سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مولوی اللہ دتہ صاحب لودھی ننگل کے ساتھ ایک بحث

آریہ سماج اور برہمو سماج کے عقائد کے پرخچے اڑاتے ہوئے حضرت اقدسؑ عیسائیت کے مذموم اور زہریلے عقائد وتبلیغ سے بھی بے خبر نہیں تھے۔ لیکن یہ بھی بعد میں کسی اورجگہ تفصیل سے بیان ہوگا۔ ابھی اسی زمانے کی ایک اور خط وکتابت کا ذکر کیا جاتاہے جوایک مسلمان عالم سے ہوئی۔ اوریہ تھے مولوی اللہ دتہ صاحب آف لودھی ننگل۔ حضرت اقدسؑ نے انہیں اپنے بچوں کی تعلیم وتدریس کے لیے قادیان میں بلایا ہواتھا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ قادیان سے توواپس چلے گئے لیکن حضوراقدسؑ کے ساتھ ان کی خط و کتابت رہی۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ قادیان میں رہتے ہوئے حضورؑ کے ساتھ ان کے علمی مباحث ہواکرتےتھے۔ اسی طرح سے ایک خط مولوی اللہ دتہ صاحب نے حضورؑ کولکھاجس کاجواب آپؑ نے فارسی میں منظوم کلام کے ساتھ دیا۔

یہ خط درثمین فارسی مترجم میں بھی ہے، اور حیات احمدجلداول میں بھی ہے۔ (دیکھیے حیات احمد جلد اول صفحہ328۔ 338۔ ناقل)

اس خط کے مندرجات میں آپؑ کےمعمولات اوراس عہدکے کچھ نظریات و خیالات کااظہاروبیان ہے۔ جیسے گفتگوکے آداب اور محاسن، دوستوں کی ملاقات اور خط و کتابت کی اہمیت وضرورت، دینی بحث مباحثہ میں آپؑ کی وسعت قلبی اور عالی حوصلگی، محبوبان الٰہی کی علامات، اس عہدمیں تعلیم وتدریس کے لیے علماء اور اساتذہ کارویہ اور زرطلبی، اور سب سے بڑھ کراس خط کامضمون جوا س خط کی گویاجان ہے وہ آنحضرتﷺ کی حیات جاودانی کانظریہ ہے جوآپؑ کے عشق ومحبت رسولﷺ کی ایک روشن اور معطر دلیل ہے۔

الغرض یہ ایک جھلک تھی، بہت ہی مختصر جھلک آپؑ کی سوانح میں سے اس قلمی و علمی ولسانی جہاد کی جوآپؑ نے اس عہدمیں کیا۔ اس زمانہ میں آپؑ نے اسلام کے دفاع اور حق میں مختلف اخبارات میں مضامین لکھے۔

اخبارمیں شائع ہونے والاسب سے پہلامضمون

حضور علیہ السلام کے اپنے نام سے جو مضامین ملکی اخبارات میں شائع ہونے شروع ہوئے ان میں ابھی تک دستیاب ہونے والا سب سے پہلا مضمون بنگلور کے دس روزہ اخبار منشور محمدی 25ذی قعدہ 1294ھ مطابق یکم دسمبر 1877ء میں شائع ہوا۔

یہ تاریخی مضمون دراصل ایک نہایت اہم اعلان تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذاہب عالم کو اپنے بیس سالہ تجربہ و مشاہدہ کی بنا پر یہ زبردست چیلنج کیاکہ تمام انسانی معاملات اور تعلقات میں سچائی ہی تمام خوبیوں کی بنیاد اور اساس ہے۔ اس لیے ایک سچے مذہب کی نشان دہی کا آسان طریق یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس نے سچائی پر کار بند ہونے کی کہاں تک زور دار اور موثر طریق پر تلقین کی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے یہ زبردست معیار قائم کرتے ہوئے پورے وثوق سے یہ اعلان فرمایا کہ آپ ہر اس غیر مسلم کو پانچ سو روپیہ کی رقم بطور انعام پیش کرنے کے لیے تیار ہیں جو اپنی مسلمہ مذہبی کتابوں سے ان تعلیمات کے مقابل آدھی بلکہ تہائی تعلیمات بھی پیش کردے جو آپ اسلام کی مسلمہ اور مستند مذہبی کتب سے سچائی کے موضوع پر نکال کر دکھائیں گے۔

