ و سلم، خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہوچکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔ ‘‘

(ازالۂ اوہام حصہ اول روحانی خزائن جلد 3 صفحہ169تا170)

٭…’’ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشرِ اجساد اور روزِ حساب حق اور جنّت حق اور جہنم حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اﷲ جلّ شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبیﷺ نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ

اور اسی پر مریں۔ اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں۔ اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کر دہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے۔ اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے۔ ‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ323)

عقائدِ احمدیت کی امتیازی شان

عقائدِ احمدیت کے اس اجمالی ذکر کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عقائدِ احمدیت کی امتیازی شان کا بھی مختصراًذکر کر دیا جائے۔ عقائدِ احمدیت کی سب سے نمایاں اورامتیازی بات یہ ہے کہ اس کے جملہ عقائد اور شرائطِ بیعت کی بنیاد قرآنِ مجید پر ہے اور ہم یہ بات علیٰ وجہ البصیرت ایک چیلنج کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کا بیان فرمودہ کوئی بھی عقیدہ یا بیان قرآنِ مجید سے ہرگز متصادم نہیں۔ عقائدِ احمدیت کی یہ خوبی ایسی ہے جو سعادت مند لوگوں کے پاک دلوں پر فوری اثر کرتی ہے۔ اس ضمن میں حضرت مولوی غلام نبی صاحب خوشابیؓ کے قبولِ احمدیت کا واقعہ یاد رکھنے کے لائق ہے۔

جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کی آیات سے وفاتِ مسیح کا ثبوت دیا تو آپؓ نے برملا تسلیم کر لیا کہ اس بارے میں قرآن مجید تو آپؑ کے ساتھ ہے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا:

’’جب قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو پھر آپ کس کے ساتھ ہیں؟‘‘

مولوی صاحبؓ ایک خدا ترس بزرگ تھے حضرت اقدسؑ کی بات سن کر رو پڑے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور ہچکی بندھ گئی۔ بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ قرآن مجید آپؑ کے ساتھ ہے تو یہ خطاکار اور گنہگار بھی حضور کے ساتھ ہے ! یہ کہا اور فوراََ ہی غلام نبی واقعۃً وقت کے نبی کا غلام بن گیا !

دوسری امتیازی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے بعد ان سب عقائد کی بنیاد ہادی کامل، خاتم النبیّین محمد مصطفیٰﷺ کے مبارک اسوہ یعنی سنتِ نبوی اور آپ کے مبارک ارشادات و اقوال یعنی احادیث ِنبویہ پر ہے۔ پھرعقائد ِاحمدیت کی ایک اور امتیازی شان یہ ہے کہ بانی ٔجماعت احمدیہ سیدنا حضرتِ اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو علام الغیوب خدا کی طرف سے وحی و الہام کا فیضان بھی عطا ہوا تھا۔ جو قدم قدم پر آپ کی راہ نمائی اور دستگیری کا ذریعہ بنا۔

سب عقائدِ احمدیت کا ذکر تواس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ بطور نمونہ تین عقائد کا ذکر کرتا ہوں۔

حیات ووفاتِ مسیح علیہ السلام

جماعت احمدیہ کے امتیازی اور اساسی عقائد میں سے ایک عقیدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پختہ عمر میں طبعی وفات کا عقیدہ ہے۔ عیسائیت کے لحاظ سے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی صلیبی موت اور بعد ازاں جی اٹھ کر اَبدی حیات پانے کا عقیدہ اس لیے اہم ہے کہ یہی عقیدہ الو ہیت مسیح، تثلیث اور کفارہ کی بنیاد ہے۔ یہ بنیاد نہ رہے تو عیسائیت کی ساری عمارت دھڑام سے زمین پر آرہتی ہے۔ اور یہ بات خود عیسائیوں کو بھی مسلم ہے۔

اور جہاں تک مسلمانوں کاتعلق ہے حیات و و فات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے مابین ایک فیصلہ کن اور بنیادی اہمیت کا عقیدہ ہے۔ جب تک یہ مسئلہ پوری طرح حل نہ ہوجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیلِ مسیح ہونے کے دعوی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسٰی کی وفات ہے‘‘

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ246)

نیز فرمایا:

’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات حیات ہے۔ اگر حضرت عیسٰی در حقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگروہ درحقیقت قرآن کے روسے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں ‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 264حاشیہ)

