بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر 14)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭… کیا عورتیں اپنے مخصوص ایام میں موبائل فون پر قرآن کریم پڑھ سکتی ہیں نیزقرآن کریم میں حضرت مریم کےلیے ’’اصطفاء‘‘کا لفظ استعمال کیوں کیا گیا ہے جبکہ وہ عورت تھیں اور نبی نہیں تھیں؟

٭… جنگ جمل میں شہید ہونے والوں کا کیا مقام تھا؟ عورت کی آدھی گواہی تصور کر کے حضرت عائشہؓ سے مروی احادیث کا کیا مقام ہے؟ نیز مخنث کی حصۂ وراثت کیا ہو گی؟

٭…کیا مذہب کی دنیا میں چالیس کے عدد کی کوئی خاص اہمیت ہے؟

٭…یاجوج ماجوج کون ہیں؟ نیز یہ کہ کیا آنحضرتﷺ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا تھا؟

٭…ہم آن لائن ایک کُردی گروپ میں تبلیغ کر رہے ہیں جس میں بعض ملاں بھی شامل ہیں جو پاکستان سے پڑھے ہوئے ہیں۔ اگر اس گروپ کے لوگ ہماری بات سننے میں دیانت دار نہ ہوں تو کیا ہم اس گروپ میں تبلیغ کرتے رہیں یا نہیں؟

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے والدین کی کونسی نصیحت حضور کے لیے سب سے زیادہ مفید ثابت ہوئی ہے؟

٭…آج کل سوشل میڈیا میں خبر پھیلی ہے کہ کپڑوں کے بڑے بڑے Brandsکورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش میں اپنے غریب ملازمین کو ان کا پورا حق نہیں دیتے۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان Brands کا بائیکاٹ ہونا چاہیے۔ حضور کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے عورتوں کے مخصوص ایام میں موبائل فون پر قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا ہے۔ نیز پوچھا ہے کہ قرآن کریم میں حضرت مریمؑ کےلیے ’’اصطفاء‘‘کا لفظ استعمال کیوں کیا گیا ہے جبکہ وہ عورت تھیں اور نبی نہیں تھیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍ جنوری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: عورت کوقرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو، وہ اسےایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہرا سکتی ہے۔ نیز بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کےلیے قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن باقاعدہ تلاوت نہیں کر سکتی۔ اسی طرح ان ایام میں عورت کوکمپیوٹر یا موبائل فون وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا باقاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کےلیے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کےلیے کمپیوٹر یا موبائل فون وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔

جہاں تک قرآن کریم میں حضرت مریمؑ کےلیے ’’اصطفاء‘‘کے لفظ کے استعمال کی بات ہے تو قرآن کریم اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ صرف انبیاء کےلیے استعمال نہیں ہوا بلکہ کسی بھی غیر معمولی اور اہم کام کےلیے کسی کو منتخب کرنے کےلیے اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یعقوبؑ کے اپنے بچوں کو یہ بتانے کےلیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کےلیے اس غیر معمولی دین کو چن لیا ہے، اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ۔ (البقرۃ: 133)

یعنی اے میرے بیٹو! اللہ نے یقیناً اس دین کو تمہارے لئے چن لیا ہے۔ پس ہر گز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم (اللہ کے) پورے فرمانبردار ہو۔

پھر آل ابراہیم اور آل عمران کی اُس زمانہ کے لوگوں پر فضیلت بیان کرنے کےلیے قرآن کریم نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :

اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ۔ (آل عمران: 34)

یعنی اللہ نے آدم اور نوح (کو) اور ابراہیم کے خاندان اور عمران کے خاندان کو یقیناً سب جہانوں پر فضیلت دی تھی۔

اسی طرح حدیث میں بھی آتا ہے کہ حضورﷺ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا ذکر سب سے زیادہ پسند ہے تو آپؐ نے فرمایا:

مَا اصْطَفَاهُ اللّٰهُ لِمَلَائِكَتِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات)

یعنی جو ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کےلیے پسند کیا ہے اور وہ ہے

سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ۔

پس ’’اصطفاء‘‘کے معنی اختیار کرنے، پسند کرنے اور چن لینے کے ہیں۔ یعنی کسی کی نہایت اعلیٰ صفات کی بنا پر اسے قریب کرنے یا اس کے نیک اعمال کی وجہ سے اسے اپنے قرب میں جگہ دینے کے ہیں۔

حضرت مریمؑ اگرچہ خدا تعالیٰ کی نبی تو نہیں تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی اعلیٰ صفات سے متصف فرمایا تھا کہ ان کی انہیں صفات کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کے ایک نبی حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں ان جیسی اولاد کے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی اور پھر حضرت زکریا کی دعا کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یحیٰ علیہ السلام کی صورت میں ایک نبی بیٹے سے نوازا۔

بنی اسرائیل کی خدا تعالیٰ کے انبیاء کی مسلسل نافرمانی کرنے، ان کے ساتھ استہزاکرنے اور ان کی تکذیب کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریمؑ کے بطن سے ایک نبی بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اور اس بچےکی پیدائش میں بنی اسرائیل میں سے کسی مرد کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے نبوت جیسی عظیم نعمت ہمیشہ کےلیے چھین لی گئی۔

پس ان غیرمعمولی صفات کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مریمؑ کےلیے قرآن کریم میں ’’اصطفاء‘‘کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے جنگ جمل میں شہید ہونے والوں کے مقام کے بارے میں، عورت کی آدھی گواہی تصور کر کے حضرت عائشہؓ سے مروی احادیث کے مقام کے بارے میں نیز مخنث کی وراثت اور گواہی کے بارے میں مسائل دریافت کیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍ جنوری 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے۔ حضور نے فرمایا:

جواب: جنگ جمل کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی ساری کارروائی کے پیچھے ان مفسدوں اور شریر لوگوں کا ہاتھ تھا جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو قتل کرنے کے بعد مدینہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور یہ جنگ بھی انہی مفسدوں نے دو مسلمان گروہوں میں غلط فہمیاں پیدا کر کے اور کئی شرارتوں کو خود شروع کر کے بھڑکائی تھی۔ اُس زمانہ کی تاریخ اور ہمارے اِس زمانہ کے درمیان صدیوں کے پردے، بہت سی مشتبہ باتیں اور روایتیں حائل ہیں نیز کئی قسم کے شبہات جان بوجھ کر بھی اس میں داخل کیے گئے ہیں۔

لیکن دائمی حقیقت وہی ہے جسے قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ رسولﷺ اور حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ جیسے قابل رشک الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اور بعد میں آنے والوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں یہ دعا کرتے ہیں کہ

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا۔

یعنی اے ہمارے ربّ! ہمیں بخش دے اور ہمارے اُن بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لائے کوئی کینہ نہ رہنے دے۔

پس ان شواہد کی موجودگی میں ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس جنگ میں منافقین کے شر اور دھوکے کا شکار ہوکر دونوں طرف سے شہید ہونے والے یقیناً معصوم لوگ تھے۔ جن کے بارے میں ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ ہم حَکم بن کر ان کے بارے میں کوئی فتویٰ جاری کریں کہ ان کا کیا مقام ہے۔

عورت کی گواہی کے متعلق یہ تصور درست نہیں کہ اس کی گواہی آدھی ہے۔ ایسے امور جن کا روز مرہ کےمعاملات میں عورتوں سے تعلق نہیں ہوتا اگر ان میں مجبوراًعورت کی گواہی لینی پڑجائے تو قرآن کریم نے ہدایت فرمائی ہے کہ گواہی دینے والی عورت کے ساتھ ایک دوسری عورت کو بھی شامل کر لیا جائے (چونکہ ان معاملات کا تعلق عورتوں سے نہیں ہے لہٰذا) اگر گواہی دینے والی عورت کسی وجہ سے بات بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد کروا دے۔ ورنہ گواہی اس اکیلی عورت ہی کی شمار ہو گی۔

