متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے آخری یادگار ملاقات

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

وہ ایک باکمال شخص تھا۔ جب ہنستا تو سب کو ساتھ ہنساتا اور جب روتا تو سب کو رلا دیتا تھا۔ اس میں انتہا کا عجز تھا ۔ پارس کوئی پتھر ہوا کرے، وہ تو مٹی ہو کر چھونے والے کو سونا بنا دیتا تھا

پس منظر: جلسہ 2002ء

گذشتہ دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے بارے میں ایک تحریر نظروں سے گزری جس پر حضورؒ کے متعلق ایک واقعہ یاد آ گیا۔بتانے پر بعض لوگوں نے اصرار کیا ہے کہ یہ واقعہ لکھنا چاہیے اس سے شاید کسی کو کوئی فائدہ ہو جائے۔ چنانچہ عرض ہے۔

جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کہ حضورؒ بیمار تھے اور جلسہ سالانہ 2002ء کے موقع پر ایک عجیب صورت حال تھی۔میں اس جلسہ پر لندن حاضر تھا اور جرمن ترجمہ میں خدمت کر رہا تھا۔ جلسہ کی آخری تقریر تھی۔ حضورؒ تشریف لائے اور تقریر فرمائی۔ چند منٹ کی تقریر تھی اور حضور کی بیماری کی وجہ سے ساری جماعت پر شدید افسردگی طاری تھی۔چنانچہ تقریر کے دوران مکمل خاموشی رہی۔حضور نے خطاب فرمایا۔اس کے بعد فرمایا کہ اب نعرے لگا لیں۔ چنانچہ دیوانہ وار نعروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں ترجمانی والے کیبن سے اٹھ کر اسٹیج کے قریب آ گیا اور غور سے حضورؒ کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ اس وقت جس کیفیت اور محبت سے حضور جماعت کو دیکھ رہے تھے اور پھر جو نمی حضور کی آنکھوں میں تھی اسے ملاحظہ کرتے ہوئے اچانک میرا دل بیٹھ گیا۔ میرے دل میں عجیب و غریب خیالات جنم لینے لگے۔

بہرحال جلسہ کے بعد ہم واپس آگئے۔ حضورؒ کی بیماری جاری رہی ۔ چند ماہ بعد میں نے خیال کیا کہ حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے مبادا پھر موقع ملے نہ ملے۔ چنانچہ میں نے حضورؒ کی خدمت میں ملاقات کی اجازت کے لیے خط لکھا۔ حضورؒ نے ازراہِ شفقت اجازت مرحمت فرمائی۔ میں نے ملاقات کے لیے فہرست میں نام لکھوایا اور لندن جانے کا پروگرام بنایا۔

ایک عجیب دعا

اسائلم پاسپورٹ پر اس وقت برطانیہ کا ویزانہ ہوتا تھا بلکہ سرحد (Border)پر فیصلہ کیا جاتا تھا کہ ویزا دینا ہے یا نہیں۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کو ابھی ایک سال ہی ہوا تھا اور انہی دنوں چند مزید دہشت گرد حملے بھی ہوئے تھے۔چنانچہ مجھے خیال آیا کہ ان حالات میں یہ نہ ہو کہ میں جاؤں اور وہ ویزاہی نہ دیں ۔ شام کو بذریعہ بس جانا تھا اور یہ اسی روز صبح کی بات ہے۔ حسب معمول مشورہ کرنے کی کوشش کی۔ایک دوست کو فون کیا۔ انہوں نے کہا چلے جاؤ۔میں نے عرض کیا کہ یہ واقعات ہوئے ہیں اس پس منظر میں پوچھ رہا ہوں۔ کچھ سوچ کر فرمایا:’’عشق ہر جگہ پہنچ جاتا ہے لیکن تم فلاسفر ہو، تم سے نہیں ہو گا اس لیے رہنے دو!‘‘۔ غصہ تو مجھے بہت آیا، لیکن چونکہ بات سچی تھی اس لیے تلملا کر خاموش ہو گیا۔

