یادِ رفتگاں

کینیا کے مخلص اور فدائی احمدی ابو بکر کیبی صاحب مرحوم

(ناصر محمود طاہر۔ مربی سلسلہ کینیا)

اسلام کے شیدائی، خلافت احمدیہ کے فدائی، صد ق و وفا کے پیکر، قربانی، ایثاراور تبلیغ کے جذبہ سے سرشار ہمارے ایک پیارے بھائی اور مخلص دوست مکرم ابو بکر کیبی کپلاگٹ صاحب عین جوانی میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

آپ کی یاد ہمارے دلوں میں زندہ رہےگی، ان کے اس قدر جلدی چلے جانے کے صدمے نے ہمارے دلوں کو مغموم کیا ہے۔ آپ کے ساتھ بیتے ہوئے لمحات مہر درخشاں کی مانند ہماری یادوں کے آنگن میں جگمگاتے رہیں گے۔

خاکسار جب 2005ء میں کینیا آیا تو اس وقت سے ہی مکرم ابو بکر صاحب سے ذاتی تعلق قائم ہوا۔ جماعتی پروگرامز کی بدولت اکثر آپ سے میل ملاقات رہتی تھی۔ ہمیشہ نہایت پرتپاک انداز سے ملتے۔ 2016ءکے آخر میں جب خاکسار کا تبادلہ نکورو ریجن میں ہوا جہاں آپ صدر جماعت کے فرائض انجام دے رہے تھے تو یہ تعلق اور بھی مضبوط ہوا۔ قدم قدم پر آپ کے اخلاص و وفا کے اعلیٰ نمونے دیکھنے کو ملے۔ اس وقت ان سب کو بیان کرناممکن نہیں، مگر مشتے نمونہ از خروارے چند ایک کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ احبابِ جماعت سے ان کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا کی درخواست ہے۔

ابو بکر کیبی صاحب کی پیدائش 18؍اگست 1979ءمیں بارینگوکاؤنٹی کے علاقہ کبرنٹ میں ہوئی اور وہیں آپ پلےبڑھے۔ آپ کا تعلق کالنجیین قبیلہ سے تھا جو اس علاقہ کا اصل قبیلہ ہے اور اپنی بہادری اور شجاعت میں پورے ملک میں اپنا ایک نام رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کینیا کی مسلح افواج اور دیگر سیکیورٹی اداروں میں بخوشی ان کو جگہ دی جاتی ہے۔ آپ کا تعلق ایک عیسائی گھرانے سے تھا اور آپ اسی ماحول اور مذہبی روایات میں پل کر جوان ہوئے مگر آپ اس سے مطمئن نہیں تھے۔ چونکہ فطرت میں نیکی اور سچائی کی جستجو تھی اس لیے آپ ہمیشہ تلاش حق میں لگے رہتے۔ جب آپ ثانوی تعلیم مکمل کر کے فوج میں بھرتی ہوئے اور ٹریننگ کے لیے نیروبی میں مقیم تھے تو سنہ 2000ء میں ان کا تعارف نیروبی شہر کی ایک نواحی جماعت کسرانی کے معلم مکرم عثمانی نڈورو صاحب سے ہوا۔ ان سے تبادلہ خیالات کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو اطمینان قلب عطا فرمایا اور جلد ہی آپ حلقہ بگوش احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہو گئے۔ الحمد للہ۔

ابو بکر کیبی صاحب نے احمدیت میں داخل ہونے کے بعد ایمان و ایقان میں مثالی ترقی کی۔ آپ نے کسی قسم کی مخالفت یا لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ کی کبھی پروا نہ کی اورنہ کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا بلکہ آپ کا ہر قدم اخلاص و وفا کی شاہراہ پر آگے سے آگے ہی بڑھتا گیا۔ آپ ایک نڈر اور بہادر احمدی تھے جہاں بھی رہے، جہاں بھی گئے اپنے احمدی ہونے کا ببانگ دہل اعلان کیا اورجماعت کی تبلیغ کے کام کو ہمیشہ مقدم رکھا جس کی وجہ سے آپ کو بعض دفعہ نہایت مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر آپ کبھی گھبرائے نہیں بلکہ ہر مشکل اور مخالفت کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔

دوران سروس آپ یو این او پیس مشن کا حصہ بھی رہے اور کانگو اور صومالیہ جیسے شورش زدہ علاقوں میں تعینات رہے مگر جہاں بھی رہے جماعت سے تعلق اور تبلیغ کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا۔

