متفرق مضامین

خلافت احمدیہ کے زیرِ سایہ برِ اعظم یورپ میں تعمیر مساجدکی ایک جھلک

(ارشد محمود خاں۔ گلاسگو ،اسکاٹ لینڈ)

توسیع مساجد ایک ایسا کام ہے جو جماعت کی توسیع سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔جب بھی ہم نے توسیع مساجد کی مہم چلائی ہے …تو اللہ نے بے شمار فضل فرمائے ہیں

اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ۔
(التوبۃ:18)

اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔

خدا تعالیٰ نے جب یہ آفاقی مذہب اسلام ہمارے پیارے نبی وہادی آنحضرتﷺ پر نازل فرمایا توانسانیت اپنی اصل سے بعیدحیوانوں کی زندگی گزارہی تھی۔ ہر برائی جس کو تصور کیا جائے عرب میں عام تھی اور خدا کے نام پر بتوں کی پوجا جاری تھی۔ایسے میں خدا کی غیرت جوش میں آئی اور عرب کے اُس دوردراز خطہ میں اسلام کی کرن پھوٹی اور احد احد کے نعرے اسلام کی ترقی کے ساتھ ساتھ چار دانگ عالم میں سُنے گئے جس میں ایک خدا کی عبادت کےلیے مساجد کا قیام پوری دُنیا میں شروع ہوا۔ خدا کے گھر کی تعمیر کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے تمام وعدے اسلام کی شاندار تبلیغ کے ساتھ پورے ہوئے اور چاردانگ عالم میں مساجد سے اللہ اکبر کی صدا اسلام کی فتح ونصرت کی نوید ٹھہری۔ گوکہ منافقین نے مسجد ضرارکی تعمیر سے سوچا کہ وہ بھی کامیاب ہوجائیں گے مگر خدا کے کام نرالے ہیں اور کبھی بھی دشمنان اسلام مساجدکو مسمارکرکے یا اس جیسی کوئی اور مسجدتعمیر کرکے بارآور نہ ہوسکے۔

تاریخ آج پندرہ سو سال کے بعد اپنے آپ کو پھر دہرا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مسیح ومہدیؑ کی جماعت کو بعض مقامات میں ویسی ہی تکالیف دی جارہی ہیں جن کا موازنہ مشرکین مکہ کےمسلمانوں کے مظالم سے کیا جاسکتا ہے۔ 1984ء میں جب پاکستان میں حکومت نے اپنے ظالمانہ آرڈیننس کے ساتھ احمدیوں پر مساجد کے دروازے بند کرنے شروع کیے اور مساجد کو شہید کرنا شروع کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے عالمی جماعت احمدیہ کو حوصلہ دیا اور تعمیر مساجد کےلیے پوری دنیا میں وسیع بنیادوں پر دعاوٴں کے ساتھ کام شروع ہوا۔ مگر ایسا نہیں تھا کہ خلافت رابعہ سے پہلے مساجد کی تعمیرکا کام شروع نہیں ہوا بلکہ مساجد کی تعمیر کےلیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تضرعات کے ساتھ خدا تعالیٰ سے وہ دعائیں کی تھیں کہ جس کے نتیجے میں عرصہ سوسال سے خلافت احمدیہ کے ذریعے یہ عظیم خدمت جاری ہے۔

آج 27؍مئی 2021ء یوم خلافت کے بابرکت دن کے حوالے سے یورپ میں مساجد کی تعمیر و افتتاح کے متعلق ذکر کرنا مقصود ہے جو خلافت احمدیہ کے ذریعہ جاری بےشمار انعامات میں سے ایک نہایت عظیم تحفہ ہمیں ملا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر مسجدوں کے قیام کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:

’’اِس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے۔ پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیّت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اَغراض یا کسی شرّ کو ہر گز دخل نہ ہو۔ تب خدا برکت دے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ 119،ایڈیشن 1985ء)

