بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر 15)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭…کیاکسی آن لائن سسٹم کے تحت نماز تراویح ادا کی جا سکتی ہے ؟

٭…آج کل مجبوری کے حالات میں جبکہ گھر والے افراد گھر پر نماز با جماعت ادا کریں تو کیا عورت نماز باجماعت کےلیے اقامت کہہ سکتی ہے، نیز امام کے بھولنے پر لقمہ دے سکتی ہے؟

٭…مِلکِ یمین سے کیا مراد ہے۔نیز طلاق کی صحیح شرائط کیا ہیں اور ایک دفعہ زبانی طلاق کہنے سے طلاق واقع ہونے کے متعلق کیا حکم ہے؟

٭…کیا ایک احمدی کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھ سکتا ہے؟نیز بینک کے ساتھ مختلف معاملات لین دین کے حوالے سے کیا راہ نمائی ہے؟

٭…حضور انور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا ہے کہ’’سچے مومن کو اپنے بیوی بچوں کےلیے بھی دعا کرنی چاہیے، کیونکہ حضرت آدم ؑکو پہلا فتنہ بھی ایک عورت کی وجہ سے پیش آیا۔‘‘جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بائبل کا بیان ہے کہ حوّا حضرت آدم کو گمراہی کی طرف لےکر گئیں۔

٭…مینا بازار میں مہندی کے سٹال پہ منہ پہ Face Paintاور Tattoosبنوانا کیا اسلام میں جائز ہے؟

سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ خاکسار کی ملاقات مورخہ 13؍اپریل 2021ء میں خادم کے عرض کرنے پر کہ کیا کسی آن لائن سسٹم کے تحت نماز تراویح ادا کی جا سکتی ہے ؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے راہ نمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

جواب:اگر مسجد اور اس کے عقب میں گھر ایک ہی Locationمیں ہوں جیسا کہ اسلام آباد یوکے میں مسجدمبارک اور اس کے عقب میں کارکنان کے گھر ہیں تولاؤڈ سپیکر اور ایف ایم ریڈیو وغیرہ کے مواصلاتی ذریعہ سے جس کے منقطع ہونے کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں صرف مجبوری کی حالت میں جیسا کہ آج کل کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مجبوری ہے، نماز تراویح اور دیگر نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں۔لیکن اگر مسجد اور مکانات الگ الگ Locationsمیں ہوں یا مکانات مسجد کے آگے ہوں تو ایسے گھروں کے مقیم اس طرح مسجد میں ہونے والی نمازوں کی اقتدا میں نمازوں کی ادائیگی نہیں کر سکتے۔بلکہ وہ اپنے اپنے گھروں میں اپنی باجماعت نماز پڑھ سکتے ہیں۔

سوال: اسی ملاقات میں خاکسار نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ آج کل مجبوری کے حالات میں جبکہ گھر والے افراد گھر پر نماز با جماعت ادا کریں تو کیا عورت نماز باجماعت کےلیے اقامت کہہ سکتی ہے، نیز امام کے بھولنے پر لقمہ دے سکتی ہے؟اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا:

جواب:اگر صرف گھر کے مرد اور عورتیں ہوں تو لقمہ دے سکتی ہے، لیکن غیر مرد ہوں تو حسب ارشاد حضورﷺ کسی بھول، سہو کی صورت میں تالی بجائے گی۔ لقمہ نہیں دے گی یا سبحان اللہ نہیں کہے گی۔