ہر دو اعتبار سے اس عقیدہ کی اساسی اہمیت کے پیش نظر سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتب میں اس بات کو خوب کھول کھول کر بیان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیبی موت سے معجزانہ طور پر نجات پا کر اپنے فرض کی تکمیل کی خاطر بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں مشرق کی طرف ہجرت کر گئے اور اپنافرض پورا کرنے کے بعد 120 سال کی عمر میں طبعی وفات پاگئے اور ان کا مزار سرینگر کشمیر میں موجودہے۔ قرآن مجید کی واضح تعلیم کے مطابق چونکہ کوئی مرنے والا قیامت سے پہلے نہ کبھی د نیا میں واپس آیا، نہ واپس آسکتا ہے اس لیے حضرت مسیح کے نزول کی جو پیشگوئی احادیث میں مذکور ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ آخری زمانہ میں کوئی اور وجود حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے مثیل کے طور پر آئے گا۔ حضرت بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام نے اپنے آ پ کو اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیتے ہوئے بڑے یقین اور وثوق سے اعلان فرمایا:

’’اُس (خدا) نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس کا الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اﷲفوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے۔ ‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ402)

جہاں تک حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طبعی وفات کاتعلق ہے یہ ایک بہت ہی سادہ اور آسان فہم مسئلہ ہے۔ حضرت مسیح ناصری ایک انسان کے طور پر اس دنیا میں آئے اور ہر انسان کے لیے موت کے دروازہ سے گزرنا لازم ہے۔ اس قاعدے میں کوئی ایک بھی استثنانہیں۔ جب رسولوں کے سرتاج، ہمارے پیارے آقا، محبوب خداﷺ بھی اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے تو اور کون ہو سکتا ہے جو اس راہ سے نہ گزرے؟

بدنیا گر کسے پائندہ بودے

ابو القاسم محمدؐ زندہ بودے

اگر دنیا میں کوئی شخص زندہ رہتا یا اس کا حق رکھتا تو وہ قاسم کے والد محمد مصطفیٰﷺ ہوتے۔

ویسے بھی اگر موت سے بچ جانا اورزندہ رہنا کوئی قابلِ فخر یا امتیازی بات ہے تو اس کے سب سے زیادہ حق دار تو ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔

غیرت کی جا ہے عیسیٰ زندہ ہو آسماں پر

مدفون ہو زمیں میں شاہِ جہاں ہمارا

جو لوگ ہر بشر کی موت کے دائمی قانون سے ہٹ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ خیال کرتے ہیں ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ قرآن مجید سے اپنے عقیدے کا تائیدی ثبوت مہیا کریں۔ عجیب بات ہے کہ غیر احمدی حضرات حیاتِ مسیح کی تائید قرآن مجید سے دکھانے کی بجائے وفات مسیح کی آیات دکھانے کا مطالبہ ہم احمدیوں سے کرتے ہیں جو اپنی ذات میں ایک غیر منطقی اور غیر معقول مطالبہ ہے۔ ایک غیر احمدی مولوی نے یہی مطالبہ ایک بار ربوہ میں ایک مجلس میں کیا۔ بات پنجابی زبان میں ہو رہی تھی۔ جب اسے یہ جواب دیا گیا کہ

’’باقی نبیاں نوں آیتاں نال ماریا اے؟‘‘

کہ کیا تم نے باقی سب نبیوں کو، جن کو تم فوت شدہ مانتے ہو، قرآن مجید کی آیات دیکھ کر فوت شدہ تسلیم کیا ہے؟ تو وہ فوراً کہنے لگے کہ یہ بات مجھ پر خوب واضح ہو گئی ہے اور اب مجھے کسی حوالےکی ضرورت نہیں !

امرِ واقعہ یہ ہے کہ وفات مسیح کا ثبوت قرآن مجید کی ایک یا دو آیات سے نہیں بلکہ قرآن مجید کی 30آیات سے ہوتاہے۔ جن کا ذکر حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام حصہ دوم میں فرمایاہے۔ آپ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

ابن مریم مر گیا حق کی قسم

داخلِ جنت ہوا وہ محترم

وہ نہیں باہر رہا اموات سے

ہو گیا ثابت یہ تیس آیات سے

مارتا ہے اس کو فرقاں سر بسر

اس کے مر جانے کی دیتا ہے خبر

قرآن مجید کی آیات کریمہ کے علاوہ بے شمار احادیث نبویّہ، اقوال صحابہ کرامؓ، قریباً ہر صدی کے نمایاں بزرگان امت کے ارشادات، شرق و غرب کے علمائے کرام و محققین کے بیانات اورتاریخی و عقلی دلائل اس کثرت سے موجود ہیں کہ اس جگہ ان سب امور کا احاطہ بلکہ اشارہ بھی ممکن نہیں۔

قرآن مجید میں مذکور دلائل میں سے ایک قطعی اور یقینی دلیل یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں دوبار توفیکا لفظ آیاہے۔ اور عربی لغت کے لحاظ سے یہ لفظ قبضِ روح اور موت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن غیر احمدی حضرات ہمیشہ اس کا ترجمہ کرتے ہوئے راہ ِفرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب یہی لفظ 23 اَور مقامات پر قرآن مجید میں آتا ہے تو ہر موقع پر غیر احمدی اس کا ترجمہ قبضِ روح اور موت کا کرتے ہیں لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے تعلق میں اس کا ترجمہ بدل دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ انحراف بالبداہت غلط اور بے ثبوت ہے اور حقیقت سے آنکھیں بند کرنے والی بات ہے۔