مساجد کی تعمیر اور مساجد کی وسعت کےایک نئے دَور کے آغاز کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍فروری 1995ء میں ساری جماعت کو بالعموم مساجد کی تعمیر اور توسیع کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’مساجد کی تعمیر اور مساجد کی وسعت کا ایک نیا دَور شروع ہونا چاہئے۔ توسیع مساجد ایک ایسا کام ہے جو جماعت کی توسیع سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔جب بھی ہم نے توسیع مساجد کی مہم چلائی ہے اور مشنوں کی، وہ بھی مساجد ہی ہیں ہمارے لئے، تو اللہ نے بے شمار فضل فرمائے ہیں اور جماعت کے دعوت الی اللہ کے کاموں میں بہت برکت پڑی ہے۔ تو اس لئے یہ ایک عام تحریک ہے کُل عالَم کی جماعتوں کے لئے کہ مساجد تعمیر کرنے اور مساجد میں توسیع کرنے کی مہم شروع کریں۔ جتنی توفیق ہے اس طرح کریں۔دنیا داری کے جھگڑوں میں پڑ کر ظاہری خوبصورتی اور قیمتی سامانوں کی فراہمی کا انتظار نہ کریں۔ جیسی بھی مسجد ہے اسے اللہ کا ذکر برکت بخشتا ہے، وہ مومن برکت بخشتے ہیں جو تقویٰ لے کر وہاں سجے سجائے پہنچتے ہیں۔ مسجد کی سجاوٹ تو ان متقیوں سے ہے۔

پس اس پہلو سے جہاں تک ممکن ہے خوبصورت دیدہ زیب مسجد بنانا اللہ تعالیٰ کی صفت جمال کے منافی تو نہیں۔ مگر اس انتظار میں کہ اتنا پیسہ ہو تو پھر ایسی مساجد بنائی جائیں، مساجد کی بنیادی ضرورت کو نظر انداز کر دیا تو یہ جائز نہیں ہے۔یہ پھر دنیا داری ہے، یہ عبادت کی محبت نہیں ہے۔پس حسب توفیق وسعتیں دیں۔ خوبصورت نہیں بنتی تو سادہ مگر اس وقت ستھری اچھی چیز دکھائی دے اور جتنی توفیق ہے اس کے مطابق یہ کام شروع کریں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍فروری 1995ء مطبوعہ خطباتِ طاہر جلد 14صفحہ137تا138)

ذیل میں خلافت احمدیہ کے زیرِ سایہ یورپ میں تعمیر ہونے والی بعض مساجد کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔

یورپ کی سب سے پہلی احمدیہ مسجد

انگلستان میںجماعت احمدیہ کو یورپ کی سب سے پہلی مسجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔ یہ مسجد اپنے اندر ایک امتیازی شان رکھتی ہے لہٰذا اس مسجد اور یہاں کی جماعت کے تعلق میں کسی قدر تفصیل بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں۔یورپ میں تعمیر ہونے والی دیگر مساجد کا ذکر بہت اختصار سے کیا جائے گا تا مضمون بہت طویل نہ ہوجائے۔وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللّٰهِ۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ستمبر 1912ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل ؓنے خواجہ کمال الدین صاحب جو عازم سفر انگلستان بوجہ اپنے ایک قانونی مقدمہ کے تھے، کے ذمہ لگایا کہ اپنے قیام کے دوران انگلستان میں ایک مسجد کے قیام کےلیے کوشش کی جائے۔ خواجہ صاحب نے اس سلسلہ میں ایک مسجد واقع ووکنگ جو لندن سےساؤتھ ایسٹ تیس میل کے فاصلہ پر ہے، منتخب کی جو کئی سالوں سے بند پڑی تھی اور صرف خاص مواقع کےلیے ہی کھولی جاتی تھی۔اس مسجد کا نام شاہجہاں تھا جس کی تعمیر 1889ء کی ہے اور یہی وہ سال تھا جب اسلام احمدیت کی بنیاد پڑی۔ خواجہ صاحب کے قیام کے دوران مسجد شاہجہاں کی کمیٹی نے آپ کو اس کا امام مقرر کیا اور آپ نے اس مسجد کا انتظام بھی سنبھالا اور اس کی مکمل رپورٹ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل ؓ کی خدمت میں مع تصاویر بھجواتے رہے۔ مارچ 1914ء تک خواجہ صاحب کا قیام لندن رہا اور آپ نے اس مسجد کا نام ووکنگ احمدیہ مشن ہاؤس لندن رکھا مگر خلافت ثانیہ کی بیعت میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسجد غیر مبائعین لاہوری جماعت کے انتظام میں چلی گئی۔ تقریباً1960ء تک یہ مسجد غیرمبائعین کے انتظام میں رہی اور بعد میں یہ غیر احمدی انتظام میں چلی گئی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ ہمارے انگریزی دان احباب تبلیغ کی غرض سے انگلستان جائیں اور وہاں ووکنگ مشن ہاؤس میں رہتے ہوئے تبلیغ کا کام کریں۔ اس حکم کی تعمیل میں چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ نے انگلستان کا قصد کیا اور بڑی مشکل سے سفر کے اخراجات وغیرہ کے انتظام کے بعد 25؍جولائی 1913ء کو لندن پہنچے۔اس طرح حضرت چودھری صاحبؓ کو پہلے یورپین مبلغ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔کچھ دن لندن قیام کے بعد 11؍اگست 1913ء کو آپ ووکنگ احمدیہ مشن ہاؤس بطور مبلغ تعینات ہوئے۔جیسا اوپر بیان ہوا ہے کہ مارچ 1914ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکی وفات کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب نے خلافت ثانیہ کی بیعت نہ کی مگر حضرت چودھری صاحبؓ نے فوراً بیعت کرلی جس سے ایک ناگوارصورت حال پیدا ہوئی اور حضرت چودھری صاحبؓ ووکنگ احمدیہ مشن سے لندن تشریف لے گئے۔حضرت چودھری صاحبؓ نے اپنا قیام ایک کرایہ کے گھر میں کیا اورتبلیغ کا کام بھرپور طریقے سے جاری رکھا جس کے نتیجے میں انگریز دان طبقہ سےلوگ احمدیت میں شامل ہونا شروع ہوئے اور اسلام احمدیت کا پیغام تیزی سے پھیلا۔اوائل 1916ء میں حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ کو واپس بلوالیا گیا اور اگست 1919ءکو دوبارہ آپ کو مولوی عبدالرحیم نیر صاحبؓ کے ہمراہ لندن بھجوایا گیا۔