ایک واقعہ آپ ہمیشہ تحدیث نعمت کے طور پر خاکسارکو سنایا کرتے تھےکہ جب وہ کانگو میں یو این او پیس مشن کا حصہ تھے تو وہاں پر پاکستانی فوج کی ایک یونٹ بھی اسی مشن پر تعینات تھی جس کا کیمپ کچھ فاصلے پر تھا۔ کافی دن ہوئےتھے کہ مکرم کیبی صاحب کی کسی احمدی بھائی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ دل میں خیال آیا کیوں نہ پاکستانی کیمپ میں جا کر پتہ کیا جائے شاید کوئی احمدی بھائی مل جائے۔ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار وہاں گیا اور اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں ایک احمدی ہوں اور اگر آپ کی یونٹ میں کوئی احمدی ہو تو مجھے اس سے ملا دیں۔ جس پر ڈیوٹی پر موجود فوجیوں نے کہا کہ آپ اپنے رابطے کی معلومات لکھوا جائیں اگر کوئی احمدی ملا تو اس سے آپ کا رابطہ ہو جائے گا۔

بیان کرتے ہیں کہ خاکسار واپس آ گیا مگر دل میں ایک کسک سی تھی۔ ابھی چند روز بھی نہ گزرے تھے کہ ایک لمبا چوڑا جوان پاکستانی کیمپ سے ہمارے کیمپ آیا اور میرے بارے میں استفسار کیا۔ بدقسمتی سےمیں اس وقت وہاں موجود نہیں تھا جس پر اس احمدی فوجی نے دریافت کیا کہ بیرک میں اس کا کونسا بیڈہے؟ چنانچہ اسے میرا بیڈ دکھایا گیا وہ احمدی فوجی میرے انتظار میں اس پر لیٹ گیا اور جب میں واپس آیا تو مجھے بتایا گیا کہ پاکستان کی فوج سے ایک فوجی میرا انتظار کر رہا ہے تو خاکسار فورا ًاپنی بیرک میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت قد آور اور مضبوط جسم کا شخص فوجی لباس میں میرے بیڈ پر لیٹا ہوا ہے۔ خاکسار پاس گیا اور اپنا تعارف کروایا تو وہ فورا ًکھڑا ہو گیا اور میرےگلے لگ گیا اور ایسے پیار اور تپاک سے ملا جیسے مدتوں سےبچھڑے دو سگے بھائی ملے ہوں۔ یہ سارامنظر بیرک میں موجود دیگر ساتھی بڑی حیرانگی سے دیکھتے رہے۔ جب یہ فوجی دوست چلا گیا تو میرے سب ساتھی فو جی جو اس منظر کو بڑی حیرانگی اور تعجب سے دیکھ رہے تھے فوراً مجھ سے پوچھنے لگے کے یہ کون تھا اور کیا تم اسے پہلے سے جانتے تھے، جس پر میں نے ان کو بتا یا کہ یہ میرا دینی بھائی ہے میں اس سے پہلے کبھی اس سے نہیں ملا۔ جس پر سب نے کہا کہ بھائی چارے اور اخوت کی ایسی مثال ہم نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

مکرم کیبی صاحب مرحوم کو افراد جماعت، کارکنان سلسلہ اور خاص طور پرمرکزی مبلغین سے بہت انس اور پیار تھا۔ جب بھی ملتے بڑے تپاک سے ملتے اور لازماً معانقہ کرتے۔

اس کے علاوہ اکثر ان کو کہتے سنا کہ اصل فوجی تو مبلغین ہیں جو مسیح الزمانؑ کے فوجی ہیں۔ میں تو صرف نام کا فوجی ہوں۔

2017ء میں خاکسار نے جب جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کے لیے روانہ ہوتے وقت انہیں بتایا کہ میں جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کے لیے جا رہا ہوں تو کہا کہ اگر موقع ملے توحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو میرا سلام عرض کرنا اور میرے لیے دعا کی درخواست بھی کرنا۔ اس کے علاوہ میرے لیے

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

کی ایک انگوٹھی اور جناح کیپ لانا جو بھی قیمت ہو گی میں ادا کروں گا۔

خاکسار جب جلسہ سالانہ سے واپس آیا اور آپ سے ملاقات ہوئی تو خاکسار نے انگوٹھی اور ٹوپی آپ کو دی جس پر آپ نے اس کی قیمت دریافت کی۔ میں نے کہا رہنے دیں میری طرف سے تحفہ سمجھ کر رکھ لیں جس پر کہا کہ تحفہ تو وہ ہوتا ہے جو بغیر مانگے ملے یہ تو میں نے آپ سے کہہ کر منگوائی ہیں اس لیے ان کی قیمت ضرور ادا کروں گا تا کہ کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ کیبی کسی دنیوی فائدےکے لیے احمدی ہوا تھا۔