پھر خیال آیا کہ جرمنی میں جماعتی مرکز بیت السبوح فون کر کے پوچھنا چاہیے۔ساتھ ہی خیال آیا کہ اس وقت وہاں کون ہو گا؟ جو بھی ہو گا اسے بھی اتنا ہی پتہ ہے جتنا مجھے۔ لیکن پھر سوچا کہ نہیں نظام جماعت سے پوچھنے میں برکت ہے۔ چنانچہ میں نے بیت السبوح فون کیا۔ اس وقت وہ انتظامات نہ تھے جو اب ہیں۔ خیر، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دوست نے فون اٹھا لیا اور وہ مجھے جانتے بھی تھے ۔ ان کو بتایا کہ یہ ارادہ ہے آپ کا کیا مشورہ ہے؟انہوں نے کہا جاؤ، مسئلہ کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ تازہ واقعات کے پس منظر میں پوچھ رہا ہوں۔ انہوں نے پہلے تو مذاق کیا کہ تمہیں تو ہرگز داخلہ نہیں ملنا وغیرہ۔پھر اچانک کہنے لگے کہ یہ دعا پڑھو اور چلے جاؤ کچھ نہیں ہو گا۔ میرا بڑا تجربہ ہے۔وہ دعا یہ تھی:

اللّٰهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا۔

یعنی اے اللہ! ہماری کمزوری کی جگہوں اور باتوں پر پردہ ڈال دے اور ہماری خوف اور پریشانی کی باتوں کو پُر سکون اور پُر امن کر دے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اپنا بیگ اٹھا کر چل پڑا۔ یہ دعا بہت ہی زود اثر ہے۔ اللہ ان دوست کا بھلا کرے جنہوں نے مجھے سکھائی۔ بہت فائدہ ہوا اور آج تک دل سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔ یہاں سے واقعات کا ایک عجیب سلسلہ شروع ہوتا ہے۔لیکن اس سےپہلے ایک بات کہنا ضروری ہے۔

نظام جماعت اور مشورہ

میرا یہ تجربہ ہےکہ نظام جماعت میں جس بھی جگہ پر جو شخص مقرر ہے وہ جب تک اس جگہ پر مقرر ہے اس کی بات میں ایک وزن ہے۔ ایسا اس کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ اس لیے ہے کہ اسے خلیفۂ وقت نے اس جگہ پر مقرر کیا ہوا ہے اور خلیفۂ وقت کو اللہ نے مقرر کیا ہوا ہے۔ذاتی طور پر وہ شخص کیسا ہی ہو، لیکن جب بھی وہ اخلاص کے ساتھ مشورہ دے گا، اس کا مشورہ اس کا ذاتی مشورہ نہیں ہوگا بلکہ اس نظام کا مشورہ ہوگا جس کے سر پر خلیفہ اور اس کے پیچھے اللہ کھڑا ہے۔چنانچہ وہ خود کیسا ہی کمزور کیوں نہ ہو، اس کا مشورہ نہ ماننے سے اکثر نقصان ہوتا ہے۔یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر عام کارکن کے مشورہ کا یہ حال ہے تو خلیفہ وقت سے مشورہ کر کے اسے نہ ماننے سے کتنا نقصان ہوتا ہے!

مشورہ میں مگر تین باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اول یہ کہ مشورہ کے لیے اپنی بات پیش کرتے وقت پوری بات بتائی جائے اور سارا معاملہ سامنے رکھا جائے، نیز چالاکیاں نہ کی جائیں۔ ورنہ نتیجہ غلط نکلتا ہے۔اکثر دیکھا ہے کہ جو لوگ سیدھی بات کرتے ہیں وہ فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔جبکہ چالاکیاں کرنے والے اکثر نقصان اٹھاتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ کسی کو مشورہ دیا جائے اور وہ صاف کہہ دے کہ آپ کے مشورہ کا شکریہ مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے ۔ تو یہ دیانتداری اور صاف گوئی ہے۔ایسے لوگوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ہر شخص کی اپنی مشکلات اور مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اگر عمل نہیں کر سکتے تو بھی ٹھیک ہے۔ کسی جماعتی کارکن یا کسی ذاتی دوست کا مشورہ صرف ایک تجویز ہوتی ہے ۔ کوئی اس کا پابند نہیں۔ اس کے مقابل پر دیکھا ہے کہ بعض لوگ پہلے مشورہ مانگتے ہیں پھر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔ بعض پہلے پوچھتے ہیں جب دماغ لڑا کر مشورہ دیا جائے تو کہتے ہیں کہ بالکل ٹھیک۔ یہی بات ہم نے فلاں ماہر سے پوچھی تھی اس نے بھی یہی کہا تھا! گویا امتحان لے رہے ہوتے ہیں کہ جماعت کیا جواب دیتی ہے۔ایسے لوگ بعض اوقات نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ سالہاسال بعد ملیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک اسی مسئلہ میں گرفتار ہیں۔اور یہ بھی دیکھا ہے کہ ’’بعد از خرابی بسیار‘‘ پھر وہی کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو پہلے دن ان کو کہا گیا تھا۔ یہ ، جیسے کہ پہلے عرض کیا ہے، کسی کی ذاتی خوبی نہیں بلکہ نظام جماعت سے منسلک رہنے کی برکت کی وجہ سے ہے۔