لفظ توفی کے بارے میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے لکھا ہے کہ صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث میں 346 بار توفیکا لفظ آیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:

’’میں نے ان کتابوں کو بڑی کوشش اور جانکاہی سے سطر سطرپر نظر ڈال کر دیکھ لیا ہے اس لئے میں دعویٰ سے اور شرط کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہر یک جگہ جو توفی کا لفظ ان کتابوں کی احادیث میں آیا ہے اس کے بجز موت اور قبضِ روح کے اَور کوئی معنی نہیں …کبھی آنحضرتﷺ نے توفیکا لفظ بغیر معنی موت اور قبض ِرُ وح کے کسی دوسرے معنی کے لئے ہرگز استعمال نہیں کیا اور نہ کبھی دوسرے معنی کا لفظ زبان ِمبارَک پر جاری ہوا…‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 584)

نیز لکھا ہے کہ حضرت امام محمداسمٰعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے توجہ دلائی ہے کہ

’’کم سے کم سات ہزار مرتبہ توفیکا لفظ آنحضرتﷺ کے مُنہ سے بعثت کے بعد اخیر عمر تک نکلا ہے اور ہر یک لفظ توفی کے معنے قبضِ رُوح اور موت تھی۔ ‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 585)

اس گہری تحقیق کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لفظ توفی کے بارے میں چیلنج دیتے ہوئے تحریر فر مایا ہے:

’’اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہﷺ سے یا اشعار و قصائد و نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفّی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجز قبضِ روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبضِ جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جلّ شانہ، کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالاتِ حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کر لوں گا۔ ‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ603)

حضرت مسیحِ محمدی،

جَرِیُ اللّٰہ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ،

کے اس چیلنج پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور یہ چیلنج آج بھی اسی طرح قائم ہے

آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند

ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

امت مسلمہ میں سب سے پہلا بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ حقیقی رنگ میں واحد اجماع اگر کسی بات پر ہوا ہے تو وہ وفات مسیح علیہ السلام کا مسئلہ ہے۔ رسول مقبولﷺ کے وصال پر صحابہ مارے غم کے دیوانہ ہو رہے تھے۔ حضرت عمرؓ مسجد نبوی میں آئے اور تلوار نیام سے نکال کر کہنے لگے کہ اگر کوئی یہ کہے گا کہ رسول اللہؐ فوت ہو گئے ہیں تو خدا کی قسم !میں اس کا سر تن سے جدا کر دوں گا۔ صحابہ دم بخود تھے۔ کسی میں بولنے کی ہمت نہ تھی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر عزم، ہمت اور فراست عطا فرمائی۔ آپؒ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی:

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ (آل عمران:145)

کہ محمدؐ تو صرف خدا کے ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے جتنے رسول گزرے ہیں وہ سب کے سب فوت ہو چکے ہیں۔ توکیا اگر آپؐ بھی وفات پا جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائوگے؟

روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ، باوجود شدید صدمہ اور جوش کے، یہ آیت سنتے ہی خاموش ہو گئے اور اس قدر غم طاری ہوا کہ لڑکھڑ ا کر زمین پر گر گئے۔ اس آیت کریمہ نے سب پر یہ بات پوری طرح واضح کردی کہ بشر ہونے کے ناطے سب رسول اس دنیا سے گزر چکے ہیں پس رسول پاکﷺ بھی اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے ہیں۔ یہ امّتِ مسلمہ کا ایسا تاریخی اجماع ہے جو اپنی شوکت اور قطعیت میں بے نظیر ہے۔ اگر حضرت عمرؓ یا کسی اور صحابی کو کسی ایک مثال کا بھی علم ہوتا کہ کوئی سابقہ نبی زندہ ہے تو وہ ضرور بولتے۔ لیکن سارے صحابہ کرامؓ کی مکمّل خاموشی اور کامل اتفاق نے اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ آپؐ سے پہلے کے تمام انبیاء جن میں حضرت مسیح ناصریؑ بھی شامل ہیں یقیناََ فوت ہو چکے ہیں۔ امتِ مسلمہ کا یہ عظیم الشان اجماع وفات عیسیؑ پر ایسی مسکِت دلیل ہے جس سے کوئی حق پسند ہرگز انکار نہیں کر سکتا۔

فیضانِ ختم نبوت

دوسرا اہم اور بنیادی مسئلہ جس میں جماعت احمدیہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں سے اختلاف کرتی ہے وہ ختم نبوت کی حقیقت اور اس کے فیضان سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین بیان فرمایا ہے اور جماعت احمدیہ صدق دل سے آپؐ کو خاتم النبیین یقین کرتی ہے۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام فر ماتے ہیں:

’’مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے، یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوتِ یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرتﷺ کو خاتم الانبیا ء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے…ہم بصیرتِ تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرتﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 342)

اپنے منظوم کلام میں فرمایا:

ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں

دل سے ہیں خدامِ ختم المرسلیں

شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں

خاکِ راہِ احمدِ مختار ہیں

غیر احمدی حضرات کا کہنا ہے کہ رسول پاکﷺ کے آنے سے انبیاء کا سلسلہ اب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے۔ اب آئندہ کسی قسم کا کوئی نبی ہرگز نہیں آسکتا۔ جماعت احمدیہ ختم نبوت کی اس تشریح سے برملا اختلاف کرتی ہے کیونکہ یہ نظریہ قرآن مجید، احادیث نبویہؐ، نبی پاکﷺ کی بلند شان اور امت محمدیہ کے بلند مر تبہ سے کھلم کھلا متصادم ہے۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے جو بہت تفصیل کا متقاضی ہے۔ میں اس جگہ صرف ایک پہلو کا ذکرکروں گا جس کا تعلق فیضان نبوت سے ہے۔

غیر احمدی عقیدہ کے مطابق آنحضرتﷺ کو زمانی لحاظ سے آخری نبی ماننے کاتو یہ مطلب بنتا ہے کہ نبوت کا فیضان جو اسلام سے پہلے جاری چلا آ رہاتھااور اسلام سے پہلے کی سب امتیں ایک کے بعددوسرے نبی کا فیض پاتی رہیں۔ لیکن اب آنحضرتﷺ کے آنے کے بعد نبوت کا یہ انعام ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ہے۔ اب یہ نعمت ہمیشہ کے لیے اٹھالی گئی۔ اب اس خیر امت کو ہمیشہ کے لئے اس عظیم انعام اور برکت سے محروم کردیا گیا ہے !

انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔

اس بھیانک اور خوفناک عقیدہ کے مقابل پرجماعت احمدیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمدمصطفیٰﷺ سب نبیوں سے افضل ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے صاحبِ کوثر بنایا۔آپ کو خیرِکثیر عطا فرمایا۔ آپ کو فضلِ عظیم سے نوازا۔کیسے ممکن ہے کہ آپؐ کے آنے سے خیر و برکت کا یہ سلسلہ بند ہو جائے۔ آپؐ کی شان اس میں نہیں کہ آپ فضلوں کو بند کریں بلکہ آپؐ کی ارفع شان کا تقاضا تو یہ ہے کہ آئندہ ہر خیر و برکت اور ہر روحانی مقام ومرتبہ آپ کے دامنِ فیض سے وابستہ ہو۔ یہی آپ کی ختم نبوت کا صحیح مفہوم ہے جس سے آپؐ کی شانِ خاتمیت ثابت ہوتی ہے۔

آنحضرتﷺ کی شانِ نبوّ ت کا یہ پہلو یعنی افاضۂ کمالاتِ روحانیہ اپنے اندر بہت عظمت، شوکت اور وسعت رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا (الاحزاب:41)

اس آیت میں جہاں آپؐ کی جسمانی ابوّت کی نفی فرمائی۔ اس کے ساتھ ہی ذہن میں پیدا ہونے والے ہر نقص کے خیال کی نفی کرتے ہوئے آپؐ کے خاتم النبیین ہونے کا اعلان کردیا ہے جس کا واضح مضمون یہ ہے کہ گو آپؐ اُمّت کے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن آپؐ کا روحانی فیضان قیامت تک جاری رہے گااور ہر دور میں ایسے عاشقان ِرسول اور محبّانِ محمدﷺ پیدا ہوتے رہیں گے جو اس مقدس نبی کے دامنِ فیض سے وابستہ ہوکر روحانی زندگی پاتے رہیں گے۔ اس طرح ابد تک کوئی زمانہ بھی آپؐ کے فیضان سے محروم نہ رہے گا۔ جسمانی اولاد تو ختم ہوسکتی ہے لیکن محمدی چشمہ سے آبِ حیات پینے والے یہ غلامانِ محمدؐ کبھی ختم نہ ہوں گے بلکہ ہر دَور میں اس بزرگ نبی اور ہادی ٔ برحقﷺ کی دائمی حیات اور لازوال فیض رسانی کا اعلان کرتے رہیں گے۔ حضرت مسیحِ پاک علیہ السلام فرما تے ہیں:

’’اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضۂ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا۔ ‘‘

( کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 14)

خاتمیتِ محمدیہ کی بہترین تفسیر اور امتِ مسلمہ کو ملنے والے روحانی درجات کی تفصیل سورۃ النساء کی آیتِ کریمہ میں ملتی ہے۔ جس کے الفاظ یوں ہیں:

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا (النساء:70)

