متفرق مضامین

نظامِ خلافت مذہب کے نظام کا دائمی حصہ ہے

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

’’اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو جو خوشخبریاں دی تھیں اور جو پیشگوئیاں آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اپنی امت کو بتائی تھیں اس کے مطابق مسیح موعود کی آمد پر خلافت کا سلسلہ شروع ہونا تھا ۔اور یہ خلافت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی رہنا تھا اور رہنا ہے۔ان شاء اللہ۔‘‘

قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے سوا زمین و آسمان کی ہر چیز تغیر پذیر اور زوال پذیرہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء اور ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے جسے کائنات کے ذرّہ ذرّہ پرکامل اختیار و اقتدار حاصل ہے اور نظام عالم کی ہرچیز اُسی کی تابع فرمان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍکی صورت میں تخلیق فرماکر اشرف المخلوقات کے درجہ پر متمکن فرماکراُس کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے انبیاء کا سلسلہ جاری فرما دیا تاکہ وہ کبھی اور کسی وقت حقیقی راہ نمائی سے محروم نہ رہیں۔چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر آنحضرت سیدالانبیاء حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ بیس ہزارانبیاء مبعوث فرمائے۔ہر نبی نے اپنے اپنے وقت میں بنی نوع انسان کی ہدایت اور اُنہیں معرفت الٰہی سے ہمکنار کرنے کے لیے انتھک محنت اور جدوجہد کی۔

اللہ تعالیٰ نے ہی انبیاء علیہم السلام کے مقصد بعثت اور اُن کی برکات کو دنیا میں جاری رکھنے کے لیے خلافت کا نظام جاری فرمایا ہے تاکہ اُس کے بندے کبھی اور کسی وقت نبوت و رسالت کی برکات سے محروم نہ رہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ سے پہلے تمام انبیاء کے بعد خلافت کا بابرکت نظام جاری رہا ۔ حضور خیرالمرسلین ﷺکے بعد بھی خلافت راشدہ کا نظام قائم ہوا ۔ پھر آنحضور ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اُمّت میں آنے والے مسیح ومہدی کے بعد بھی خلافت علیٰ منہاج النبوۃکا بابرکت نظام جاری ہوا۔یوں اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت نے ثابت کردیا کہ نظام خلافت مذہب کا اٹوٹ انگ اور اس کا جزو لاینفک ہے ۔ اور جیسا کہ آیت کریمہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ(النور:56)کے مطابق جب بھی حقیقی ایمان اور عمل صالح بجالانے والے مومنوں کا وجود قائم رہا ،یہ نعمت خلافت بھی عطاہوتی رہی۔حضرت حذیفہ بن یمان ؓکی خلافت سے متعلق حدیث نبوی میں خلافت ،ملک جبریہ اور ظالم وفاسق بادشاہوں کے بعد آنحضورﷺنے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا ذکر فرمایا تو راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خاموشی اختیار فرمالی۔پس آنحضورﷺ کا دَورِ آخرین میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃکی خوشخبری عطافرمانے کے بعد سکوت فرمانے میں یہ پیشگوئی مضمر ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے بعد قائم ہونے والا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے گا اور اس کے ذریعہ نسل انسانی نبوتِ محمدیہ کے برکات وثمرات سے مستفیض ہوتی رہے گی ۔ ان شاء اللہ ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ارشادات سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ خلافت احمدیہ کا سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن، جلد 20صفحہ305)

حضور علیہ السلام اپنی کتاب شہادت القرآن میں تحریر فرماتے ہیں کہ

’’بعض صاحب آیت

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ(النور:56)

کی عمومیت سے انکار کر کے کہتے ہیں کہ مِنْکُمْ سے صحابہ ہی مراد ہیں اور خلافتِ راشدہ حقہ انہیں کے زمانہ تک ختم ہو گئی اور پھر قیامت تک اسلام میں اس خلافت کا نام و نشان نہیں ہو گا ۔ گویا ایک خواب و خیال کی طرح اس خلافت کا صرف تیس برس تک ہی دَور تھا اور پھر ہمیشہ کیلئے اسلام ایک لازوال نحوست میں پڑ گیا مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا کسی نیک دل انسان کی ایسی رائے ہو سکتی ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت تو یہ اعتقاد رکھے کہ بلا شبہ ان کی شریعت کی برکت اور خلافت راشدہ کا زمانہ برابر چودہ سو برس تک رہا لیکن وہ نبی جو افضل الرسل اور خیر الانبیاء کہلاتا ہے اور جس کی شریعت کا دامن قیامت تک ممتد ہے اسکی برکات گویا اس کے زمانہ تک ہی محدود رہیں اور خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ کچھ بہت مدت تک اس کی برکات کے نمونے اس کے روحانی خلیفوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوں ایسی باتوں کو سن کر تو ہمارا بدن کانپ جاتا ہے مگر افسوس کہ وہ لوگ بھی مسلمان ہی کہلاتے ہیں کہ جو سراسر چالاکی اور بیباکی کی راہ سے ایسے بے ادبانہ الفاظ منہ پر لے آتے ہیں کہ گویا اسلام کی برکات آگے نہیں بلکہ مدت ہوئی کہ اُن کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔

ماسوا اس کے مِنْکُمْ کے لفظ سے یہ استدلال پیدا کرنا کہ چونکہ خطاب صحابہ سے ہے اس لئے یہ خلافت صحابہ تک ہی محدود ہے عجیب عقلمندی ہے اگر اس طرح قرآن کی تفسیر ہو تو پھر یہودیوں سے بھی بڑھ کر آگے قدم رکھنا ہے ۔ اب واضح ہو کہ مِنْکُمْکا لفظ قرآن کریم میں قریباً بیاسی جگہ آیا ہے اور بجز دویا تین جگہ کے جہاں کوئی خاص قرینہ قائم کیا گیا ہے باقی تمام مواضع میں مِنْکُمْکے خطاب سے وہ تمام مسلمان مراد ہیں جو قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے ۔‘‘

(شہادت القرآن،روحانی خزائن جلد6صفحہ330تا331)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سورۂ نور کے ذکر میں فرماتے ہیں :

’’اس سورۃ میں بتایا ہے کہ نبی کریم تک یہ سلسلہ نہیں۔ بلکہ خلافت کا سلسلہ بھی تا یومِ قیامت ہے۔خلافت کے منکر اور عیب چین ہوں گے۔مگر آخر ذلیل۔فرماتا ہے کہ مجرموں کو تو ہم سزا دینے کا حکم دیتے ہیں۔انہیں خلفاء کیوں بنانے لگے۔پس تم الزام دہی سے باز آؤ۔‘‘

( حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 198)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مضمون میں خلافت احمدیہ کے دائمی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاہے کہ

’’قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت ایک انعام ہے۔پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اُسے ملتا رہے گا ۔ پس جہاں تک مسئلے اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اُس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپنے آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کردے ۔ لیکن اس اصل سے ہرگز یہ بات نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آرہی ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنوں میں حضرت مسیح کا خلیفہ نہیں ۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی امت نہیں ۔ پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ملا ضرور ہے ۔ بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسیٰ کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی ۔ اسی طرح گو رسول کریمﷺ کے بعد خلافت محمدیہ تو اتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معین عرصہ تک چلتی چلی جائے گی۔‘‘

(روزنامہ الفضل لاہور3؍اپریل 1952ء صفحہ 3کالم 1)

حضور رضی اللہ عنہ اپنے اسی مضمون کے آخر پر تحریر فرماتے ہیں کہ

’’سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصہ تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا …کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ اُن حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں۔‘‘

(روزنامہ الفضل لاہور3؍اپریل1952ء صفحہ 3کالم 2)

اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر فرمایا:

’’خلافت ہمیشہ قائم رہے گی آدم سے لے کر آج تک خلافت میں وقفہ نہیں ہوا۔ کئی روحانی اور جسمانی خلافتیں ہوئی ہیں اگر روحانی نہ رہی تو جسمانی ہوگئی۔اور جسمانی نہ رہی تو روحانی رہی ہے ۔ پس جو کوئی اس ہدایت کی پیروی کرے گا اس کو کوئی فکر نہیں اور جو لوگ انکار کریں گے وہ آگ میں ڈالے جائیں گے ۔ رسول کریم ﷺ آدم تھے ان کا مقابلہ کیا گیا ۔ اور بعض صحابہ سے غلطیاں ہوئیں لیکن پھر انہوں نے غلطیوں کی اصلاح کرلی ۔ غلط کہتے ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ ماموروں اور ان کے خلیفوں کا انکار کرکے بھی ہم سکھ پاسکتے ہیں ۔ ہر ایک ہم میں سے آدم ہے جن نہیں ۔ خدا نے سب پر آدم کا لفظ بولا ہے اور ہر ایک سے اس کا الگ الگ معاملہ ہے۔ایک باپ کا بیٹا خلیفہ ہوتا ہے پھر بڑی قوم کا سردار خلیفہ ہوتا ہے۔پھرغیرمامور خلیفےاور پھر انبیاء کے خلیفے ہوتے ہیں ان کے الگ رتبے ہوتے ہیں۔اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو۔مبارک ہے وہ انسان جو اپنی غلطیاں اپنے اوپر لگائے نہ کہ خدا پر۔خدا سے اپنا تعلق مضبوط کرو اور ملائکہ کی طرح فرمانبرداری اختیار کرو۔‘‘

(خطبات محمود جلد4صفحہ79)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے ابتدائی سالوں میں اپنے درس القرآن میں نظامِ خلافت کے اہم مسئلہ پر بڑی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ایک درس القرآن کے دوران فرمایا:

’’خلافت اسلام کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔اور اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک خلافت نہ ہو۔ہمیشہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے ۔اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا ۔ اور ہمیشہ خدا تعالیٰ خلفاء مقرر کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی خدا تعالیٰ ہی خلفاء مقرر کرے گا…پس تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا، وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہو گا ۔ لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کر سکے گی اور تمہارے مقابلہ میں بالکل ناکام و نامراد رہے گی۔‘‘

(درس القرآن مطبوعہ1921ء۔احمدیہ گزٹ کینیڈا،مئی2001ء صفحہ20)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے قبل جلسہ سالانہ پر ایک خطاب میں فرمایا:

’’یہ عظیم الشان اور مکمل نظام روحانی جو خلافت راشدہ احمدیہ کے ذریعہ دنیا کو عطا ہوا کوئی معمولی معجزہ نہیں۔تیرہ صدیوں تک مسلمان ایک کے بعددوسرے تنزل کی جانب اترتے رہے او ر تیرہ طویل صدیوں تک اسلام کی تصویر غیروں کی نظر میں بگڑتی چلی گئی۔اگر آنحضرت ﷺ کی قوی اور دائمی قوت قدسیہ کا سہارا نہ ہوتا اور خداتعالیٰ کی ابدی نصرت کا وعدہ شامل حال نہ ہوتا ، تو کبھی کی یہ امت ماضی کا ایک عبرت آموز قصہ بن چکی ہوتی اور اس آب حیات سے دنیا ہمیشہ کے لئے محروم ہو چکی ہوتی ۔لیکن جیسا کہ ازل سے مقدرتھا آخری زمانہ میں اسلام کو ایک نئی اور پر شوکت زندگی عطا ہونی تھی اور ادیان باطلہ پر ایک عالمگیر غلبہ کی بنیاد مسیح محمدی کے ہاتھوں رکھی جا نی تھی۔‘‘

(خطابات طاہرتقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت صفحہ 127)

خلافتِ احمدیہ ہمیشہ قائم ودائم رہے گی

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے کہ

’’پس کامل بھروسہ اور کامل توکل تھا اللہ کی ذات پر کہ وہ خلافت احمدیہ کوکبھی ضائع نہیں ہونے دے گا ۔ ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا ۔زندہ اور تازہ اور جوان اور ہمیشہ مہکنے والی عطر کی خوشبو سے معطر رکھتے ہوئے اس شجرہ طیبہ کی صورت میں اس کو ہمیشہ زندہ اور قائم رکھے گا ۔ جس کے متعلق وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کا …کہ ایسا شجرہ طیبہ ہے جس کی جڑیں زمین میں گہری پیوست ہیں اور کوئی دنیاکی طاقت اسے اکھاڑ کر پھینک نہیں سکتی۔یہ شجرہ خبیثہ نہیں ہے کہ جس کے دل میں آئے وہ اسے اٹھا کر، اسے اکھاڑ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینک دے ۔ کوئی آندھی، کوئی ہوا اس (شجرہ طیبہ) کو اپنے مقام سے ٹلا نہیں سکے گی اور شاخیں آسمان سے اپنے ربّ سے باتیں کررہی ہیں اور ایسا درخت نوبہار اور سدابہار ہے۔ایسا عجیب ہے یہ درخت کہ ہمیشہ نوبہار رہتا ہے کبھی خزاں کا منہ نہیں دیکھتا۔‘‘

(روزنامہ الفضل22؍جون1982ء)

خلافت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی ہے

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو جو خوشخبریاں دی تھیں اور جو پیشگوئیاں آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اپنی امت کو بتائی تھیں اس کے مطابق مسیح موعود کی آمد پر خلافت کا سلسلہ شروع ہونا تھا ۔اور یہ خلافت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی رہنا تھا اور رہنا ہے۔ان شاء اللہ۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 4؍جون 2004ء صفحہ5)

رسول کریم ﷺکا ایک ارشاد مبارک ہے کہ

’’لَا یُدْریٰ اَوَّلُھَاخَیْرٌ اَمْ اٰخِرُھَا‘‘

(مسلم احمد بن حنبل جلد 3صفحہ143۔دارالفکرالعربی ،بیروت ،لبنان)

یعنی میری امت کی مثال اُس بارش کی سی ہے کہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُس بارش کا پہلا حصہ زیادہ اچھا ہے یا اُس کا آخری حصہ۔

پس جب تک مسلمان رسول کریم ﷺکے بعد قائم ہونے والی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے ساتھ کامل وفا کے ساتھ وابستہ رہے انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں بے مثال ترقی حاصل کی اور جیسے جیسے وہ خلافت سے دُور ہٹتے گئے وہ اُن برکات سے بھی محروم ہوگئے جو خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ اللہ کرے کہ دورِ آخر میں جاری ہونے والی خلافت کا سلسلہ تا قیامت جاری ہے اور امت محمدیہ کے افراد کامل وفا کے ساتھ اس خلافت کے ساتھ وابستہ رہ کر اُن تمام فیوض و برکات سے متمتع ہوتے رہیں جو خلافت کے ساتھ وابستگی میں پنہاں ہیں ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button