آپ نہایت بے لوث خدمت کرنے والے اور نہایت خود دار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نےجب سے بیعت کی آپ مالی قربانی میں ہمیشہ پیش پیش رہے کبھی سستی اور غفلت نہیں برتی۔ جس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی کشائش سے نوازا تھا اور کہا کرتے تھے کہ میرے کئی سینئر افسر ہیں جن کی تنخواہ مجھ سے کئی گنا زیادہ ہے مگر پھر بھی ان کی مالی حالت میرے برابر نہیں یہ صرف جماعت اور چندےکی برکت سے ہے۔

بفضل خدا آپ نظام وصیت میں شامل تھے۔ جیسے ہی تنخواہ ملتی سب سے پہلے چندہ ادا کرتے اورباقی ضروریات بعد میں پوری کرتے۔ اور یہی عمدہ وصف اپنی اولاد میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ اس کی ایک مثال کا ذکرحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نےاپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍نومبر 2017ءمیں کچھ اس طرح فرمایا:

’’…نکورو۔ کینیا سے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ابوبکر کیبی صاحب جو اس وقت وہاں کے صدر جماعت ہیں اور کینیا ڈیفنس فورسز میں بطور سارجنٹ کام کرتے ہیں۔ یہ بہت مخلص احمدی ہیں۔ باوجود مسجد سے دور کینٹ ایریا میں رہنے کے باقاعدگی سے لمبا سفر طے کر کے جمعہ کی نماز پہ ضرور حاضر ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ساتھ اپنی تین بیٹیوں کو بھی لے کر آئیں اور لاتے ہیں۔ کینٹ میں اپنے گھر میں خاص طور پر ایم ٹی اے کی ڈش لگوائی ہوئی ہے۔ خود بھی اور اپنے ساتھ کام کرنے والے فوجیوں کو بھی اکثر ایم ٹی اے کے پروگرام دکھاتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں کچھ عرصہ سے ہر خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کی اہمیت کو اجاگر کر رہا تھا۔ چند روز قبل جمعہ کی نماز کے بعد انہوں نے مربی صاحب سے بیان کیا کہ میری بچیاں بھی یہ خطبہ سنتی ہیں اور دوران ماہ ایک مہمان ان کے گھر آئے اور واپس جاتے ہوئے میری چھوٹی بیٹی سمیرا، جس کی عمر ابھی صرف پانچ سال ہے، اس کے ہاتھ میں پچیس شلنگ پکڑا دئیے۔ جب مہمان چلا گیا تو یہ بچی اپنے باپ کے پاس آئی اور بیس شلنگ مجھے دیتے ہوئے کہا کہ یہ میری طرف سے چندہ تحریک جدید میں ادا کر دیں اور باقی پانچ شلنگ کی مَیں کچھ کھانے کی چیزیں لے لوں گی۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ3؍نومبر2017ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل24؍نومبر2017ءصفحہ7)

جس دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا نہایت خوش تھے اور کہا خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی زبان سے میرا نام ادا ہونا میرے لیے دین و دنیا کی سب سے بڑی متاع ہے۔

اگلے دن مجھے فون کیا اور بتایا کہ آ ج جب میں ڈیوٹی پر گیا تو میرے افسر نے مجھے اپنےدفتر بلایا اور ایک خط دیا جو نیروبی ہیڈ کوارٹر سے آیا تھا جس میں درج تھا کہ اس ماہ سے مجھے ایک درجہ اوپر ترقی دی گئی ہے اور ساتھ ہی تنخواہ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کل حضرت خلیفۃ المسیح نے میرا نام لیا اور آج یہ سب جو ہوا اسی کی برکت اور مرہون منت ہے۔