اور جو معاملات خاص طور پر عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں ایک اکیلی عورت کی گواہی پر حضورﷺ نے پورے معاملہ کا فیصلہ فرمایا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں یہ روایت مروی ہے کہ حضرت عقبہ بن حارثؓ نے ایک خاتون سے شادی کی۔ اس پر ایک عام عورت نے آکر کہا کہ اس نے اس شادی میں بندھنے والے میاں بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ خاوند کے اس عورت سے دودھ پینے سے لاعلمی کے اظہار کے باوجود حضورﷺ نے ان میاں بیوی میں علیحدگی کروا دی۔

جہاں تک مخنث کے حصہ ٔوراثت کا تعلق ہے تو جس طرف کی علامتیں اس میں غالب ہوں گی، اسی کے مطابق اسے وراثت میں سے حصہ ملے گا۔ اگر اس میں مرد کی علامتیں غالب ہیں تو مردوں والا حصہ اسےملے گا اور اگر اس میں عورت کی علامات غالب ہوں تو اسے عورت تصور کر کے اس کے مطابق حصہ دیا جائےگا۔ اگر دونوں قسم کی علامتیں برابر ہوں تو حضرت امام ابوحنیفہؒ کا مسلک ہے کہ دونوں حصوں میں سے چھوٹا حصہ اسے ملے گا۔

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں استفسار کیا کہ کیا مذہب کی دنیا میں چالیس کے عدد کی کوئی خاص اہمیت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍جنوری 2020ء میں اس بارے میں درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جسمانی پختگی اور روحانی تکمیل کے ساتھ چالیس کے عدد کو ایک خاص مناسبت ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے

حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً۔

یعنی جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:

وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً۔

یعنی ہم نے موسیٰ کے ساتھ تیس راتوں کا وعدہ کیا اور انہیں دس (مزید راتوں ) کے ساتھ مکمل کیا۔ پس اُس کے ربّ کی مقررہ مدت چالیس راتوں میں تکمیل کو پہنچی۔

ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت کے مقام پر سرفراز فرمایا گیا۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ انسان اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی صورت میں، چالیس دن تک علقہ کی صورت میں اور چالیس دن تک مضغہ کی صورت میں رہتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیج کر اس میں روح پھونکتا ہے۔

اسی طرح حضورﷺ نے فرمایا : جو شخص چالیس دن تک باجماعت نماز اس طرح پڑھے کہ تکبیر تحریمہ میں شامل ہو تو اس کےلیے آگ اور نفاق سے براءت لکھ دی جاتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےہوشیار پور میں چالیس دن کا چلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین اسلام کے شرف اور آنحضرتﷺ کی صداقت و عظمت کے اظہار کےلیے ایک موعود بیٹے کی عظیم الشان بشارت سے نوازا۔

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو کوئی میرے پاس چالیس دن تک رہےگا وہ ضرور کچھ اللہ تعالیٰ کے نشانات کا مشاہدہ کر لے گا۔

پھر چالیس سال کی عمر پختگی کی عمر کہلاتی ہے۔ اسی لیے جماعت میں انصار اللہ کی تنظیم چالیس سال کی عمر والوں سے شروع کی جاتی ہے۔

پس ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ چالیس کا عدد دنیوی لحاظ سے پختگی کےلیے اور روحانی دنیا میں تکمیل کےلیے استعمال ہوتا ہے۔

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ یاجوج ماجوج کون ہیں؟ نیز یہ کہ کیا آنحضرتﷺ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا تھا؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍جنوری 2020ء میں ان امور کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: آخری زمانے میں اسلام نے جن مصائب اور فتنوں سے دوچار ہونا تھا، ان میں دجال اور یاجوج ماجوج کا خاص طور پر ذکر آتا ہے۔ اور دجال اور یاجوج ماجوج ایک ہی فتنہ کے مختلف مظاہر ہیں۔ دجال اس فتنے کے مذہبی پہلو کا نام ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ گروہ آخری زمانے میں لوگوں کے مذہبی عقائد اور مذہبی خیالات میں فساد پیدا کرے گا۔ اوراس زمانے میں جو گروہ سیاسی حالات کو خراب کرے گا اور سیاسی امن و امان کو تباہ و برباد کرے گااس کو یاجوج ماجوج کانام دیا گیا ہے۔ اور ہر دو گروہوں سے مراد مغربی عیسائی اقوام کی دنیوی طاقت اور ان کا مذہبی پہلو ہے۔

لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیﷺ کے ذریعےہمیں یہ خبر بھی دی کہ جب دجال اور یاجوج ماجوج کے فتنے برپا ہوں گے اور اسلام کمزور ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ اسلام کی حفاظت کےلیے مسیح موعود کو مبعوث فرمائے گا۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس مادی طاقت نہ ہو گی لیکن مسیح موعود کی جماعت دعاؤں اور تبلیغ کے ساتھ کام کرتی چلی جائے گی۔ جس کی بدولت اللہ تعالیٰ ان فتنوں کو خود ہلاک کر دے گا۔

آپ کا دوسرا سوال کہ کیا حضورﷺ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا تھا؟ اس کا جواب ہمیں احادیث سے ملتا ہے کہ حضورﷺ نے آنے والے مسیح موعود کو خواب میں دیکھا تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں یہ حدیث مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ رات میں نے خواب میں اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا۔ اورایک گندمی رنگ کے آدمی کو دیکھا جیسے تم نے بہترین رنگ کے گندمی آدمی دیکھے ہوں گے ان سے بھی اچھا تھا۔ اس کے بال دونوں شانوں تک سیدھے لٹکتے تھے۔ اس کے سرسے پانی ٹپک رہا تھا۔ اور وہ دو آدمیوں کے کاندھے پر ہاتھ رکھےبیت اللہ کا طواف کررہا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ مسیح بن مریم ہیں۔ پھر میں نے ان کے پیچھے ایک اور آدمی کو دیکھا جو سخت گھنگریالے بالوں والا، داہنی آنکھ سے کانا تھا۔ اور ابن قطن (ایک کافر) سے بہت زیادہ مشابہ تھا۔ وہ ایک آدمی کے دونوں شانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے بیت اللہ کے گرد گھوم رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو جواب ملا کہ یہ مسیح دجال ہے۔

اسی طرح صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں حضورﷺ فرماتے ہیں کہ( معراج کی رات) میں نے عیسیٰ موسیٰ اور ابراہیم (علیہم السلام) کو دیکھا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) تو سرخ رنگ، گھنگریالےبال اور چوڑے سینہ کے آدمی تھے۔ رہے موسیٰ (علیہ السلام) تو وہ گندم گوں اور موٹے تازے سیدھے بالوں والے آدمی تھے گویا وہ (قبیلہ زط) کے آدمی ہیں۔

پس ان دونوں روایات میں حضرت مسیح علیہ السلام کے دو الگ الگ حلیوں کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا لیکن انہیں وفات یافتہ انبیاء حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم کے ساتھ دیکھا۔ اور اپنے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی دیکھا جس نے دجال کے زمانے میں مبعوث ہو کر اس کا مقابلہ کر کے اسلام کا دفاع کرنا تھا۔ اور اسے آپؐ نے طواف کعبہ کرتے دیکھا۔

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ہالینڈ کی نومبائعات طالبات کی Virtualملاقات مورخہ 23؍اگست 2020ء میں ایک طالبہ نے عرض کیا کہ ہم آن لائن ایک کُردی گروپ میں تبلیغ کر رہے ہیں جس میں بعض ملاں بھی شامل ہیں جو پاکستان سے پڑھے ہوئے ہیں۔ اگر اس گروپ کے لوگ ہماری بات سننے میں دیانت دار نہ ہوں تو کیا ہم اس گروپ میں تبلیغ کرتے رہیں یا نہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارے میں راہ نمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