لندن میں مسجد کے لیے چندہ کی تحریک

خدا تعالیٰ نے جلد ہی جماعت احمدیہ کو لندن میں خلافت ثانیہ کے دور میں اپنی مسجد تعمیر کرنے کی توفیق عطافرمائی۔اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ اوائل 1920ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے قادیان میں لندن مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ کی تحریک فرمائی اور بذریعہ خط حضرت چودھری صاحبؓ کو ایک مناسب قطعہ زمین دیکھنے کا حکم دیا۔حضرت چودھری صاحبؓ نے بڑی تگ ودو کے بعد لندن کے علاقہ Putney, Southfieldsمیں ایک قطعہ زمین معہ مکان اگست 1920ء میں مبلغ2223؍پاؤنڈ میں خرید لیا جس کی قیمت تقریباً تیس ہزار ہندوستانی روپےتھی۔ اس قطعہ کی خرید کی تفصیل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو بذریعہ تار بھجوائی گئی جو ان دنوں ڈلہوزی میں تشریف فرما تھے۔ حضورؓ نے اس خوشی کے موقعے پر 9؍ستمبر 1920ء کو ایک جلسہ ڈلہوزی میں کیا اور اس مجوزہ مسجد کا نام ’’مسجد فضل‘‘ رکھا۔ یہ احاطہ زمین جو ایک ایکڑ کے قریب ہے ایک یہودی سے خریدا گیا تھا جس پر ایک ہزار پا ؤنڈ کی مزید رقم مرمت کےلیے خرچ ہوئی۔

مسجد فضل کا سنگ بنیاد اور تعمیر

بوجہ رقم کے انتظام وغیرہ کے مسجد فضل کی تعمیر1924ء تک تو نہ ہوسکی مگر یہ مشن ہاؤس حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحبؓ کے زیرنگرانی خدمت دین کرتا رہا۔اسی سال ویمبلےکانفرنس ادیان عالم میں شرکت کےلیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ 22؍اگست 1924ء کو لندن تشریف لائے۔ ویمبلےکانفرنس اور دوسری بہت ساری تبلیغی سرگرمیوں کے درمیان جس کا چرچا لندن کے اخبارات میں خوب رہا، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مسجد فضل کا سنگ بنیاد 19؍اکتوبر 1924ءبروز اتوار رکھا۔ایک بڑے جلسہ کے بعدیہاں نماز باجماعت ادا کی۔نومبر1924ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ واپس قادیان تشریف لے گئے تو حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحبؓ بھی آپ کے ساتھ واپس آگئے اور آپ کی جگہ حضرت مولوی عبدالرحیم درد صاحبؓ کو مبلغ انگلستان مقرر کیا گیا۔ دوسال بعد 3؍اکتوبر 1926ء کو مسجد فضل کی تعمیر مکمل ہوئی۔

(تواریخ مسجد فضل لندن، مرتبہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ)