کیا ہی عظیم الشان مقام ہے اورکس قدر دلربا فیضانِ نبوّت ہے جس کا ذکر اِس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روحانیت کے چاروں مراتب مل سکتے ہیں لیکن صر ف اس کو، جو اللہ تعالیٰ کی اور ہمارے اِس رسول یعنی محمد مصطفیٰﷺ کی اطاعت میں فنائیت کا مقام حاصل کرنے والا ہوگا۔ گویا روحانیت کا ہرمرتبہ اورکمال اور روحانیت کا ہر فیضان آپ کی غلامی سے وابستہ ہے۔ یہ مقام صر ف اور صرف ہمارے آقا حضرت خاتم النبیینﷺ کو عطا کیا گیا کہ آ پؐ کا سچا متبع اور پَیروکار صدیقیت، شہادت اور صالحیت ہی نہیں بلکہ امتی نبوّت کے مقام پر بھی سرفراز ہوسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اللہ جلّشانہٗ نے آنحضرتﷺ کو صاحبِ خاتَم بنایا یعنی آپؐ کو افاضۂ کمال کے لئے مُہردی جوکسی اَور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپ کا نام خاتَم النبیّین ٹھہرا۔ یعنی آپؐ کی پیروی کمالاتِ نبوّت بخشتی ہے اورآپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔ اور یہ قوّتِ قدسیہ کسی اورنبی کو نہیں ملی۔ ‘‘

( حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22، صفحہ 100حاشیہ )

آنحضرتﷺ کے فیضان کا یہ بحرِذخّار تخلیقِ کائنات کے وقت سے موجزن ہے۔ ہر دَورنے اس فیضان سے حصہ پایا۔ گذشتہ انبیاء آپ کی مہرِ تصدیق سے سچے سمجھے گئے اور پھر آپ کے اپنے زمانہ میں افاضۂ کمالاتِ روحانیہ کا ظہور اس رنگ میں ہواکہ عرب کے وہ باشندے جو دین و دنیا سے ناواقف اور تہذیب و تمدّن سے نا آشنا تھے، روحانیت سے بےبہرہ اورقرب الٰہی کی لذّت سے محروم تھے، ہاں وہی باشندے جو خاک کے ذرّوں سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے، یہی خاک کے ذرّے آفتابِ نبوّت ِمحمد یہ سے فیضیاب ہوکر اور چراغِ مصطفویؐ کی نورانی کرنوں سے منور ہو کر ہمدوش ثریا ہوگئے۔ جاہل عالم بن گئے رُوحانیت سے بے بہرہ کمالِ روحانیت کے علمبردار بن گئے اور قربِ الٰہی کی لذّت سے ناآشنا لو گ خدا نما وجود بن گئے۔ یہ عظیم الشان روحانی انقلاب ہے مگر آنحضرتﷺ کے افاضۂ کمالِ روحانی کا ایک ادنیٰ کرشمہ!

آنحضرتﷺ کے افاضۂ کمالِ روحانی کا سراج منیر ہرزمانےکواپنی نورانی شعاعوں سے منوّر کرتا رہا ہے۔ آنحضرتﷺ کے و صال کے بعد محمدیؐ فیض کی برکت سے آسمانِ روحانیت پر ہزاروں ستارے چمکے جنہوں نے اپنےاپنے وقت پر رشد و ہدایت اور تجدیدکا فریضہ سرانجام دیا اور بالآخر ہمارے اِس زمانہ میں شانِ محمدؐ ی کا ایک نہایت حسین جلوہ دنیا نے دیکھا۔ محمدی آفتاب کے نور سے منو ّر ہو کر ایک ماہتاب محمد یؐ جلوہ گر ہوا۔ قادیان کی مقدس بستی سے جو ایک وقت میں ایک گمنام بستی تھی اوراب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرجع خاص و عام بنی ہوئی ہے، ہاں اسی مہبط انوار بستی سے ایک خاتَمِ عشاقِ محمدﷺ اٹھا۔ اس نے فدائیت او ر فنائیت کا ایسا کامل نمونہ دکھایا کہ عرش کے فرشتوں نے گواہی دی کہ

ھَذَا رَجُلٌ یُّحِبُ رَسُوْلُ اللّٰہِ

اور دیکھو کہ پھر خدا ئے ذوالعرش نے اتّباع ِنبوّت محمدی کی برکت سے عشقِ محمدی کے پیکر، سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ظلی طور پر نبوت کے بلند روحانی مقام پر فائز فرمادیا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس زمانے میں فیضان محمدیﷺ کے زندہ گواہ کے طور پر کھڑاکر دیا!

