یادِ رفتگاں

پیارے ابا جان سید محمد اشرف شاہ صاحب کی پیاری یادیں

(ثروت بخاری اہلیہ طاہر احمد جہانگیری برزبن آسٹریلیا)

میرے ابو سید محمد اشرف شاہ صاحب آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اپنے خصائل و جمال میں نیک ، سادہ ، ایماندار، سچے ، مخلص، محنتی اور جاں نثارِ احمدیت تھے۔ خلوصِ دل سے جماعت احمدیہ کے ساتھ پیار و محبت کا رشتہ اس طرح سے استوار کر رکھا تھا کہ ضلع بھر کی جماعت احمدیہ میں اپنے خلوص اور محبت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نےجماعت کی خدمت کا موقع بھی عطا کیا، آپ جوانی میں قائد خدام الاحمدیہ کے طور پر خدمت انجام دیتے رہے۔ ایک لمبا عرصہ آپ جماعت کے سیکرٹری مال رہے۔ اور پھر پانچ سال تک آپ کو جماعت کے صدر کے طور پر خدمت کا موقع ملا۔

والدِ گرامی پیشے کے اعتبار سے عرائض نویس تھے اور ضلع کچہری میں کام کرتے تھے اور اس اعتبار سے آپ کا روزانہ کا معمول تھا کہ لوگ آپ کے پاس کام کی غرض سے آتے تھے اور کافی تعداد میں آتے تھے۔ چنانچہ آپ کبھی بھی تبلیغ کا موقع نہ گنواتے تھے اور ہر آنے جانے والے کو تبلیغ کیا کرتے تھے۔ والد صاحب کے کردار کی وجہ سے لوگ دل سے احمدیت کو اچھا مانتے تھے۔ اسی لیے ہمارے شہر میں اس قدر مخالفت نہ تھی جس قدر دوسرے علاقہ جات میں پائی جاتی تھی۔ محلے کے تمام لوگ بھی والد محترم کی بہت عزت و احترام کرتے تھے کیونکہ دن رات میں کسی بھی وقت کسی بھی ضرورت مند کی بلا تفریق مذہب ، رنگ و نسل ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نکل پڑتے تھے۔

چندوں میں باقاعدگی کا یہ عالم تھا کہ اپنی روزانہ کی آمدن میں سے چندہ اسی دن کام سے گھر واپسی پر سیکرٹری مال صاحب کے گھر جا کر ادا کرتے تھے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اگر گھر پہلے آجائوں تو گھر کی ضرورتوں کو دیکھ کر کہیں چندہ دینے سے نہ رہ جائوں اسی لیے پہلے ہی ادا کردینا بہتر ہے۔ کسی بھی سفر پہ جانے سے پہلے چندہ کی تفصیل دیکھتے کہ کچھ چندہ بقایا تو نہیں ہے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ کیا پتہ واپس آئوں یا نہ آئوں اور میرا چندہ بقایا رہ جائے پھر میرا چندہ کون ادا کرے گا۔

ایک مرتبہ کا واقعہ آپ نے سنایا کہ میں ربوہ جا رہا تھا تو سیکرٹری صاحب مال سے راستے میں ملاقات ہو گئی انہوںنے بتایا کہ اتنا چندہ بقایا رہ گیا ہے آپ کا، تو آپ نے اپنی جیب میں دیکھا ،پیسے بھی بس اتنے ہی تھے کہ یا تو چندہ ادا کردیتے یا پھر ربوہ کا ٹکٹ خرید لیتے۔ آپ نے چندہ دینے کو فوقیت دی اور چندہ ادا کر دیا۔