مسجد بشارت سپین

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مورخہ 10؍ستمبر 1982ء کو سپین کے شہر پیدرو آباد میں 700سال بعد تعمیر ہونے والی ’’مسجد بشارت‘‘ کا افتتاح فرمایا۔ اس مسجد کی تعمیر جماعت احمدیہ کے صدسالہ جوبلی منصوبہ کے ایک اہم حصّہ کے طور پر ہوئی۔ اس کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بنفسِ نفیس سپین تشریف لے جا کر مورخہ 9؍اکتوبر 1980ء کودورۂ یورپ کے دوران رکھا تھا۔ اس کے افتتاح کی تاریخ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اپنے وصال سے قبل مقرر فرمائی تھی۔

اس موقع پر چار برِّاعظموں ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے 40ممالک سے 2ہزار کے قریب احمدی موجود تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس موقع پر اپنے تاریخی خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ستمبر 1982ء میں فرمایا:

’’مسجدوں کی تعمیر ایک بہت ہی مقدّس فریضہ ہے۔ لیکن جو مسجدیں ہم بنا رہے ہیں یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جیساکہ عام طور پر دنیا میں ہوتا ہے۔ ان مسجدوں کے پس منظر میں لمبی قربانیوں کی تاریخ ہے۔ یہ کچھ امیر لوگوں کی وقتی کوشش یا جذباتی قربانی کا نتیجہ نہیں۔ کچھ ایسے لوگوں کی جن کو خدا نے زیادہ دولت بخشی ہو اور وہ نہ جانتے ہوں کہ کہاں خرچ کرنی ہے۔ بلکہ خصوصاً اس مسجد کے پیچھے تو ایک بہت ہی لمبی، گہری، مسلسل قربانیوں کی تاریخ ہے۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد1 صفحہ136)

اس موقع پر مسجد کے افتتاح کی مناسبت سے منعقدہ خصوصی تقریب میں احمدی احباب کے علاوہ قریباً 3ہزار مقامی سپینش افراد نے شرکت کی۔اسی طرح سپین کے مقامی اخبارات اور پریس و میڈیا اور مختلف نیوز ایجنسیز کے پچاس سے زائد نمائندگان اس تقریب میں شامل ہوئے۔اور نہ صرف سپین کے ذرائع ابلاغ نے اس تقریب کو بہت نمایاں کر کے شائع اور نشر کیا بلکہ یورپ اور دنیا کے متعدد ممالک کے سمعی و بصری نشریاتی اداروں نے اس مسجد کے افتتاح کی تقریب کی نہایت خوش آئند الفاظ میں خبریں نشر کیں اور اس کی جھلکیاں دکھائیں اور عالمی شہرت کے مالک کثیر الاشاعت اخبارات و جرائد نے اپنے ادارتی کالموں میں اس کا اچھے رنگ میں ذکر کیا۔ اور اس طرح کروڑوں افراد تک اس مسجد کی تعمیر اور افتتاح اور اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا۔قرطبہ کے ایک جریدہ ’’لاووز‘‘ یعنی ’’صدائے قرطبہ‘‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا۔

’’بیشک پیدروآباد میں تعمیر ہونے والی مسجد جماعت احمدیہ کے لئے انتہائی مذہبی اہمیت کی حامل ہے جس کے افتتاح کے موقع پر 2ہزار کے لگ بھگ احمدی دنیا کے کونے کونے سے کھنچے چلے آئے ہیں لیکن یہ مسجد اہل قرطبہ کے لئے بھی کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں اس لئے کہ یہ رواداری اور مذہبی عقائد کی آزادانہ تبلیغ و اشاعت کے سلسلہ میں ایک یاد گار بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے اور تاریخی اعتبار سے اس کا رشتہ رواداری کے اس جذبہ اور روح کے ساتھ جا ملتا ہے جس کا مظاہرہ خلفائے قرطبہ نے اپنے دورِ حکومت میں کیا۔دریائے وادیٔ الکبیر کے کنارے پیدروآباد کے قرب میں واقع اس نوتعمیر مسجد کے خوبصورت مینار ہمیں ایک خاص تاریخی جذبہ کا احساس دلاتے ہیں۔ اس حقیقت کا انکار کئے بغیر کہ قرطبہ اور اُندلس میں عیسائیت کی جڑیں بہت مضبوط اور گہری ہیں ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ مینار رواداری کی علامت اور نشان کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں اُس اہم تاریخی ماضی کو دہرانے کا ایک واضح اشارہ موجود ہے جسےیکسر فراموش کردینے کا کوئی جواز نہیں۔‘‘