نیز فرمایا :عورت اقامت نہیں کہے گی خواہ گھر میں ہی نماز ہو رہی ہو کیونکہ حضورﷺ نے اس کی اجازت نہیں دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں بھی آتا ہے کہ آپ جب کسی مجبوری کی وجہ سےگھر پر نماز ادا کرتے تھے اور حضرت اماں جانؓ کو نماز میں اپنے ساتھ کھڑا کر لیا کرتے تھے(حضور علیہ السلام کے حضرت اماں جان ؓکو ساتھ کھڑے کرنے کی مجبوری بھی حضرت اماں جان ؓنے بیان فرمائی ہوئی ہے) لیکن یہ کہیں نہیں آتا کہ آپ نے حضرت اماں جانؓ کو اقامت کہنے کا ارشاد فرمایا ہو۔اس لیے اقامت مرد خود ہی کہے گا۔اور ویسے بھی اقامت کے متعلق تو حدیث میں بھی آتا ہے کہ بوقت ضرورت امام خود بھی کہہ سکتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ارشاد مبارک میں جس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا وہ سنن ترمذی میںعمرو بن عثمان بن یعلی بن مرہ ؓسے مروی ہے، جسے وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا (حضرت یعلی بن مرہ ؓ)سے روایت کرتے ہیں کہ وہ لوگ نبی اکرمﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔چنانچہ جب وہ ایک تنگ جگہ میں پہنچے تو نماز کا وقت ہو گیا۔وہاں اوپر آسمان سے بارش برسنے لگی اور نیچے زمین پر کیچڑ ہو گیا۔پس رسول اللہﷺ نے اپنی سواری پر سوار رہتے ہوئے اذان دی اور اقامت کہی۔پھر حضورﷺ نے اپنی سواری آگے کی اور اشاروں سے انہیں نماز پڑھاتے ہوئے ان کی امامت کروائی۔آپ سجدے میں رکوع سے زیادہ جھکتے تھے۔

(جامع ترمذی کتاب الصلاۃ

بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الدَّابَّةِ فِي الطِّينِ وَالْمَطَرِ)

سوال:بلاد عرب سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ مِلکِ یمین سے کیا مراد ہے۔نیز طلاق کی صحیح شرائط کیا ہیں اور ایک دفعہ زبانی طلاق کہنے سے طلاق واقع ہونے کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍جنوری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضورنے فرمایا:

جواب:اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمنان اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے۔ چنانچہجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا کی قرآنی تعلیم کے مطابق دشمن اسلام کی ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کےلیے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کےقید کر لی جاتی تھیں۔اور پھر دشمن کی یہ عورتیں تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کےجب آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو چونکہ اس زمانے میں ایسے جنگی قیدیوں کو رکھنے کےلیے کوئی شاہی جیل خانے وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔اس لیے انہیں مجاہدین لشکر میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔اسلامی اصطلاح میں ان عورتوں کو مِلکِ یمین کہا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں مِلکِ یمین کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام برسرپیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ صرف اس وجہ سے کہ وہ برسر پیکار ہیں قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ جوبھی دشمن ہے ان کی عورتوں کوپکڑلاؤاور اپنی لونڈیاں بنالو۔ بلکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک خونریزجنگ نہ ہو تب تک کسی کو قیدی نہیں بنایاجاسکتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا ٭ۖ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ؕ وَاللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ۔ (الانفال:68)

یعنی کسى نبى کےلئے جائز نہىں کہ زمىن مىں خونرىز جنگ کئے بغىر قىدى بنائے۔تم دنىا کى متاع چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت پسند کرتا ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

یہاں جب خونریزجنگ کی شرط لگا دی تو پھر میدان جنگ میں صرف وہی عورتیں قیدی کے طور پر پکڑی جاتی تھیں جو محاربت کےلیے وہاں موجودہوتی تھیں۔اس لیے کہ وہ صرف عورتیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ حربی دشمن کے طورپر وہاں آئی ہوتی تھیں۔

پس اسلام انسانوں کو لونڈیاں اورغلام بنانے کے حق میں ہر گز نہیں ہے۔اسلام کے ابتدائی دَور میں اُس وقت کےمخصوص حالات میں مجبوراً اس کی وقتی اجازت دی گئی تھی لیکن اسلام نے اورآنحضرتﷺ نے بڑی حکمت کے ساتھ ان کو بھی آزادکرنے کی ترغیب دی اور جب تک وہ خود آزادی حاصل نہیں کر لیتے تھے یا انہیں آزاد نہیں کر دیا جاتا تھا، ان سےحسن واحسان کے سلوک کی ہی تاکیدفرمائی گئی۔

اورجونہی یہ مخصوص حالات ختم ہوگئے اور ریاستی قوانین نے نئی شکل اختیارکرلی جیساکہ اب مروج ہے تواس کے ساتھ ہی لونڈیاں اور غلام بنانےکا جواز بھی ختم ہوگیا۔ اب اسلامی شریعت کی روسے لونڈی یاغلام رکھنے کاقطعاً کوئی جوازنہیں ہے۔بلکہ حکم وعدل حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اب موجودہ حالات میں اس کوحرام قراردیاہے۔