جواب: اگر اس نے صرف بحث کرنی ہے تو اس میں وقت ضائع کرنے کا فائدہ کوئی نہیں ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ کچھ بہتر لوگوں کو Approachکریں اور ان کو تبلیغ کریں، جو سننے والے بھی ہوں۔ اور جو ڈھیٹ ہے اور جس نے صرف بحث کرنی ہے اور اعتراض پہ اعتراض کرتے رہنا ہے اور کوئی Sense والی بات نہیں کرنی تو اس پہ وقت ضائع کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر تو اس کی نیت نیک ہے، وہ سننا چاہتا ہے اور اپنے اخلاق کے دائرہ میں Moral Codes کے اندر رہ کے بات کرتا ہے، پھر تو ٹھیک ہے، بات ہو سکتی ہے۔ اگر وہ غلط قسم کی باتیں کرتا ہے تو پھر اس کو چھوڑیں اور کوئی اور لوگ دیکھیں جوشریفانہ طور پہ بات کر سکیں، دلیل سے بات کریں اور اپنی بات کےلیے دلیل دیں اور ہماری دلیل سنیں۔ پھر اس کا پوری طرح انصاف کے ساتھ Analysisکریں، پھر دیکھیں کہ کیا سچ ہے کیا جھوٹ ہے۔

سوال: اسی ملاقات میں ایک طالبہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ آپ کے والدین کی کونسی نصیحت آپ کےلیے سب سے زیادہ مفید ثابت ہوئی ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا:

جواب: یہی کہ کبھی جھوٹ نہیں بولنا۔

سوال: ایک طالبہ نے کہا کہ آجکل سوشل میڈیا میں خبر پھیلی ہے کہ کپڑوں کے بڑے بڑے Brandsکورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش میں اپنے غریب ملازمین کو ان کا پورا حق نہیں دیتے۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان Brands کا بائیکاٹ ہونا چاہیے۔ حضور کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟ اس سوال پر حضور انورنے فرمایا:

جواب: سوال یہ ہے کہ یہاں کی یہ جو بڑی کمپنیاں ہیں وہ تو پیسے دےدیتی ہیں۔ کیونکہ یہ تو Directاپنے Laboursکے یا جو بھی ان کے ساتھ Workers ہیں ان کے پاس نہیں جاتے۔ وہاں کےکچھ لوگ ہیں جو Contractلیتے ہیں، وہ آگے Contractپرکام کرواتے ہیں۔ یہ بڑی کمپنیاں ان کو Contractدےدیتی ہیں اور وہ آگے پھر Local Labour سے کام لیتے ہیں۔ اور وہ اگر ان کو صحیح طرح لیبر نہیں دیتے تو وہ Exploitکرتے ہیں۔ تو وہ اُس ملک کے رہنے والوں کا قصور ہے۔ یہاں کی کمپنیوں کا تو قصور اتنا نہیں۔ کیونکہ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ تو پیسے دےدیتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ الَّاماشاء اللّٰہ شاید کوئی ہو جو نہ دیتی ہو۔ کیونکہ ان کےبڑے بزنس چل ہی اس لیے رہے ہیں کہ یہ Fair بزنس کرنے والے ہیں اور جو بھی لیبر مقرر ہوانصاف سے دیتے ہیں۔

یہ اور بات ہے کہ تھوڑی لیبر دیتے ہیں۔ اور یہ اور بات ہے کہ وہ کام بنگلہ دیش سے یا سری لنکا سے یا انڈیاسے یا پاکستان سے یا کسی بھی اور غریب ملک سے کرواتے ہی اس لیے ہیں کہ یہاں تھوڑی لیبر پرکام ہو جائے گا۔ لیکن جو بھی لیبر ان کی مقرر ہوتی ہے وہ دےدیتے ہیں۔

آگے جو ان کے Sub-Contractorsہیں، جنہوں نے آگے جن کو Contract دیا ہوتا ہے اور پھر آگے وہ Labour سے کام لیتے ہیں وہ اصل میں Cheat کر رہے ہوتے ہیں۔ تو بائیکاٹ کرنے سے کیا فائدہ ہے، جو تھوڑی بہت ان کی آمدنی ہے وہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ باقی وہاں کے ملک کا جوقانون ہے، بنگلہ دیش یا جس ملک میں بھی یہ غلط کام ہو رہا ہےوہاں کا قانون ہے، اُن کو چاہیے کہ اپنی Labour کا خیال رکھیں اور جو بیچ میں ایسے لوگ ہیں ان سے صحیح ان کا حق دلوائیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button