مسجد بیت الفتوح کے لیے تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے برطانیہ کی نئی اور وسیع مسجد کے لیے 24؍فروری 1995ء کو 5 ملین پاؤنڈ کی تحریک فرمائی۔28؍مارچ 1999ء کو حضورؒ نے بیت الفتوح کی مجوزہ جگہ پر نماز عید الاضحی پڑھائی اور اسی سال 19؍ اکتوبر کو حضور ؒنے مسجد بیت الفتوح کا سنگِ بنیاد رکھا۔16؍فروری 2001ء کو حضورؒ نے اس مسجد کے لیے مزید 5 ملین پاؤنڈ کی تحریک فرمائی۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 3؍ اکتوبر 2003ء کو اس کا افتتاح فرمایا۔ اس مسجد میں بیک وقت 10ہزارافراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ نیز یہ مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

خلافت خامسہ میں اس مسجد کے بعض حصوں کو آگ لگنے کی وجہ سے تعمیر نَو کا منصوبہ اس وقت اپنے آخری مراحل میں ہے۔

خلافت ثانیہ، ثالثہ اور رابعہ کے دور کی یورپی مساجد

٭…مسجد فضلِ عمر Hamburg جرمنی کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے 22؍فروری1957ء کو رکھا۔ 22؍جون 1957ء کو اس کا افتتاح حضرت چودھری سرظفراللہ خان صاحبؓ نے کیا۔

٭…21؍جولائی 1967ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ڈنمارک کے شہر COPENHAGEN میں مسجد نصرت جہاں کا افتتاح فرمایا۔

٭…20؍اگست 1976ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے سویڈن کے شہر GÖTHENBURG میں مسجد ناصر کا افتتاح فرمایا۔

٭…1980ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ناروے کے شہر اوسلو میں مسجد نور کا افتتاح فرمایا۔

٭…2؍اکتوبر 1980ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے انگلستان کے شہر (Bradford) میں مسجد بیت الحمدکا افتتاح فرمایا۔

٭…10؍ستمبر 1982ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے سپین کے شہر قرطبہ پیدروآباد میں مسجد بشارت کا افتتاح فرمایا اور یہ خلافت رابعہ کے دَور کی سب سے پہلی مسجد تھی جس کا افتتاح حضورؒ نے فرمایا۔

٭…5؍اکتوبر 1982ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انگلستان کے شہر جلنگھم (Gillingham) میں احمدیہ مشن کا افتتاح فرمایا۔

٭…7؍اکتوبر 1982ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے لندن کے علاقہ کرائیڈن میں احمدیہ مشن بیت السبحان کا افتتاح فرمایا۔

٭…1985ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ٹلفورڈ اسلام آباد میں مسجد بیت الاسلام کا افتتاح فرمایا اور بعد میں یہاں تعمیرِ نو کے بعد خلافت خامسہ میں مسجد مبارک وجود میں آئی۔

٭…13؍ستمبر 1985ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے نَن سپیٹ (ہالینڈ )میں نئے مرکز بیت النور کا افتتاح فرمایا۔

٭…17؍ستمبر 1985ء کو جرمنی کے شہر کولون (Köln) میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بیت النصر کا افتتاح فرمایا۔

٭…22؍ستمبر 1985ء کو حضورؒنے جرمنی کے شہر گروس گیراؤ (Gross-Gerau) میں ناصر باغ کا افتتاح فرمایا۔

٭…1985ء کو حضورؒ نے مسجد بیت السلام کا افتتاح Bruessels, Belgiumمیں فرمایا۔

٭…مئی 1986ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے گلاسگو میں اسکاٹ لینڈ کے نئے احمدیہ مشن بیت الرحمٰن کا افتتاح فرمایا۔

٭…1992ء میں حضور نے جرمنی کے شہر گروس گیراؤ (Gross-Gerau) میں مسجد بیت الشکور کا افتتاح فرمایا۔

٭1998ء کو حضورؒ نے مسجد بیت المالک کا افتتاح جرمنی کے شہرBerlin Reinickendorf میں فرمایا۔

٭…اگست 2000ء کو حضورؒ نے مسجد بیت المومن کا سنگِ بنیاد جرمنی کے شہر Münster میں رکھا۔

٭…اکتوبر2002ءکو حضورؒ نے مسجد بشارت کا افتتاح جرمنی کے شہر Osnabrück میں فرمایا۔

جرمنی میں 100 مساجد کی سکیم

جلسہ سالانہ جرمنی 1989ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ جرمنی کو صد سالہ جشنِ تشکّر کے حوالے سے ملک بھر میں 100مساجد تعمیر کرنے کا منصوبہ عطا فرمایا۔ اس موقع پر حضورؒ نے فرمایا۔