ہمارے گھر کو خاندان میں چھوٹا دارالضیافت کہا جاتا تھا کیونکہ ہمہ وقت خاندان کے لوگ بھی آجاتے تھے اور اردگرد دیہات سے بھی لوگ ابو جان کے پاس کام کی غرض سے آیا کرتے تھے اور اگر ان کا کام دوسرے دن پربھی مشتمل ہوتا تو ابو جان ان کو روک لیا کرتے تھے۔ آپ اعلیٰ درجہ کے مہمان نواز تھے۔ لوگ آپ سے پوچھتے کہ آپ اتنا کھلا خرچ کیسے کر لیتے ہیں ؟ تو ابو جان فرماتے تھے کہ یہ سب چندوں کی برکات ہیں جس سے سب فیضیاب ہو رہے ہیں۔ میں اللہ کی راہ میں جس قدر دیتا ہوں اللہ میری کمائی میں اتنی ہی برکت دے دیتا ہے۔ آپ اکثر اپنے اصل چندے کے مقابلے میں زیادہ چندہ ادا کردیتے تھے اور جماعت کی توجہ دلانے پر کہ آپ کا چندہ زائد ہو گیا ہے تو آپ یہ کہہ کر کہ یہ تو جماعت ہی کے پیسے تھے ،زائد ادا شدہ رقم واپس نہ لیتے تھے۔ ربوہ سے آنے والے جماعتی مہمانوں کو بھی ابو اپنے ہی گھر ٹھہراتے تھے اور ان کی ہر ضرورت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ جماعتی رسالوں اور اخبارات کے بھی بڑے مداح تھے اور تمام ماہانہ رسالے اور اخبارات لگوارکھے تھے۔ گھر کے سب بچے جوان ہو گئے مگر پھر بھی تشحیذ الاذہان مسلسل لگوارکھا تھا۔ گھر میںسے کسی نے کہا کہ اب اس کو بند کردیں کیونکہ یہ تو بچوں کا رسالہ ہے توآپ نے فرمایا کہ نہیں یہ سب جماعت کا ہے اور دیکھو کتنی پیاری باتیں اس میں لکھی ہیں جنہیں میں شوق سے پڑھتا ہوں۔ آپ کو جماعت کی کتب سے بھی بہت پیار تھا اور تمام کتب جلد کروا رکھی تھیں، اور اس ڈر سے کہ کہیں کتب خراب نہ ہو جائیں ایک ہی کتاب کئی کئی بار خرید لیتے تھے۔ رات کو دیر تک کتب کا مطالعہ کرتے اور صبح کتابوں میں نشان رکھ دیتے کہ آج تم لوگ یہ پڑھنا۔ ان کا سارا بستر کتابوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔ صبح سویرے جب وہ مسجد جاتے تو میں ان کے بستر میں گھس کر وہ کتب پڑھا کرتی تھی۔

آپ کو خدا تعالیٰ نے حکمت (طب یونانی)میں بھی ملکہ عطا کیا تھا۔ آپ دوائیں بنا کے لوگوں کو مفت دیا کرتے تھے۔ آپ دیکھنے میں منحنی اور کمزور تھے لیکن کام کے معاملے میں بہت محنتی اور چست تھے۔

ہمارے دادا چار بھائی تھے اور جب دادا جان نے احمدیت قبول کی تو ان کے بھائیوں نے انہیں گھر سے مار کر نکال دیا اور ان کے حصہ کی تما م جائیداد بھی غصب کر لی۔ دادا جان کہتے تھے کہ مجھے زمین جانے کا کوئی دکھ نہیں مجھے بس احمدیت مل گئی ہے تو سب کچھ مل گیا ہے۔ بعد ازاں خاندان والوں نےوالد صاحب کو بھی کہا کہ آکے اپنے والد صاحب کا حصہ لے لیں مگر ابو جان نے بھی وہی الفاظ دہرائے جو دادا جان نے کہے تھے کہ مجھے احمدیت مل گئی تو سب برکتیں مل گئیں۔ آپ ہمیشہ کہتے تھے کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو حلال کمائی کھلائی ہے۔ہمیں بھی اپنے ابو پر فخر ہے کہ ان کی پوری زندگی مسلسل محنت اور جد و جہد کی زندگی تھی۔ حیات ِ فانی کے آخری دنوں میں سخت کمزوری اور علالت کے باوجود بھی جماعت کے کاموں سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔

آپ کے سینے پر جہاں بہت سے میڈل تھے وہاں ایک اور نوروں بھرا میڈل بھی اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے اور جماعت احمدیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تاریخ میں انمول اور انمٹ نقوش چھوڑ چکا ہے۔ آپ راہِ مولیٰ میں اسیر کا درجہ بھی پا چکے ہیں۔ اور ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں کلمہ کیس میں ایک ماہ تک اسیرِ راہِ مولیٰ رہ چکے ہیں۔