طلاق کی شرائط یہ ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پورے ہوش و حواس میں اپنی مرضی سے طلاق دے تو طلاق خواہ زبانی ہو یا تحریری، ہر دو صورت میں مؤثر ہو گی۔

اسی طرح ایک دفعہ زبانی کہی ہوئی طلاق بھی طلاق ہی شمار ہو گی البتہ عدت کے اندر خاوند کو رجوع کا حق ہے بشرطیکہ یہ تیسری طلاق نہ ہو۔ کیونکہ تیسری طلاق کے بعد نہ عدت میں رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی عدت کے بعد نیا نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کہ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ والی شرط پوری نہ ہو یعنی یہ بیوی کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور تعلقات زوجیت کے بعد وہاں سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے طلاق یا خلع کے ذریعہ علیحدگی ہو جائے یا اس خاوند کی وفات ہو جائے تو تب یہ عورت اس پہلے مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔

البتہ ایک ہی وقت میں تین مرتبہ دی جانے والی طلاق صرف ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے۔چنانچہ کتب احادیث میں حضرت رکانہ بن عبد یزیدؓ کا واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دےدیں، جس کا انہیں بعد میں افسوس ہوا۔جب یہ معاملہ آنحضرتﷺ کے پاس پہنچا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس طرح ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔چنانچہ انہوں نے اپنی طلاق سے رجوع کر لیا اور پھر اس بیوی کو حضرت عمر ؓکے زمانۂ خلافت میں دوسری اور حضرت عثمان ؓکے زمانہ ٔخلافت میں تیسری طلاق دی۔

(مسند احمد بن حنبل، من مسند بنی ہاشم،

بدایۃ مسند عبد اللہ بن العباس۔ حدیث نمبر 2266)

سوال:ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک احمدی کے کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنے کے بارے میں نیز بینک کے ساتھ مختلف معاملات لین دین کے بارے میں مسائل دریافت کیے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ14؍جنوری 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے۔حضور نے فرمایا:

جواب:غیر احمدیوں کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا موقف ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاصریح مکذب اور مکفر تھا اس کا جنازہ پڑھنا تو کسی طرح درست نہیں۔ لیکن جو شخص حضورؑ کے دعاوی کا انکار ی نہیں تھا لیکن اس نے حضورؑ کے دعاوی کی تصدیق بھی نہیں کی۔ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنے والے اگر دوسرے لوگ موجود ہوں تو احمدیوں کو اس کی نماز جنازہ سے احتراز کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی جگہ کوئی مسلمان فوت ہو جائے اور اس کا جنازہ پڑھنے والا کوئی موجود نہ ہو تو احمدی اپنے امام کی اقتدا میں اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے کیونکہ کوئی کلمہ گو بغیر نماز جنازہ کے دفن نہیں ہونا چاہیے۔

غیر حکومتی بینکوں یا مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین کے معاملات میں اگر سود شامل ہو تو یہ ناجائز ہے۔لیکن اگر لین دین نفع نقصان کی شراکت کے طریق پر ہو تو جائز ہے۔

اسی طرح حکومتی بینکوں یا حکومتی مالیاتی اداروں میں جمع کروائی جانے والی رقوم پر ملنے والی زائد رقم سود شمار نہیں ہوتی۔کیونکہ حکومتی بینک اور مالیاتی ادارے اپنے سرمایہ کو رفاہی کاموں پر لگاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ملکی باشندوں کی سہولتوں کےلیے مختلف منصوبے بنائے جاتے ہیں، معیشت میں ترقی ہوتی ہے اور افراد ملک کےلیے روز گار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے ایسے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے ملنے والے منافع کو ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں۔

سوال:ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حضور انور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا ہے کہ’’سچے مومن کو اپنے بیوی بچوں کےلیے بھی دعا کرنی چاہیے، کیونکہ حضرت آدم ؑکو پہلا فتنہ بھی ایک عورت کی وجہ سے پیش آیا۔‘‘جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بائبل کا بیان ہے کہ حوّا حضرت آدم کو گمراہی کی طرف لےکر گئیں۔حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 4؍فروری 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔حضور نے فرمایا:

جواب:آپ نے میرے جس خطبہ کا حوالہ دیا ہے، اس میں بھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پڑھا ہے۔اس اقتباس میں حضور علیہ السلام نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ توریت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ پر آنے والے بلعم کے ایمان کے ضائع ہونے کی وجہ بھی اس کی بیوی ہی تھی، جسے بادشاہ نے بعض زیورات دکھا کر لالچ دی اور اس نے بلعم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف بد دعا کرنے پر اکسایا اور جس وجہ سے بلعم کا ایمان ضائع ہو گیا۔

علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعض تصنیفات میں قرآن کریم کے حوالے سے یہ مضمون بھی بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدم نے عمداً میرے حکم کو نہیں توڑا بلکہ اس کو یہ خیال گذرا کہ حوّا نے جو یہ پھل کھایا اور مجھے دیا شائد اُس کو خدا کی اجازت ہو گئی جو اُس نے ایسا کیا۔یہی وجہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب میں حوّا کی بریت ظاہر نہیں فرمائی مگر آدم کی بریت ظاہر کی اور اس کی نسبت فرمایا

لَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا

اور حوّا کو سخت سزا دی۔

اسی طرح ایک جگہ حضور علیہ السلام نے اس مضمون کو بھی بیان فرمایا ہے کہ جس طرح چھٹے روز کے آخری حصے میں آدم پیدا ہوا اسی طرح چھٹے ہزار کے آخری حصہ میں مسیح موعود کا پیدا ہونا مقدر کیا گیا اور جیسا کہ آدم نحّاشکے ساتھ آزمایا گیا جس کو عربی میں خنّاسکہتے ہیں جس کا دوسرا نام دجال ہے ایسا ہی اس آخری آدم کے مقابل پر نحّاش پیدا کیا گیا تا وہ زن مزاج لوگوں کو حیات ابدی کی طمع دے جیسا کہ حوّا کو اس سانپ نے دی تھی جس کا نام توریت میں نحّاشاور قرآن میں خنّاسہے۔

یہ بات بائبل کے حوالے سے بیان ہو یا قرآنی احکامات کی روشنی میں، اصل میں اس میں مرد اور عورت دونوں کی بعض فطرتی کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا گیا۔چنانچہ جہاں اس میں عورت کی یہ فطرتی کمزوری بیان کی گئی ہے کہ اس میں طمع اور لالچ کا مادہ پایا جاتا ہے وہاں اس میں اپنی ادا اور چالبازی کے ساتھ مرد کو ورغلانے اور اپنی بات منوانے کا گر بھی پایا جاتا ہے۔اسی طرح جہاں مرد خود کوبہت ہوشیار اور عقلمند سمجھتا ہے وہاں اس میں یہ کمزوری بھی ہے کہ وہ بہت جلد عورت کی باتوں میں آجاتا ہے۔اور اس حقیقت کو آنحضورﷺ نے بھی بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:

مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ۔(صحیح بخاری)

یعنی اے عورتوں کے گروہ! دین و عقل میں نسبتاً کم ہونے کے باوجود میں نے تم سے بڑھ کر کسی چیز کو نہیں دیکھا، جو بڑے،بڑے عقلمند اور مضبوط ارادہ والے مرد کی عقل مار دے۔

عورت کے اسی فطرتی نقص اور فطرتی ہنر سے جہاں ماضی کی بعض تنظیمیں اپنا مفاد حاصل کرتی رہی ہیں وہاں آج کے اس ترقی یافتہ زمانہ میں بھی بڑے بڑے ممالک کی اکثر جاسوسی تنظیمیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان تنظیموں میں بہت سی عورتوں کو صرف اس لیے رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنی اداؤں اور چالاکیوں سے کام لے کر مخالف تنظیموں یا اداروں کے مردوں سے ان کے راز نکلوائیں، اور اس میں انہیں کامیابی بھی ہوتی ہے۔

پس یہ وہ امور ہیں جن کا تعلق عورت اور مرد کی اس دنیوی زندگی کے ساتھ ہے لیکن اس کے ساتھ اسلام نے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ حقوق و فرائض کے معاملے میں نیز نیکیوں کے بجالانے پر ثواب کے ملنے میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں۔پس جس طرح مرد کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق اس کے کچھ حقوق اور کچھ ذمہ داریاں ہیں اسی طرح عورت کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق اس کے بھی ایسے ہی کچھ حقوق اور کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ان حقوق و فرائض کے بارے میں ان میں کوئی فرق نہیں۔اسی طرح جہاں ایک مرد کسی نیکی کے بجالانے پر ثواب کا حقدار ہوتا ہے اسی طرح عورت بھی اس نیکی کے بجالانے پر اسی قدر اور بعض امور میں اپنی صلاحیت اور قابلیت کی بنا پر نسبتاً کم مشقت والی نیکی بجا لانے پر مرد کے برابر اور بعض صورتوں میں اس سے زیادہ ثواب کی حقدار قرار پاتی ہے۔اسلام کی یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جس کا مقابلہ دنیا کا کوئی اور مذہب یا دنیا کی کوئی اور تعلیم ہر گز نہیں کر سکتی۔