’’گزشتہ سو سال کامیابی کے ساتھ گزرنے کے طور پر سو مساجد جرمنی میں بنا دیں، اظہارِ تشکّر کے طور پر۔‘‘

(روزنامہ الفضل 5؍جون 1989ء)

چنانچہ جماعت جرمنی نے اپنے آقا کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے لاکھوں مارک کے وعدے پیش کر دیے۔ مگر کئی سال گزرنے کے بعد بھی بعض قانونی اور معاشرتی رکاوٹوں کے باعث اس منصوبہ کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔

22؍مئی 1997ء کو حضرت سیّدہ مہر آپا حرم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔23؍مئی کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ جرمنی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’حضرت مہر آپا کی طرف سے جرمنی کی 100مساجد سکیم میں 3 لاکھ جرمن مارک پیش کئے جائیں گے۔‘‘ (یہ وعدہ بعد میں بڑھا کر 5لاکھ کر دیا) نیز اپنی طرف سے 50ہزار مارک دینے کا اعلان فرمایا۔

25؍نومبر1998ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے وِٹلش میں پہلی مسجد ’’بیت الحمد‘‘ کا سنگِ بنیاد رکھا اور 9؍جنوری 2000ء کو اس کا افتتاح ہوا۔چند سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد بیت الحمد وٹلش اور مسجد بشارت اوسنا بروک مکمل ہو گئیں اور حضورؒ کے دستِ مبارک سے ان مساجد کے افتتاح عمل میں آئے۔جبکہ مسجد بیت المومن میونسٹر کا حضورؒ نے سنگِ بنیاد رکھا۔

مسجد ناصر(بریمن) (سنگ بنیاد نومبر2001ء)، مسجد نور الدین (ڈارمشٹڈٹ) (سنگ بنیاد 11مئی 2002ء) اورمسجد طاہر (کوبلنز) میں مساجد کی تعمیر خلافتِ رابعہ کے آخری سالوںمیں شروع ہو چکی تھی۔ جبکہ مسجد حبیب (کیل)، مسجدبیت العزیز (ریڈشٹڈٹ)، جامع مسجد (اوفن باخ)، مسجد سمیع (ہنوور)، مسجد بیت العلیم (ورزبرگ) اور مسجدالہدیٰ (اوزنگن) کے لیے قطعاتِ زمین خریدے جا چکے تھے۔ عہدِ خلافتِ رابعہ میں جرمنی میں مساجد کی تعمیر سے متعلق بعض مزید تفصیلات درج ذیل ہیں۔

٭…مسجد بیت الشکور(گراس گراؤ۔ ناصر باغ)

مسجد بیت الشکور جرمنی کے شہر Gross-Gerau میں واقع جماعتی مرکز ناصر باغ میں تعمیر ہوئی۔ ناصرباغ میں لگنے والی آگ سے وہاں موجود لکڑی کی عمارت مکمل طور پر جل گئی تھی۔ اس علاقہ میں احمدیوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا تھا۔ چنانچہ تقریباً 2سال کی تگ و دَوکے بعد مقامی انتظامیہ نے ناصرباغ میں مسجدبنانے کی اجازت دی۔ مسجد کے ساتھ ایک بڑا ہال،دفاتر اور مبلغ سلسلہ کی رہائش بھی تعمیر کی گئی۔ اس مسجدکو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ’’بیت الشکور‘‘ کا نام دیا۔ مسجد کا سنگِ بنیاد 13؍اپریل 1991ء کو رکھا گیا اور 13؍اپریل 1993ء کو افتتاح عمل میں آیا۔مسجد بیت الشکور کا کل رقبہ 1850مربع میٹر ہے۔ اس مسجد کےمردانہ ہال کا رقبہ 484مربع میٹر ہے اور Basement میں خواتین کے لیے قریباً اتنی ہی گنجائش کی بڑی مسجد بنائی گئی ہے۔630مربع میٹر میں دفاتر اور رہائش گاہ بنائی گئی۔یہ منصوبہ اس لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خواہش پر تمام عمارت وقارعمل کر کے جماعت جرمنی کے افراد نے اپنے ہاتھوں سے بنائی۔دو سال تک بڑی دور دور سے احباب تشریف لا کر وقارعمل میں حصہ لیتے رہے۔

٭…مسجد بیت الحمد (وٹلش)