ابو جان کے ساتھ ساتھ میری والدہ محترمہ بھی ایک مثالی خاتون تھیں۔ انتہائی نیک ، صوم و صلوٰۃ کی پابند ، آپ نے گیارہ سال کی عمر سے روزہ رکھنا شروع کیا اور تا دمِ مرگ اس پر قائم رہیں۔ آپ کو خاندان میں سب وکیل صفائی کہا کرتے تھے کہ وہ کسی کی بھی چغلی نہ کرتیں اور نہ ہی سنا کرتی تھیں۔ خاندانی تقریبات میں بھی الگ بیٹھا کرتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ جہاں عورتیں مل کے بیٹھتی ہیں وہاں چغلی ہو ہی جاتی ہے۔ آپ کا شیوہ تھا کہ چھوٹے بچوں سے بھی پردہ کرتی تھیں۔ آپ بہت نرم دل ، صدقہ خیرات کرنے والی اور جماعت سے وابستگی رکھنے والی خاتون تھیں۔ اکثر دوپہر کے وقت بچوں سے کہتیں مجھے الفضل سنائو۔ آپ نظمیں بھی خوش الحانی سے پڑھا کرتی تھیں۔

آپ بہت دعا گو خاتون تھیں حتیٰ کہ راستہ میںچلتے ہوئے کسی اجنبی حاملہ عورت کو بھی دیکھ لیتیں تو اس کے لیے دعا کیا کرتی تھیں اور گھر آکر بھی اس خاتون کے لیے دو نوافل ادا کر کے دعاکرتیں۔

ہمارے ساتھ والے ہمسائے کافی مخالفت کرتے تھے اور ہمارے گھر سے باہر نکلنے والے پانی کی نکاسی بند کر دیتے تھے۔ اور عورت باہر کھڑی ہو کر گالیاں دیتی مگر امی جان نے کبھی بھی باہر نکل کر ان کو گالیوں کا جواب نہیں دیا اور ہمیشہ خود بھی صبر کرتیں اور ہمیں بھی صبر کی تلقین کرتیں۔ جبکہ باقی محلہ والے امی جان کی بہت تعریف کرتے کہ آفرین ہے اس عورت پر کہ کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کرتی۔ خدا تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام مرحمت فرمائے اور ان پر بےشمار رحمتیں نازل کرے۔

میرے والدین نے دین کو ہمیشہ دنیا پہ فوقیت دی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ اور گوجرہ کے درمیان میں ہماری بہت زرخیز اور مہنگے داموں خریدی گئی کچھ زمین تھی۔اس پر پورے گائوں اور کونسلر نے مل کر قبضہ کر لیا تھا۔ ابو جان جب بھی وہاں جاتے تو انہیں گائوں کے باہر ہی روک لیا جاتا اور کہا جاتا کہ گائوں کی مسجد میں چل کر کلمہ پڑھ لو اور اپنی زمین لے لو لیکن والد صاحب جان تو دے سکتے تھے مگر ایسا کبھی بھی نہ کر سکتے تھے۔ تیس سال والد صاحب کی زمین پر بے جا قبضہ رہا۔ علاقے کی سب سے زرخیز زمین ہونے کی وجہ سے بہت پیداوار ہوتی تھی جس میں سے میرے ابو کو کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ ایک بہت بڑی رقم اس زمین میں پھنس چکی تھی اور میرے ماں باپ پہ سات بیٹیوں کا بہت بڑا بوجھ بھی تھا مگر میں نے انہیں کبھی بھی جماعت کے لیے کمزور پڑتے نہیں دیکھا۔

آپ نے اپنے پیچھے سات بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں اور خدا کے فضل سے آپ نے سب کی شادیاں کر دی تھیں اور بچوں کا کوئی بوجھ سر پر نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ابو جان کی اولاد شش جہت میں پھیل چکی ہے اور جہاں جہاں بھی ہے کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت کر رہے ہیں۔ میری سب سے بڑی بہن اٹھارہ سال جرمنی کی نیشنل سیکرٹری مال رہی ہیں۔ جبکہ دوسرے نمبر کی بہن بائرن ریجن میں دس سال ریجنل صدر اور نیورن برگ میں دس سال مقامی صدر رہی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو بھی کافی جگہوں پر خدمت کی توفیق ملتی رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے والدین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور اپنے احسانات کی بارش تمام جماعت احمدیہ کے ہر فرد پر فرداً فرداً نازل فرمائے اور سب کو بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button