آپ اپنے والدین کی بڑی اولاد تھے اور ایک لحاظ سےتمام فیملی کا بوجھ آپ کے کند ھو ں پرتھا جس کو آپ نے بخوبی نبھایا۔ آپ اپنے والدین اور دیگر بہن بھائیوں کو اکثر جماعت کی تبلیغ کرتے تھے۔ اپنے والد صاحب کی، جن کی قریباً دو برس قبل وفات ہوئی، بڑی کوشش کر کے بیعت کروائی اور ان کا نماز جنازہ بھی جماعت کے معلم سلسلہ سے پڑھایا۔ آپاولی القربیکا بھی بے حد خیال رکھنے والے تھے۔ اپنی فیملی کے دو بچوں کو اپنے پاس رکھ کر تعلیم دلوا رہے تھے اوران کا تمام تر تعلیمی خرچ خود برداشت کررہے تھے۔ ان بچوں کی اپنی سرپرستی میں بیعت بھی کروائی اور خود ایک کا مسلم نام نور الدین اور دوسرے کا بشیر الدین تجویز کیا۔ اپنی بیٹیوں کے نام بھی امۃ الحفیظ اور امۃ الشافی رکھے۔ آپ کی ایک ہی نرینہ اولاد تھی جو سات برس کی عمر میں وفات پا گئی۔ آپ نے باوجود خاندانی دباؤ کےہر قسم کے رسم ورواج کو بالائے طاق رکھتے ہوئےاس کی تدفین احمدیہ قبرستان نیروبی میں کی۔

دوسروں کے کام آنا اور خدمت خلق کا وصف بھی ان میں بڑا خاص تھا۔ مکرم طاہر احمد صاحب شیانڈہ جماعت کے ہمارے ایک بہت فعال خادم ہیں انہوں نےخاکسار سے بیان کیا کہ 2018ءمیں خاکسار کے روز گار کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو خاکسار کافی پریشان تھا۔ اسی دوران جلسہ سالانہ کینیا پر میری ملاقات ابو بکر کیبی صاحب سے ہوئی تو میں نے اپنی پریشانی کا ذکر ان سے کیا تو انہوں نےکہا فکر نہ کرو میں کچھ کوشش کرتا ہوں۔ بیان کرتے ہیں کہ قریباً دو ماہ بعد مجھے فون کر کے کہاکہ جلدی سے میرے پاس آ جاؤ مَیں نے تمہارے لیے ایک سیکیورٹی کمپنی میں واچ مین کی نوکری ڈھونڈی ہے۔ طاہر صاحب بیان کرتے ہیں کہ کیونکہ میں اس جگہ بالکل اجنبی تھا مجھے قریباً ایک ماہ تک اپنےگھر میں بطور مہمان رکھا اور جب تک میری نوکری پکی نہیں ہوئی اور متبادل رہائش کا انتظام نہیں ہوا، میرا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اور تعلق صرف یہ تھا کہ یہ میرا احمدی بھائی ہے۔

مکرم کیبی صاحب کو تبلیغ اسلام کا جنون تھا۔ جب سے سوشل میڈیا عام ہوا تو آپ کو تبلیغ کی ایک نئی راہ مل گئی۔ باقاعدگی سے ہر خطبہ جمعہ اور دیگر جماعتی مواد شیئرکرتے یہاں تک کہ فیس بک نے آپ کا اکاؤنٹ بند کر دیا۔ بعد میں متبادل اکاؤنٹ سے یہ کام جاری رکھا۔ اور وفات سے پہلے جو آخری پوسٹ شیئرکی وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ جنوری 2021ءتھا۔ آپ کو خلافت احمدیہ سے عشق و محبت کا لازوال تعلق تھا۔ آپ خلیفۂ وقت کے ہر حکم کی اطاعت اور آپ کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہتے۔

آپ نے ایک بچھڑا اپنے مویشیوں میں صرف اس نیت سے رکھا ہواتھا کہ جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کینیا دورے پر تشریف لائیں گے تو اس کو مہمان نوازای کے لیے ذبح کریں گے۔ جب 2016ءاور2017ء میں کینیا میں قحط پڑا تو ملک کے طول و عرض میں ہزاروں مویشی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس وقت غذا کی قلت کی وجہ سے اس بچھڑے کی حالت بھی کافی خراب ہو گئی تھی۔ تب آپ نے مجھ سے کہا کہ یہ تو مرتا ہے اب میں کیا کروں؟ جس پر میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اسےحلال کر لیا جائے جب بعد میں حالات بہتر ہوں گے تو کوئی اور بچھڑا دیا جا سکتا ہےجس پر خاموش ہو کر چلے گئے۔

کچھ عرصہ بعد جب بارشیں ہوئیں اور حالات بہتر ہوئے تو ایک دن مجھ سے ذکر کیا کہ آپ کو یاد ہے میں نے آ پ کو اس بچھڑے کےبارے بتایا تھا اور آپ نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ اسے ذبح کر لوں جس پر میں خاموش ہو گیا تھا۔ بعد میں میں نے اس بارے بہت سوچا اور دعا کی مگر ساتھ ہی ایک اور بچھڑا اس قربانی کے لیے وقف بھی کر دیا۔ ایسا کرنے سے الحمدللہ میرا وہ بچھڑا بھی زندہ رہا اورمیرے مویشیوں کا دوسرے لوگوں کےمویشیوں کی نسبت نقصان بھی کم ہوا۔

