خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 07؍ مئی 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہﷺ نے یہ دعا کرتے ہوئے تین دفعہ آپؓ کے سینے پر ہاتھ مارا کہ اے اللہ! اس کے سینے میں جو کچھ بغض ہے اسے دور کردے اور اس کو ایمان سے بدل دے

آج رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ رمضان میں جن نیکیوں کی توفیق ملی ہے انہیں رمضان کے بعد بھی جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے

درود اور استغفار کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنے اور خصوصی دعاؤں کی تحریک

رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَ انْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ اور اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ

یہ دعائیں بہت زیادہ پڑھیں

نمازوں کا جس طرح رمضان میں اہتمام ہوتا ہے وہ رمضان کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے۔ ہر طرح کے فتنے سے بچنے، مسلم امہ اور مجموعی طور پر انسانیت کےلیے بھی دعا کریں

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 07؍ مئی 2021ء بمطابق 07؍ہجرت1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 07؍ مئی 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت آصف بن اویس صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عمرؓ کےاسلام قبول کرنے کا ذکر ہورہا تھا۔حضرت مصلح موعودؓ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اسلام کی برابر مخالفت کرتے رہے ایک دن ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس مذہب کے بانی کا ہی کام تمام کردیا جائے چنانچہ وہ تلوار ہاتھ میں لے کر گھر سے نکلے۔ راستے میں کسی شخص سے عمرؓ کو اپنی بہن اور بہنوئی کے اسلام قبول کرلینے کا علم ہوا تو آپ بہن کے گھر پہنچے جہاں ایک صحابی کےقرآن کریم پڑھنے کی آواز سنائی دی۔ تاخیر سے دروازہ کھولے جانے پر حضرت عمرؓ کا غصّہ مزید بڑھ گیا اور انہوں نے اپنے بہنوئی سے فوراً اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوال کیا۔ بہنوئی نے پردہ ڈالنا چاہا تو حضرت عمرؓ انہیں مارنے کے لیے آگے بڑھے۔ آپؓ کی بہن درمیان میں آگئیں ،عمرؓ کاہاتھ ان کی ناک پر لگااور خون بہنے لگا۔ حضرت عمرؓ جذباتی آدمی تھے چنانچہ یہ دیکھ کر ان کے اندر نرمی کے جذبات پیدا ہوگئے اور انہوں نے قرآن کریم کے اوراق دکھانے کی درخواست کی۔ آپؓ کی بہن کے مطالبے پر عمرؓ نے غسل کیا اور جب غسل کے بعد آپؓ نے قرآنی آیات پڑھیں تو چونکہ ان کے اندر ایک تغیر پیدا ہوچکا تھا اس لیے وہ آیات ختم کرتے ہی آپ نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا۔ اس کے بعد آپ ننگی تلوار لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دارِارقم حاضر ہوگئے۔حضرت عمرؓ کو یوں ننگی تلوار لیے دروازے کے باہر کھڑا دیکھ کر صحابہ کو تشویش پیدا ہوئی۔ حضرت حمزہؓ نے کہا کہ دروازہ کھول دو مَیں دیکھوں گا کہ وہ کیا کرتا ہے۔ جب دروازہ کھلا تو حضرت عمرؓ آگے بڑھے اور رسول اللہﷺ کے استفسار پر عرض کی کہ مَیں آپؐ کا غلام بننے کےلیے حاضر ہوا ہوں۔ وہ عمرؓ جو ایک گھنٹہ قبل اسلام کےشدید دشمن تھے اور رسول کریمﷺ کو مارنے کےلیے گھر سے نکلے تھےایک آن میں اعلیٰ درجے کے مومن بن گئے۔

ابتدائے زمانہ اسلام میں صرف دو شخص مسلمانوں میں بہادر سمجھے جاتے تھے ایک حضرت عمرؓ اور دوسرے امیر حمزہؓ۔ جب یہ دونوں مسلمان ہوئے تو رسول اللہﷺ نے ان کی درخواست پر خانہ کعبہ میں علی الاعلان نماز ادا کی۔

حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کی خبر پھیلتے ہی کفار نے آپؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا ایسے میں مکے کے رئیسِ اعظم عاص بن وائل نے عمرؓ کو پناہ دینے کا اعلان کیا۔ حضرت عمرؓ چند دن تو امن میں رہے لیکن اس حالت کو آپؓ کی غیرتِ دینی نے برداشت نہ کیا اور آپؓ عاص بن وائل کی پناہ سے نکل آئے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بس مَیں مکّہ کی گلیوں میں پٹتا اور پیٹتا ہی رہتا تھا۔

حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ عاص بن وائل کا قبیلہ بنو سہم اور حضرت عمرؓ کا خاندان بنوعدی ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ اس معاہدے اور دوستی کی وجہ سے عاص بن وائل نے اپنا اخلاقی فرض جانا کہ وہ حضرت عمرؓ کی مدد کرے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ دیکھو رسول کریمﷺ کے کتنے کتنے شدید دشمن تھے مگر پھر ان پر کیسی تبدیلی پیدا ہوئی۔

ضرت عمرؓ جو اسلام کے خلاف لٹھ لیے پھرتے تھے جب انہیں اسلام لانا نصیب ہوا تو دن رات دین کے فائدے کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے لگے۔

حضرت مسیح موعودؑ حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ابوجہل کی طرف سے رسول اللہﷺ کے قتل پر انعام کے اعلان اور حضرت عمرؓ کے رات کے وقت خانہ کعبہ میں آنحضورﷺ کو دعائیں کرتے ہوئے سننے کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں حضرت عمرؓ خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سجدے میں اس قدر رو رو کر دعائیں کیں کہ مجھ پر لرزہ پڑنے لگا۔ان دعاؤں کو سن کر جگر پاش پاش ہوتا تھا۔ آخر ہیبتِ حق کی وجہ سے میرےہاتھ سے تلوار گِر پڑی اور مَیں نے آ نحضرتﷺ کی اس حالت سے سمجھ لیا کہ یہ سچا ہے اور ضرور کامیاب ہوجائے گا۔