منشورمحمدی میں شائع ہونے والا یہ تاریخی مضمون ہدیۂ قارئین کیاجاتاہے۔

پانسو روپیہ کا اشتہار

’’میں اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کر کے پنڈت دیانند صاحب سورستی کو خصوصاً اور دیگر پنڈتان اور علماءمسیحی کو عموماً بطور اشتہار وعدہ دیتا ہوں کہ اگر ان لوگوں میں سے کوئی صاحب متفرق مقاموں کے قول جو ویدیا انجیل میں بابت تاکید التزام حق گوئی اور راست روی اور صدق شعاری کے صریح صریح موجود ہوں بقید تعداد تکرار تاکید کے ایک فہرست میں نمبر وار جمع کریں یعنے یہ ظاہر کر کے دکھلا دیں کہ مثلًا تاکید راست گوئی کی بیس مقام وید میں آئی ہے یا تیس مقام میں آئی ہے بعد اسکے ایک نقل اس فہرست کی دستخطی اور مہری اپنے ہمارے پاس بھیج دیں اور میں اس جگہ سے ایک فہرست مکمل ان آیات اور اقوال کی جو ہم کو خدایتعالٰے نے بابت لازم پکڑنے صدق اور راستی کے کل اقوال اور افعال میں ارشاد فرمایا ہے بعد ثبت دستخط اپنے کے بھیج دونگا بعد ملاحظہ اور پرتال صحت کے اگر نمبر مقامات وید یا انجیل کے جو مضمون تاکید راست گوئی پر بطور تذکیر یا ترغیب یا تبشیر یا انذار یا مدح یا ذم کذب کے دلالت کرتے ہوں ہماری فہرست پیش کردہ سے تعداد میں زیادہ نکلیں اگرچہ ایک نمبر میں زیادتی ہو یا برابر نکلیں یا ثلث کم نکلیں یا نصف کم نکلیں تو میں مبلغ پانچسو روپیہ اس شخص کو دوں گا جو ایسی فہرست پیش کر کے کرے اور اگر ادا میں توقف ہو تو شخص غالب کو اختیار ہو گا جو بموجب قانون معاہدہ مجریہ حال اور ایکٹ 10، 1877ء کے روپیہ عہد نامہ ہذا کا مدد سرکار سے وصول کرے لیکن اگر بعد اس اشتہار کے کوئی سر نہ اٹھاوے تو وہ مغلوب سمجھا جائے گا فقط۔

المشتہر مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضیٰ مرحوم رئیس قادیان عفے عنہ‘‘

اسی اخبارمیں اسی اعلان واشتہارکے ساتھ ایک اوراعلان شائع ہواجودرج ذیل ہے:

اعلان نامہ متعلقہ اشتہار

’’ہر ایک دانا پر جو طالب حق ہے یہ بات واضح ہے جو بعد توحید جناب باری تعالیٰ کے عمدہ تعلیم سچ بولنے اور سچ پر قائم رہنے کی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی بزرگ نیکی ہے کہ اگر انسان اپنے سب قولوں اور فعلوں اور حرکتوں اور سکونوں اور جملہ معاملات اور موارد نیک میں بشرط نیک نیتی اور اتباع امور خیر کے لازم پکڑ لے تو باقی سب نیکیاں بالفرض حاصل ہو جائیں گی اب تمام ارباب صدق و دیانت پر روشن ہو کہ اگرچہ خدا کی سب پاک کتابیں ہمارا ایمان ہے و آمنت باللہ و رسلہ ورد دل و زبان ہے لیکن ہم عدالت اور حق کے التزام کی تعلیم محمدیؐ میں جس کا مخزن قرآن مجید اور احادیث صحیحہ ہیں اس قدر تاکید شدید پاتے ہیں کہ بلا شائبہ تکلف ہزارم حصہ اس کا بھی دوسری کتاب میں نظر نہیں آتا وجہ یہ معلوم ہوئی جو وہ رسول خاتم الرسل ہے اس لئے تعلیم ان کی مکمل اورمتمم دوسری کتابوں کے ہے۔ اور یہ میری بست سالہ تحقیقات کا نتیجہ ہے جو آج میں ظاہر کرتا ہوں لہٰذا ایک اشتہار انعامی پانسو روپیہ کا جو ہمراہ اعلان نامہ ہذا ہے مشتہر کر کے بخدمت جملہ صاحبان مسیحی و یہودی و مجوسی و آریا سماج و عامہ پنڈتان ہنود ملتمس ہوں کہ اگر کوئی صاحب میری رائے سے متفق نہ ہوں تو سب شرائط مندرجہ اشتہار کے اپنی اپنی کتاب مخصوص الرسول یا کلام الرسول سے جو اس فرقہ میں مشتہر ہو چکے ہوں تعداد مختلف اوقات کے احکام اور مواعظ صدق کا پیش کریں اور ہم بھی انہیں شرائط کے پابند رہیں گے اور شخص غالب کو حسب شرائط اشتہار اور اعلان نامہ ہٰذا کے کل روپیہ یک مشت دیا جائے گا اور در حالت مغلوب ہونے کے ہماری طرف سے کچھ تقاضا نہیں ہوگا۔ فقط