آپؑ فرماتے ہیں:

’’یہ شرف مجھے محض آنحضرتﷺ کی پَیروی سے حاصل ہوا۔ اگرمَیں آنحضرتﷺ کی اُمّت نہ ہوتا اورآپؐ کی پَیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑ وں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھربھی مَیں کبھی یہ شرفِ مکالمہ و مخاطبہ ہر گز نہ پاتا۔ ‘‘

(تجلّیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ411تا412)

آپؑ مزید فرماتے ہیں:

’’مَیں اس خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں جس کانام لے کر جھوٹ بولنا سخت بدذاتی ہے کہ خدا نے مجھے میرے بزرگ واجب الاطاعت سیّدنا محمدﷺکی روحانی دائمی زندگی اورپورے جلال اورکمال کا یہ ثبوت دیا ہے کہ مَیں نے اس کی پیروی سے اوراس کی محبت سے آسمانی نشانوں کو اپنے اُوپر اُترتے ہوئے اوردل کویقین کے نُورسے پُر ہوتے ہوئے پایا۔ اور اس قدر نشان ِ غیبی دیکھے کہ ان کھُلے کھُلے نُوروں کے ذریعہ سے مَیں نے اپنے خدا کودیکھ لیا ہے۔ ‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 140)

آپؑ نے کیا خوب فرمایا ہے:

سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا

وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے

اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں

وہ ہے، میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

آنحضرتﷺ کا یہ افاضۂ کمالِ روحانی تاقیامت جاری ہے اور ہر دَور میں آپؐ کی نبوتِ تامّہکے افاضۂ کاملہ کے مظہر ظاہرہوتے رہیں گے جو آپؐ کی جاودانی حیات اوربرکات کے زندہ گواہ ہوں گے۔

جہاد کی حقیقت

ایک اور اہم مسئلہ جس کے بارے میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو سخت غلطی لگی ہے وہ جہاد کا مسئلہ ہے۔ خاص طور پر دنیا کے موجودہ حالات میں اس نے غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ آج کل نادان مسلمانوں نے یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ ہمارا دین چونکہ سچّا ہے اس لیے اس کے پھیلانے کے لیے جبر کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ بہت بڑا کارِ ثواب ہے۔ اسی بنا پر وہ نوجوانوں کو یہ غلط اُمید بھی دلاتے ہیں کہ جو کوئی کسی کافر کو مار ے گا، وہ سیدھا جنت میں جا ئے گا۔ اس کے ساتھ ان کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ آخری زمانے میں آنے والا مہدی بھی ایک خونی مہدی ہوگا۔ اگر کافر اس کے ہاتھ پر اسلام قبول نہیں کریں گے تو وہ ان کے ساتھ جنگ کرے گا اور ساری زمین کو ان کے خون سے بھردے گا۔

حق یہ ہے کہ یہ سب تصورات کلیۃً باطل اور بے حقیقت ہیں۔ ان کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اسلام تو امن و سلامتی اور محبت و پیار کا مذہب ہے۔ جب اسلام کے لفظی معنی ہی امن کے ہیں تو یہ جبر و اکراہ اور خونریزی کی تعلیم کیسے دے سکتا ہے؟ پھر قرآنِ مجید صاف صاف لفظوں میں یہ اعلان کر تا ہے کہ لاَ اِکرَاہَ فِیْ الدِّیْنِکہ دین کے معاملہ میں ہرگز کوئی جبر جائز نہیں۔ قرآنِ مجید اور احادیث اس مضمون کو بار بار بیان کرتی ہیں اور رسولِ کریمﷺ کا اُسوہ ایک کھلی کتا ب کی طرح اس حقیقت کو ثابت کر تا ہے کہ آپﷺ نے اور آپؐ کے صحابہ نے کبھی ایک بار بھی جبراََ کسی کافر کو مسلمان نہیں بنایا اور نہ کبھی اس غرض سے تلوار اُٹھائی۔ اسلامی تاریخ میں جن جنگوں کا ذکر ملتاہے وہ سب کی سب کفّار کے مظالم اور خونی کارروائیوں سے تنگ آکر خودحفاظتی اور دفاع کی خاطر کی گئیں۔

جہاںتک مہدی کی پیشگوئی کا تعلق ہے، رسولِ پاکﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ جنگ کرنا تو در کنار، آنے والا مسیح اور مہدی (جو در اصل ایک ہی وجود کے دو نام ہیں )دنیا میں امن اور سلامتی کا علمبردار ہوگا۔ وہ دلائل اور براہین سے مخالفین کے دل جیتے گا۔ اور مذہبی جنگوں کا اس کے زمانے میں کوئی نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔ آپؑ نے فرمایا:

ایسا گماں کہ مہدیٔ خونی بھی آئے گا

اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا

اے غافلو یہ باتیں سراسر دروغ ہیں

بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں

حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنی تحریرات میں یہ امر خوب کھول کر بیان فرمایا ہے کہ جہاد کا مسئلہ سچا اور برحق ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی مختلف اقسام کا ذکر فرمایا ہے۔ سب سے مقدم اور افضل نفس کی اصلاح کا جہاد ہے۔ اس جہادِ اکبر کا سلسلہ ایک مومن کی زندگی میں ہر وقت جاری رہنا چاہیے۔ قرآنِ کریم کے ذریعہ اشاعتِ اسلام کو جہادِ کبیر قرار دیا ہے۔ نیز انفاق فی سبیل اللہ بھی جہاد کی ایک قسم ہے۔ اوراگر ایسی صورت پیش آئے کہ کوئی قوم اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو صفحہ ٔہستی سے نابود کرنے کے لیے ان کے خلاف تلوار اٹھائے اور جنگ کی طرح ڈا لے تو اس صورت میں اپنے دفاع کی خاطر، امامِ وقت کی قیادت میں، جوابی کارروائی کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن یہ دفاعی قتال جہاد کی ایک ادنیٰ قسم ہوگی۔

اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جہاد کا مضمون ان قرآنی سورتوں میں بھی موجود ہے جو مکّی دَور میں نازل ہوئیں اور تیرہ سال کا عرصہ ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰﷺ نے دن رات جہاد میں گزارا لیکن آپؐ نے ہرگز تلوار ہاتھ میں نہیں لی۔ بالآخرہجرتِ مدینہ کے بعد جب دشمن حملہ آور ہوئے تواللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملنے پر صحابہؓ نے دفاعی کارروائی کی۔ اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ رسولِ پاکﷺ کی ساری زندگی میں ان دفاعی جنگوں کا کُل عرصہ 126 دنوں سے زیادہ نہیں بنتا۔ جبکہ اصلی اور حقیقی جہاد کا مضمون آپؐ کی تریسٹھ (63) سالہ زندگی میں مسلسل، بلا وقفہ دن رات جاری رہا۔ اس تجزیہ سے اور رسولِ پاکﷺ کے بابرکت نمونہ سے جہاد کی حقیقت خوب واضح ہوجاتی ہے۔

جہاں تک موجودہ زمانے میں جہاد بالسیف کا تعلق ہے، حضرت مسیح موعودؑ نے واضح فرمایا ہے کہ یہ زمانہ جنگ و جدال اور لڑائی کا زمانہ نہیں کیونکہ دشمن اب اس ذریعے سے اسلام پر حملہ آور نہیں۔ پس اس زمانے میں وہ حالات نہیں جن میں دفاعی طور پر قتال کی ضرورت ہو۔ البتہ جہاد ایک جاری و ساری مضمون ہے اور موجودہ دَور کا جہاد یہ ہے کہ جس طرح دشمنانِ اسلام قلم اور تحریرات کے غلط استعمال کے ذریعے اسلام کے خلاف مصروفِ عمل ہیں ان کے حملوں کا جواب بھی قلم ہی کے ذریعہ دیا جائے چنانچہ خود حضرت سلطان القلم مسیحِ موعود علیہ السلام نے قریباََ 90کتب تحریر فرما کر اسلام کے دفاع کا حق ادا فرمایا اور اس میدان میں ایک بے مثال نمونہ پیش فرمایا۔ آپؑ نے فرمایا کہ مسیح اور مہدی کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں دفاعی قتال والے جہاد کے التوا کا اعلان کر دیا ہے۔

حضرت مسیحِ پاک علیہ السلام نے فرمایا ہے:

فرما چکا ہے سیّدِ کونین مصطفیٰؐ

عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا

جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا

جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا

القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشاں

کر دے گا ختم آ کے وہ دیں کی لڑائیاں

آپؑ مزید فرماتے ہیں:

یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے

کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے

گذشتہ ایک سو سال سے زائد عرصہ میں مسلمانوں کی ہر جگہ اور ہر موقع پر جہاد کے نام پر لڑائیوں میں عبرتناک ناکامیاں اس پیشگوئی کو حرف بہ حرف سچاثابت کر رہی ہیں۔

جہاد کے بارے میں جماعت کا موقف خودحضرت مسیحِ موعود علیہ السلام سے بہتر اور کون پیش کر سکتا ہے۔ آپ کے چند اور پُر معارف ارشادات پیش کرتا ہوں۔ ان کے بیان کرنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان ارشادات میں جہاد کی نفی یا ختم ہونے کا جو ذکر آتا ہے اس سے مراد صرف دین کے پھیلاؤ کی خاطر قتال کرنا مراد ہے جیسا کہ قریباًہر جگہ سیاقِ کلام سے خوب واضح ہے اور یہ بات صراحت کے ساتھ جگہ جگہ آپ کے نثری بیانات میں بھی ملتی ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے جہاد کی پر امن اقسام کی کبھی اورکسی جگہ ہرگز ممانعت نہیں فرمائی بلکہ ان کی تاکید سے تو آپ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ اور آپ کی ساری زندگی میں بھی اس کا بہترین نمونہ نظر آتا ہے۔

آپؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال

دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال

اب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے

دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے

اب آسماں سے نورِ خدا کا نزول ہے

اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے

دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد

منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد

ان اشعار میں ’’دین ‘‘اور ’’اب‘‘کے الفاظ کی تکرار سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت دین کی اشاعت کی غرض سے جنگ کرنا بالکل منع اور حرام ہے اور بالخصوص موجودہ حالات میں جبکہ دشمن، اسلام کے خلاف یہ طریق اختیار نہیں کرتا، اس قتال کا ہرگز ہرگز کوئی جواز نہیں اور جب تک یہ صورتِ حال رہے گی مسیح الزمان کا یہ فیصلہ اسی طرح ناطق اور نافذ رہے گا۔ پھرآپؑ فرماتے ہیں:

’’لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائےگا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مسیح نہ تلوار اٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اس کی دُعا اس کا حربہ ہوگا اور اس کی عقدِ ہمت اس کی تلوار ہوگی۔ وہ صلح کی بنیاد ڈا لے گا…اور اس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہوگا۔ ‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17صفحہ 8)

پھرآپؑ کس شان سے فرماتے ہیں:

’’اے اسلام کے عالمو اور مولویو ! میری بات سنو !میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے۔ خدا کے پاک نبی کے نافرمان مت بنو، مسیح موعود جو آنے والا تھا آ چکا۔ اور اس نے حکم بھی دیا کہ آئندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اورکُشت وخون کے ساتھ ہوتی ہیں با ز آجائو۔ تو اب بھی خون ریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے مُنہ بند نہ کرنا طریق ِ اسلام نہیں ہے۔ ‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17صفحہ 8تا9)

مزید تاکید سے فرمایا:

’’جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا اور قرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی کاربند ہو رہے ہیں یہ اسلامی جہاد نہیں ہے۔ بلکہ یہ نفس امّارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمعِ خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں۔ ‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17صفحہ 9تا10)

موجودہ زمانے میں نظر آنے والی دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا:

’’یہ موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے کا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد رکھتے ہیں یہ شرعی جہاد نہیں ہے بلکہ صریح خدا اور رسول کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت ہے‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17صفحہ 17)

ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص اس وقت دین کے لئے لڑائی کرتا ہے یا کسی لڑنے والے کی تائید کرتا ہے یا ظاہر یا پوشیدہ طور پرایسا مشورہ دیتا ہے یا دل میں ایسی آرزوئیں رکھتا ہے وہ خدا اور رسول کا نافرمان ہے، ان کی وصیتوں اور حدود اور فرائض سے باہر چلا گیا ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ المہدی، روحانی خزائن جلد14 صفحہ6)

صلح اور امن و آشتی کے منادی، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے ساری امتِ مسلمہ کو ایک پُر درد پیغام دیا اور اپنی جماعت کو پرامن رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

’’دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے۔ مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے۔ اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے۔ صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں۔ دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور دردمندوں کے ہمدرد بنیں۔ زمین پر صلح پھیلا ویں کہ اس سے ان کا دین پھیلے گا۔ ‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17صفحہ 15)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کے مطابق، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتِ احمدیہ پرامن جہاد کی سب راہوں پر دن رات گامزن ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس وقت جماعتِ احمدیہ ہی وہ واحد جماعت ہے جو اسلامی جہاد کا فریضہ نہایت کامیابی اور سرخروئی سے ساری دنیا میں ادا کر رہی ہے۔ اصلاحِ نفس کا جہاد ہویا راہِ خدا میں مالی قربانیاں پیش کرنے کا، تبلیغ کا میدان ہو یا اشاعتِ قرآن کا، نیکی کی ہر راہ میں جماعتِ احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دن رات سرگرمِ عمل نظر آتی ہے۔ حقیقی جذبہ ٔجہاد سے سرشار، سرفروشانِ اسلام کی یہ جماعت پر امن جہاد کے ان مبارک میدانوں میں آگے سے آگے بڑھتی جا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حقیقی جہاد کا علَم ہمیشہ سربلند رکھے گی۔ ان شاء اللہ

اختتامیہ

دَورِ آخرین میں اسلام کا عالمگیر غلبہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ مقدر ہے جو صحیح اسلامی عقائد کی علمبردار اور حقیقی اسلام کی ترجمان ہے۔ جماعت احمدیہ عالمگیر کے بانی حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی بابرکت تحریرات میں سے دو مختصر حوالوں کے ساتھ اپنے مضمون کو مکمل کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں:

’’دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا۔ یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں۔ یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔ ‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ 182)

جماعت احمدیہ کی مجموعی ترقی کا نقشہ کھینچتے ہوئے پُرشوکت الفاظ میں فرماتے ہیں:

’’اے تمام لوگو ! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا۔ اور ہر ایک کو جواس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مراد رکھے گا۔ اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی…دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔ سومیرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا۔ اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے‘‘

(تذکرۃالشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 66-67)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button