تیسری بات جس پر افسوس ہے کہ بہت کم لوگ عمل کرتے ہیں ، یہ ہے کہ مشورہ دینے والے بھی اور مشورہ لینے والے بھی استخارہ کریں۔ گویا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ استخارہ بس رشتہ ناطہ کے لیے ہی ہے۔حالانکہ ہر کام میں استخارہ کرنا چاہیے۔ مشورہ دیتے ہوئے بھی۔ آپ کو کیا پتہ کہ آپ کے مشورہ سے کسی کو کیا فائدہ یا نقصان ہو گا؟ اس لیے اس موقع پر بھی خیر طلب کرنا ضروری ہے۔ بعض دفعہ ایک دن میں تین یا چار مرتبہ بھی مشورہ لینا یا دینا پڑجاتا ہے۔ اگر انسان کو یہ احساس ہو جائے کہ اس کے مشوروں کی کچھ بھی حیثیت نہیں اور اللہ ہی ہے جو حقیقت جانتا ہے اور اسے ہی علم ہے کہ کون سی بات فائدہ مند ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا تو پھر استخارہ کا اثر بھی ہوتا ہے۔

سرحد پر معجزہ

خیر اصل مضمون کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔جو دعا بتائی گئی تھی مانگی اور سفر شروع کیا۔ میں ان دنوں Warendorf رہتا تھا۔ وہاں سے پہلے Münster گیا جہاں سے پھر شام کو لندن کی بس پکڑی۔ رات بھر سفر کے بعد صبح فجر کے قریب فرانس میں برطانیہ کی سرحد پر پہنچا۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ ان دنوں دہشت گرد حملے ہوئے تھے اس لیے سخت چیکنگ جاری تھی ۔پاسپورٹ کے علاوہ بھی پتہ نہیں کیا کیا کاغذات مانگے جاتے اور سوالات ہوتے۔ خیر، سرحد پر فرانس ہی میں برطانوی پولیس کے اہلکار بس میں داخل ہوئے اور ہر ایک کا پاسپورٹ چیک کرنا شروع کر دیا۔ جب اہلکار مجھ تک پہنچا تو مجھ سے اگلی سیٹوں پر بیٹھے جوڑے کے پاسپورٹ میں کوئی مسئلہ تھا۔ پولیس اہلکار نے ان کا پاسپورٹ لے لیا۔ اور اپنے ساتھی کو دے دیا کہ اسے چیک کرے۔اتنے میں مَیں نے اپنا پاسپورٹ اس کے آگے کر دیا۔ اس نے مجھے نظر انداز کر کے مجھ سے پچھلی سیٹ پر بیٹھے لوگوں کو پاسپورٹ دکھانے کو کہا۔ میں نے پھر اپنا پاسپورٹ نکال کر اطمینان سے ہاتھ بڑھا کر بالکل اس کے منہ کے آگے کر دیا ۔ اس نے پھر مجھے نظر انداز کر کے میرے مقابل بیٹھے لوگوں کو پاسپورٹ دکھانے کو کہا۔ میں نے مڑ کر اپنے پیچھے بیٹھے لڑکے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ وہ یہ سارا نظارہ دیکھ رہا تھا۔ اس نے کندھے اچکا دیے کہ پولیس والے کی مرضی۔ چنانچہ میں نے پاسپورٹ واپس اپنی جیب میں ڈال لیا کہ نہیں دیکھنا تو نہ سہی!