ایک دوسرے مقام پر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں آخر حضرت عمر مسلمان ہوئے اور پھر وہ دوستیاں وہ تعلقات جو ابوجہل اور دوسرے مخالفوں سے تھیں یکلخت ٹوٹ گئے اور ان کی جگہ ایک نئی اخوت قائم ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ اور دوسرے صحابہ ملے اور پھر ان تعلقات کی طرف کبھی خیال تک نہ آیا۔

حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام سے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے تین مختلف حوالے پیش کرنے کے بعد حضورِانور نے فرمایا کہ ان تینوں جگہوں پر رات کو خانہ کعبہ میں حملے کا ذکر ہے۔شاید اس کے بعد پھر نفس کے ہاتھوں مجبور ہوکر دن کو بھی نکلے ہوں اور وہ بہن بھائی والا واقعہ پیش آیا۔

حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہﷺ نے یہ دعا کرتے ہوئے تین دفعہ آپؓ کے سینے پر ہاتھ مارا کہ اے اللہ! اس کے سینے میں جو کچھ بغض ہے اسے دور کردے اور اس کو ایمان سے بدل دے۔

حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو لوگوں سے پوچھا کہ قریش میں سب سے زیادہ باتیں پھیلانے کی عادت کس شخص کو ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جمیل بن معمر کو چنانچہ آپؓ صبح صبح اس کے پاس گئے اور اسے اپنے قبولِ اسلام کا بتادیا تاکہ آپؓ کا اسلام قبول کرنا کسی سے ڈھکا چھپا نہ رہے۔

ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ آپؐ مجھے ہرچیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا :تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک مَیں تمہارے نفس سے زیادہ تمہیں محبوب نہ ہوجاؤں۔حضرت عمر نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! اب آپؐ مجھے میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہاں اب ٹھیک ہے۔

حضرت عمرؓ کی مدینہ ہجرت کے متعلق حضرت علیؓ کی یہ روایت ملتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو تلوار اورتیر کمان لےکر خانہ کعبہ گئے اور اعلان کیا کہ جو چاہتا ہے کہ اس کی ماں اسے کھوئے،اولاد یتیم اور بیوی بیوہ ہو وہ مجھے اس وادی کے پار ملے۔
اس طرح کھل کر ہجرت کے متعلق صرف یہی ایک روایت بیان کی جاتی ہے اور اکثر سیرت نگار اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں مثلاً محمد حسین ہیکل نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ آنحضورﷺ نے خاموشی اور چپکے سے ہجرت کرنےکا حکم دیا تھاحضرت عمرؓ کیسے اس کی نافرمانی کرسکتے تھے۔

مہاجرین میں سے حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت ابن ام مکتومؓ کے بعد حضرت عمرؓ بیس لوگوں کے ساتھ مدینے پہنچے تھے۔ قبامیں آپؓ رفاع بن عبدالمنذر کے مہمان ہوئے۔ مکّے میں آنحضورﷺ نے آپؓ کی مؤاخات حضرت ابوبکرؓ اور مدینے پہنچ کر حضرت عویم بن ساعدہ کے ساتھ قائم فرمائی۔ حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ آپؓ کی مؤاخات حضرت عتبان بن مالکؓ سے ہوئی تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ اذان کی ابتدا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو اللہ تعالیٰ نے رؤیا کے ذریعے اذان سکھائی اور ان ہی کی رؤیا پر انحصار کرتے ہوئے آنحضرتﷺ نے مسلمانوں میں اذان کا رواج ڈالا۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا نے یہی اذان سکھائی تھی لیکن اس خیال سے کہ ایک اور شخص یہ بات بیان کرچکا ہے مَیں بیس دن تک خاموش رہا۔

حضرت عمرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانور نے فرمایا کہ آج رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ رمضان میں جن نیکیوں کی توفیق ملی ہے انہیں رمضان کے بعد بھی جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔گذشتہ جمعے کو مَیں نے درود اور استغفار کی طرف توجہ دلائی تھی وہ صرف رمضان تک محدود نہیں۔ فی زمانہ جب دجالی چالیں نئے نئے حربے استعمال کر رہی ہیں ہمیں ان شیطانی اور دجالی حملوں سے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے انہیں خداتعالیٰ کی ہستی اور اسلام کی خوب صورت تعلیم سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ یہ اس وقت ہی ممکن ہوگا جب ہمارا تعلق خدا تعالیٰ سے مضبوط ہوگا۔ ہماری نمازیں، ہماری عبادات معیاری ہوں گی۔ بزرگوں اور ابتدائی احمدیوں کی اولادیں ہوں خواہ وہ جنہوں نے ازخود بیعت کی ہے سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنی حالتوں پر نظر رکھیں گے تب ہی ہم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچا سکتے ہیں۔

کورونا کی وبا جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنےکے لیے بھی خاص طور پر دعائیں کریں۔ اسی طرح جن ملکوں میں احمدیت کی مخالفت زوروں پر ہے ان کےلیے بھی دعا کریں۔ پاکستان کے احمدیوں کو تو خاص طور پر صدقہ و خیرات اور دعاؤں پر ہمیشہ بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَ انْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ

اور

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ

یہ دعائیں بہت زیادہ پڑھیں۔ نمازوں کا جس طرح رمضان میں اہتمام ہوتا ہے وہ رمضان کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے۔ ہر طرح کے فتنے سے بچنے، مسلم امہ اور مجموعی طور پر انسانیت کےلیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button