2019ء میں آپ کی کوششوں سے گل گل کے مقام پر ایک نئی جماعت کا قیام ہوا۔ اس جماعت کے قیام و انصرام میں آپ نےبڑی سعی کی۔ اور اپنے گھر کے ایک کمرےکو نماز سینٹر کے طورپر وقف کر دیا۔ اس جماعت کے پہلے صدر جماعت بھی آپ ہی مقرر ہوئے۔ اپنی تمام ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھتے تھے اور بطریق احسن تا دم آخر نبھاتےہے۔ اپنے بچوں کو ایم ٹی اے دکھانے کا بطور خاص انتظام کرتے۔ اسی طرح دیگر زیر تبلیغ دوستوں کو ایم ٹی اے دکھانے کے لیےاپنےگھر مدعو کرتے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطابا ت بڑی باقاعدگی سے خود بھی دیکھتے اوردوسرں کو بھی دکھاتے۔

آپ کچھ عرصے سے گردوں اور جگر کے عارضے میں مبتلا تھے۔ اس وجہ سے وقفہ وقفہ سے ہسپتال میں داخل رہے۔ ماہ نومبر میں ہسپتال سے گھر آئےتو باوجود طبیعت خراب ہونے کے مسجد تشریف لائے اور نماز جمعہ کے بعد کافی دیر تک خاکسار کے پاس بیٹھے رہے اور اپنی صحت اور علاج کےبارے باتیں کرتے رہےاور کہا کہ شیخ! آج میں سڑک سے موٹر بائیک لےکر مسجد آیا ہوں کیونکہ پیدل چل کر پہاڑی چڑھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ کافی عرصے سے نماز جمعہ نہیں ادا کر سکاتھا اس لیے مَیں نے آج ہر حال میں آنے کا فیصلہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں پہنچ گیا۔

ان کی والدہ جو احمدی نہیں ہیں کا خیال تھا کہ ان کا بیٹا اصل میں بیمار نہیں بلکہ کسی نے اس پر جادو ٹونا کر دیا ہے۔ اس کے حل کے لیے انہوں نے عملیات کرنے والے چند افراد سے رابطہ کیا اور ان کو لےکر بیٹے کےپاس جانے کا پروگرام بنایا۔ جب ابو بکر صاحب کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی والدہ صاحبہ کو نہایت سختی سے منع کر دیا اور کہا کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ میرا ایمان کسی ایسی مشرکانہ حرکت کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

جب طبیعت کچھ سنبھلی تو مجھے فون کیا کہ کافی دن ہو گئے ہیں میں مسجد نہیں آ سکا میری خواہش ہے کہ مسجد آؤں جس پر خاکسار نے جماعتی گاڑی اور ڈرائیوربھیجا جو ان کو مسجد لایا۔ طبیعت کافی خراب تھی اورکمزوری اتنی تھی کہ بغیر سہارے کے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے تھے مگر کافی دیر تک میرے پاس بیٹھے رہے اور حال احوال بتاتے رہے اور مجھ سے کہا کہ میری صحت کے لیے حضور انور ایدہ اللہ کو خط لکھ دیا جائے۔ اس وقت آپ کے ساتھ آپ کی چھوٹی بیٹی تھی۔ اس کو بار باروصیت کے رنگ میں کہتے ہماری مسجد یہی ہے۔

آپ کی وفات 30؍جنوری 2021ءکو وار میموریل ہسپتال نیروبی میں 42سال کی عمر میں ہوئی۔ آپ کا جسد خاکی پورے فوجی اعزاز کے ساتھ مورخہ 2؍فروری 2021ء بروز منگل نیروبی سے آپ کے گھر رونگائی لایا گیا۔ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ پورے نکورو ریجن اور ملک کے دوسرے حصو ں سے آئے احمدی احباب کی ایک خاصی تعداد نے آپ کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی۔ خاکسار نے نماز جنازہ پڑھائی اور تد فین کے بعد قبر پر دعا کروائی۔

ابو بکر کیبی صاحب نے پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹیوں کے علاوہ والدہ،ایک بھائی اور دو بہنیں سوگوارچھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور مرحوم کی نیکیوں کو جاری رکھنے والا بنائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button