بہرحال متعدد لوگوں کو بس سے اتار لیا گیا۔جبکہ ہم آگے بحری جہاز پر چلے گئے۔سمندر عبور کر کے برطانیہ پہنچے تو امیگریشن کی کارروائی شروع ہوئی۔جب میرا نمبر آیا اور میں نے اپنا پاسپورٹ دکھایا تو برطانوی افسر حیران رہ گیا۔ کبھی مجھے دیکھے کبھی پاسپورٹ کا جائزہ لے۔ کبھی کسی کو فون کرے۔ پھر کہنے لگا کہ تم یہاں کیسے پہنچے؟ میں نے کہا کہ بس سے! کہنے لگا کہ نہیں تم فرانس سے بحری جہاز میں کیسے سوار ہوئے؟ میں نے کہا بس کے لوگوں کے ساتھ! وہ حیران ہو کر مجھے دیکھے اور مجھے سمجھ نہ آئے کہ مسئلہ کیا ہے؟ پھر کہنے لگا کہ تم نے یہاں کیا کرنا ہے۔میں نے کہا یہاں ہماری جماعت کے سربراہ رہتے ہیں ان کو ملنا ہے۔ کہنے لگا کہ کب تک رہو گے۔ میں نے کہا کہ کل واپس چلا جاؤں گا۔ کہنے لگا کہ بس ایک دن؟ لندن کی سیر نہیں کرنی، کسی کو ملنے نہیں جانا؟ میں نے کہا نہیں۔ کل ہی واپس چلا جاؤں گا۔ میرا ٹکٹ دیکھ لو۔اب وہ اور بھی پریشان ہوا۔پوچھا کہ رہو گے کہاں۔میں نے کہا کہ فارم پر جو پتہ لکھا ہے اس جگہ۔اس پر مسجد فضل کا پتہ لکھا ہوا تھا۔ کہنے لگا کہ تم میرے ساتھ آؤ۔ پھر ایک الگ کمرے میں مجھے بٹھا دیا۔پھر اس نے مجھے کہا کہ اپنی جیبیں خالی کرو اور اپنا بیگ بھی۔ میرے بٹوے میں یونیورسٹی کا کارڈ تھا۔اور کئی چیزیں تھیں سب کا جائزہ لے کر چلا گیا۔

پھر واپس آیا اور کہنے لگا تمہیں پتہ ہے تم غیر قانونی طور پر یہاں آئے ہو! میں نے کہاوہ کیسے؟ کہنے لگا کہ کل رات سے برطانیہ نے اپنا قانون تبدیل کر دیا ہے۔اب اسائلم پاسپورٹ والوں کو باقاعدہ ویزالے کر آنا پڑتا ہے۔جبکہ تمہارے پاس کوئی ویزانہیں۔میں نے کہا کہ مجھے کیا پتہ کہ رات کو قانون بدل گیا ہے۔کہنے لگا کہ پتہ ہو یا نہ ہو، اس وقت قانون بہرحال یہی ہے اور تم نے غیر قانونی حرکت کی ہے۔یہ تھا دعا کے پہلے حصے کا اثر۔یعنی فرانس میں بس میں برطانوی پولیس افسر کا میری کمزوری کی چیز نہ دیکھ سکنا۔ اللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا۔

اس کے بعد وہ دوبارہ کہیں چلا گیا۔عام طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ مجھے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے پر جرمانہ کرتا اور وہیں سے جرمنی واپس بھیج دیتا بلکہ دوبارہ برطانیہ میں داخلے پر کچھ عرصہ کی پابندی بھی لگا دیتا۔خیر۔کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے بعد واپس آیا اور کہنے لگا کہ ہم نے ساری تحقیق کر لی ہے جرمنی سے بھی ساری معلومات لے لی ہیں۔ تم واقعی وہاں رہتے ہو اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہو۔ تم نے سب کچھ بالکل ٹھیک بتایا ہے۔ہم نے کافی سوچا ہے(یعنی پتہ نہیں کہاں کہاں اس پر غور ہوتا رہا) اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں ایک ہفتے کا ویزا دے دیا جائے۔ آئندہ ویزا لے کر آنا۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا ، اپنا بیگ لیا اور اگلی بس میں بیٹھ کر لندن روانہ ہو گیا۔یہ تھا دعا کے دوسرے حصہ کا اثر۔ وَ آمِنْ رَوْعَاتِنَا۔ ہماری پریشانی اور خوف کی جگہوں کو سکون اور امن عطا فرما۔

راستے میں بیت السبوح سے ان دوست کا فون آیا کہ کیا بنا؟ یہ ان کی نوازش تھی کہ انہوں نے میرا خیال رکھا اور فکر کی کہ میں نے دعا بتا کر بھیج تو دیا ہے اب پتہ تو کروں کہ کیا ہوا۔ میں نے بتایا کہ یہ ہوا ہے اور اس دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے پولیس اہلکار کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔اب لندن جا رہا ہوں۔البتہ آئندہ لوگوں کو بتا دیں کہ ویز لے کر آیا کریں۔

حضورؒ کی اقتدا میں نماز اور ایک سبق

راستہ میں اندازے لگاتا رہا کہ کب لندن پہنچوں گا۔ ملاقات کا وقت کب ہے۔ ہاتھ منہ دھونے کا وقت ملے گا یا نہیں وغیرہ۔ خیر لندن وکٹوریا سٹیشن پہنچا۔ پھر وہاں سے پتہ نہیں کیسے مسجد فضل پہنچا۔ مسجد میں جا کر پہلی صف میں بیٹھ گیا۔ حضورؒ تشریف لائے ظہروعصرکی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں۔ کمزوری کی یہ حالت تھی کہ سہارا لے کر تشریف لائے ۔ پہلی دو رکعتیں کھڑے ہو کر پڑھاتے اور باقی دو رکعتیں کرسی پر بیٹھ کر۔ پھر سہارا لے کر واپس تشریف لے گئے۔

اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ جہاں تک مقدور ہو نماز کھڑے ہو کر ہی پڑھنی چاہیے۔اگر اللہ تعالیٰ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو اس میں کوئی حکمت اور فائدہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اللہ تعالیٰ کے بتائے اور آنحضورؐ کے سکھائے ہوئے طریق پر عمل کرتے رہنا چاہیے۔

ملاقات

ملاقات کیا تھی ایک عجیب ہی کیفیت تھی۔صرف حضور کو قریب سے اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور دعا کی درخواست کرنی تھی۔اس کے علاوہ تو میرا کوئی مقصد تھا ہی نہیں۔ حضورؒ کمال ضبط سے ایک ہاتھ سے بڑی مضبوطی کے ساتھ کرسی کو پکڑ کر بیٹھے تھے۔ چہرہ پر دواؤں یا بیماری کے اثر کی وجہ سے سرخی سی تھی۔ سلام عرض کیا، سلام حاصل کیا۔ اور دعا کی درخواست کی۔ اور ایک دو باتیں۔ دل ہی نہیں کرتا تھا کہ وقت لگے اور حضورؒ کو زیادہ بیٹھنے کی تکلیف ہو۔پھر تصویر۔ آپؒ کے ساتھ میری آخری تصویر۔ آپؒ عام طریق کے برخلاف بوجہ کمزوری کھڑے نہ ہو سکتے تھے چنانچہ کرسی پر ہی بیٹھے رہے۔اگلے دن فجر کے بعد میں واپس آ گیا۔ پتہ نہیں کیسے۔ غالباً اس کے اڑھائی ماہ بعد آپؒ کی وفات ہو گئی اور وہ باکمال شخص دنیا سےچلا گیا جسے پہلی مرتبہ 1981ء میں وقفِ جدید کے دفتر میں دیکھا تھا۔ کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ۔ وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ۔

آپؒ سے ملاقات کرنے کا ، بہت دفعہ مجلس عرفان میں سوال کرنے کا موقع ملا۔ بہت سے خطوط لکھے ۔بہت قریب سے اور بہت غور سے دیکھنے کا موقع ملا۔ کئی یادیں ہیں۔ اور بہت سے سبق۔ پھر کسی وقت توفیق ملی تو عرض کروں گا۔

لفاظی نہیں، کہ اس سے مجھے نفرت ہے، بلکہ علیٰ وجہ البصیرت میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک باکمال شخص تھا۔ جب ہنستا تو سب کو ساتھ ہنساتا اور جب روتا تو سب کو رلا دیتا تھا۔ اس میں انتہا کا عجز تھا ۔ پارس کوئی پتھر ہوا کرے، وہ تو مٹی ہو کر چھونے والے کو سونا بنا دیتا تھا۔ وہ بہت دکھی تھا، بہت حساس بھی ، مگر دوسروں کو احساس نہ ہونے دیتا تھا۔ وہ بہت بےتکلف تھا ، بہت بے ساختہ۔ وہ علم کا ایک دریا تھا۔ اس میں بے پناہ توانائی تھی۔ وہ بے حد محنتی تھا۔ بار بار اسے اکھاڑا گیا اور ہر بار اس نے اپنا نیا آسمان بنایا اور اپنی نئی زمین بچھائی۔ اس نے قیامت تک اثر دکھانے والے انقلاب آفرین منصوبے شروع کیے۔وہ بلا کا خطیب تھا۔ کمال کا زبان دان ۔اعلیٰ پائے کا شاعر ۔ زمین و آسمان کا خدا اس سے ہم کلام تھا۔ اس کی دعا معجزانہ اثر رکھتی تھی۔ اسے دست شفا دیا گیا تھا۔ اس کے جلال کا بھی اپنا ہی رنگ تھا۔ مگر اس کا جمال ہمیشہ حاوی رہا۔اس کی نمایاں ترین بات اس کا عشق رسولؐ تھا۔ اللّٰھم صلی علیٰ محمد و علیٰ آلِ محمد۔ اور یہ سب کیوں نہ ہوتا۔ خلافت کا منصب ہی ایسا پاکیزہ اور عالی مرتبہ ہے کہ اس پر بیٹھنے والا ہر وجود بے مثال اور لاجواب ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو، خدا تعالیٰ کی دوسری قدرت کا مظہر جو ٹھہرتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button