100مساجد سکیم کے تحت پہلی باقاعدہ طور پر تعمیر ہونے والی مسجد لکسمبرگ کے قریب جرمنی کے شہر Wittlich میں بنائی گئی۔ اس کا سنگِ بنیاد نومبر 1998ء میں رکھا گیا اور 9؍جنوری 2000ء کو اس کاافتتاح ہوا۔اس موقع کے لیے حضورؒ نے خصوصی پیغام ارسال کیا۔ پھر اسی سال 5؍جون 2000ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ یہاں رونق افروز ہوئے اور رات قیام فرمانے کے بعد اگلے روز تبلیغی نشست سے خطاب فرمایا۔ اس مسجد کا پلاٹ تین ہزار پانچ سو مربع میٹرہےاور مسجد 200 مربع میٹرپر تعمیر کی گئی ہے جو دو منزلوں پر مشتمل ہے۔ گراؤنڈ فلور پرخواتین کے لیے مسجد کے علاوہ چار کمروں کا مربی ہاؤس ہے اور بالائی منزل پر مردانہ مسجد کے ساتھ دفاتر ہیں جبکہ تہ خانہ میں ایک کثیر المقاصد ہال ہے۔

٭…مسجد بشارت (اوسنابروک)

یہ مسجد OSNABRÜCK میں تعمیر ہوئی۔ اکتوبر 1999ء میں اس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور اکتوبر 2002ء میں اس کا افتتاح ہوا۔ 2481مربع میٹر کے پلاٹ پر بنائی جانے والی مسجد کا تعمیری رقبہ 211مربع میٹرہے۔ جس میں 215 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ اس مسجد کی خصوصیت اس کے گنبد کے اطراف دو مینار ہیں۔مسجد کے علاوہ دو کمروں کی رہائش،لائبریری اور جماعتی ضرورت کے کچن کے علاوہ تہ خانہ میں ایک ہال بھی اس عمارت کا حصہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے31؍اگست 2000ء کو زیرتعمیر مسجد کا معائنہ فرمایا اور یہاں ظہر و عصر کی نمازیں ادا کیں۔

٭…مسجد بیت المومن (میونسٹر)

اس مسجد کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے31؍اگست 2000ء کو میونسٹر شہر میں رکھا۔ اس سے قبل بھی 1995ء میں حضورؒ نے اس شہر میں ایک تبلیغی نشست کو رونق بخشی تھی۔اس مسجد کی تعمیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی زندگی میں مکمل ہوگئی تھی تاہم اس کا افتتاح حضور ؒ کی وفات کے چند روز بعد 3؍مئی 2003ءکو عمل میں آیا۔اس میں 213 نمازیوں کے لیے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ مسجد مومن کے میناروں کی اونچائی دس میٹر ہے۔ پلاٹ کا رقبہ 1015مربع میٹرہے۔ اس میں مسجد کے ساتھ چار کمروں پر مشتمل مربی ہاؤس، دفتر اور لائبریری بھی ہے۔

جرمنی میں دیگر زیر تعمیر مساجد

علاوہ ازیں مسجدنورالدین (ڈارمشٹڈٹ)، مسجد ناصر(بریمن) اور مسجد طاہر (کوبلنز) کا سنگِ بنیاد خلافتِ رابعہ کے دور میں رکھ دیا گیا تھا۔ مسجد نور الدین (ڈارمشٹڈٹ) کا سنگِ بنیاد 11؍مئی 2002ء کو رکھا گیا۔ مسجد ناصر(بریمن) کا سنگِ بنیاد نومبر2001ء میں رکھا گیا۔ اسی طرح کیل شہر میں مسجد حبیب کی تعمیر کے لیے 3؍ستمبر 1999ء کو پلاٹ خرید لیا گیا تھا۔ خلافت رابعہ کے زمانے میں جو مزید پلاٹ خریدے گئے ان میں Riedstadt میں مسجد بیت العزیز کے لیے پلاٹ 5؍اپریل 2000ء، جامع مسجد (اوفن باخ) کے لیے پلاٹ7؍اگست 2000ء، مسجد سمیع (ہنوور) کے لیے پلاٹ 20؍اپریل 2001ء، بیت العلیم (ورزبرگ) کے لیے پلاٹ 14ستمبر 2001ء، مسجد الہدیٰ (Usingen) کے لیے پلاٹ 12فروری 2002ء اور مسجد بشیر (Bensheim) کے لیے پلاٹ 9دسمبر 2002ءکو خریدے گئے۔ ان پلاٹوں کی منظوری حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے حاصل کی گئی تاہم ان کی تعمیر عہدِ خلافت خامسہ کے ابتدائی سالوں میں ہوئی۔

(خلافتِ رابعہ کے دور میں مساجد کا قیام، از مولانا نصیر احمد قمر، الفضل آن لائن 04؍ جون 2020ء)