سوال:گلشن وقف نو ناصرات کینیڈا جولائی 2012ء میں ایک بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ایک دفعہ میں نے مینا بازار میں دیکھا تھا کہ مہندی کے سٹال پہ Signs تھے کہ وہ منہ پہ Face Paintکرتے ہیں اور Tattoosبھی لگاتے ہیں۔تو کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا:

جواب:جو Tattoosلگاتے ہیں اور Face Paintکرتے ہیں، وہ غلط کرتے ہیں۔مہندی کے سٹال پر صرف مہندی ہونی چاہیے۔اگر لجنہ کی صدر نے یہ اس طرح رکھا ہوا تھا تو بالکل غلط کیا ہوا تھا۔منہ پہ بھی مہندی لگا دو، پاگل بنا دو، کارٹون بنا دو۔اللہ تعالیٰ نے انسان بنایا ہے تم اس کو جانور بنا دو۔ مہندی کا جو سٹال ہے، اس پہ مہندی صرف ہاتھ پہ لگا لو(اس موقع پر حضور انور نے ہاتھ کی سیدھی اور الٹی طرف نیز کلائی تک اشارہ کر کے فرمایا کہ)یہاں تک لگا لو، جو تم عورتوں کا سنگھار ہے، اس میں جائز ہے۔لیکن منہ پہ مہندی لگانا یا Tattooingکروانا اسلام میں منع ہے۔(اس موقع پر حضور انور نے صدر صاحبہ لجنہ کینیڈا سے بھی جواب طلبی فرمائی کہ ایسا کیوں کیا ہوا تھا۔اور پھر ان کے جواب پر حضور انور نے مزید فرمایا) Face Paintingکس لیے رکھی تھی؟ نہیں ہونی چاہیے۔یہاں وہ جو جن بھوت بناتے ہیں، وہ آپ نے بنانا تھا۔ (صدر صاحبہ کے عرض کرنے پر کہ تبلیغ کےلیے کیا تھا، حضور انور نے فرمایا)تبلیغ کےلیے کیا تھا، تو تبلیغ کےلیے صرف Face Painting ہی رہ گئی ہے۔چہرے بگاڑنے کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔اسلام نے اس کا بڑا واضح طور پہ حکم دیا ہوا ہے۔نئی نئی رسمیں نہ پیدا کریں۔رسمیں تو آپ لوگ پیدا کر رہے ہیں، بدعات تو آپ لوگ لجنہ والے پیدا کر رہے ہیں۔ تو اصلاح آپ نے کیا کرنی ہے؟ اسی طرح نیکی کے نام پہ بدعات اندر گھستی ہیں۔ حضرت آدم کو جو شیطان نے بھڑکایا تھا، یہ نہیں کہا تھا کہ تم یہ کرو تو اس سےبڑا لطف اٹھاؤ گے۔پہلے اس نے نیکی کی بات کر کے کہا تھا کہ یہ کرو، یہ بڑی نیکی ہےاور تم ہمیشہ کےلیے نیک بن جاؤ گے۔شیطان نے آدم کو اسی طرح بھڑکایا تھا ناں؟ ہمیشہ کےلیے نیک بنانے کے وعدہ پہ، حالانکہ وہ شیطانی وعدہ تھا۔تو یہی شیطانی کام آپ لوگ کر رہے ہیں۔یہ نئی نئی بدعات پیدا کر رہے ہیں۔لجنہ اور عہدیداروں کا کام یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کے منہ کو دیکھیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔اپنی اپنی بدعات نہ پیدا کریں، اپنی اپنی رسمیں نہ پیدا کریں۔ اور بچیو! تم لوگ میری جاسوس بنو اور صحیح صحیح باتیں بتایا کرو۔ ٹھیک ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button