المشتہر و المعلن

مرزا غلام احمد رئیس قادیان‘‘

(اخبار ’’منشور محمدیؐ ‘‘ مورخہ 25 ذیقعدہ 1294ہجری نبوی جلد 6 نمبر 33 صفحہ 1و 2)

اخبارات کا تعارف

یہ عہدتکمیل اشاعت کاعہدتھا۔ اوراس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کاانتخاب فرمایا اور اس کے لیے ایسے وسائل اور ایسی ایجادات منصہ شہودپرآئیں کہ عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے۔

وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَہَا

اخبارات ورسائل اور کتب کی نشر وطباعت

وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ

کاایک ایسا عہدشروع ہواکہ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔ کاغذاور پریس کی وسعت پذیر ترقیات سے اخبارات ورسائل شائع ہونے شروع ہوئے۔ اور آج کتب خانوں اور الیکٹرانک میڈیااور انٹرنیٹ کی بدولت اخبارات ورسائل کی گویاایک کائنات ہے جو انسانی آنکھ کے سامنے ہے۔

حضرت اقدس علیہ السلام نے تبلیغ واشاعت اسلام کے لیے جہاں دوسرے مختلف ذرائع کواستعمال فرمایا وہاں اخبارات ورسائل کوبھی اس مقصدکے لیے بروئے کارلاتے ہوئے دنیاکے کونے کونے تک توحیدکے پیغام کوعام کیا۔ اس وقت کے بیشتراخبارات کہ جن میں اسلام کے خلاف کوئی مضمون شائع ہوتا تو آپؑ ایسے اخبارات کومنگواتے، اس کامطالعہ فرماتے اور اس کاجواب لکھ کراپنے نام سے اور کبھی کسی کے نام سے شائع کروادیتے۔

زمانہ ماموریت کے بعد تو پھر دنیابھرسے مختلف زبانوں اور مقامات کے اخبارات قادیان میں آنے شروع ہوئے جو براہ راست غیر زبانوں کے اخبارات آپ کے ہاں پہنچے آپ جستہ جستہ مقامات سے ان کا ترجمہ سنتے اور اگران کے کالموں میں اسلام کی تردید میں کوئی مضامین آتے تو اس کا جواب لکھوا کر شائع فرماتے۔ اور جو خود مطالعہ فرما سکتے وہ ضرور پڑھتے۔ اخبارات کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا آپ کا معمول تھا۔

اس زمانہ کے کچھ اخبارات کامختصر تعارف پیش خدمت کیاجارہاہے ان میں سے کچھ اخبارتو آپؑ کے زیرمطالعہ بھی رہے اور جن میں آپؑ کے مضامین شائع ہوئےوہ اخبارات بھی اس میں شامل ہیں۔

اشاعۃ السنۃ: لاہور سے یہ رسالہ 32 صفحات پر 1878ء میں نکلا۔ اس کے مہتمم ابوسعید محمد حسین بٹالوی تھے۔

سفیر ہند: امرتسر سے یکم جنوری 1878ء کو یہ ہفتہ وار اخبار 16 صفحات پر ظہور میں آیا۔ اس کے مالک پادری رجب علی تھے۔ مطبع سفیر ہند میں اس کی طباعت ہوتی تھی۔

آفتاب ہند: جالندھر متصل جامع مسجد سے 1881ء میں یہ ہفتہ واراخبار جاری ہوا۔ 8 صفحات کا اخبار تھا۔ اس کے بانی برکت علی شوکت تھے۔ مہتمم منشی سلطان علی صولت تھے۔ مطبع قیصری میں طباعت ہوتی تھی۔

…………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button