سو مساجد کی سکیم کے تحت اب تک جرمنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے 56؍مساجد تعمیر ہو چکی ہیں۔9؍مساجد تعمیر کے آخری مراحل میں ہیں۔وہاں نمازیں ادا ہو رہی ہیں لیکن باقاعدہ افتتاح نہیں ہوا جبکہ 4؍مساجد اس وقت زیر تعمیر ہیں۔

خلافت خامسہ کے بابرکت دَور میں مساجد کی تعمیر

اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں مساجد کے قیام کا یہ مبارک سلسلہ خلافت خامسہ میں بڑی تیز رفتاری سے وسعت پذیر ہے۔ چنانچہ 2003ء سے 2020ء تک 17سالوںمیں کُل 6 ہزار246مساجد کا اضافہ پوری دنیا میں ہوا۔ ان میں سے 2ہزار619نئی مساجد تعمیر ہوئیں اور 3 ہزار 627بنی بنائی مساجد نمازیوں سمیت عطا ہوئیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلی خلافت میں جاری مساجد کی تعمیر کے منصوبہ جات کو موجودہ خلافت کے دَور میں ایک مہمیز ملتی ہے اور دنیا کے طول وعرض میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اتنی تعداد میں مساجد کا افتتاح فرمایا جس کی نظیر نہیں ملتی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جہاں تم جماعت کی ترقی چاہتے ہو وہاں مسجد کی تعمیر کر دو۔الفاظ میرے ہیں، کم و بیش مفہوم یہی ہے۔ تو اگر اس سوچ کے ساتھ مسجدیں بنائیں گے کہ آج اسلام کا نام روشن کرنے کے لئے اور آج اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے ہم نے ہی قربانیاں کرنی ہیں اور کوشش کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا، اور ہمیشہ فرماتا ہے، فرماتا رہا ہے۔ اور اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بھی ہوتے ہیں، اس کے فضل کے نظارے بھی ہم دیکھتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فرمانا صرف جوش دلانے کے لئے نہیں تھا بلکہ ایک درد تھا،ایک جوش تھا ایک خواہش تھی کہ دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلانے کے لئے مساجد کی تعمیر کی جائے۔ جب آپ نے یہ ارشاد فرمایا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہندوستان میں مسجدیں تعمیر نہ کرو یا فلاں علاقے میں نہ کرو، بلکہ ہر جگہ مسجدیں تعمیر کرنے کا آپ نے اظہار فرمایا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی ہندوستان میں مسجدیں بنائی جا رہی تھیں اور آج بھی بنائی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ جو مسجدیں جماعت احمدیہ کے علاوہ کہیں بنائی جاتی ہیں یا موجود ہیں یہ مسجدیں اس زمانے کے امام کا انکار کرنے والوں کی ہیں اور انکار کرنے والوں کی طرف سے بنائی جا رہی ہیں۔ تقویٰ پر بنیاد رکھتے ہوئے نہیں بنائی جا رہی ہوتیں۔ یہ اس لئے بنائی گئی تھیں، بنائی جا رہی تھیں اور بنائی جا رہی ہیں کہ فلاں فرقے کی مسجد اتنی خوبصورت ہے اور اتنی بڑی ہے ہم نے بھی اس سے بہتر مسجد بنانی ہے یا اور بہت سی مساجد کے اماموں کی ذاتی دلچسپیاں ہیں جن کی وجہ سے مسجدیں بڑی بنائی جاتی ہیں۔ جن کو مجھے اس وقت چھیڑنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن جماعت احمدیہ کی جو مسجد بنتی ہے۔ وہ نہ تو دنیا دکھاوے کے لئے بنتی ہے اور نہ دنیا دکھاوے کیلئے بننی چاہئے۔ وہ تو قربانیاں کرتے ہوئے قربانیاں کرنے والوں کی طرف سے بنائی جانے والی ہونی چاہئے۔ اور اس تصور، اس دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہے اور کی جانی چاہئے کہ اے اللہ اسے قبول فرما لے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کو آباد کرنے والے بھی ہوں‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍جون 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍جولائی2006ءصفحہ5)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل یورپ کی مساجد کا افتتاح اپنے دستِ مبارک سے فرمایا:

(www.ahmadiyya.uk)

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل اخبارات و رسائل نیز ویب سائٹس وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے:

alislam.org، الفضل انٹرنیشنل لندن، ایم ٹی اے انٹرنیشنل، روزنامہ الفضل (آن لائن) لندن،

wikipedia.org, ahmadiyyamosques.wordpress.com

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button